مغلیہ باغات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تاج محل میں مغلیہ باغات
شالیمار باغ, لاہور
شالیمار باغ, کشمیر

مغلیہ باغات کئی باغات ہیں جو مغل دور حکومت میں اسلامی طرز تعمیر پر قائم کیے گئے۔ یہ طرز تعمیر فارسی باغات اور تیموری سلطنت کے باغات کے طرز تعمیر کا اثر سموئے ہوئے ہیں۔ چاردیواری میں گھرے یہ باغات لمبوتری ترتیب میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان باغات کی چیدہ نشانیوں میں تالاب، فوارے اور نہریں ہیں جو باغات کے وسط میں تعمیر کی گئی ہیں۔

تاریخ[ترمیم]

سلطنت مغلیہ کے پہلے شہنشاہ بابر نے اپنے پسندیدہ باغات کی قسم چہار باغ کو گردانا ہے۔ یہ اصطلاح برصغیر میں بالکل نئی تھی، بابر کے مطابق ہندوستان میں وسط ایشیاء کے خاص چہار باغات کی طرح یہاں باغات میں نہریں تعمیر کرنے کا رواج عام نہیں ہے۔ باغ آگرہ جو اب رام باغ کہلاتا ہے، مغلیہ طرز تعمیر میں پہلا چہار باغ تھا جو تعمیر کیا گیا۔ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں کئی مغلیہ باغات ہیں جو وسط ایشیاء کے باغات سے ممتاز ہیں، یہ تمام باغات جیومیٹری کے قوانین کی رو سے انتہائی نفیس اور معیاری تسلیم کیے جاتے ہیں۔ مغلیہ باغات بارے قدیم ترین تحاریر کا حوالہ مغل شہنشاہوں کی آپ بیتیوں سے دیا جاتا ہے۔ ان کتب میں بابر، ہمایوں اور اکبر کی آپ بیتیاں نہایت مستند تصور کی جاتی ہیں۔ بعد میں یورپی سیاحوں کی تحاریر بھی تحقیق میں استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں ایک مثال برنئیر کا سفرنامہ ہے۔ پہلی بار مغلیہ باغات کی تاریخ پر سنجیدہ تحریر کانسٹانس ولئیرز سٹورٹ نے قلمبند کی جو “عظیم مغلوں کے باغات“ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ کتاب 1913ء میں تحریر کی گئی۔ مصنفہ کے شوہر برطانوی فوج میں کرنل تھے، اسی بنیاد پر انھیں اس حوالے سے کئی مستند روابط اور حوالہ جات کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سفر کرتے ہوئے کوئی مشکل درپیش نہ تھی۔ اپنے شوہر کے ہمراہ جب وہ باغات پنجور میں رہائش پزیر تھیں تو انھیں اسلامی، مغلیہ طرز تعمیر کو نزدیک سے جاننے کا خوب موقع ملا اور ساتھ میں انھوں نے اس اہم مغلیہ باغ کی تزئین و آرائش کا بندوبست بھی کیا۔ اس باغ کی دیکھ بھال برطانوی حکومت نے مصنفہ کے ذمہ لگائی اور اسی صورت وہ اس موضوع پر متجسس رہیں اور ہمیں آج مغلیہ باغات بارے انتہائی مستند اور سنجیدہ تحاریر میسر ہیں۔ مسز ولئیرز سٹورٹ کی کتاب بعد میں نئی دہلی میں گورنر ہاؤس کے باغ (اب یہ باغ راشٹر پتی بھاون کہلاتا ہے) کے ڈیزائن اور تعمیراتی انداز میں بطور حوالہ استعمال کی گئی۔ اسی بارے مزید تحقیق کئی یورپی اور امریکی تحقیق دانوں نے سر انجام دی اور اب کئی کتب اس موضوع پر دستیاب ہیں، مگر اب بھی مغل بادشاہوں کی کتب اور مسز ولئیر سٹورٹ کی کتاب مستند تسلیم کی جاتی ہے۔ مغلیہ باغات کی چند مثالیں شالیمار باغ لاہور، لالہ باغ قلعہ ڈھاکہ اور شالیمار باغ کشمیر ہیں۔
مغلیہ سلطنت کے اوائل دور سے ہی باغات کی تعمیر اور دیکھ بھال شروع کی جا چکی تھی۔[1] شہنشاہ بابر جو مغلیہ سلطنت کا پہلا بادشاہ تھا نے لاہور اور ڈہول پور کے مقام پر باغات تعمیر کروائے۔ بابر کا بیٹا ہمایوں جو باغات کی تعمیرات میں امور سلطنت کی وجہ سے دلچسپی نہ رکھتا تھا مگر پھر بھی تعمیر شدہ باغات کی تزئین و آرائش کا خاص اہتمام کرواتا تھا۔[2]
شہنشاہ اکبر نے کئی باغات دہلی میں تعمیر کروائے اور پھر جب دار السلطنت آگرہ منقتل ہوا تو کئی نئے باغات کی تعمیر وہاں بھی شروع کروائی گئی۔[3] یہ باغات غیر روایتی طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور دریا کے کنارے پر طرز میں تعمیر میں جدت اور نفاست لائی گئی تھی۔ شہنشاہ اکبر کے بعد کے مغل بادشاہوں نے قلعوں میں باغات تعمیر کروائے، اسی وجہ سے یہ باغات ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، جو دریا کے کنارے پر تعمیر کیے گئے تھے۔
