میثم تمار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میثم تمار
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 7ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 679ء (28–29 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات تصلیب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میثم تمّار اسدی
آرامگاہ میثم تمار
معلومات شخصیت
نام:میثم بن یحیی تمّار اسدی
لقب:تمار
مقام سکونت:کوفہ
شہادت:ذوالحجہ 60ہجری قمری۔
مقام دفن:عراق، کوفہ
اصحاب:امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے نمایاں صحابی
تالیفات:تفسیر قرآن، حدیث کے موضوع پر ایک کتاب
مذہب:شیعہ

میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔[1]

امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیر المومنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔[2] میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کیے۔[3] وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انھیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔

نسب[ترمیم]

وہ عجمی تھے لیکن چونکہ بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے، اسی قبیلے سے منسوب کیے گئے ہیں۔[4] بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمھارے عجمی والدین نے تمھارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی[5]؛ امیر المومنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمھیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔ ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی۔[6]

شغل[ترمیم]

میثم بازار کوفہ میں کھجور فروشی کرتے تھے؛ اسی بنا پر ان کو "تمّار" کا لقب دیا گیا۔[7] ایک روایت کے مطابق وہ "دارالرزق" نامی مقام پر خربوزے فروخت کرتے تھے۔[8]

اصحاب ائمہ کے درمیان میثم کی منزلت[ترمیم]

میثم کو پہلے تین ائمۂ شیعہ یعنی امام علی، حسن اور حسین علیہم السلام، کے اصحاب میں گردانا گیا ہے؛[9] تاہم ان کی شہرت زیادہ تر حضرت علیؑ کی شاگردی کی وجہ سے ہے[10] میثم بہت زیادہ حبدار اہل بیت رسولؑ تھے۔[11] اہل بیتؑ بھی دوسری طرف سے ان کی طرف توجہ دیتے تھے۔ ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیر المومنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔[12] میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کیے۔[13] امامؑ ان کے ساتھ زیادہ بات چیت کرتے تھے۔[14] آپؑ نے میثم کو "اسرارِ وصیت" سمیت بہت سے علوم سکھائے اور انھیں غیبی امور سے آگاہ کیا[15] اور انھیں ان "آزمائے ہوئے مؤمنین" کے گروہ میں قرار دیا جو رسول اللہؐ کے اوامر اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کے ادراک اور تحمل کے سلسلے میں اعلی ترین مقام و منزلت سے بہرہ ور تھے۔[16] ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ میثم روحانی ظرف اور اہلیت کے بلند مراتب پر فائز تھے۔

میثم کا علم غیب[ترمیم]

میثم نے معاویہ کی موت کی پیشن گوئی کی[17] اور انھوں نے مکہ کی "جبلہ" نامی خاتون کو امام حسینؑ کی شہادت کی خبر دی تھی،[18] انھوں نے پیشنگوئی کی تھی کہ اپنے قبیلے کے سربراہ کے ہاتھوں گرفتار ہوں گے اور ابن زیاد کے حکم سے مارے جائیں گے[19] نیز انھوں نے پیشنگوئی کی تھی کہ مختار بن ابی عُبَیْدہ ثقفی قیدخانے سے[20] رہا ہوں گے۔

ان خصوصیات کی بنا پر میثم تمّار کو امام علیؑ کے برگزیدہ اصحاب اور جلیل القدر[21] دوستوں اور حواریون[22] کے زمرے میں شمار کیا گیا جاتا ہے؛ حتی کہ بعض روایات میں میثم تمّار کو شُرطۃ الخَمیس کے اراکین میں شمار کیا گیا ہے۔ شرطۃ الخمیس کے اراکین وہ بہادر اور جان نثار افراد تھے جنھوں نے اپنے امیرالمؤمنین مولا علیؑ کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ جنگوں میں جان کی بازی لگانے تک آپؑ کا ساتھ دیں گے۔[23]

امام کے ساتھ تعارف کا دور[ترمیم]

