عمرانیات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(معاشریات سے رجوع مکرر)

عُمرانیات یا سماجیات سماجی رویے، اس کے مآخذ، ترقی، تنظیم اور اداروں کے مطالعے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی علم ہے جو مختلف تجرباتی تفتیشی طریقوں اور تنقیدی جائزوں کے ذریعے معاشرتی نظم، بدنظمی اور معاشرتی تبدیلی کے بارے میں ایک علمی ڈھانچہ وضع کرتا ہے۔ ایک ماہر عمرانیات کا عمومی ہدف سماجی پالیسی اور فلاح کے لیے براہ راست لاگو ہونے والی تحقیق منعقد کرنا ہوتا ہے، تاہم عمرانیات کے علم میں معاشرتی عمل کی تصوراتی تفہیم کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ موضوعاتی مواد کا احاطہ فرد کے کردار اور عمل سے لے کر پورے نظام اور سماجی ڈھانچے کی تفہیم تک جاتا ہے۔

عمرانیات کے روایتی موضوعات میں سماجی پرت بندی، سماجی طبقات، سماجی نقل و حرکت، مذہب، سیکولر کاری، قانون، جنسیت اور انحراف وغیرہ شامل ہیں۔ سماجی ڈھانچے اور انفرادی کاوش کے مابین باہم ربط ضبط کا اثر انسانی سرگرمی کی تمام سطحوں پر پڑتا ہے؛ جیسا کہ طب، صحت، فوج، تعزیراتی ادارے، انٹرنیٹ، تعلیم اور سائنسی علوم پر سماجی سرگرمی کا کردار۔

سماجی علمی طریقہ کار کی حدیں وسیع ہو رہی ہیں۔ سماجی محققین نے مقداری اور معیاری تکنیکوں کا ایک وسیع تنوع وضع کیا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط کے لسانی اور ثقافتی موڑوں کی وجہ سے معاشرے کے تجزیہ کا انداز بہت زیادہ وضاحتی، مفسرانہ اور فلسفیانہ ہو گیا تھا۔ حالیہ عشروں میں مبنی بر مامور نمونہ بندی (agent-based modelling) اور سماجی جال کے تجزیے جیسی حسابیاتی، ریاضیاتی اور تجزیاتی تکنیکوں کو اقبال حاصل ہوا ہے۔

سماجی تحقیق سے سیاست دانوں، پالیسی سازوں، منصوبہ سازوں، قانون سازوں، منتظمین، ترقی دہندگان، تجارتی اداروں، ناظمین، سماجی کارکنوں، سول سوسائٹی اورسماجی معاملات عامہ میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو معلومات فراہم کرتی ہے۔ سماجی تحقیق، منڈی کی تحقیق اور دیگر شماریاتی میدانوں سے معلومات اور تصورات کا تبادلہ بھی کرتی ہے۔. ماہر عمرانیات[سماجیات} اور ادبی تنقیدی نظریہ دان احمد سہیل نے نہایت سلیس انداز میں " عمرانیاٹ" کی تعریف اور تشریح یوں کی ہے، " ان اہم سوالات کے بارے میں سوچیں جو ہم اپنی معاشرتی دنیا کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کیا مرد اور عورت واقعی اتنے مختلف ہیں؟ ہمیں نسل پرستی جیسے مسائل کیوں ہیں؟ کیا چیز لوگوں کو معاشرتی حیثیت اور احترام حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے؟ معاشرے کی اقدار، معمعلات اور تحریمات کیا ہیں؟یہ سوالات بحیثیت انسان زندگی کے لیے بہت اہم ہیں اور عمرانیات یا سماجیات کے شعبے سے ان کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ سماجیات کی عمومی تعریف انسانی معاشرے، ثقافت اور گروہی سطح پر تعلقات کا منظم مطالعہ ہے۔عمرانیات کے بارے میں سوچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کو مختلف لیکن ایک جیسے شعبوں سے متضاد اور افتراق کیا جائے۔ مثال کے طور پر معاشرتی ی نفسیات عمرانیات کی طرح بہت سے سوالات اٹھاتی ہے لیکن مختلف تحقیقی طریقہ کار کا استعمال کرتی ہے اور لوگوں کو گروہی سطح کی بجائے انفرادی سطح پر مطالعہ کرتی ہے۔ جب کہ عمرانیات گروہی کا نمونوں کا مطالعہ کرتی ہے، جیسے کہ ایک ثقافت مردوں کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر کیوں یقین رکھتی ہے جبکہ دوسری ثقافت نہیں رکھتی، معاشرتی نفسیات اس بات کا مطالعہ کرے گی کہ شادی کے اندر فرد اپنے ساتھی کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ لہذا بنیادی طور پر عمرانیاتی گروپ کی سطح پر 'بڑی تصویر' کو دیکھتی ہے، جب کہ معاشرتی نفسیات ہر فرد کے رویوں یا احساسات کا مطالعہ کرتی ہے۔

