مینا کماری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مینا کماری
(انگریزی میں: Meena Kumari ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (ہندی میں: महजबी बानो ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 1 اگست 1933ء[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دادر  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 مارچ 1972ء (39 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات تشمع  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ممبئی  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–15 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات کمال امروہی (14 فروری 1952–31 مارچ 1972)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ ادکارہ،  شاعرہ،  کاسٹیوم ڈیزائنر،  گلو کارہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شاعری،  فلم اداکار  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ (برائے:شاردا (1957ء فلم)، آرتی، دل ایک مندر اور پاکیزہ) (1958)
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین اداکارہ (برائے:بیجو باورا، پرینیتا (1953ء فلم)، صاحب بی بی اور غلام اور کاجل) (1954)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مہ جبیں بانو[3] عرف مینا کماری (1 اگست 1933ء[4][5]-31 مارچ 1972ء) بالی ووڈ کی فلم اداکارہ تھی۔ انھوں نے ہندی سنیما کومتعدد کلاسیکی فلمیں دیں۔ انھیں دی ٹریجڈی کوئین اور چائنیز ڈول' بھی کہا جاتا ہے۔[6] ان کی شخصیت اور اداکاری کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے گرودت کا نسوانی اوتار اور بالی ووڈ کی سنڈریلا بھی کہا جاتا تھا۔[7][8]ان کا فلمی کیرئر 1939ء تا 1972ء رہا۔[9][10] مینا کماری کی سوانح عمری کے مصنف ونود مہتا کو کسی ڈائریکٹر نے بتایا کہ “ ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار بھی ان کے سامنے سنجیدگی برقرار نہیں رکھ پاتے تھے۔“[11] راج کمار اکثر ان کے سامنے اپنے ڈائلاگ بھول جاےا کرتے تھے۔[12] مدھوبالا بھی مینا کماری کی مداح تھی اور کہا کرتی تھی کہ “مینا کماری کی جیسی آواز کسی کی نہیں ہے۔“[13] ستیہ جیت رائے نے مینا کماری کی یوں تعریف کی “بلا شبہ وہ سب سے زیادہ ذہین اداکارہ تھی۔“ امیتابھ بچن نے کہا “مینا کماری جس طرح ڈائلاگ بولتی تھی اس طرح کوئی بھی کبھی نہیں بول سکتا ہے، آج تک کوئی نہیں بول سکا ہے اور شاید کبھی کوئی بول نہیں سکتا ہے“۔[14] موسیقار نوشاد نے کہا “اب شاید ہندی سنیما میں کوئی دوسری مینا کماری پیدا نہ ہو سکے“[15] میریلن مونرو کو مینا کماری سے بہت ہمدردی تھی کیونکہ میلرین کے شوہر آرتھر ملر کو مینا کے شوہر کمال امروہی سے بہت مشابہت تھی۔[16] ایسا کہا جاتا ہے کہ مینا کماری نے ہمیشہ فلموں سے محبت نہیں کی بلکہ کبھی کبھار انھیں فلموں سے نفرت بھی ہوتی تھی۔[17]

مینا کماری بہترین اداکارہ کے طور چار مرتبہ فلم فیئر اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں 1954ء میں فلم بیجو باورا کے لیے فلم فیئر کا افتتاحی فیل فیئر اعزازات برائے بہترین اداکارہ ملا اور اس کے اگلے سال یہی اعزاز فلم پرینیتا کے لیے ملا۔ 1963ء میں 10ویں فلم فیئر اعزاز میں مینا کماری نے تمام نامزدگیاں اپنے نام تاریخ رقم کر دی لیکن انھیں یہ اعزاز فلم صاحب بیوی غلام کے لیے ملا۔[18] 13ویں فلم فیئر اعزاز میں فلم کاجل کے لیے انھیں آخری مرتبہ بہترین اداکارہ کا اعزاز ملا۔

