مالک بن دینار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(مالک دینار سے رجوع مکرر)
مالک بن دینار
قبر مالک بن دینار

معلومات شخصیت
مقام پیدائش کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 748ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں چیرامن مسجد   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مالک دینار مسجد کا منظر۔

مالک بن دینار پہلے تابعی تھے جو کیرالا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے آئے۔ ائمہ طریقت میں سے بزرگ، امام طریقت، نقیب اہل محبت، جن و انس کی زینت مالک بن دینار ہیں۔ آپ حسن بصری کے مصاحب و مرید تھے۔ طریقت میں آپ کا بڑا مقام ہے۔ آپ کی کرامتیں اور ریاضتیں مشہور ہیں۔ آپ کے والد کا نام دینار تھا جو غلام تھے آپ غلامی کی حالت میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی توبہ کا واقعہ یہ ہے کہ ایک رات آپ ایک جماعت کے ساتھ محفل و رقص و سرود میں تھے جب تمام لوگ سو گئے تو اس طبورہ سے جسے بجایا جا رہا تھا آواز آئی ”اے مالک کیا بات ہے توبہ میں دیر کیوں؟“ آپ نے اپنے تمام دوست احباب کو چھوڑ کر اور حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوکر سچی توبہ کی اور اپنا حال درست کر کے ثابت قدم رہے۔ اس کے بعد آپ کی شان اس قدر بلند ہوئی کہ ایک مرتبہ جب آپ کشتی میں سفر کر رہے تھے، ایک تاجر کا موتی کشتی میں گم ہو گیا باوجود یہ کہ آپ کو علم تک نہ تھا لیکن تاجر نے آپ پر سرقہ کی تہمت لگائی، آپ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا، اسی لمحہ دریا کی تمام مچھلیاں منہ میں موتی دبائے سطح آب پر ابھر آئیں آپ نے ان میں سے ایک موتی لے کر اس تاجر کو دے دیا اور خود دریا میں اتر گئے اور پانی پر گذر کر کنارے پر پہنچ گئے۔[2]

ابو یحییٰ مالک بن دینار (قدس سرۂ العزیز)

تعارف[ترمیم]

آپ کا نام مالک اور کنیت ابو یحییٰ تھی۔ آپ حسن بصری کے ہم عصر تھے۔ آپ کے والد ایک غلام تھے اور آپ کی ولادت بھی غلامی کی حالت میں ہوئی۔ آپ اگرچہ غلام زادہ تھے لیکن تھے دونوں جہاں سے آزاد۔ آپ کی کرامات اور ریاضت ہر جگہ مشہور ہیں۔ [3]

دینار کی وجہ تسمیہ[ترمیم]

آپ کے والد کا نام دینار تھا جبکہ دوسری روایت یہ ہے کہ آپ ایک دن کشتی میں سوار تھے۔ جب کشتی وسط میں پہنچی، ملاحوں نے آپ سے کرایہ طلب کیا، آپ نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس پر انھوں نے آپ کو مارنا شروع کر دیا جس سے آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش میں آئے تو انھوں نے پھر کرایہ طلب کیا، آپ نے کہا میرے پاس نہیں ہے۔ انھوں نے کہا ٹانگ پکڑ کر دریا میں ڈال دے گے۔ انھوں نے یہ کہا ہی تھا کہ اللہ کہ حکم سے دریا کی مچھلیاں ایک ایک دینار منہ میں لے کر باہر نکل آئیں۔ آپ نے ایک مچھلی سے دینار لے کر ملاح کو دے دیا، جب ملاحوں نے یہ حال دیکھا تو آپ کے پاؤں میں گر گئے۔ حضرت مالک نے پاؤں کشتی سے باہر نکالے اور سطح آپ پر چلتے ہوئے دور نکل گئے۔ اسی وجہ سے آپ کا نام مالک دینار ہو گیا۔ [4]

توبہ کا واقعہ[ترمیم]