امیرالمؤمنینؑ مولا علی کی خلافت ظاہری کے زمانے کی جنگوں میں میثم کی شرکت کے بارے میں کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امامؑ کی حکومت کے آخری ایام میں آپؑ سے متعارف ہوئے ہیں۔ میثم سے منقول روایات کا تعلق بھی امام علی علیہ السلام کی حکومت کے آخری ایام سے ہے؛ منجملہ "الانبار" کے نواحی علاقے "ہیت" پر امیر شام معاویہ کے گماشتوں کے پر مشتمل روایت جس میں متعدد خواتین اور بچوں کو قتل کیا گیا تھا۔[24]

امیر شام معاویہ ہمیشہ خلیفۃ المسلمین امیرالمؤمنین مولاعلی ؑ اور آپؑ کے اصحاب کو سب و دشنام دیتے ہوئے میثم کی بھی برائی کرتے اور ان کو گالیاں دیتے تھے۔[25] امام علیؑ کے بعد میثم امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے وفادار اصحاب میں شمار ہونے لگے۔[26] امام حسینؑ میثم کو خاص توجہ دیتے تھے اور اور ان کو نیکی کے ساتھ یاد کرتے تھے۔[27] سنہ 60 ہجری میں، امام حسینؑ کے قیام اور واقعہ کربلا سے کچھ عرصہ قبل، میثم مکہ مشرف ہوئے اور وہاں امام حسینؑ سے نہ مل سکے تو ام المؤمنین ام سلمہ سے امامؑ کا پتہ پوچھا۔ ام سلمہ نے انھیں امامؑ کے احوال سے آگاہ کیا۔ میثم ـ جو کوفہ کی طرف پلٹ رہے تھے ـ نے ام سلمہ سے کہا: "میرا سلام امامؑ کو پہنچا دیں اور کہہ دیں کہ میں اللہ کی بارگاہ میں ان کا دیدار کروں گا"۔[28]

امامؑ کو میثم کی شہادت کی خبر[ترمیم]

امام علیؑ نے میثم کو ان کی شہادت کی کیفیت، ان کے قاتل اور کھجور کے درخت پر ـ جو آپؑ نے انھیں دکھا دیا تھا ـ لٹکائے جانے کی خبر اور بشارت دی تھی[29] کہ ان کے لیے (کوفہ میں یزید کے والی) عبیداللہ بن زیاد کے سامنے مزاحمت کی پاداش، یہ ہوگی کہ "وہ آخرت میں امامؑ کے ساتھ اعلی رتبے پر فائز ہوں گے"۔ کہا جاتا ہے کہ میثم تمّار اسی درخت کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز بجا لاتے تھے اور اس درخت سے گفتگو کرتے تھے[30] میثم تمار اپنی شہادت کی خبر ـ جو انھوں نے امام علیؑ سے سن رکھی تھی ـ دوسروں کے لیے بھی نقل کرتے تھے۔[31] اسی قسم کی ایک روایت کے مطابق، میثم تمار اور حبیب بن مظاہر نے اپنی شہادت خبر ایک جماعت کے درمیان نقل کی لیکن حاضرین نے ان دونوں کو جھٹلایا اور ان کا تمسخر اڑایا۔[32]

گرفتاری اور شہادت[ترمیم]

میثم تمّار کی گرفتاری اور شہادت کے سلسلے میں دو روایات نقل ہوئی ہیں:

پہلی روایت[ترمیم]

اموی خلیفہ یزید بن معاویہ (دور حکومت سنہ 60 تا 64 ہجری)، جانتا تھا کہ میثم تمّار امیرالمؤمنینؑ کے سنجیدہ اصحاب اور حامیوں میں سے ہیں چنانچہ اس نے کوفہ میں اپنے والی عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ انھیں تختہ دار پر لٹکا دے۔[33] چنانچہ، میثم جو عمرہ بجا لانے کے بعد مکہ سے کوفہ کی جانب آ رہے تھے، ابن زیاد کے گماشتوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ قیدخانے میں ان کا سامنا مختار ثقفی سے ہوا جو خود بھی ابن زیاد کے قیدی تھے؛ اور پیشن گوئی کی کہ وہ (مختار) بہت جلد رہا ہوجائیں گے۔ ابن زیاد نے میثم کی قوم کے عریف (سربراہ) سے کہا تھا کہ "میثم کو اس کی تحویل میں دے دے ورنہ اس کو مار دے گا"۔ ابن زیاد نے بظاہر، اپنی سپاہ کے 100 افراد اس شخص کو دیے اور انھوں نے قادسیہ[34] کے مقام پر میثم کو گرفتار کیا اور انھیں کوفہ لے گئے؛ اور پھر ابن زیاد کو تختہ دار پر لٹکایا۔[35]

