محمود غزنوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمود غزنوی
(Dari میں: ابوالقاسم محمود غزنوی‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2 نومبر 971ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
غزنی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 اپریل 1030ء (59 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
غزنی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد غزنوی

مسعود غزنوی

عزالدولہ عبدالرشید [2]
والد سبکتگین   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان سلطنت غزنویہ   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
اپریل 998  – 30 اپریل 1030 
اسماعیل غزنوی  
محمد غزنوی  
عملی زندگی
پیشہ بادشاہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی (2 نومبر 971 ء - 30 اپریل 1030) سلطنت غزنویہ کا پہلا آزاد حکمران تھا، اس نے 999 سے 1030 تک حکومت کی۔ ان کی موت کے وقت، اس کی سلطنت ایک وسیع فوجی سلطنت میں تبدیل ہو چکی تھی، جو شمال مغربی ایران سے لے کر برصغیر میں پنجاب تک، ماوراء النہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔

سومنات کی فتح مشہور مصور آفتاب ظفر کی نظر میں

محمود نے اپنے پیش رو سامانیوں کے بیوروکریٹک، سیاسی اور ثقافتی رواج کو جاری رکھا، جس نے شمالی ہندوستان میں ایک فارسی ریاست کے لیے بنیاد قائم کرنے کا ثبوت دیا۔ اس کا دار الحکومت غزنی اسلامی دنیا کے ایک اہم ثقافتی، تجارتی اور فکری مرکز کی حیثیت سے تیار ہوا، اس نے بغداد کے اہم شہر کا تقریباً مقابلہ کیا۔ دار الحکومت میں بہت سی ممتاز شخصیات، جیسے البیرونی اور فردوسی سے اپیل کی گئی۔

وہ پہلا حکمران تھا جس نے سلطان ("اتھارٹی") کا لقب اختیار کیا تھا، جس نے اس کی طاقت کی حد کی نشان دہی کرتے ہوئے خلافت عباسیہ کے سرغنہ کے نظریاتی رابطے کا تحفظ کیا تھا۔ اپنے اقتدار کے دوران میں، اس نے سترہ بار برصغیر پاک و ہند (دریائے سندھ کے مشرق) کے کچھ حصوں پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی۔

ابتدائی زندگی اوراحوال[ترمیم]

محمود زابلستان (موجودہ افغانستان) کے علاقے غزنی میں 2 نومبر 971 کو پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد، سبکتگین، ایک ترک غلام کماندار (غلمان) تھے جنھوں نے 977 میں غزنوی سلطنت کی بنیاد رکھی، جس پر انھوں نے سامانیوں کے ماتحت کی حیثیت سے خراسان اور ماوراء النہر پر حکمرانی کی۔ محمود کی والدہ الپتگین کی بیٹی تھی۔ محمود کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے، وہ احمد میماندی کا اسکول کا ساتھی تھا، جو فارسی کا دار الحکومت زابلستان کا رہائشی تھا اور اس کا رضاعی بھائی تھا۔

سلطان محمود غزنوی بہت بڑے عاشق رسول تھے۔نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے اور قرآن و سنت کی پاسداری رکھنے والے عظیم حکمران تھے۔ امت مسلمہ سلطان محمود غزنوی کی اصطلاحات کو تا قیامت رشک کی نگاہوں سے دیکھتی رہے گی۔

خاندان[ترمیم]

سبگتگیین نے کوساری جہاں نامی ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بیٹے محمود غزنوی اور اسمعیل غزنوی تھے، جو ایک کے بعد ایک اس کا جانشین ہوا۔ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی اور محمد غزنوی تھے جو محمود غزنوی کے بعد اس کے جانشین مقرر ہوئے

محمود غزنوی، بھی بعد میں سلطنت کے حکمران بنے۔ اس کی بہن، ستارِ مُعلّٰی کی شادی محمود بن عطاء اللہ علوی سے ہوئی، جسے غازی سالار ساہو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جس کا بیٹا غازی سید سالار مسعود تھا۔

محمود کا ساتھی جارجیائی غلام ملک ایاز تھا اور اس سے ان کی محبت نے نظموں اور کہانیوں کو متاثر کیا۔

ابتدائی کیریئر[ترمیم]