ایک اور شعبہ جو اس سے ملتا جلتا ہے وہ ہے بشریات۔ بشریات بھی عمرانیات کی طرح انسانی معاشرے کا جائزہ لیتی ہے، لیکن بشریات اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے کہ انسانی معاشرہ وقت کے ساتھ کس طرح بدلا ہے۔ اس میں آثار قدیمہ کا ذیلی شعبہ شامل ہے، جو قدیم اوزاروں، مٹی کے برتنوں اور اسی طرح کی جانچ پڑتال کرتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ قدیم ثقافتوں کا جدید ثقافت سے کیا موازنہ ہے۔"

احمد سہیل نے عمرانیات کی تعریف کے حوالے سے چھ {6} نکات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔

1۔ عمرانیات انسانی معاشرتی رویے اور اس کی ابتدا، ترقی، تنظیموں اور اداروں کا سائنسی مطالعہ ہے۔

2۔ عمرانیات انسانی معاشرے اور معاشرتی تعلقات، تنظیم اور تبدیلی کی سائنس؛ مخصوص، معاشرتی گروہوں کے عقائد، اقدار وغیرہ کا مطالعہ اور معاشرتی مظاہر کو کنٹرول کرنے والے عمل کا دوسرا نام ہے۔

3۔ کسی معاشرتی ادارے یا سماجی طبقے کا تجزیہ بطور خود ساختہ ہستی یا مجموعی طور پر معاشرے کے تعلق سے ہے ۔

4۔ عمرانیات کی تعریف انسانی اقدار، رشتوں، عقائد اور معاشرے کے مطالعہ، مشاہدات اور تجزیات سے ہوتی ہے۔

5۔ عمرانیات کی ایک مثال وہ ہے جو کوئی اس وقت پڑھتا ہے جب وہ کسی ایسے مذہب کی مذہبی خدمت میں شرکت کرتا ہے جو اس کا اپنا نہیں ہے۔

6 ۔ معاشرے، انسانی معاشرتی ی تعامل { بین العمل}اور ان اصولوں اور عملیات کا مطالعہ جو لوگوں کو نہ صرف فرد کے طور پر، بلکہ انجمنوں، گروہوں اور اداروں کے ارکان کے طور پر باہم کرتے ہیں اوہ ایک دوسروں سے الگ کرتے ہیں۔"۔

طبقہ بندی[ترمیم]

عمرانیات / سماجیات کو معاشرتی علوم کے اس عام نصاب کے ساتھ گڈمڈ نہ کیا جائے، جن میں سماجیاتی تصورات اور سماجی تحقیقی طریقہ کار کا بہت کم باہمی تعلق ہوتا ہے۔ امریکا کے قومی موسسہ سائنس نے عمرانیات کو ایک STEM میدان کا درجہ دیا ہے۔ STEM جن حروف کا مخفف ہے، وہ انگریزی کے چار الفاظ کی نمائندگی کرتے ہیں؛ سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی۔

ابتدا[ترمیم]

