اجلاسِ مخزنِ اردو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(مخزن اردو مذاکرہ سے رجوع مکرر)

مخزنِ اردو مؤتمر یا اجلاسِ مخزنِ اردو جو قائد اعظم مکتبہ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تین نشستوں پر مشتمل تھی۔ اس موتمر یا مذاکرے کا موضوع تھا “پاکستان میں اردو کا مستقبل“ چاروں صوبوں کے کم و بیش ڈیڑھ درجن ادیبوں نے موتمر میں مقالات پڑھے۔

سرحد میں اردو[ترمیم]

"سرحد میں اردو" کے عنوان سے پروفیسر محسن احسان نے اپنے مقالے میں کہا کہ سرحد کے شہروں اور دیہاتوں کی آبادی کم و بیش چار کروڑ پر مشتمل ہے، جہاں مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں لیکن ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو کو حاصل ہے۔ دفاتر میں بھی اردو رائج ہے، اسلام آباد اور کراچی کی طرح پشاور میں بھی اردو یونیورسٹی قائم کر دی جائے تو اس علاقے کے لوگوں کو اپنی قومی زبان میں درس و تدریس کے مواقع حاصل ہونے کے ساتھ مزید آسانیاں میسر آ سکتی ہیں۔

صاحب مضمون نے کہا کہ مسلمانوں کے اولین قافلے خیبر کے راستے ہی سے برصغیر میں پہنچے تھے، اس لیے امکان ہے کہ اردو کا اولین روپ ترک سوار اور مغل شہزادگان اپنے رہروان تیز گام کے گرد و غبار کے ساتھ لائے ہوں۔ حافظ محمود شیرانی اور فارغ بخاری کے دعوؤں کو تسلیم کرتے ہوئے اس زبان کی ابتدائی نشو و نما سرحد و پنجاب کو دی جا سکتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں بیشتر ادبی و علمی جرائد اردو کی ترویج کی غماز ہیں۔

بلوچستان میں اردو[ترمیم]

"بلوچستان میں اردو" کے موضوع پر عبد الکریم بلوچ نے کہا اردو بلوچی لغت میں محض چار حرفی لفظ ہی نہیں بلکہ بلوچی زبان، ثقافت، گھریلو زندگی اور رہن سہن کا جیتا جاگتا تاریخی، معاشرتی و تہذیبی ورثہ ہے۔ سولہویں صدی میں جب بلوچیوں نے مغل کے معزول بادشاہ ہمایوں کو بحفاظت ایران پہنچایا تو واپسی میں وہ کابل اور دلی کی لڑائیوں میں بھی شریک رہے پھر اردو کو بلوچستان میں لائے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ مرزا غالب نے اپنا دیوان، گل محمد ناطق کو بھجوایا جو اپنی مادردی زبان بلوچی کے علاوہ اردو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ صاحب مضمون نے مزید کہا کہ 1876 میں سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اردو رائج ہوئی۔ ١٩٥٧ نواب اکبر بگٹی انجمن ترقی ارو کے صدر چن لیے گئے پھر ١٩٧٢ میں جب عوامی نمائیندہ حکومت قائم ہوئی تو دفتری زبان اردو کو قرار دیا گیا یوں اردو بلوچستان کی سرکاری زبان بن گئی ۔

پنجاب میں اردو[ترمیم]

ڈاکٹر انور سدید نے اپنا مقالہ پنجاب میں اردو کے حوالے سے ایک اہم اور پتے کی بات کہی کہ اردو زبان کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک لالہ خود رو ہے جس نے اپنی غذا برصغیر کے مختلف عوام سے حاصل کی اور اس کے اثمار وسیع پیمانے پر تقسیم کی۔ اردو زبان اولمپیک کی اس شمع کی مانند ہے جس کا الاؤ ایک مرکزی جگہ پر روشن ہوتا ہے لیکن جس کی روشنی نگر نگر، قریہ قریہ اور شہر شہر گردش کرتی ہے اور لوگوں میں زندگی اور تحرک کی لہر دوڑا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کو مسلمانوں اور ہندوؤں کے معاشرتی اختلاط کا خوبصورت ثمر قرار دیا گیا ہے۔ عملا اردو لسانی اختلاط کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے۔

