لیلیٰ مجنوں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امیر خسرو کی مثنوی لیلیٰ مجنوں کا ایک صفحہ

لیلیٰ مجنوں بنیادی طور پر ایک عربی الاصل داستان ہے۔ اس میں بیان کردہ کردار تاريخی طور پر ثابت مانے جاتے ہیں۔ کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں اور یہ کہ یہ داستان عشق بھی حقیقی تھی۔ جس کو قلم بند کیا گيا اور بعد میں، صدیوں تک ان پربہت کچھ افسانہ طرازی کی گئی۔ عربی میں سب سے پہلے کس نے اسے لکھا؟ اس کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ عربی سے فارسی میں اس کو پہلے پہل رودکی نے منتقل کیا۔ اس کے بعد نظامی گنجوی نے اس کو فارسی میں لکھا، جس نے اس کی مقبولیت کو ساری دنیا تک پہنچائی۔ اب تک ہزار سے زیادہ مرتبہ اس داستان کو مختلف زبانوں میں، مختلف لوگ نثر و نظم میں لکھ چکے ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ مقبولیت و اہمیت نظامی گنجوی کی لیلیٰ مجنوں کو ہی حاصل رہی ہے۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

لیلیٰ مجنوں کے دو مرکزی کردار ہیں، مجنوں کا اصل نام یا جس نام کو اصل تصور کیا جاتا ہے، قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔ مجنوں لغوی طور پر پاگل، دیوانے اور عاشق کو کہتے ہیں۔ لیلیٰ کا نام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیا جاتا ہے۔ عربی و عبرانی میں لیلیٰ یا لیلہ رات کے لیے بولا جاتا ہے۔ عربی میں لیلیٰ مجنوں کی بجائے مجنون لیلیٰ (لیلی کا پاگل) بولا جاتا ہے۔ جب کہ ترکی میں ایک اسم صفت لیلیٰ کی طرح سے مراد محبت کی وجہ سے پاگل، جنونی کے لیے بولا جاتا ہے۔ بعض محققین نے لیلیٰ کے عربی لیلیٰ (رات) سے اس کے معنی سانولی رنگت بھی لیا ہے۔ اور کئی مصنفین نے اپنے قصے میں لیلیٰ کو سانولی صورت والی بنا کر پیش کیا ہے۔ اور عوام میں مشہور ہے کہ لیلیٰ کالی یعنی سیاہ رنگت والی تھی۔ لیکن اگر لیلیٰ کو عربی النسل بیان کیا جاتا ہے تو اس طرح لیلیٰ کا کالا ہونا ایک خلاف واقعہ بات ہوگی۔ اس کہانی کو قیس اور لیلیٰ، لیلیٰ مجنوں، مجنوں لیلیٰ اور انگریزی میں Laila and Majnu کہا جاتا ہے۔

داستانوں میں بیان کردہ کہانی[ترمیم]

نظامی گنجوی کے قصے لیلیٰ مجنوں کے مطابق لیلیٰ اور مجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسے میں پڑھنے جاتے تھے، تب ہی ان میں باہمی الفت پیدا ہوئی۔ مجنوں کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف رہتی، جس پر استاد سے سزا ملتی، مگر استاد کی چھڑی مجنوں کے ہاتھوں پر پڑتی اور درد لیلیٰ کو ہوتا۔ استاد نے یہ بات لیلیٰ و مجنوں کے گھر والوں کو بتائی، جس پر لیلیٰ کے مدرسے جانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔
بعض قصه گو اس کہانی کو بچپن سے نہیں جوانی سے شروع کرتے ہیں کہ ایک دن اچانک مجنوں، لیلیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
بہر حال حقیقت جو بھی ہو، جب دونوں جوان ہوئے تو، ایک دن پھر مجنوں کی نظر لیلیٰ پر پڑ گئی اور بچن کا عشق تازہ ہو گيا۔ مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگا، مگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کر دیا۔ یہاں پر لیلیٰ کا بھائی تبریز کہانی میں شامل ہو جاتا ہے، وہ مجنوں کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر مجنوں اس کو قتل کر دیتا ہے۔ جس پر مجنوں کو کیوں کہ اس نے لیلیٰ سے سرِ عام محبت کا اظہار کیا تھا اور اس کے بھائی کو مار دیا تھا۔ اس لیے مجنوں کو سنگسار کرنے کی سزا سنائی گئی۔
بعض کہانیوں میں تبریز کے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ، رشتہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کر دی جاتی ہے۔ جس پر قیس، پاگل سا ہوجاتا ہے۔

ادب اور لیلیٰ مجنوں[ترمیم]

اردو میں[ترمیم]

لیلی اور مجنوں افسانہ ہیں میرے دوستوں

فلمیں، گانے اور ڈرامے[ترمیم]

بھارت، انوپ گڑھ میں مشہور لیلیٰ مجنوں کی قبور

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]