عمرانیاتی استدلال کی رِیت، عمرانیات کے بطور علم تشکیل پانے کی نسبت پرانی ہے۔ مغرب کی علمی اور فلسفیانہ روایت میں سماجی تجزیوں کا ذخیرہ قدیم یونان سے آتا ہے اور یہ کم از کم افلاطون کے زمانے سے جاری ہے۔ سروے کا آغاز، یعنی افراد کے ایک نمونے سے معلومات اکٹھا کرنے کا طریقہ 1086ء میں لکھی گئی کتاب Domesday Book میں ملتا ہے، جبکہ قدیم فلسفی کنفیوشس نے سماجی کردار کی اہمیت پر قلم اٹھایا ہے۔ قرون وسطی کے اسلامی عہد کے علمی ذخیرے میں بھی سماج کے تجزیاتی مطالعے کے شواہد ملتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 14 ویں صدی عیسوی میں شمالی افریقی مسلمان دانشور ابن خلدون، علم عمرانیات کا باوا آدم ہے۔ اس کی کتاب مقدمہ (جو اس کی تاریخ کی کتاب کا ابتدائیہ تھی، اب الگ سے مقدمہ ابن خلدون کے نام سے جانی جاتی ہے) سماجی ہم آہنگی اور سماجی تصادم کے بارے میں سماجی سائنسی استدلال سے کام لینے میں پہلا بڑا سنگ میل ہے۔ اس نے بدوی زندگی بمقابلہ حضری زندگی کا تصور وضع کیا، اس نے انسانی پَود یا نسل کا تصور پیش کیا اور طاقت میں ناگزیر کمی کے نتیجے میں صحرائی جنگجووں کے شہروں میں آ گھسنے کے احوال بیان کیے۔ عرب دانشور ساطع الحسری کا کہنا ہے کہ مقدمہ کو عمرانیات کی چھ اہم ترین کتابوں میں سے شمار کر کے پڑھا جانا چاہیے۔ اس کتاب میں احاطہ کیے گئے موضوعات ہیں؛ سیاست، شہری زندگی، معاشیات اور علم۔ یہ علمی کام ابن خلدون کے مرکزی تصور "عباسیہ" کی بنیاد پر کھڑا ہے، جس سے مراد سماجی ہم آہنگی، گروہی یکجہتی یا قبائلیت ہے۔ یہ سماجی وحدت قبائل اور چھوٹے رشتہ دار گروہوں میں پروان چڑھتی ہے؛ اسے مذہبی نظریات کے ذریعے وسعت دی جا سکتی ہے۔ ابن خلدون کا تجزیہ اس عمل پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح یہ وحدت مختلف گروہوں کو طاقت ور بناتی ہے، لیکن اپنے باطن میں اپنی طاقت کے زوال کے نفسیاتی، سماجی، معاشی اور سیاسی بیج بھی پالتی ہے، تاوقتیکہ کوئی اورقوی تر (یا کم از کم نیا اور تازہ دم) گروہ، سلطنت یا قبیلہ اس کی جگہ نہیں لیتا۔

لفظ عمرانیات عربی کے لفظ عمران سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں، آبادی، سماج، معاشرت، رہن سہن۔ سماج کے لیے عمران کا لفظ ابن خلدون نے استعمال کیا تھا۔[1] اردو میں عمرانیات کی اصطلاح سب سے پہلے 1935ء میں علم الاخلاق میں ملتی ہے۔[2] اس کے لیے انگریزی میں لفظ Sociology مستعمل ہے، جس کی اصل لاطینی اور یونانی ہے۔ لاطینی لفظ "Socius" بمعنی ساتھی، سنگتی اور یونانی لفظ "Lógos" بہ معنی علم یا سخن۔ سوشیالوجی کی اصطلاح کا سب سے پہلے فرانسیسی انشائیہ نگار عمانوئیل جوزف سیئیس (1748–1836) نے اپنے ایک غیر مطبوعہ قلمی نسخے میں استعمال کیا۔ بعد ازاں فرانسیسی سائنسی فلسفی اگستے کومتے (1798–1857) نے 1838ء میں آزادانہ طور پر اس کی تعریف وضع کی۔ کومتے نے اس کو سماج کے پرکھنے کے لیے ایک بالکل نئی نظر قرار دیا تھا۔ کومتے نے ابتدا میں اس کے لیے سماجی طبیعیات (Social Physics) کا لفظ استعمال کیا تھا، لیکن بعد ازاں اس میں بہتری کی گنجائشیں نکالی جاتی رہیں، جن میں سب سے قابل زکر نام بلجیئن ماہر شماریات ایڈولف کوئتلے کا ہے۔ کومتے نے تاریخ، نفسیات اور معاشیات کو سائنسی فہم کے ذریعے سماجی میدان میں یکجا کر دیا۔ انقلاب فرانس کی بے چینی کے کچھ ہی بعد، اس نے تجویز کیا کہ سماجی برائیوں کو سماجی اثباتیت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، اس نے اپنی کتاب "اثباتی فلسفے کا نصاب" (Cours de Philosophie Positive) مطبوعہ 1830–1842 اور "اثباتیت پر ایک عمومی نظر" (Discours sur l'ensemble du positivisme) مطبوعہ 1848ء میں ایک علمیاتی طرز فکر تشکیل دیا۔ کومتے کا ماننا تھا کہ ایک مثبت مرحلہ، ایک حتمی زمانہ ہو گا، جب وجدانی، روحانی اور مابعد الطبیعیاتی مراحل انسانی فہم کے ارتقا کا ماضی بن جائیں گے۔ کومتے کے ہاں سائنس میں تصور اور مشاہدے کے باہم دائروی انحصار کے شعور اور علوم کی درجہ بندی کی روشنی میں، ہم اسے جدید معنوں میں پہلا سائنسی فلسفی قرار دے سکتے ہیں۔