مینا کماری کی اصل پہچان 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھارت کی خواتین کے حالات کی عکاسی کے لیے ان کی اداکاری ہے۔ بھارتی سنیما برادری کے بڑے نام جیسے محمد ظہور خیام اور جاوید اختر کا ماننا ہے کہ مینا کماری اسکرین پر ایک مکمل بھارتی ناری کو پیش کرتی ہیں۔ ان سے بہتر اب تک کوئی اداکارہ بھارتی کو مکمل روپ میں پیش نہیں کرسکی ہے۔[19] [فلم [پاکیزہ]] میں انھوں نے “صاحب جان“ کا کردار ادا کیا جو اچھی دل کی مالک ایک شوخ چنچل لڑکی ہے۔ مینا کماری نے اس کردار کو اپنی اداکاری کے ذریعے تاریخی بنادیا اور کمال امروہری کی یہ فلم ایک تاریخی دستاویز بن گئی۔ Rediff.com |accessdate= 25 جولائی 2016}}</ref> وہ پارسی تھیٹر کے ماہر تھے، ہارمونیم بجاتے تھے۔ وہ موسیقی کی تعلیم دیتے تھے۔ انھوں نے اردو زبان میں شاعری بھی کی جسے فلم شاہی لٹیرے میں گایا گیا۔[20] مینا کماری کی والدہ کا نام پربھاوتی دیوی ایک عیسائی خاتوں تھی جو بعد میں مسلمان ہو کر اقبال بیگم بن گئی تھیں۔ اقبال بیگم علی بخش کی دوسری بیوی تھیں۔[20] ان کا تعلق بنگال کے مشہور ٹیگور خاندان سے تھا۔ علی بخش کے ملنے اور ان سے شادی سے قبل وہ کامینی تھیٹر کے لیے اسٹیج پر پرفارم کیا کرتی تھیں۔[20]

خاندانی پس منظر[ترمیم]

مینا کماری کے والد سنی مسلمان تھے جن کا نام ماسٹر علی بخش تھا۔ انھوں نے تقسیم کے بعد پاکستان کے بھیرہ کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ وہ بڑے پارسی تھیٹر آرٹسٹ تھے اور ہارمونیم بجایا کرتے تھے۔ انھوں نے کچھ دن موسیقی کی تعلیم دی۔ کچھ نغمے لکھے اور فلم عید کا چاند میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا۔ انھوں نے فلم شاہی لٹیرے کے لیے موسیقی کمپوز کی۔[20] مینا کی والدہ اقبال بیگم کا اصل نام پربھاوتی دیوی تھا اور وہ بنگالی مسیحی خاتون تھیں جنھوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور اقبال بیگم نام رکھا۔ شادی سے قبل اقبال بیگم کامنی نامی اسٹیج کے لیے کام کرتی تھی اور وہ رقاصہ تھیں۔ ن کا تعلق بنگال کے مشہور ٹیگور خاندان سے تھا۔[20]

ٹیگور خاندان سے تعلق[ترمیم]

مینا کماری کی نانی کا نام ہیم سندری ٹیگور تھا جن کی شادی جادو نندن ٹیگور (1840ء-1862ء) ہوئی۔ وہ درپن ناراین ٹیگور کے پوتے تھے اور رابندرناتھ ٹیگور کے دور کے بھائی تھے۔[21] شوہر کی وفات کے بعد ہیم سندری اہل خانہ کے دباو میں آکر میرٹھ چلی گئیں اور وہاں نرس بن گئی اور ایک مسیحی شخص پیارے لال شنکر میرٹھی سے شادی کرلی۔ وہ اردو زبان کے صحافی تھے اور مسیحی بن گئے تھے۔[21] ہیم سندری کو دو بیٹیاں ہوئیں جن میں ایک پربھاوتی تھی جو مینا کماری کی ماں ہوئی۔[16]

ولادت اور بچپنہ[ترمیم]

8 سال کی مینا کماری

مینا کماری کی ولادت 1 اگست 1933ء کو ایک غریب تھیٹر کرنے والے خاندان میں ہوئی۔[4][5] ان کا نام مہ جبیں رکھا گیا۔ والد علی بخش تھیٹر آرٹسٹ تھے۔ والدہ اقبال بیگم رقاصہ تھیں۔ ان کی ولادت پر علی بخش بہت مایوس ہوئے تھے کیونکہ وہ بیٹے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔[16] گھر پر سب انھیں منا کہ کر بلاتے تھے۔[17] چونکہ گھر میں ان کی ولادت کے لیے ڈاکٹر کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے لہذا والد نے انھیں یتیم خانہ میں چھوڑ دیا مگر چند گھنٹوں کے بعد واپس گحر لے آئے۔ ان کی بہن کا نام مہلقہ تھا کو مدھو کے نام سے جانی جاتی تھیں اور جنھوں نے اداکار محمود علی سے شادی کی تھی۔[22][23] مہ جبیں کو شروع میں اداکاری کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ اسکول کانا چاہتی تھی۔[24] مگر ان کے والد انھیں شروع سے ہی اسٹوڈیو لے جایا کرتے تھے تاکہ انھیں کوئی کام مل سکے۔ ان کی پہلی فلم لیدرفیس تھی جس کے لیے ہدایتکار وجے بھٹ نے انھیں 25 روپئے دیے تھے۔ لیدرفیس 1939ء میں جاری ہوئی۔[25] اور اس طرح وہ عمری میں ہی اہل خانہ کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرنے لگی۔ 1962ء میں ایک انٹرویو میں مینا کماری نے کہا کہ 4 سال کی عمر سے ہی وہ خاندان والوں کا خرچہ چلارہی ہے اور اسے انھیں بہت سکون ملتا ہے۔[16] مہ جبیں نے ایک اسکول میں داخلہ لیا مگر وہ تعلیم جاری نہیں رکھ سکی کیونکہ کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا۔ البتہ انھوں نے بغیر تعلیم کے ہی بہت کچھ سیکھا اور کسی بھی میدان مات نہیں کھاتی تھیں۔ انھیں اردو زبان سے بہت لگاو تھا حالانکہ ہندی اور انگریزی بھی جانتی تھی۔ انھیں کتابی کیڑا کہا جاتا تھا کیونکہ وہ فلم سیٹ پر بھی کتاب لے کر آیا کرتی تھی۔[16]

