مقلد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسلسلہ شرعی علوم
علم فقہ

مقلد لفظ کا ذکر قرآن یا صحیح احادیث میں موجود نہیں ہے۔ مقلد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تقلید کو سمجھا جائے۔

تقلید کا مفہوم فقہ حنفی اور حنفی علما کے اقوال کی روشنی میں

تقلید کی لغوی تعریف[ترمیم]

مقلدین کی لغت کی مستند کتاب القاموس الوحید میں لکھا ہے:

  1. قلّد۔۔ فلاناً: ۔ تقلید کرنا، بنا دلیل پیروی کرنا، آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنا[1]
  2. التقلید: بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی [1]
  3. امام شوکانی فرماتے ہیں:

اما التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیر بہاومنہ تقلید الہدی فکان المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ

یعنی تقلید لغت میں گلے میں ڈالے جانے والے پٹے سے ماخوذ ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں مقلد جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا ہے۔[2]

4. اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

گردن بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن

یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے ذمے کوئی کام لگانے کا نام ہے۔ اسی طرح اپنے ذمہ کوئی کام لینا بھی تقلید کہلاتا ہے، اس کے مجازی معنیٰ یہ ہیں کہ حقیقت معلوم کیے بغیر کسی کی تابعداری کی جائے۔[3]

تقلید کی اصطلاحی تعریف[ترمیم]

  • حنفیوں کی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں لکھا ہے:

”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“

تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی علیہ الصلاة و السلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علما(متفق)ہیں“۔[4]

”مسالة:التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ“ مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔ پس نبی علیہ الصلاة و السلام اور اجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔[5][ملاحظہ 1]

  • تقلید کی ایک اور مشہور اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے: ”ھو عمل بقول الغیر من غیر حجة“ کسی دوسرے کی بات پر بغیر (قرآن وحدیث کی) دلیل کے عمل کرنا تقلید ہے۔[6]
  • قاری چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے: ”اور تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بنا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا یہی تقلید ہے“[7]
  1. مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے: کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ ص67)
  • اشرف علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے: ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور رسول علیہ الصلاة والسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔[8]
  • مفتی احمد یار نعیمی حنفی بریلوی لکھتے ہیں: ”مسلم الثبوت میں ہے، ”التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجة“ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلاةوالسلام کی اطاعت کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا ہر قول دلیل ِ شرعی ہے (جبکہ) تقلید میں ہوتا ہے دلیل ِ شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم نبی علیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی کہلائیں گے نہ کے مقلد۔ اسی طرح صحابہ کرام اور ائمہ دین حضورعلیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی ہیں نہ کہ مقلد اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان علما کی بات یا ان کے کام کو اپنے لیے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔۔[9]
  • غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے: تقلید کے معنی ہیں (قرآن و حدیث کے ) دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی امام کہ قول کو کتاب و سنت کہ موافق پا کر اور دلائل ِ شرعیہ سے ثابت جان کر اس قول کو اختیار کر لینا۔[10]
  • سرفرازخان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداء و اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے۔[11]
  • امام شافعی فرماتے ہیں: تقلید ایسی بات کے ماننے کو کہتے ہیں جس کی حیثیت اور ماخذ معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کے ماننے کو علم نہیں کہتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ اس (آیت) میں اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کہ گمان اور تقلید کا ۔[12] [ملاحظہ 2]

مقلدین[ترمیم]

اس وقت دنیا میں مقلدین کے یہ گروہ موجود ہیں:

  1. امام ابو حنیفہ (متوفی 150ھ)
  2. امام مالک ( م 189ھ)
  3. امام شافعی204ھ)
  4. امام احمد بن حنبل241ھ)
  5. امام داؤد ظاہری270ھ)
  6. امام جعفر صادق15 شوال 148ھ)

ان چاروں ائمہ کرام میں سے کسی بھی فقہی مکتب فکر کی پیروی کرنے والے کو مقلد کہتے ہیں۔ جیسے امام ابو حنیفہ کے مقلدین کو حنفی، امام مالک کے مقلدین کو مالکی اور امام شافعی کے مقلدین کو شوافع اور امام احمد بن حنبل کے مقلدین کو حنبلی کہا جاتا ہے۔[13] اور امام داؤد ظاہری کو ظاہری کہا جاتا ہے۔ جبکہ امام جعفر کے مقلدین جعفری کہلاتے ہیں،

ملاحظات[ترمیم]

  1. نبالکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج 3ص 354،454 اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج 2ص8711 میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے)
  2. بریلویوں،دیوبندیوں اور علمِ اصول کے علما کی ان تعریفوں سے درج باتیں ثابت ہوتی ہیں:
    • کسی دوسرے شخص کی بات پر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے بغیر عمل کرنا ”تقلید “ ہے۔
    • احادیث پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
    • اجماع پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
    • علما کی بات پر ( دلیل جان کر) عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ یہ اتباع کہلاتا ہے۔
    • اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں۔
    • صرف اس گمان اور قیاس پر امام کی اندھا دھند تقلید کرنا کہ اُس کی بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی باطل ہے، کیونکہ اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کے گمانوں اور قیاس آرائیوں کا (دیکھیے امام شافعی کی آخری تعریف)۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب القاموس الوحیدص:6431
  2. ارشاد الفحول ص:144
  3. غیاث الغات ص:301
  4. المسلم الثبوت ص982 طبع 6131ھ وفواتح الر حموت ج2 ص004
  5. تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول ج 3ص354
  6. ارشاد الفحول ص144، شرح القصیدة الامالیة لملا علی القاری حنفی و تفسیر القرطبی 2112
  7. غیر مقلدین سے چند معروضات ص1 عرض نمبر 1
  8. الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج3ص951 ملفوض:822
  9. جاءالحق ج1 ص61 طبع قدیم
  10. شرح صحیح مسلم ج5ص36
  11. المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص53
  12. فقہ اکبر للشافعی رحمہ اللہ ص01
  13. "http://www.ahnafexpose.com/"۔ 08 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولا‎ئی 2016  روابط خارجية في |title= (معاونت)