کومتے نے عمرانیات کی ترقی کو ایک طاقتور امنگ بخشی، ایک ایسی امنگ جو انیسویں صدی کے آخری عشروں میں ثمربار ہوئی۔ یہ کہنے کا مطلب یہ دعویٰ کرنا بالکل نہیں ہے کہ دورخائیم جیسے فرانسیسی ماہر عمرانیات اثباتیت کے اس عظیم پیشوا کے نیازمند شاگرد تھے۔ بلکہ مراد یہ بتانا ہے کہ اس نے ان سبھی ناقابل تخفیف بنیادی سائنسی علوم کے اس علم العلوم پر لاگو کرنے پر زور دیا، جن کا رتبہ حفظ مراتب میں طے شدہ ہے اور کومتے نے عمرانیات کی نوعیت کی، سماجی مظہر کے سائنسی مطالعے کے طور پر وکالت کی اور عمرانیات کو نقشے کا حصہ بنایا۔ یقینی طور پر شروعات کے ڈانڈے بہت پہلے، مثال کے طور پر مانٹیسکو یا پھر کوندورسیت تک جاتے ہیں، اگر کومتے سے کچھ ہی پہلے گذرے سینٹ سائمن کو شمار نہ بھی کیا جائے۔ لیکن کومتے کے ہاں عمرانیات کا باقاعدہ سائنس کے طور پر واضح ادراک اور اس کا اپنا کردار ہی تھا کہ دورخائم نے اسے اس سائنس کا بانی اور باوا آدم قرار دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ دورخائم عمرانیات کی جانب کومتے کے طرز فکر پر تنقید کرتا تھا اور وہ اس کا تین حالتوں والا تصور تسلیم نہیں کرتا تھا۔

(فریڈرک کوپلسٹن، اے ہسٹری آف فلاسفی: 9 ماڈرن فلاسفی 1974ء)

اگستس کومتے اور کارل مارکس، دونوں تاریخ اور سائنس کے فلسفوں میں بہت سی تحریکوں سے روشنی لے کر، یورپی صنعت پذیری اور سیکولر سازی کی لہر کے بعد، سائنسی جواز کے حامل نظام وضع کرنے نکلے تھے۔ مارکس نے کومتے کی اثباتیت کو رد کیا تھا، لیکن سماج کی سائنس وضع کرنے میں مارکس کی کاوشوں کو لے کر اسے عمرانیات کا بانی قرار نہیں دیا جاتا کیونکہ سوشیالوجی کی اصطلاح کے مطالب وسیع تر تھے۔ عیسائیہ برلن کے بقول مارکس علم عمرانیات کا 'حقیقی باپ' تھا۔ اب تک شاید ہی کوئی اس سے زیادہ اس خطاب کا مستحق ہو۔

