منصوراختر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(منصور اختر سے رجوع مکرر)

منصور اختر ٹیسٹ کیپ نمبر 86
ذاتی معلومات
مکمل ناممنصور اختر
پیدائش (1957-12-25) 25 دسمبر 1957 (age 66)
کراچی، سندھ، پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا آف اسپن گیند باز
حیثیتآل راؤنڈر
تعلقاتفواد عالم (داماد)[1]
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 86)24 نومبر 1980  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
آخری ٹیسٹ12 جنوری 1990  بمقابلہ  آسٹریلیا
پہلا ایک روزہ (کیپ 29)21 نومبر 1980  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
آخری ایک روزہ3 جنوری 1990  بمقابلہ  آسٹریلیا
ملکی کرکٹ
عرصہٹیمیں
1974/75–1990/91کراچی
1975/76–1997/98کراچی
1976/77–1978/79سندھ
1978/79–1996/97یونائیٹڈ بینک
1988/89–1990/91کراچی
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس لسٹ اے
میچ 19 41 240 183
رنز بنائے 655 593 13,804 5,445
بیٹنگ اوسط 25.19 17.44 37.71 35.35
100s/50s 1/3 0/0 28/69 4/37
ٹاپ اسکور 111 47 224* 153*
گیندیں کرائیں 138 2,536 1,204
وکٹ 2 37 25
بالنگ اوسط 55.00 37.83 40.24
اننگز میں 5 وکٹ 0 0 0
میچ میں 10 وکٹ n/a 0 n/a
بہترین بولنگ 1/7 3/24 3/25
کیچ/سٹمپ 9/– 14/– 167/2 53/–
ماخذ: کرک انفو، 19 ستمبر 2011

منصور اختر (پیدائش: 25 دسمبر 1957ء کراچی، سندھ) ایک سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں جنھوں نے 1980ء سے 1990ء تک 19 ٹیسٹ اور 41 ایک روزہ میچز کھیلے۔ دائیں ہاتھ کے بلے باز منصور اختر نے پاکستان کے علاوہ کراچی، سندھ اور یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ کی طرف سے بھی کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا ان کے داماد فواد عالم نے بھی پاکستان کی طرف سے 19 ٹیسٹ اور 38 ایک روزہ میچز کھیل رکھے ہیں۔

ابتدائی کرکٹ[ترمیم]

منصور اختر نے صرف 19 سال کی عمر میں انھوں نے 7 اور 8 فروری 1977ء کو کراچی وائٹس کے لیے نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں کوئٹہ کے خلاف کھیلتے ہوئے وحید مرزا کے ساتھ پہلی وکٹ کے لیے 561 کا عالمی ریکارڈ بنایا۔ یہ شراکت اب بھی پہلی وکٹ کے لیے بہترین شراکت کا ریکارڑ رکھتی ہے جسے ترتیب دینے میں انھیں ساڑھے 6 گھنٹے لگے تھے۔

ٹیسٹ کرکٹ کی کارکردگی[ترمیم]