دوسری روایت[ترمیم]

دوسری روایت کے مطابق، میثم کوفہ کے بعض تاجروں کی درخواست پر کوفہ کے عامل کی شکایت پہنچانے کی غرض سے، ان کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس پہنچے تا کہ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ کوفہ کے عامل کو برطرف کر دے۔ میثم نے وہاں بلیغ خطبہ دیا۔ عَمروبن حُرَیث، جو ـ ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا والی، عثمانی مسلک اور دشمن اہل بیت ؑ تھا اور ـ دارالامارہ میں موجود تھا، ـ نے میثم پر جھوٹ اور جھوٹوں کی پیروی کا الزام لگایا لیکن میثم نے کہا "میں سچا اور سچے (مولاعلی علیہ السلام) کا پیروکار ہوں"۔ ابن زبیر نے میثم کو حکم دیا کہ علی ؑ سے بیزاری کا اظہار اور آپؑ کی بدگوئی کریں اور اس کی بجائے عثمان سے دوستی اور محبت کا اظہار کریں اور ان کا خیر و نیکی سے تذکرہ کریں۔ اس نے میثم کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے گا اور انھیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ گوکہ میثم اس موقع پر تقیہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے شہادت کا انتخاب کیا اور کہا: "امام علیؑ نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ ابن زیاد میرے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا اور میری زبان بھی کاٹے گا"۔ ابن زیاد نے بزعم خود، اس غیبی خبر کو جھٹلانے کی خاطر حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں اور انھیں عمرو بن حریث کے گھر کے قریب تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔[36]

میثم کی زبان کاٹ دی گئی[ترمیم]

میثم نے تختۂ دار پر بلند آواز سے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت علیؑ کی حیرت انگیز اور پر اسرار حدیثیں سننے کے لیے جمع ہوجائیں۔ انھوں نے بنو امیہ کے فتنوں اور بنو ہاشم کے بعض فضائل کوبیان کیا۔ عمرو بن حریث نے میثم کی حق بیانی اور عوام کے ازدحام کو دیکھا تو عجلت کے ساتھ ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ ابن زیاد نے رسوائی کے خوف سے، حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ میثم تمّار اسلام میں وہ پہلے شخص تھے جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔[37]

ایک روایت کے مطابق، عمرو بن حریث نے ـ جو لوگوں کے میثم کے کلام کی طرف رجحان اور یزیدی حکومت کے خلاف ان کی شورش سے خوفزدہ تھا ـ ابن زیاد سے درخواست کی کہ میثم کی زبان کٹوا دے۔ ابن زیاد مان گیا اور اپنے ایک محافظ کو ایسا کرنے کے لیے روانہ کیا۔ میثم نے زبان کٹوانے سے پہلے حاضرین کو یادآوری کرادی کہ "امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ابن زیاد میرے ہاتھ پاؤں اور زبان کٹوا دے گا اوراب ابن زیاد نے کہا ہے کہ وہ میری زبان نہیں کٹوائے گا اور میرے مولا کی پیشنگوئی کو جھٹلا دے گا لیکن وہ اس پیشنگوئی کو نہ جھٹلا سکا۔ مروی ہے کہ میثم تمّار کی زبان کاٹ دی گئی تو کچھ لمحے بعد وہ جام شہادت نوش کرگئے۔[38]

شہادت[ترمیم]