ایک رات آپ ایک جماعت کے ساتھ محفل رقص و سرود میں تھے جب تمام لوگ سو گئے تو اس طنبورہ سے جسے بجایا جا رہا تھا آواز آئی

اے مالک کیا بات ہے توبہ میں دیر کیوں ہے؟

آپ نے اپنے تمام دوست و احباب کو چھوڑ کر حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہو کر سچی توبہ کی اور اپنا حال درست کر کے ثابت قدم رہے۔ اس کے بعد آپ کی شان اس قدر بلند ہوئی کہ ایک مرتبہ جب آپ کشتی میں سفر کر رہے تھے، ایک تاجر کا موتی کشتی میں گم ہو گیا باوجود یہ کہ آپ کو علم تک نہ تھا لیکن تاجر نے آپ پر سرقہ کی تہمت لگائی، آپ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا، اسی لمحہ دریا کی تمام مچھلیاں منہ میں موتی دبائے سطح آب پر ابھر آئیں آپ نے ان میں سے ایک موتی لے کر تاجر کو دے دیا اور خود دریا میں اتر گئے اور پانی پر گذر کر کنارے پر پہنچ گئے۔ [5]

خود غرضی اور اخلاص میں فرق[ترمیم]

آپ نهایت خوب صورت اور دولت مند تھے اور دمشق میں سکونت پزیر تھے اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان کی تیار کردہ مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کو خیال آیا کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو جائے کہ مجھ کو اس مسجد کا متولی بنا دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اعتکاف اور نمازیں اس کثرت سے پڑھییں کہ ہر شخص آپ کو ہمہ وقت نماز میں مشغول دیکھتا، لیکن کسی نے بھی آپ کی طرف توجہ نہیں کی۔ پھر ایک سال بعد جب آپ مسجد سے برآمد ہوئے تو ندائے عینی آئی کہ اے مالک! تجھے اب توبہ کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ کو اپنی ایک سال تک اپنی خود غرضانہ عبادت پر شدید رنج و شرمندگی ہوئی اور آپ نے اپنے قلب کو ریا سے خالی کر کے خلوص نیت سے ایک شب عبادت کی تو صبح کے وقت دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک مجمع ہے جو آپس میں کہے رہا ہیں کہ مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں ہے لہذا اسی شخص کو مسجد کا متولی بنا دیا جائے اور تمام انتظامی امور اس کے سپرد کرد ئے جائیں۔ اس کے بعد متفق ہو کر پورا مجمع آپ کے پاس پہنچا اور جب آپ نماز سے فارغ ہو چکے تھے تو آپ سے عرض کیا کہ ہم باہمی متفقہ فیصلے سے آپ کو مسجد کا متولی بنانا چاہتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ اے اللہ! میں ایک سال تک ریاکارانہ عبادت میں اس لیے مشغول رہا کہ مجھے مسجد کی تولیت حاصل ہو جائے مگر ایسا نہ ہوا، اب جب میں صدق دل سے تیری عبادت میں مشغول ہوا تو تیرے حکم سے تمام لوگ مجھے متولی بنانے آ پہنچے اور میرے اوپر یہ بار ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن میں تیری عظمت کی قسم کھاتا ہوں کہ نہ تو اب میں تولیت قبول کروں گا نہ مسجد سے باہر نکلوں گا۔ یہ کہے کر پھر عبادت میں مشغول ہو گئے۔ [6]

دنیا کی حقیقت[ترمیم]

بصرہ میں ایک امیر آدمی فوت ہو گیا اور اس کی ساری جائداد اس کی اکلوتی کو ملی جو بہت خوب صورت تھی۔ ایک دن اس نے ثابت بنانی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نکاح کرنا چاہتی ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ نکاح مالک بن دینار کے ساتھ ہو تاکہ ذکر الہی اور دنیاوی کاموں میں وہ میری مدد کر سکیں۔ چنانچہ ثابت بنانی نے اس کا پیغام مالک بن دینار تک پہنچا دیا۔ لیکن آپ نے فرمایا میں تو دنیا کو طلاق دے چکا ہوں اور چونکہ عورت کا شمار بھی دنیا میں ہی ہوتا ہے اس لیے طلاق شدہ عورت سے نکاح جائز نہیں۔ [7]