کیرئر[ترمیم]

ابتدائی ایام 1939ء-1945ء[ترمیم]

فلم پوجا میں ننہی مینا کماری (دائیں جانب)

انھوں نے 4 برس کی عمر میں وجے بھٹ کی فلم لیدر فیس (1939ء) میں کام کیا۔ اس کے بعد ادھوری کہانی (1939ء)، پوجا (فلم) (1940ء) اور ایک ہی بھول (1940ء) میں اداکاری کی۔ فلم ایک ہی بھول کے دوران میں وجے بھٹ نے انھیں “بے بی مینا“ کہ کر بلانا شروع کر دیا۔[26] بے بی مینا نے مزید فلمیں کی جیسے نئی روشنی (1941ء)، کسوٹی (فلم) (1941ء)، وجے (فلم) (1942ء)، غریب (فلم) (1942ء) وغیرہ۔ 1941ء میں ہدایتکار محبوب خان نے انھیں بہن میں سائن کیا اور یہ ان دونوں کی اکلوتی کامیاب فلم ہے۔ بعد میں محبوب نے انھیں امر (فلم) میں لیا مگر بعد میں یہ کرداد مدھو بالا کے دے دیا گیا جس کے بعد مینا کماری نے کبھی محبوب کے ساتھ کام نہیں کیا۔

1946ء-1952ء[ترمیم]

اس دور میں مہ جبیں مینا کماری بن چکی تھی اور اسی نام سے فلمی دنیا میں کما کرنے لگی۔ انھوں نے رنمیک پروڈکشن کی فلم بچوں کا کھیل (1946ء) میں کام کیا۔ مینا کماری نے باندرا، ممبئی میں ایک گھر لیا اور اہل خانہ کا وہیں منتقل کر دیا مگر اس کے 18 ماہ بعد ہی والدہ کا انتقال ہو گیا جس سے مینا کماری کو بہت صدمہ ہوا۔ مینا کماری نے فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ نغمے بھی گائے جیسے دنیا ایک سرائے (1946ء)، پیا گھر آجا (1948ء) اور بچھڑے بلم (1948ء)۔ 1940ء کے اواخر میں انھوں نے خرافات (میتھولوجی) اور تصور جیسے موضوعات پر فلمیں بنانا شروع کی جیسے ویر گھاٹوکچ، شری گنیش مہیما، لکشمی نارائن، ہنومان پتل وجے اور علاوالدین اور جادوئی چراغ وغیرہ۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں۔ مگر ان سب سے مینا کماری کو وہ شہرت نہیں مل رہی تھی جس سے وہ خود کو بالی ووڈ کی اداکارہ کہلواسکیں۔ بالآکر ان کے رہبر و رہنما وجے بھٹ نے ان کی مشہور فلم بائیجو بوارا میں کام دیا۔ یہ موسیقی والی بہترین فلم تھی۔

1952ء-1956ء[ترمیم]

یہ دور مینا کماری کا عروج کا زمانہ ہے جس میں ان کا کیرئر بحیثیت اداکارہ بائیجو بوارا سے شروع ہوتا ہے اور لگاتار کئی فلمیں بالی ووڈ کے پردوں پر یکے بعد دیگرے کامیاب ہوتی چلی جاتی ہیں۔

  • 1952ء میں بائی بوارا جاری ہوئی جس میں مینا کماری نے اہم کردار ادا کیا۔ فلم کے عروج میں دونوں اہم اداکار پانی ڈوب جاتے ہیں۔ مینا کماری سچ میں ڈاب گئی تھیں مگر بعد میں انھیں بچا لیا گیا۔[27]