ایک روایت کے مطابق میثم کے تختۂ دار پر لٹکائے جانے کے تیسرے روز، ایک خنجر سے ان کے پیٹ یا خاصرہ کو زخمی کیا گیا اور انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ اسی دن شام کے وقت ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہوا اور پھرشہید ہو گئے۔[39] البتہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے خلاف اور بنو ہاشم کے حق میں خطاب کرنے کے ایک دن بعد ان کے منہ پر لگام باندھی گئی، ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہوا اور تیسرے روز خنجر کا زخم کھا کر شہید ہوئے۔[40] میثم تمّار کی شہادت 22 ذوالحجہ سنہ 60 ہجری قمری میں، امام حسینؑ کے عراق میں داخلے سے قبل واقع ہوئی۔[41] ابن زیاد نے ان کے جسم بے جان کی تدفین سے منع کیا تاہم کوفہ کے چند کھجور فروشوں نے رات کی تاریکی میں ان کی میت تختۂ دار سے اتار کر قبیلۂ مراد کی زمینوں میں واقع پانی کی ایک گودال میں سپرد خاک کردی۔[42]

آثار[ترمیم]

شیعہ کتب و تصانیف کی فہارس نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میثم تمّار نے متعدد علوم میں کتب بھی تالیف کی ہیں۔

تفسیر[ترمیم]

میثم تمّار نے کئی موضوعات میں کتب لکھی ہیں جن میں تفسیر بھی شامل ہے۔ وہ علم تفسیر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔[43] مروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لیے حجاز مشرف ہوئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ لیکن جب میثم نے انھیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بے اعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے یہ خبر کہانت کی رو سے سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی تمام پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئیں۔[44]

حدیث[ترمیم]

میثم نے بظاہر، حدیث میں بھی ایک کتاب لکھی تھی چنانچہ ان کے فرزندوں نے اس کتاب سے احادیث نقل کی ہیں اور اس کتاب میں منقولہ بعض روایات منابع حدیث میں موجود ہیں۔[45]۔[46] ان روایات میں سے بعض کا تعلق ذیل کے موضوعات سے ہے:

خطابت اور سخنوری[ترمیم]

میثم حاضر جواب[48] اور شعلہ بیان اور نڈر خطیب تھے۔ جب انھوں نے بازار کوفہ کے معترضین کے نمائندے کے عنوان سے ابن زیاد کے دربار میں خطا کیا، ابن زیاد ان کی منطق، خطابت، فصاحت اور بلاغت سے حیرت زدہ ہوکر رہ گیا۔[49] امویوں کی حکومت کے خلاف ان کے بلیغ خطبات نے انھیں حکومت کے مخالفین میں ممتاز شخصیت کے طور پر نمایاں کر دیا۔

اولاد[ترمیم]