994 میں محمود نے سامانی امیر، نوح دوم کی مدد سے باغی فایق سے خراسان کو قبضہ کرنے میں اپنے والد سبکتگین کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اس عرصے کے دوران میں، سامانی سلطنت انتہائی غیر مستحکم ہو گئی، داخلی سیاسی لہروں میں تبدیلی کے ساتھ ہی مختلف گروہوں نے قابو پانے کے لیے جدوجہد کی، ان میں سب سے اہم ابو القاسم سمجوری، فائق، ابو علی، جنرل بختوزین نیز ہمسایہ آل بویہ اور قراخانیان شامل تھے۔

حکمرانی[ترمیم]

سبکتگین کا انتقال 997 میں ہوا اور اس کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل غزنوی سلطنت غزنویہ کا حکمران بنا۔ سبکتگین کے زیادہ تجربہ کار اور بڑے محمود پر وارث کی حیثیت سے اسماعیل کی تقرری کے پیچھے کی وجہ معلوم نہیں۔ اس کی وجہ شایہ اسماعیل کی والدہ سبکتگین کے بوڑھے مالک الپتگین کی بیٹی ہیں۔ محمود نے جلد ہی بغاوت کر دی اور اپنے دوسرے بھائی ابوالظفر، لشکر گاہ کے گورنر کی مدد سے، اس نے اگلے سال غزنی کی لڑائی میں اسماعیل کو شکست دی اور غزنوی سلطنت پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس سال، 998 میں، اس کے بعد محمود نے بلخ کا سفر کیا اور امیر ابو الحارث منصور بی۔ نور دوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد اس نے ابو الحسن اصفرینی کو اپنا وزیر مقرر کیا اور اس کے بعد مغرب سے غزنی سے قندھار کا علاقہ لینے کے لیے روانہ ہوا جس کے بعد لشکر گاہ گیا، جہاں اس نے اسے ایک عسکری شہر میں تبدیل کر دیا۔

ہندوستان پر حملے[ترمیم]

جب سبکتگین کی وفات اگست 997ء میں ہوئی تو اس وقت سلطان محمود اپنے باپ کی طرح سے نیشاپور کا حاکم مقرر تھا اور سلطان کا بھائی اسماعیل جو باپ کی وفات کے موقع پر غزنی میں موجود تھا، نے اپنے تاج پوشی کا اعلان کر دیا۔ سلطان محمود نے پہلے خط کتابت کے ذریعے بھائی اسماعیل سے بات کرنے کی کوشش کی جب کوئی حل نہ نکلا تو 998ء میں غزنی پر حملہ کر دیا۔ اسماعیل کی حکومت ختم کرکے خود غزنی کی سلطنت سنبھال لی۔

سلطان محمود جن کو اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں میں شامل کیاجاتا ہے، کی فوج کم و بیش ایک لاکھ تھی اور فوج میں عرب، غوری، سلجوق، افغان، مغل کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے۔ ہندوستان سے جتنے بھی فوجی بھرتی کیے جاتے تھے۔ وہ بیشتر ہندو ہوتے تھے۔ ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا ہندو فوجی افسروں میں چند ایک قابل زکر نام بیرپال، چک ناتھ، زناش، بجے راؤ اور سوھنی راؤ شامل تھے۔ عباسی خلیفہ نے 999ء میں سلطان محمود کو یمین الدولہ کا خطاب عطا کیا جس کی مناسبت سے سلطان محمود کے خاندان کی حکومت کو یمینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے ہرات کے قریب صحرا کنارے ایک خاص شہر، ہاتھی نگر، تعمیر کیا کہ ان خطوں کی گرم آب و ہوا ہندوستان کے موسموں سے مطابقت رکھتی تھی۔ پھر اس نے ہندوستان سے لائے ہوئے سینکڑوں ہاتھیوں کی پرورش اس شہر میں کی۔ ہاتھیوں کے ساتھ انھیں سدھارنے والے بھی ہندستان سے منگوائے گئے اور یوں ہاتھی اس شہر میں خوش وخرم ہو گئے۔ محمود ہربرس ان ہاتھیوں کی مدد سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتا اور واپسی پر انھیں غزنی کی بجائے ہرات کے قریب اس ہاتھی نگرمیں واپس بھیج دیتا تھا۔