اپنے زمانے کے مشغول ترین ذہن کے آدمیوں کے نظریاتی سوالوں کے مانوس تجربی لفظوں میں واضح اور یک جہت جواب دے پانا اور دو چیزوں باتوں کی بناوٹی کڑیاں ملائے بغیر ان جوابات سے واضح عملی ہدایات کا اخذ کر پانا، مارکسی فکر کی بنیادی کامیابی تھی۔ تاریخی اور اخلاقی مسائل کا عمرانی علاج، جو کومتے اور اس کے بعد سپنسر اور تائنے نے زیر بحث لا کر اس کی نقشہ کشی کی، ایک ٹھوس اور جامع مطالعہ بن کر سامنے آیا۔ تاوقتیکہ عسکریت پسند مارکسیت نے اس کے ثمرات کو ایک سلگتا ہوا سوال بنا دیا اور یوں اس سے شواہد کی تلاش زیادہ سرتوڑ ہو گئی اور طریقہ کار پر توجہ مزید بڑھا دی گئی۔

عیسائیہ برلن؛ کارل مارکس، ہِز لائف اینڈ انوائرنمنٹ، 1937ء

ہربرٹ سپنسر (پ 27 اپریل 1829- وف 8 دسمبر 1903) انیسویں صدی کا سب سے مقبول اور بااثر ماہر عمرانیات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی زندگی میں اس کی دس لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں اور یہ فروخت اس وقت کے کسی بھی ماہر عمرانیات سے زیادہ ہے۔ اس کے انیسویں صدی کے مفکرین میں اثر کی مثال اس بات سے دی جا سکتی ہے کہ ایمیلے دورخائم اپنے تصورات کو اس کے افکار کے تعلق میں بیان کرتا تھا۔ دورخائم کا تقسیمِ محنت کا تصور وسیع تر زاویے سے دیکھا جائے تو سپنسر کے ساتھ مباحثوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے مبصرین اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ دورخائم کی عمرانیات بڑے پیمانے پر سپنسر سے مستعار لی ہوئی ہے۔ ایک قابل زکر ماہر حیاتیات کی وجہ سے سپنسر نے "بقائے موزوں ترین" کا تصور پیش کیا۔ چونکہ مارکسی فکر عمرانیات کی ایک شاخ کی تعریف کرتا ہے، سپنسر سوشلزم کا نقاد ہے اور "لیزلے-فیری" یعنی آزاد کر دو کے طرزِ حکومت کا قائل ہے۔ اس کے خیالات کو رجعت پسند سیاسی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی، بالخصوص امریکا اور برطانیہ کے حلقوں میں۔

درسی علم کی بنیاد[ترمیم]

رسمی درسی عمرانیات کی تشکیل کا سہرا ایمیلے دورخائم کے سر ہے، جس نے عملی سماجی تحقیق کی بنیاد اثباتیت پر کھی۔ اگرچہ اس نے کومتے کے فلسفے کی بہت سی جزویات کو رد کیا ہے، تاہم اس نے اس کے طریقہ کار کو ناصرف تسلیم کیا بلکہ اس میں بہتری بھی لایا۔ اس نے تسلیم کیا کہ سماجی سائنسی علوم، انسانی سرگرمی کے میدان میں فطری علوم کا ہی منطقی تسلسل ہیں، اس نے زور دیا کہ سبب اور مسبب کے انداز فکر میں بھی وہی معروضیت اور معقولیت قائم رہنی چاہیے۔ دورخائم نے 1895ء میں یونیورسٹی آف بوردیاکس میں یورپ کا پہلا شعبہ عمرانیات قائم کیا اور اپنے عمرانیاتی طریقہ کار اور اصول شائع کیے۔ دورخائم کے نزدیک عمرانیات سے مراد "اداروں، ان کی تکوین اور ان کی کارکردگی کی سائنس" ہے۔