منصور اختر کو ویسٹ انڈیز کے خلاف 1980ء میں لاہور کے مقام پر ٹیسٹ کیپ سے نوازا گیا تھا منصور اختر اس پہلے موقع سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ لاہور اور فیصل آباد کے دونوں اولین مقابلوں میں وہ کوئی بڑی اننگ نہ کھیل سکے۔ 1981ء میں انھیں آسٹریلیا کے خلاف بیرون دورے پر لے جایا گیا جہاں پرتھ میں 6 اور 36 رنز ان کے حصے میں آئے۔ 1982ء میں سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں بھی 6 اور 23 کعی باریاں ان کی کارکردگی پر بدترین سوالات اٹھا رہی تھیں۔ اسی سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ منصور اختر نے سائیڈ میچز میں تسلسل کے ساتھ رنز سکور کیے اور اسی بنا ر ان سے امید تھی کہ وہ ٹیسٹ میچوں میں بھی رنز بنائیں گے۔ برمنگھم کے ٹیسٹ میں انھوں نے 58 رنز کے ساتھ اپنی پہلی نصف سنچری بنائی جس میں پاکستان کو 113 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انگلستان نے دونوں اننگز میں 272 اور 291 رنا بنائے۔ پاکستان کی ٹیم 251 رنز بنا سکی۔ اس میں منصور اختر نے 28 رنز سکور کیے جو اننگ کا سب سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔ دوسری اننگ میں اکستان کو جیتنے کے لیے 313 رنز کا ہدف دیا گیا مگر ساری ٹیم 199 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ کپتان عمران خان 65 کے ساتھ نمایاں سکورر رہے۔ منصور اختر بغیر کوئی رن بنائے ایان بوتھم کی گیند پر باب ٹیلر کو کیچ دے گئے۔ لارڈز کے اگلے ٹیسٹ میں اس نے واحد اننگ میں 57 رنز کی باری کھیل ڈالی۔ اس میچ میں پاکستان نے 10 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے بدلہ اتار دیا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 428 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی تھی۔ محسن حسن خان 200، ظہیر عباس 70 اور منصور اختر نے اپنی دوسری نصف سنچری 57 رنز بنائے۔ 143 گیندوں پر 173 منٹ میں 7 جچوکوں کی مدد سے یہ باری سامنے آئی تھی۔ انگلش ٹیم 227 رنز پر فالو آن ہوکر دوسری بار میں بھی 276 رنز بنا سکی اور پاکستان نے سیریز 1-1 سے ڈرا کردی۔ لیڈز کے آخری ٹیسٹ میں منصور اختر دوسری اننگ میں 39 رنز بنا سکے۔ پہلی اننگ میں وہ ایک صفر پر ہی کریز سے رخصت ہو گئے تھے۔ 1982ء کے سیزن میں آسٹریلیا کے دورہ پاکستان میں انھوں نے کراچی ٹیسٹ میں 32 اور 26 ناٹ آئوٹ رنز بنائے تاہم فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری کا کھاتہ کھولا جو ان کے ٹیسٹ کیریئر کی واحد سنچری تھی۔ یہ فیصل آباد ٹیسٹ تھا جس میں پاکستان نے 6 وکٹوں پر 501 رنز پر اننگ ڈکلیئر کردی جس میں ظہیر عباس اور منصور اختر 111، مدثر نذر 79، محسن خان 76 اور ہارون رشید 51 کی باریاں شامل تھیں۔ منصور اختر نے اپنی سنچری 191 گیندوں پر 289 منٹ میں 18 چوکوں کی مدد سے بنائی۔ آسٹریلیا کی ٹیم فالو آن پر مجبور ہوئی جب وہ 168 رنز پر ہی پویلین لوٹ گئی تھی۔ دوسری باری میں وہ اگرچہ 330 رنز تک پہنچ گئے تھے مگر ایک اننگ اور 3 رنز سے ان کی شکست نہ ٹل سکی۔ لاہور کے آخری ٹیسٹ اور بھارت کے خلاف ہوم سیریز کے 3 ٹیسٹ میچوں میں بھی ان سے رنز نہ بن سکے اور وہ مواقع ملنے پر ان سے فائدہ اٹھانا ہی بھول گئے۔ اس لیے انھیں اگلے 4 سال تک باہر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے سلیکٹر ان کو بھول ہی گئے ہوں۔ 1987ء میں جب پاکستان کی ٹیم انگلستان کے دورے پر گئی تو انھیں ایک بار پھر ٹیم کے ہمراہ انگلستان کی سرزمین پر اتارنا نصیب ہوا۔ مانچسٹر کے پہلے ٹیسٹ میں 75 رنز کی باری کھیل کر امید پیدا ہوئی کہ اس بار وہ گذشتہ دورے کا داغ دھوئیں گے۔ انگلستان کے 447 رنز کے جواب میں پاکستان نے صرف 140 رنز ہی بنائے تھے کہ میچ کا وقت ختم ہو گیا۔ منصور اختر کے 75 رنز 182 گیندوں پر وجود میں آئے تھے۔ اس نے 29، 26، 17 اور 5 رنز ہی سکور کیے اس لحاظ سے ان کا کھیل انتہائی مایوس کن تھا جس کی وجہ سے ایک بار پھر انھیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا اور پھر 3 سال کے بعد 1990ء میں ان کا ایک بار پھر قسمت کا ستارہ چمکا اور انھیں آسٹریلیا کے دورے میں ٹیم میں طلب کیا گیا مگر میلبورن کے واحد ٹیسٹ میں شرکت ان کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا جہاں انھوں نے 5 اور 14 رنز بنانے کے علاوہ 2 کیچز بھی لے کر اپنے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام کیا۔

ایک روزہ کیریئر[ترمیم]