شہنشاہ اکبر کے جانشین جہانگیر نے باغات کی تعمیرات میں سنجیدگی سے دلچسپی تو نہ لی مگر شالیمار باغ کے لیے نقشہ جات اور ڈیزائن کی تیاری میں خوب حصہ لیا، کہا جاتا ہے کہ جہانگیر نے یہ شالیمار باغ میں پھولوں کی بوائی کی نسبت سے طرز تعمیر کو نیا رخ دینے کی کوشش کی ہے۔[4] لاہور میں شالیمار باغ کی تعمیر و اچھوتے طرز تعمیر کی آگاہی کے بعد ہی جہانگیر نے کشمیر کے اپنے سفر کے دوران وہاں جموں کشمیر میں اسی طرز کے علاحدہ شالیمار باغ کی تعمیر کا آغاز کروایا۔[5]
شہنشاہ جہانگیر کا فرزند شاہ جہاں، مغلیہ باغات میں جدت لانے کے حوالے سے مشہور ہے۔ شاہ جہاں جو نہایت رومانوی طبیعت کا حامل تھا اور تاج محل کی تعمیر کے حوالے سے مشہور ہے، جو اس نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔[6] شاہ جہاں نے ہی دہلی کا لال قلعہ بھی تعمیر کروایا جس میں مہتاب باغ واقع ہے، یہ باغ رات کے لیے مخصوص تھا اور یہاں رات کو کھلنے والے چنبیلی کے پھول اور دوسرے سفید رنگت والے پھول اگائے گئے تھے۔[7] اس باغ میں واقع راہدریاں اور بالکونیاں سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئیں ہیں جو چاند کی روشنی میں نہایت سحر انگیز سماں باندھ دیتی ہیں۔ اس باغ اور تاج محل میں استعمال ہونے والا سنگ مرمر نہایت قیمتی ہے اور شہنشاہ اکبر کے اس کو ذاتی نشان کے طور پر متعارف کروایا گیا۔[8]
مغلوں کی اپنے باغات سے رغبت اور یادگاروں کی تعمیر سے جنون کی حد تک دلچسپی ہی دراصل ان باغات کی تعمیر کا سبب بنی تھی۔ قرانی آیات میں جنت کے باغات کے حوالے سے طرز تعمیر، ڈیزائن اور نباتاتی زندگی کا چناؤ کچھ ایسے عوامل تھے جنھیں خاص طور پر تعمیر میں مدنظر رکھا جاتا تھا۔ کئی موقعوں پر تو خاندانی جاہ و جلال، ثقافتی پہلو اور علم نجوم کے حوالوں کو بھی تعمیر کے دوران کچھ اس طرح ترتیب دیا جاتا کہ وہ چہار باغ طرز تعمیر میں جدت ہی لاتا۔ مثال کے طور پر ان باغات میں ریاضی کے ہندسے آٹھ (8) اور نو (9) کو خاص اہمیت حاصل تھی، شاہی نجومیوں نے مغل بادشاہوں کو یہ باور کروایا کہ باغات کی تعمیر میں ان ہندسوں کی مدد سے وہ نہ صرف خاندانی جاہ و جلال برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اس طرح ان کی مغلیہ سلطنت کو دوام بھی میسر رہے گا۔ کہنے کو یہ توہمات میں شمار کیا جا سکتا ہے مگر مغل بادشاہوں نے اسلامی طرز تعمیر کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے علم نجوم کو بھی تعمیرات میں اہمیت دی۔[9]
مغلیہ باغات کے طرز تعمیر پر اسلامی تعمیراتی اصولوں کی چھاپ نہایت واضع ہے، ساتھ میں مغلوں کی ترک اور منگول طرز تعمیر بھی یہاں جا بجا دیکھی جا سکتی ہے۔ اسلامی اور ترک طرز تعمیر کا ملاپ ہی دراصل ان باغات کی اہمیت و خوبصورتی کا سبب ہے۔ جولی سکاٹ میسامی کے مطابق ان باغات کی خصوصیات میں چار دیواری، باہر کی دنیا سے دور، طرز تعمیر نہایت روایتی اور باغات کے اجزاء ان اشیاء پر مشتمل ہیں جن سے ایک انسان قدرتی طور پر محظوظ ہو سکتا ہے۔ ان باغات کے انتہائی لازم اجزاء میں بہتا پانی اور تالاب ہیں، جو آسمان اور باغ کی خوبصورتی کو منعکس کر سکیں۔ دوسرا اہم جز درخت ہیں جو دو مختلف اقسام یعنی سایہ دار اور پھلدار درختوں پر مشتمل ہیں۔ پھول، گھاس اور تازہ ہوا ان باغات کی تیسری جز تسلیم کی جاتی ہے۔ باغ کے وسط میں نسبتاً اونچائی پر تعمیرات بھی ان باغات کا خاصہ ہیں، یہ تعمیرات بالکونی، بارہ دری، راہدری یا پھر مٹی سے بنایا گیا پہاڑی نمونہ۔ تاریخ دانوں کے مطابق یہ تعمیرات دراصل مغل شہنشاہوں کے اس خیال کو ظاہر کرتی ہیں جو تاریخ میں کائنات کے وسط نقطے سے وابستہ ہے، یعنی باغ کے عین وسط میں وہ مقام جہاں تمام باغ اور تعمیرات کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔[10][11] مغلیہ باغات میں ترک۔ منگول طرز تعمیر کا اثر باغات میں خیموں، قالینوں، کنوپیوں کی تنصیب اور نباتاتی طور پرجھاڑی دار پودوں کی افزائش سے لگایا جاتا ہے۔ خیمے دراصل منگول معاشرے کی جبکہ قالین اور دوسرے کپڑے اور اون سے بنے تزئینی اجزاء دولت اور ترک جاہ جلال کو ظاہر کرتے تھے۔[12]