دورخائم کا طبعزاد رسالہ خودکشی (1897ء)، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آبادیوں میں خودکشی کا مطالعہء معاملہ ہے، جو نفسیات یا فلسفے سے الگ ایک عمرانیاتی تجزیہ ہے۔ یہ ساختیاتی کارکردگیت کے نظریاتی تصور میں ایک اہم اضافہ ہے۔ مختلف تھانوں میں خودکشیوں کی اطلاعات کو احتیاط کے ساتھ جانچنے کے بعد، اس نے اخذ کیا کہ کیتھولک گروہوں میں پروٹسٹنٹ لوگوں کی نسبت خودکشی کی شرح کم ہے۔ یوں اس نے نفسیاتی یا شخصی اسباب کی بجائے سماجی اسباب کو موضوع بنایا۔ اس نے عمرانیات کی سائنس میں مطالعے کے لیے معروضی "سماجی حقائق" کا خیال وضع کیا۔ اس طرح کی تحقیق سے اس نے یہ ثابت کیا کہ علم عمرانیات کے ذریعے ہی یہ طے ہو گا کہ کوئی سماج 'صحتمندانہ' ہے یا 'مریضانہ' اور سماجی آسیبوں یا نامیاتی انہدام سے بچنے کے لیے سماجی اصلاحات کا راستہ نکالا جائے۔

صنعت پذیری، شہروں کی توسیع، سیکولرسازی اور "معقولیت" کے عمل جیسے جدت کے پروردہ مسائل کے رد عمل میں، عمرانیات بہت جلد ایک درسی علم کے طور پر ترقی پا گیا۔ براعظم یورپ میں یہ علم بہت جلد پھیل گیا اور بعد ازاں برطانوی علم الانسانیات اور شماریات بھی اپنے الگ الگ راستوں پر پڑ گئے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے، اینگلو سکسان دنیا میں بہت سے مفکرین سرگرم تھے۔ آغاز کے ماہر عمرانیات اپنے مضمون تک محدود رہے اور ساتھ میں اس علم کا معاشیات، نفسیات، قانون اور فلسفے سمیت بہت سے علوم کے ساتھ اختلاط عمل میں لایا جانے لگا۔ اب تک عمرانیاتی علمیات، طریقہ ہائے کار اور سوالات کے ڈھانچے بڑے پیمانے پر وسعت حاصل کر چکے ہیں۔

دورخائم، مارکس اور جرمن مفکر میکس ویبر (1864–1920) کو عام طور پر عمرانیات کے تین بنیادی معمار کہا جاتا ہے۔ ہربرٹ سپنسر، ولیم گراہم سمنر، لیسٹر ایف وارڈ، وی وی بی دو بوئے، وِلفریدو پاریتو، الیکسس دی ٹکیاولی، ورنر سومبارت، تھورسٹائن ویبلن، فرڈیننڈ تونیس، جارج سیمیل اور کارل مانہائم کو درسی نصابوں میں اس علم کے بانی مفکرین قرار دیا جاتا ہے۔ ان نصابوں میں شارلٹ پرکنز، ماریانے ویبر اور فریڈرک اینگلز کو عمرانیات کی نسائی روایت کے بانی کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر مفکر کے ہاں ایک مخصوص تناظر اور زاویہ نگاہ ہے۔

مارکس اور اینگلز نے سرمایہ داری کے ترقی پانے کے ساتھ جدید معاشرے کے ابھرنے کا پتہ دیا؛ دورخائم کے نزدیک اس کا تعلق صنعت پذیری اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی تقسیمِ محنت سے ہے۔ ویبر کے نزدیک یہ ایک ممتاز طرز فکر اور عقلی حساب کتاب سے متعلق ہے، جسے وہ پروٹسٹنٹ اخلاقیات سے جوڑتا تھا۔ ان سب کلاسیکی ماہرین عمرانیات کے کاموں کو گڈنز نے حال میں 'جدت کے اداروں پر کثیر جہتی نظر' قرار دیا ہے، جو جدت کے کلیدی اداروں کے طور پر ناصرف صنعت پذیری اور سرمایہ داری کی تلقین کرتے ہیں، بلکہ 'نگرانی (یعنی معلومات پر قابو اور سماجی نگرانی) اور 'فوجی قوت' (جنگ کی صنعت پذیری کے لیے تشدد کے طریقوں پر قابو) کی بھی۔

جان ہیرس؛ دی سیکنڈ گریٹ ٹرانسفارمیشن؟ کیپیٹل ازم ایٹ دی اینڈ آف ٹونٹی اتھ سنچری: مطبوعہ 1992

اثباتیت اور ضدِ اثباتیت[ترمیم]

اثباتیت[ترمیم]