اردو پنجاب کی بیٹی[ترمیم]

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید نے کہا کہ اہل پنجاب کا دعوی ہے فی الاصل پنجابی کی منجھی ہوئی زبان ہے اس کے افعال عموما پنجابی ہیں مگر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ استعمال میں لائے گئے ہیں۔ شیر علی خان سرخوش کے مطابق اردو کی نہایت ابتدائی شکل پنجابی ہے جو قدیم پنجابی سے ماخوذ ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد اور پروفیسر حمید احمد خان نے اردو کو پنجابی زبان کی بیٹی قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اس امر سے اتفاق کیا ہے۔

اردو بحیثیت عمومی زبان[ترمیم]

مخزن اردو کانفرنس کی تیسری اور اختتامی نشست کی صدارت مہتاب اکبر راشدی نے کی۔ افتخار احمد مہمان اعجاز تھے۔ محترمہ شہناز مزمل نے اس نشست کی بھی نظامت کی۔ یہ نشست پہلی دو نشستوں سے اس لیے مختلف تھی کہ اس میں جو مقالے پڑھے گئے ان کا تعلق کسی ایک صوبے سے نہ تھا بلکہ ان میں اردو کے بحیثیت زبان عمومی اور بنیادی کردار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ان کے لیے ایک تفصیلی مضمون درکار ہے تاہم نظریہ ضرورت کے تحت چند مضامین کا ذکر ہوگا۔

اردو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے موضوع پر ڈاکٹر شاہین مفتی اور ڈاکٹر عطش درانی نے مضمون پڑھے۔ درانی صاحب نے اپنے مضمون میں ابلاغیات کے حوالے سے بعض تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کمپیوٹر سکرین کو اردو میں بدل دیا ہے۔ اردو بھی انٹرنیٹ پر آچکی ہے، برقیاتی کتاب، برقیاتی اشاعت اور رابطوں کی صورتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے بعض تبدیلیوں کا ذکر کیا۔

اردو اور جدید علوم[ترمیم]

شہزاد احمد نے “اردو اور جدید علوم“ کے حوالے سے اپنے مضمون میں برٹرینڈرسل کے اس اعتراض کو کلی طور پر درست قرار نہیں دیا کہ مسلمانوں نے مواد تو بہت جمع کیا لیکن اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے اب مغرب میں بھی علوم کا ڈھیر لگا دیا گیا ہے۔ معلومات بہت زیادہ فراہم ہو رہی ہیں ان سب کو مقامی زبانوں میں منتقل کیا جانا از حد ضروری ہے۔ یہ کام اردو میں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا کام سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ نوجوانوں کو دانستہ طور پر اردو سے دور کیا جا رہا ہے ہمیں انگریزی سے تعلق رکھتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی اردو میں بنانی ہوگی۔

اردو بحیثیت سرکاری زبان[ترمیم]

اردو بحیثیت سرکاری زبان کے عنوان سے ڈاکٹر فردوس انور قاضی نے کہا کہ قائد اعظم کے اس فرمان کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان متحد رکھنے کے لیے اردو کو سرکاری زبان بنانا ضروری ہے۔ انھوں نے برٹش پالیمنٹ میں لارڈ میکالے کی اس تقریر کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ میں برصغیر کے چپے چپے میں گھوما ہوں مگر ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس کا ہاتھ پھیلا ہوا ہو۔ اس مہذب اور ترقی یافتہ قوم پر اس وقت تک تسلط نہیں رکھا جا سکتا جب تک کہ اس نظام تعلیم کو نہ بدلا جائے۔ صاحب مضمون نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور یکجہتی کے لیے ہمیں اردو کو علمی اور سرکاری زبان بنانا ہوگا یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے۔