مغلیہ باغات کا محل وقوع[ترمیم]

لاہور، پاکستان میں مغلیہ باغ کی ایک مثال

افغانستان[ترمیم]

بھارت[ترمیم]

پاکستان[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جیلکو سوسن۔ “مغلیہ باغات کی ترقی” اور میک ڈوگال، الزبتھ بی۔; اتنگھاسن، رچرڈ۔ “اسلامی باغات“, ڈمبرٹن اوکس، , واشنگٹن ڈی۔ سی (1976ء). صفحہ 109
  2. حسین، محمود; عبد الرحمان; جیمز ویسٹکوٹ مغلیہ باغات: تعمیر تزئین و انصرام، فیروز سنز لمیٹڈ۔, لاہور (1996ء). صفحہ 207
  3. کوچ ابے۔ “مغلیہ محلات میں باغات کی تعمیر کا جائزہ” | حسین، محمود; عبد الرحمان; جیمز ویسٹکوٹ مغلیہ باغات: تعمیر تزئین و انصرام، فیروز سنز لمیٹڈ۔, لاہور (1996ء). صفحہ 55
  4. جیلکو سوسن۔ “مغلیہ باغات کی ترقی” اور میک ڈوگال، الزبتھ بی۔; اتنگھاسن، رچرڈ۔ “اسلامی باغات“, ڈمبرٹن اوکس، , واشنگٹن ڈی۔ سی (1976ء). صفحہ 115
  5. الزبتھ بی۔ مغلیہ ہندوستان اور فارس میں باغات، جنت کی مثال، سکالر پریس، لندن (1982)صفحات 123-121.
  6. ولئیرز سٹورٹ، سی۔ ایم عظیم مغلوں کے باغات، ایڈم اینڈ چارلز، لندن (1913ء). صفحہ۔ 53.
  7. جیلکو سوسن۔ “مغلیہ باغات کی ترقی” اور میک ڈوگال، الزبتھ بی۔; اتنگھاسن، رچرڈ۔ “اسلامی باغات“, ڈمبرٹن اوکس، , واشنگٹن ڈی۔ سی (1976ء). صفحہ 121
  8. فارسی شاعری میں سفید پھول کو رومانوی سمجھا جاتا ہے۔. مئیسامی، جولی سکاٹ۔ “باغات اور پھولوں کا فارسی شاعری میں اثر: نظامی، رومی، حفیظ،” انٹرنیشل جرنل آف مڈل ایسٹ سٹڈیز، والیم۔ 17, نمبر۔ 2 (مئی، 1985ء), صفحہ۔ 242
  9. الزبتھ بی۔ مغلیہ ہندوستان اور فارس میں باغات، جنت کی مثال، سکالر پریس، لندن (1982)صفحہ 100.
  10. فارسی شاعری میں سفید پھول کو رومانوی سمجھا جاتا ہے۔. مئیسامی، جولی سکاٹ۔ “باغات اور پھولوں کا فارسی شاعری میں اثر: نظامی، رومی، حفیظ،” انٹرنیشل جرنل آف مڈل ایسٹ سٹڈیز، والیم۔ 17, نمبر۔ 2 (مئی، 1985ء), صفحہ۔ 231
  11. الزبتھ بی۔ مغلیہ ہندوستان اور فارس میں باغات، جنت کی مثال، سکالر پریس، لندن (1982)صفحہ 1.
  12. الیس، تھامس۔ منگول تاریخ، کیمبرج یونیورسٹی پریس (1997ء). صفحہ 26-12

بیرونی روابط[ترمیم]