اس فلم کے دوران میں ایسے کئی حادثے ہوئے جن سے مینا کماری ہمیشہ خبروں میں رہیں۔

  • 1953ء میں پرینیتا (فلم) جاری ہوئی۔ اس کی ہدایتکاری بمل رائے نے کی تھی اور مینا کماری کے ساتھ اہم رول میں اشوک کمار تھے۔ بائیجوا بوارا کے بعد لاگاتار دوسرے سال مینا کماری کو اس فلم کے لیے فلم فیئر اعزاز برائے بہترین اداکارہ ملا۔ یہ فلم شرت چندر چیٹرجی کے بنگالی ناول پر منحصر تھی جس میں مینا کماری للتا کا کردار انتہائی خوبی سے نبھایا تھا۔ اس فلم کی کمایابی کے بعد وہ اگلی انتہائی کامیاب اور مستقبل میں بالی ووڈ کی سب سے بہترین فلموں میں سے ایک دیوداس میں پارو کے کردار میں مینا کماری کو لینے والے تھے لیکن کمال امروہوی سے ان کے تعلقات استوار نہیں ہو پائے۔ اسی سال دو بیگھا زمین جاری ہوئی جسے کان میں 1954ء میں بین الاقوامی انعام ملا اور یوں یہ پہلی بھارتی فلم بن گئی جسے کوئی بین الاقوامی انعام ملا۔ مینا کماری کے 33 سال طویل فلمی سفر میں یہ واحد فلم ہے جس میں انھوں نے مہمان کے طور پر اداکاری کی۔ اسی سال ضیا سرحدی نے انھیں فٹ پاتھ میں کاسٹ کیا۔ اس کے کما امروہوی کی یدایتکاری میں دائرہ بنی جسے لکھا بھی انھوں نے ہی تھا۔ اس فلم میں مینا کے علاوہ نانا پالسیکر اور ناصر خان (اداکار) نے بھی اداکاری کی۔[28]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ربط : https://d-nb.info/gnd/142358371  — اخذ شدہ بتاریخ: 29 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/151498523 — بنام: Meena Kumari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. Mehta 2016, p. 1916.
  4. ^ ا ب "اپریل 2 1954"۔ Filmfare۔ 11 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2016 
  5. ^ ا ب Adrian Room (26 جولائی 2010)۔ "Meena Kumari"۔ Dictionary of Pseudonyms: 13,000 Assumed Names and Their Origins۔ McFarland۔ صفحہ: 269۔ ISBN 978-0-7864-4373-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2012 
  6. "Meena Kumari birth anniverary: She is inspiration for all!"۔ Free Press Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اکتوبر 2018 
  7. "From Sridevi to Guru Dutt: Celebrities that passed away at an untimely age"۔ News X۔ 20 جون 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2018 
  8. "Meena Kumari – Interview (1952)"۔ Cineplot.com۔ 19 جولائی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2017 
  9. Khalid Mohamed (25 مارچ 2016)۔ "Remembering the Tragedy Queen Meena Kumari"۔ خلیج ٹائمز 
  10. "Meena Kumari – "The Tragedy Queen of Indian Cinema""۔ Rolling Frames Film Society۔ 04 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2020 
  11. "Meena Kumari the melancholic queen of cinema! – Sun Post"۔ Sunpost.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016 
  12. "Meena Kumari Made Raaj Kumar Forget His Dialogues"۔ 13 اگست 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2018 – YouTube سے 
  13. admin (16 اپریل 2016)۔ "Madhubala – Her Sister's Recollections"۔ Cineplot.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2016 
  14. Carlo Franco (25 جون 2017)۔ "Amitabh Bachchan's Official Blog"۔ Amitabh Bachchan's Official Blog۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2017 
  15. Raza Rumi (31 اکتوبر 2014)۔ "Meena Kumari, the poet"۔ The Friday Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اگست 2019  [مردہ ربط]
  16. ^ ا ب پ ت ٹ Mehta 2016.
  17. ^ ا ب "At The Edge: Meena Kumari: Her Death, Work, Love and Birth"۔ At The Edge۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2016 
  18. "Filmfare Awards (1963)"۔ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس 
  19. "Meena Kumari Biography by Javed Akhtar"۔ 3 ستمبر 2016۔ بموقع 32:00۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اگست 2019 – YouTube سے 
  20. ^ ا ب پ ت ٹ
  21. ^ ا ب "Jadu Nandan Tagore"۔ Ancestry.com۔ 31 جولائی 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2019 
  22. "Meena Kumari, the tragedy Queen – Rare Pictures and Unknown facts"۔ Filmibeat.com۔ 10 جنوری 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016 
  23. "Flashback Meena Kumari"۔ Indusladies.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016 
  24. "Muslim female icons of Bollywood"۔ The Nation۔ 14 اگست 2016۔ 18 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2016 
  25. S M M Ausaja۔ "Romancing The Reel"۔ archive.tehelka.com۔ Anant Media Pvt. Ltd. Tehelka.com۔ 4 دسمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2015 
  26. Vinod Mehta (31 جولائی 2013)۔ "Meena Kumari"۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016 – Google Books سے 
  27. "She almost drowned during filming"۔ Daily News and Analysis۔ 1 اگست 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اگست 2018 
  28. Suresh Kohli (6 ستمبر 2012)۔ "Daera (1953)"۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2016 
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