ان کے چھ بیٹے تھے۔ جن کے نام صالح، شُعَیب، عِمران ، حمزہ ، علی اور محمد تھے جنھوں نے اہل بیتؑ کی ولایت و مصاحبت اور ان کی روایات و احادیث کے ساتھ پرورش پائی۔ ان کے فرزند بھی ائمۂ شیعہ کے اصحاب اور راویوں کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔[50] ان ہی میں سے علی بن اسمعیل بن شعیب بن میثم ہیں جو شیعہ امامیہ کے عظیم ترین متکلمین میں سے ہیں اور کلامی کتب کے اولین مؤلفین میں شمار ہوتے ہیں۔[51]۔[52]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الغارات جلد 2 صفحہ 797
  2. ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6 ص250۔
  3. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص213-214 ۔
  4. کشی، رجال، ص9۔مفید، ارشاد، ج1، ص323۔نجاشی، رجال، ص14۔طوسی، رجال الطوسی، ص81، 224۔
  5. الغارات جلد 2 صفحہ 797
  6. کشی، رجال،ص82۔مفید، ارشاد۔طبرسی، اِعلام الوری باعلام الهدی، ج1، ص341۔عسقلانی، ابن حجر، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6 ص249۔شاذان قمی، الفضائل، ص2-3؛ جنھوں نے ان کی کنیت "ابو جعفر" لکھی ہے۔
  7. ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص329۔
  8. کشی، رجال، ص78۔
  9. طوسی، رجال الطوسی، ص81، 96، 105۔الخوئی، معجم رجال الحدیث، ج20، ص103۔
  10. مفید، الاختصاص، ص3۔
  11. کشی، رجال، ص78۔
  12. ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6 ص250۔
  13. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص213-214 ۔
  14. شاذان قمی، الفضائل، ص103۔
  15. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج2، ص291۔
  16. عماد الدین طبری، بشارة المصطفی لشیعة المرتضی، ص236-237۔
  17. کشی، رجال، ص80۔
  18. ابن بابویه، ص189-190۔
  19. کشی، رجال، ص81-82۔شریف رضی، خصائص الائمة علیهم السلام، ص54-55۔
  20. مفید، ارشاد، ج1، ص324-325۔ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج2، ص293۔
  21. ابن ندیم، ص223۔طوسی، الفهرست، ص150۔
  22. کشی، رجال، ص9۔مفید، الاختصاص، ص3۔آقا بزرگ طهرانی، ج2، ص18، 164۔
  23. برقی، کتاب الرجال، ص3-4۔شیخ مفید، الاختصاص، ص2-3۔
  24. خصیبی، الهدایة الکبری، ص125۔دیلمی، ارشاد القلوب، ص272-273۔
  25. ابن طاؤس، فرحة الغری فی تعیین قبر امیر المومنین، ص51-52۔
  26. طوسی، رجال الطوسی، ص96، 105۔
  27. کشی، رجال، ص80۔
  28. کشی، رجال، ص80-81۔مفید، ارشاد، ج1، ص324۔ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج2، ص292۔ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6، ص251۔
  29. الغارات جلد 2 صفحہ 798
  30. کشی، رجال، ص83-84۔مفید، ارشاد، ج1، ص323-324۔فتّال نیشابوری، روضة الواعظین، ج2، ص288۔ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج2، ص291-292۔
  31. کشی، رجال، ص81-84۔
  32. کشی، وہی ماخذ، ص78۔
  33. مفید، ارشاد، ج1، ص324-325۔
  34. قادسیہ کوفہ سے 15 فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے، رجوع کریں: یاقوت حموی، فتوح البلدان، ذیل لفظ قادسیہ۔
  35. خصیبی، الهدایة الکبری، ص133۔کشی، رجال، ص82، 84۔ شریف رضی، خصائص الائمة علیهم السلام، ص54-55۔
  36. الغارات جلد 2 صفحہ 798
  37. کلینی، الکافی، ج2، ص220۔کشی، رجال، ص84-87۔شریف رضی، خصائص الائمة علیهم السلام، ص55۔مفید، ارشاد، ج1، ص304، 324-325۔فتال نیشابوری، روضة الواعظین، ج2، ص288-289۔
  38. کشی، رجال، ص87۔
  39. کشی، رجال، ص78، 81۔مفید، ارشاد، ج1، ص325۔ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج2، ص293-294۔
  40. ابن ابی الحدید، وہی ماخذ۔
  41. مفید، ارشاد، وہی ماخذ۔طبرسی، اِعلام الوری باعلام الهدی، ج1، ص343۔
  42. کشی، رجال، ص83۔
  43. آقا بزرگ طهرانی، ج4، ص317۔
  44. کشی، رجال، ص81۔
  45. طوسی، الامالی، ص148۔
  46. غفار، الکلینی والکافی، ص28۔
  47. برقی، المحاسن، ص309-310۔ثقفی، الغارات، ج2، ص413-415۔طوسی، الامالی، ص148، 246، 405-406۔شاذان قمی، الفضائل، ص3-5۔
  48. مفید، ارشاد، ج1، ص324۔
  49. کشی، رجال، ص86۔
  50. کشی، رجال، ص80۔طوسی، رجال الطوسی، ص118، 138، 149، 157، 160، 162، 224-225۔کلینی، الکافی، ج3، ص132-133، ج7، ص186-187، 383، ج8، ص200۔موحد ابطحی، تهذیب المقال فی تنقیح کتاب الرجال، ص208-212۔
  51. ابن ندیم، الفهرست، ص223۔طوسی، الفهرست، ص150۔
  52. ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر والاعلام، 211-220 هجری قمری کے واقعات، ص316۔