کیفیت ولایت[ترمیم]

ایک مرتبہ کسی ملحد سے آپ کا منظرہ ہو گیا اور دونوں اپنے آپ کو حق پر کہتے رہے حتیٰ کہ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں کے ہاتھ آگ میں ڈلوا د ئے جائیں جس کا ہاتھ آگ سے محفوظ رہے اس کو حق پر تصور کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور کسی کے ہاتھ کو بھی ضرر نہ پہنچا، لوگوں نے فیصلہ کر دیا دونوں برحق ہیں۔ لیکن آپ نے دل تنگ ہو کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ ستر سال میں عبادت میں گزار دئے مگر تو مے مجھے ایک ملحد کے برابر کر دیا۔ ندا آئی

اے مالک! تمھارے ہاتھ کی برکت سے ہی ایک ملحد کا ہاتھ بھی بچ گیا۔ اگر وہ تنہا ہاتھ آگ میں ڈال دیتا تو یقیناً جھلس جاتا۔

ایک مرتبہ جب آپ شدید بیمار ہو کر صحت یاب ہوئے تو کسی ضرورت کے تحت نہایت دشواری سے بازار تشریف لے گئے لیکن اتفاق سے اس وقت بادشاہ کی سواری آرہی تھی اور لوگوں کع ہٹانے کے لیے ایک شور بلند ہوا۔ آپ اس وقت اس قدر کمزور تھے کہ ہٹنے میں دیر ہو گئی ارو پہرہ دار نے آپ کو ایسا کوڑا مارا کہ درد کے مارے آپ کے منہ سے یہ کلمہ نکل کیا کہ خدا کرے تیرے ہاتھ قطع کرو دئے جائیں۔ چنانچہ دوسرے ہی دن کسی جرم کی پاداش میں اس کے ہاتھ کاٹ کر چوراہے پر ڈلوا دئے گئے لیکن آپ کو اس کی حالت دیکھ کر بہت رنج ہوا۔

ایک مرتبہ آپ کسی درخت کے سایہ میں آرام فرما رہے تھے اور چشم دید گواہوں نے بتایا کہ ایک سانپ نرگس کی شاخ سے آپ کو پنکھا جھل رہا تھا۔ [8]

تکلیف کا انجام راحت ہے[ترمیم]

آپ اکثر فرمایا کرتے کہ میں شرکتِ جہاد کا خواہش مند ہوں لیکن جب ایک موقع جہاد کا آیا تو مجھے ایسا بخار آیا کہ جانے کا نام بھی نہیں لیتا تھا۔ چنانچہ اس غم میں یہ کہتا ہوا سو گیا کہ اگر خدا کے نزدیک میرا کو مرتبہ ہوتا تو اس وقت بخار کبھی نہیں آتا۔ پھر خواب میں دیکھا کہ ندائے غیبی سے کوئی کہے رہا ہے کہ

اے مالک! اگر تو آج جہاد کے لیے چلا جاتا تق قیدی بنا لیا جاتا اور کفار تجھے سؤر کا گوشت کھلا کر تیرا دین برباد کر دیتے۔ لہذا یہ بخار تیرے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ پھر میں نے بیدار ہو کر خدا کا شکر ادا کیا۔[9]

خوفِ خدا[ترمیم]

ایک مرتبہ جعفر بن سلیمان آپ کے ہمراہ سفر حج میں تھے اور جس وقت آپ نے لبیک اللھم لبیک ہڑھنا شروع کیا تو آپ کے اوپر غشی طاری ہو گئی اور ہوش میں آنے بعد جعفر بن سلیمان نے غشی کا سبب دریافت کیا تو فرمایا میں اس خوف سے بے ہوش ہو گیا تھا کہ لا لبیک کی آواز نہ آجائے۔

