مجروح سلطانپوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مجروح سلطانپوری
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 اکتوبر 1919ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سلطان پور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 مئی 2000ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر،  غنائی شاعر،  نغمہ نگار،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو[2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
دستخط
 
IMDB پر صفحات[3]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مجروح سلطانپوری (17 جون 1920ء – 24 مئی 2000ء) اردو زبان کے مشہور شاعر اور نامور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا۔ وہ 01اکتوبر 1919ء کو اترپردیش کے ضلع سلطانپور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ایک سب انسپکٹر تھے۔

تعلیم[ترمیم]

مجروح نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھاتھا۔ اس کے بعد انھوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی جس کے ساتھ ہی انھوں نے سات سال کا کورس پورا کیا تھا۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم قرار پائے تھے۔ اس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔

دنیائے حکمت سے میدان شعرگوئ میں قدم[ترمیم]

ایک موقع پر سلطان پور میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس موقع پر مجروح نے غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ یہیں سے حکمت پس منظر میں چلی گئی اور شاعری میدان عمل میں رہنما بن گئی تھی۔ جگر مرادآبادی بھی مجروح کے مصاحبوں میں سے ایک تھے۔

مشاعروں سے فلمی دنیا کا رُخ[ترمیم]

1945ء میں مجروح ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے ممبی آئے تھے۔ مشاعرہ گاہ میں انھیں خوب سراہا گیا تھا۔ مداح شرکا میں پروڈیوسر اے۔ آر۔ کاردار بھی تھے۔ انھوں نے مجروح کو نوشاد سے ملایا۔ نوشاد نے مجروح کو ایک دھن سنائی اور اس پر ایک نغمہ لکھنے کو کہا۔ مجروح نے اس دھن پر یوں لکھا:

جب اس نے گیسو بکھرائے

نوشاد کو یہ گیت پسند آیا اور انھوں نے مجروح کے ساتھ فلم شاہ جہاں کے گیت لکھنے کا معاہدہ کیا۔ اس فلم کے گیت بے حد مقبول ہوئے۔

فلم شاہ جہاں کا سب سے مشہور گیت " جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے رہا ۔

مجروح پچاس سال فلمی دنیا سے جُڑے رہے۔ انھوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے تھے۔

انتقال[ترمیم]

مجروح کا 24 مئی 2000 کوانتقال ہو گیا تھا۔[4]

نمونۂ کلام[ترمیم]

  • مجھے سہل ہو گئیں منزلیں

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں، وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے ترا ہاتھ، ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جھکا کے سر اُڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے

وہی بات جو وہ نہ کر سکے میرے شعر و نغمہ میں آ گئی وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا قدحِ شراب میں ڈھل گئے

انھیں کب کے راس بھی آ چکے تیری بزمِ ناز کے حادثے اب اُٹھ کے تیری نظر پھرے جو گِرے تھے گِر کے سنبھل گئے

میرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے ​

➖➖➖➖➖➖➖

  • چلتے چلتے، یونہی کوئی مل گیا تھا

چلتے چلتے، یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے وہیں تھم کے رہ گئی ہے میری رات ڈھلتے ڈھلتے یونہی کوئی مل گیا تھا ۔۔۔

جو کہی گئی نہ مجھ سے وہ زمانہ کہہ رہا ہے کہ فسانہ بن گئی ہے میری بات چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا ۔۔۔

شبِ انتظار آخر کبھی ہوگی مختصر بھی یہ چراغ بجھ رہے ہیں میرے ساتھ جلتے جلتے یونہی کوئی مل گیا تھا ۔۔۔ سرِ راہ چلتے چلتے ۔۔۔​

حوالہ جات[ترمیم]