اثباتیت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ عمرانیات کو وسیع تر انداز میں فطری سائنس کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ عمرانیاتی تحقیق کو آزمودہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے تجربیت اور سائنسی طریقہ کار پر زور دیا جانا چاہیے، اس خیال کے ساتھ کہ معتبر علم صرف سائنسی علم ہی ہے اور ایسا علم سائنسی طریقہ کار کی یقین دہانی کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارا مرکزی ہدف سائنسی معقولیت کو انسانی رویوں تک پھیلانا ہے۔۔ ہمارے معنوں میں اثباتیت وہی ہے جو معقولیت کا نتیجہ ہو۔

ایمیلے دورخائم؛ دی رُولز آف سوشیالوجیکل میتھڈ، مطبوعہ 1895ء

اس اصطلاح کو یہ معنی ایک طویل عرصے میں حاصل ہوئے ہیں؛ اثباتیت کو لے کر الگ الگ علمیاتی حوالوں کی تعداد بارہ سے کم نہیں ہو گی۔ ان میں سے کئی ایک طرز فکر خود کو "اثباتیت پسند" کی شناخت نہیں دیتے، کچھ اس لیے کہ وہ خود اثباتیت کی پرانی شکل سے اختلاف رکھ کر سامنے آئے تھے، جبکہ کچھ اس لیے کہ یہ شناخت تصوراتی تجربیت کے ساتھ غلط کڑیاں ملانے کی وجہ سے غلط اصطلاحی استعمال کا شکار رہی ہے۔ رد اثباتیت پسند تنقید کے کئی ایک رخ ہیں، کچھ کی تنقید سائنسی طریقہ کار پر ہے، جبکہ کچھ اسے بیسویں صدی کی فلسفہء سائنس میں ہونیوالی پیش رفت مان کر اس میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاہم اثباتیت کو (بہ الفاظ دیگر وسیع تر معنوں میں معاشرے کے مطالعے کا سائنس انداز) اب بھی معاصر عمرانیات میں غالب ترین رجحان ہے، بالخصوص امریکا میں۔

لوئس واکوانت اثباتیت کی تین اہم شاخیں بیان کرتا ہے: دورخائم، منطقی اور میکانیکی۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی کومتے کی تعینات سے مشابہہ نہیں ہے، جو اثباتیت کے سخت گیر (اور شاید نیک نیت) مسلک کی وکالت میں منفرد تھا۔ اگرچہ دورخائم نے کومتے کے فلسفے کی بہت سی جزویات کو رد کیا ہے، تاہم اس نے اس کے طریقہ کار کو ناصرف تسلیم کیا بلکہ اس میں بہتری بھی لایا۔ اس نے تسلیم کیا کہ سماجی سائنسی علوم، انسانی سرگرمی کے میدان میں فطری علوم کا ہی منطقی تسلسل ہیں، اس نے زور دیا کہ سبب اور مسبب کے انداز فکر میں بھی وہی معروضیت اور معقولیت قائم رہنی چاہیے۔ اس نے عمرانیات کی سائنس میں مطالعے کے لیے معروضی "سماجی حقائق" کا خیال وضع کیا۔

عصرِ حاضر میں اثباتیت کی سب سے غالب سمجھی جانے والی شاخ میکانیکی اثباتیت ہے۔ یہ طرز عمل طریقہ کار کی وضاحت، اعتبار، اعادہ پذیری اور سند کا خیال رکھنے کی وجہ سے علمیاتی اور مابعدالطبیعیاتی معاملات (مثلا سماجی حقائق کی نوعیت) میں پڑنے سے گریز کرتا ہے۔ یہ اثباتیت کم و بیش 'مقداری تحقیق' کی ہم معنی ہے اور پرانی اثباتیت کی واحد شاخ ہے جو ابھی تک عمل میں لائی جاتی ہے۔ چونکہ یہ طرز عمل کسی فلسفیانہ وابستگی کا حامل نہیں ہوتا، اس لیے اس کے ذریعے کسی بھی مکتب فکر کا محقق اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس طرز کی جدید عمرانیات کا سہرا کافی حد تک پال لیزرسفیلڈ کے سر جاتا ہے، جس نے بڑے پیمانے پر سروے مطالعات کی نیو رکھی اور ان کے تجزیے کا شماریاتی طریقہ تیار کیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. 1967ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 420:3
  2. 1987ء، حصار، 11