جب آپ

ایاک نعبد و ایاک نستعین

قرات کرتے تو مضطرب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے اگر یہ آیت قرآن کی نہ ہوتی تو میں کبھی نہں پڑھتا کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ

اے اللہ! میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد مانگتا ہوں۔

حالانکہ ہم نفس کے ایسے پجاری ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں سے اعانت کے طالب ہوتے ہیں۔

آپ رات میں قطعاً آرام نہیں کرتے تھے اور ایک دن آپ کی صاحبزادی نے کہا اگر آپ تھوڑی دیر آرام فرما لے تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا اے بیٹی! ایک طرف تو میں قہر الہی سے ڈرتا ہوں اور دوسری جانب یہ اندیشہ رہتا ہے کہ دولت سعادت مجھے سوتا دیکھ کر واپس نہ ہو جائے لوگوں نے جب اس جملہ کا مفہوم پوچھا تو فرمایا کہ میں نعمت تو اللہ تعالیٰ کا کھاتا ہوں اور اطاعت شیطان کی کرتا ہوں پھر فرمایا اگر کوئی مسجد کے دروازے سے صدا لگائے کہ سب لوگوں میں بدتر کون ہے؟ تو اسے مجھ سے بدتر نہیں ملے گا۔ حضرت عبد اللہ ابن مبارک نے یہ سن کر فرمایا کہ مالک بن دینار کی عظمت کا اندازہ ان کے صرف اسی قول سے لگایا جا سکتا ہے۔ [10]

ذریعہ معاش[ترمیم]

ابو نعیم اصفہانی، احمد بن محمد، محمد بن اسحاق، عبد اللہ بن زیاد، سیار، جعفر کے سلسلہ سند سے مروی ہے کہ مالک بن دینار صوف کی تہبند باندھتے تھے اور خفیف قسم کا جبہ پہنتے تھے۔ جب سردی کا موسم ہوتا ان کے پاس ایک پوستین اور ایک جبہ ہوتا انھی سے سردی کا کام لیتے۔ آپ قرآن مجید کے نسخے لکھا کرتے تھے اس پر اجرات نہیں لیتے تھے ان کا اکثر کام یہی ہوتا تھا، قرآن مجید کا نسخہ لکھ کر سبزی فروش کے پاس چھوڑ دیتے اور اس کے پاس کھانا کھاتے۔ ایک نسخہ چار مہینے میں لکھتے تھے۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں ایک مرتبہ مالک بن دینار کے گھر آگ لگ گئی، آپ نے قرآن مجید کا ایک نسخہ اور ایک چادر گھر سے نکالی، جب ان سے کہا گیا آپ کا گھر چل رہا ہے بچاؤ کی کچھ تدبیر آپ کیوں نہیں کرتے؟ جوب دیا یہ کوئی کعبہ تو نہیں ہمیں اس کے جلنے کی کوئی پروا نہیں۔

عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں بصرہ میں ایک بار آگ لگ گئی مالک نے اپنی چادر کا آنچل پکڑا اور کھینچتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے اور کہنے لگے بوجھوں والے ہلاک ہو گئے۔ [11]

کل اثاثہ ہیت[ترمیم]

عبد اللہ بن محمد بن جعفر، احمد بن حسین، احمد بن ابراہیم، سالم بن ابراہیم، سلام بن مسکین کہتے ہیں کہ میں مالک بن دینار کے پاس ان کے مرض وفات میں گیا۔ اچانک ان کے گھر میں دیکھتا ہوں ایک معمولی سی چارپائی جھاؤ کے درخت کے نیچے رکھی ہوئی تھی اور اس پر معمولی سی چادر ڈالی ہوئی تھی اور مالک بن دینار نے اپنے سر کے نیچے چادر کا ایک کونا دے رکھا تھا اور مکان کے ایک کونے میں ایک چھاگل اور ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ مالک نے سر اٹھایا اور سر کے نیچے سے دو خشک روٹیاں نکالیں پھر اٹھ کر بیٹھے اور ان روٹیوں کو توڑ کر پانی میں بھگونے لگے، جب روٹیوں کو اچھی طرح بھگو ڈالا فرمایا مجھے یہ چھاگل تھما دو وہاں ایک خشک چھاگل لٹکی ہوئی تھی، میں نے اسے اتار کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ انھوں نے اس میں سے ایک پوٹلی نکالی جس میں نمک باندھا ہوا تھا انھوں نے مجھ سے کہا قریب ہو جاؤ۔ میں نے نے کہا اے ابو یحییٰ! مجھے کھانے کی حاجت نہیں۔ مالک فرمانے لگے دور ہو جاؤ تم ان لوگوں میں سے ہو جو میٹھے پانی میں رزق پاتے ہیں تم اب کہاں میرے ساتھ شوریدہ پانی میں کھانا کھاؤ گے۔ [12]