سلطان محمود غزنوی جس کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندوستان پر سترہ حملے ہیں، کی بنیادی وجہ جان لینا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے لاہور سے پشاور تک کا علاقہ ایک ہندو راجا جے پال کے زیر سلطنت تھا۔ جے پال اور سلطان محمود کے باپ سبکتگین کی ایک جنگ پشاور اور جلال آباد کے علاقوں میں 986ء میں ہوئی تھی، جس میں جے پال کو شکست ہوئی اور سبکتگین کی سلطنت دریائے سندھ کے ساتھ اٹک تک پھیل گئی تھی۔سلطان محمود نے حکومت سنبھالتے ہی پشاور تک کے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مہمات کرکے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا تو راجا جے پال جو پہلے ہی اپنی شکست کا بدلہ لینے کو بے تاب تھا، نے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور غزنی پر حملے کے لیے نکل پڑا۔ 1001ء میں پشاور کے قریب راجا جے پال اور سلطان محمود کی فوجوں کا ٹکراؤ ہوا۔ راجا جے پال کو شکست ہوئی اور پورے خاندان سمیت گرفتار ہو گیا۔ مذاکرات اور ایک بھاری تاوان کے عوض رہائی کے بعد جے پال واپس لاہور آیا، چونکہ لڑائی سے پہلے جے پال اپنے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کرگیا تھا اس لیے شکست کے بعد نہایت شرمندگی کی حالت میں اپنی حکومت بیٹے انندپال کے حوالے کرکے خود لاہور کے ایک دروازے کے پرانے برگد کے درخت کے پاس ایک بہت بڑی چتا جلائی اور جل مرا۔

سلطان محمود غزنوی نے دوسرا حملہ جو 1004ء کو ہوا۔ بھنڈا یا بھیرہ جو دریائے ستلج کے قریبی علاقوں پر مشتمل ریاست پر کیا جس کا راجا بجی راؤ تھا۔ تیسرا حملہ ملتان کے حاکم ابوالفتح کے خلاف 1006ء میں کیا لیکن راستے میں ہی دریائے سندھ کے کنارے جے پال کے بیٹے انند پال کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی۔سخت جنگ کے بعد انند پال کو شکست ہوئی اور بعض روایات کے مطابق وہ کشمیر پناہ لینے کے لیے بھاگ گیا۔ انند پال کو شکست دینے کے بعد سلطان محمود نے ملتان کا رخ کیا اور ملتان کو فتح کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ملتان کا حاکم جے پال کے پوتے سکھ پال کو مقرر کیا جو اسلام قبول کرچکا تھا۔ جلد ہی سلطان محمود کو پھر ملتان جانا پڑا جہاں پر سکھ پال نے بغاوت کردی تھی۔ 1008ء میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کر دیا۔ اسی دوران میں انند پال جو شکست کھا کر کشمیر بھاگ گیا تھا، نے واپس آ کر ایک بار پھر سلطان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انند پال نے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کر ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کر دیا۔ 1008ء کے آخری دنوں میں ایک بار پھر دریائے سندھ کے قریب اٹک کے علاقے میں جنگ کا آغاز ہوا۔ خونریز جنگ کے بعد انند پال کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔

1009ء کے آخری مہینوں میں ایک بار پھر سلطان محمود نے ہندوستان پر حملہ کرکے پہلے نرائن پور کی ریاست کو فتح کیا اور پھر 1010ء میں ملتان کے گرد و نواح کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ 1014ء میں سلطان نے انند پال کے بیٹے لوجن پال کو موجودہ کوہستان کے علاقے میں شکست دی اور مزید لوجن پال کی مدد کے لیے کشمیر سے آئے ہوئے ایک بڑے لشکر کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا۔ 1015ء میں سلطان محمود نے کشمیر پر حملہ کیا اور لیکن برف باری کے باعث راستے بند ہونے پر بغیر جنگ کے ہی واپس آنا پڑا۔ 1018ء میں سلطان محمود نے پہلی بار پنجاب کے پار دریائے جمنا کے علاقے میں اپنی فوج کو اُتارا اور ہندوؤں کے مذہبی مقام متھرا کو فتح کرنے کے بعد ایک مشہور ریاست قنوج کا محاصرہ کر لیا۔ قنوج کے راجے نے سلطان سے صلح کا پیغام بھیجا اور سلطان کا باجگزار بننا قبول کر لیا۔ 1019ء میں قنوج کی ملحقہ ریاست کالنجر کے راجا گنڈا نے قنوج پر حملہ کرکے راجا کو قتل کر دیا اس کی خبر جب سلطان محمود تک پہنچی تو وہ اپنے مطیع راجے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے نکلا اور کالنجر پر حملہ کرکے اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ راجا لوجن پال اور راجہ گنڈا جو سلطان محمود سے شکست خوردہ تھے۔ دونوں نے مشترکہ طور پر ایک بڑے حملے کی تیاری کی اور ایک بار پھر 1019ء میں ہی سلطان کو دوبارہ ان دونوں کی سرکوبی کے لیے ہندستان کا سفر کرنا پڑا۔ نتیجتاً دونوں راجاؤں کو شکست ہوئی اور ہندوستان سے ہندو شاہی راجا کا خاتمہ ہو گیا۔

سلطان محمود غزنوی 1020ء سے 1025ء کے درمیانی عرصے میں سلطنت کے شمالی مغربی حصے اور دریائے فرات کی وادیوں میں فتوحات میں مشغول رہا۔ اسی عرصہ میں سلطان محمود کو اپنے مخبروں سے یہ اطلاعات متواتر مل رہی تھیں کہ شمالی اور وسطی ہندوستان کی تمام ریاستیں سلطان سے شکست کھانے کے بعد بدلہ لینے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور اب کے بار ایک مشترکہ حملہ کی تیاری ہے اس کے لیے گجرات کے علاقے کاٹھیاوار میں ایک بہت ہی مشہور مندر سومنات کو مرکز بنایا گیا ہے۔ سومنات سمندر کے کنارے ایک عظیم الشان مندر تھا، جسے پورے ہندوستان میں ہندوؤں کے درمیان میں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مندر میں موجود شیوا کے بت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیوا بت کو غسل دینے کے لیے تازہ پانی روزانہ کی بنیاد پر دریائے گنگا سے لایا جاتا تھا۔ جنگ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ سلطان نے پیشگی حملے کی تیاری کردی۔ غزنی سے سومنات تک فاصلہ تقریباً 2600 کلومیٹر بنتا ہے جس میں سے 500 کلومیٹر طویل مشکل ترین صحرائے چولستان اور راجستھان بھی پڑتا تھا۔

اکتوبر 1025ء میں سلطان کی فوج تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ غزنی سے روانہ ہوئی۔ تین مہینوں کی مسافت کے بعد جنوری 1026ء میں سومنات مندر کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ ہندوستان کے طول و عرض سے مہاراجے اور راجواڑے اپنی اپنی فوج کے ساتھ مندر کی حفاظت کے لیے موجود تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا اور ایک سخت مقابلے کے بعد سلطان محمود فتح یاب ہوا۔ مندر کو توڑ ڈالا گیا۔ یہی وہ مشہور جنگ ہے جس کی بنا پر بعض مورخین نے سلطان محمود کی ذات کو ایک لٹیرا مشہور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سومنات کے بعد سلطان محمود کی ہندوستان پر آخری لڑائی 1027ء میں ہوئی جو دریائے سندھ سے دریائے بیاس کے درمیانی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔

آخری دو تین سال سلطان محمود غزنوی بیمار بھی رہا اپنی آخری جنگی مہم 1029ء میں ایرانی علاقے رے میں انجام دی اور رے کے حاکم آل بویہ کو شکست دی۔

وفات[ترمیم]

کہا جاتا ہے کہ دق اور سل کے مرض میں مبتلا ہوکر 30 اپریل 1030ء میں 59 سال کی عمر میں غزنی میں وفات پائی۔ مزید جانیں۔آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ readblog1.com (Error: unknown archive URL)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mahmud-von-ghazni — بنام: Mahmud von Ghazni — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ہندوستان کا تاریخی خاکہ مولف کارل مارکس فریڈرک اینگلز ترتیب و تعارف احمد سلیم صفحہ 15