مآخذ[ترمیم]

  • الشيخ آقا بزرك الطہراني، الذّريعۃ إلى تصانيف الشّيعۃ - الناشر: دار الأضواء، الطبعۃ: 3 تاريخ النشر: 1403 ہجری قمری۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، 1378-1382 ہجری۔
  • محمد بن علی ابن بابویہ، الامالی، قم، 1417 ہجری۔
  • احمد ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دار الكتب العلمیۃ بیروت - لبنان الطبعۃ الاولى 1415ہجری/1995عیسوی۔
  • محمد ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ محمد حسین دانش آشتیانی و ہاشم رسولی محلاتی، قم، 1379 ہجری شمسی۔
  • عبد الکریم ابن طاؤس، فرحۃ الغری فی تعیین قبر امیر المومنین، چاپ تحسین آل شبیب موسوی، قم، 1419 ہجری/1998 عیسوی۔
  • ابن ندیم، الفہرست۔
  • الاختصاص، منسوب بہ محمد بن محمد مفید، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت 1414 ہجری/1993 عیسوی۔
  • احمد بن محمد برقی، کتاب الرجال، چاپ جلال الدین محدّث ارموی، تہران، 1342 ہجری شمسی۔
  • ہمو، کتاب المحاسن، چاپ جلال الدین محدّث ارموی، تہران، 1330 ہجری شمسی۔
  • ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، چاپ جلال الدین محدّث ارموی، تہران، 1355 ہجری شمسی۔
  • حسین بن حمدان خصیبی، الہدایۃ الکبری، بیروت، 1411 ہجری/1991 عیسوی۔
  • الخوئی، السید ابو القاسم الموسوی، معجم رجال الحدیث، الطبعۃ الخامسۃ طبعۃ منقحۃ ومزیدۃ السنۃ 1413 ہجری/1992 عیسوی۔
  • حسن بن محمد دیلمی، ارشاد القلوب، بیروت، 1398 ہجری/1978 عیسوی۔
  • محمد بن احمد ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر والاعلام، 211-220 ہجری کے واقعات، چاپ عمر عبد السلام تدمری، بیروت، 1414 ہجری/1993 عیسوی۔
  • عبد الرحمن سیوطی، لب اللباب فی تحریرالانساب، بیروت، دارصادر، بی تا۔
  • شاذان قمی، الفضائل، نجف 1381 ہجری قمری/ 1962 عیسوی۔
  • شریف رضی، خصائص الائمۃ علیہم السلام، چاپ محمد ہادی امینی، مشہد، 1406 ہجری۔
  • فضل بن حسن طبرسی، اِعلام الوری باعلام الہدی، قم، 1417 ہجری۔
  • محمد بن حسن طوسی، الامالی، قم، 1414 ہجری قمری۔
  • محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم، 1415 ہجری۔
  • محمد بن حسن طوسی، الفہرست، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم، 1417 ہجری قمری۔
  • عماد الدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم، 1420 ہجری قمری۔
  • عبدالرسول غفار، الکلینی و الکافی، قم، 1416 ہجری قمری۔
  • محمد فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، چاپ محمد مہدی خرسان، نجف، 1386ہجری قمری۔
  • محمد بن عمر کشّی، اختیارمعرفۃ الرجال المعروف بہ رجال الکشّی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد، 1348 ہجری شمسی۔
  • کلینی، الکافی۔
  • محمد بن محمد مفید، الارشاد، قم، 1413 ہجری قمری۔
  • محمدعلی موحد ابطحی، تہذیب المقال فی تنقیح کتاب الرجال، قم، 1417 ہجری۔
  • احمد بن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعۃ المشتہر بہ رجال النجاشی، قم، 1416 ہجری۔
  • الیعقوبی، أحمد بن أبی یعقوب بن جعفر بن وہب ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، مؤسسہ نشر فرہنگ اہل بیتؑ - قم (و) دار صادر بیروت۔

بیرونی روابط[ترمیم]

سانچے[ترمیم]

سانچہ:اصحاب امام حسن مجتبی