وفات[ترمیم]

حضرت مالک بن دینار کی وفات ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ کے عہد خلافت 97 ھ میں اور دوسری روایت کہ مطابق 130 میں ہو ئی۔ رحمۃ اللہ علیہ آپ کی وفات کے بعد ایک بزرگ نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ خداوند تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا فرمایا اپنے تمام گناہوں کے باوجود میں میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوا اور اس حسن ظن کی وجہ سے جو میں اللہ سے رکھتا تھا، اس نے میرے سارے گناہ بخش دیے۔ [13]

صبر کا پھل[ترمیم]

کسی بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کو اور حضرت محمد واسع کو بہشت کی جانب لے جایا جا ریا ہے۔ اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ دیکھو مالک بن دینار جنت میں پہلے پہنچتے ہیں یا محمد واسع۔ چنانچہ یہ دیکھ کر مالک بن دینار کو پہلے داخلِ بہشت کیا۔ بزرگ نے پوچھا محمد واسع تو مالک بن دینار سے زیادہ عامل و کامل تھے ملائکہ نے جواب دیا تم صحیح کہتے ہو محمد واسع کے پہننے کے لیے دو لباس تھے اور مالک بن دینار کے پاس صرف ایک لہذا صبر و ضبط کی نسبت مالک کی طرف زیادہ ہے اس لیے انھیں جنت میں پہلے بھیجا گیا۔ [14]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.google.com.sa/books/edition/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%8A%D8%AE_%D9%85%D8%AF%D9%8A%D9%86%D8%A9_%D8%AF%D9%85%D8%B4%D9%82_1_37_%D8%AC31/BpdLDwAAQBAJ?hl=en&gbpv=1&dq=%D9%85%D8%A7%D9%84%D9%83+%D8%A8%D9%86+%D8%AF%D9%8A%D9%86%D8%A7%D8%B1+%D9%85%D8%A7%D8%AA+%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%B5%D8%B1%D8%A9&pg=PT70&printsec=frontcover
  2. مخدوم اُمم سید علی حسنی غزنوی المعروف داتا گنج بخش ہجویری، مترجم سید مفتی غلام معین الدین نعیمی، ”کشف المحجوب“، صفحہ 154-155، بااہتمام محمد شاکر، سن اشاعت جمادی الثانی/اپریل 2014ء، مطبوعہ اشتیاق اے مشتاق پرنٹرز لاہور۔
  3. مراۃ الا سرار صفحہ 236
  4. مراۃ الا سرار صفحہ 236 اور 237
  5. کشفُ المحجوب صفحہ 139
  6. تذکرۃ الا ولیاء از فرید الد ین عطار صفحہ 27 اور 28
  7. تذکرۃ الا ولیاء از فرید الدین عطار صفحہ 28
  8. تذکرۃ الا ولیاء از فرید الدین عطار صفحہ 28 اور 29
  9. تذکرۃ الا ولیاء از فرید الد ین عطار صفحہ 27
  10. تذکرۃ الا ولیاء از فرید الد ین عطار صفحہ 30
  11. حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (اردو) صفحہ 631
  12. حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (اردو) صفحہ 632
  13. مراۃ الا سرار صفحہ 239
  14. تذکرۃ الا ولیاء از فرید الد ین عطار صفحہ 32