منصور اختر کو ایک روزہ مقابلوں کے لیے بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف ہی 1980ء میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا ان کا ایک روزہ کیریئر بھی ملی جلی کارکردگی سے مزین نظر آتا ہے۔ انھوں نے 41 میچ کھیل کر بھی کوئی بڑی اننگ ٹیم کے سپرد نہیں کی۔ اپنے پہلے میچ میں انھوں نے 24 رنز بنائے۔ اس کے بعد 1981ء کے بینسن اینڈ ہیجز ٹرائی اینگولر ٹورنامنٹ کے 6 میچوں میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف 2، 12، 5، 13، 40 اور 4 رنز کی اننگ تک ہی رسائی مل سکی۔ 40 رنز اس نے آسٹریلیا کے خلاف سڈنی کے مقام پر بنائے تھے جس میں 4 چوکے بھی شامل تھے اور 55 گیندوں پر 81 منٹ میں یہ اننگ مکمل ہوئی تھی۔ میچ پاکستان کی 76 رنز کی شکست پر ختم ہوا۔ 1982ء میں سری لنکا کے خلاف 3 ون ڈے میچوں کی سیریز میں کراچی کے مقام پر 31 کی اہم اننگ سامنے آئی۔ انگلستان کے خلاف مانچسٹر میں 28 رنز کی بھی ایک باری دیکھنے کو ملی جبکہ بھارت کے خلاف 1982ء میں گوجرانوالہ میں 21 ناقابل شکست رنز ہی ہمیں دیکھنے کو ملے۔ 1984ء کے بینسن اینڈ ہیجز ٹرائی اینگولر ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں 33 اور ویسٹ انڈیز کے خلاف 32، برسبین میں آسٹریلیا کے خلاف 47 رنز کی باریاں ہی اس کی کارکردگی پیش کررہی تھیں۔ 1987ء کے چوتھے عالمی کپ مقابلوں میں انگلستان کے خلاف 29 اور فیصل آباد میں 33 رنز سکور کیے۔ 1990ء میں میلبورن کے آخری میچ میں آسٹریلیا کے خلاف 32 رنز ان کی قابل ذکر باریاں تھیں۔ یوں ان کا ایک روزہ بین الاقوامی کیریئر بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔

میچ فکسنگ کا تنازع[ترمیم]

7 اگست 2019ء کو، منصور اختر، بھارت سے تعلق رکھنے والے رمیش گپتا نامی ایک اور شخص کے ساتھ ایک تنازع میں ملوث ہو گئے ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے گلوبل T20 کینیڈا ٹورنامنٹ کے دوسرے ایڈیشن کے دوران پاکستانی کرکٹ کھلاڑی عمر اکمل سے میچ فکسنگ کے لیے رابطہ کیا۔ تاہم عمر اکمل نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹورنامنٹ کے حکام سے رجوع کرنے کی اطلاع دی۔ اینٹی کرپشن حکام نے تمام شریک ٹیموں کو اختر اور رمیش گپتا سے دور رہنے کی ہدایت کی۔ منصور اختر نے عمر اکمل سے ملاقات کا اعتراف کیا لیکن فکسنگ کے الزامات کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

اعداد و شمار[ترمیم]

منصور اختر نے 19 ٹیسٹ میچوں کی 29 اننگز میں 3 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 655 رنز سکور کیے۔ 111 ان کا کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا جبکہ 25.19 ان کی فی اننگ اوسط رہی۔ ایک سنچری اور 3 نصف سنچریاں، 9 کیچز کے ساتھ ان کی کارکردگی کو بیان کررہی ہیں۔ منصور اختر نے 41 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی 35 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 593 رنز کا مجموعہ حاصل کیا۔ 17.44 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 47 اس کا کسی ایک اننگز کا سب سے زیادہ سکور تھا جبکہ 240 فرسٹ کلاس میچوں کی 401 اننگز میں 35 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر اس نے 13804 رنز 37.71 کی اوسط سے بنائے جس میں 224 ناقابل شکست رنز اس کی کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا جبکہ 28 سنچریاں اور 69 نصف سنچریاں اس کی بیٹنگ کا چمتکار تھیں۔ منصور اختر نے ایک روزہ مقابلوں میں 2 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 25 وکٹیں بھی حاصل کیں[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Cricketing Dynasties: The Twenty Two Families of Pakistan Test Cricket – Part 6"۔ The News International 
  2. https://www.espncricinfo.com/player/mansoor-akhtar-41263