نواب مرزا داغ دہلوی کی شاعری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نواب مرزا داغ دہلوی

داغ معجز بیان ہے کیا کہنا
طرز سب سے جد انکالی ہے

داغ سا بھی کوئی شاعر ہے ذرا سچ کہنا
جس کے ہر شعر میں ترکیب نئی بات نئی

نہیں ملتا کسی مضمون سے ہمارا مضمون
طرز اپنی ہی جدا سب سے جدا رکھتے ہیں

بقو ل غالب
” داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی!ذوق نے اردو کواپنی گو دمیں پالا تھا۔ داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے۔“
بقول نفیس سندیلوی، ” داغ فطر ی شاعر تھے وہ غزل کے لیے پیدا ہوئے اور غز ل اُن کے لیے ان کی زبان غزل کی جان ہے۔“
اردو شاعری میں زبان اور اس کی مزاج شناسی کی روایت کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ یہ روایت ذوق کے توسط سے داغ تک پہنچی داغ نے اس روایت کو اتنا آگے بڑھایا کہ انھیں اپنے استاد ذوق اور پیش رو سودا دونوں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب داغ نے ہوش سنبھالا تو لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر، استاد ذوق اور ان کے شاگرد زبان کو خراد پر چڑھا کر اس کے حسن کو نکھار رہے تھے۔ اور بہادر شاہ ظفر کے ہاتھوں اردو کو پہلی بار وہ اردو پن نصیب ہو رہا تھا۔ جسے بعد میں داغ کے ہاتھوں انتہائی عروج حاصل ہوا۔
داغ کے زمانے میں زبان کی دو سطحیں تھیں ایک علمی اور دوسری عوامی غالب علمی زبان کے نمائندے تھے۔ اور ان کی شاعری خواص تک محدود تھی۔ اس کے برعکس داغ کی شاعری عوامی تھی وہ عوام سے گفتگو کرتے تھے۔ لیکن ان کے اشعار خواص بھی پسند کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے اشعارمعاملات عشق کے تھے اور اُن موضوعات میں عوام و خواص دونوں کی دلچسپی زیاد ہ ہوتی ہے۔ بقول عطا ” محبت کی گھاتیں اور حسن و عشق کی ادائیں داغ کے کلام کا طرہ امتیاز ہیں وہ عملی عاشق تھا اس کے اشعار اس کی عشقیہ وارداتوں کی ڈائری کے رنگین اور مصور اوراق ہیں۔“

داغ زبان کے بادشاہ:۔[ترمیم]

اس میں کوئی شک نہیں کہ داغ اردو زبان کے بادشاہ ہیں۔ ان کی کلام میں زبان کا چٹخارا، سلاست، صفائی، سحرآفرینی، رنگینی، شوخی چلبلاہٹ بلا کی پائی جاتی ہے۔ اردو زبان کو داغ کے ہاتھو ں انتہائی عروج حاصل ہوا۔

تھے کہاں رات کو آئینہ تو لے کر دیکھو
اور ہوتی ہے خطاوار کی صورت کیسی

نہ ہمت، نہ قسمت، نہ دل ہے، نہ آنکھیں
نہ ڈھونڈا، نہ پایا، نہ سمجھا، نہ دیکھا

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

حسن بیان:۔[ترمیم]

داغ کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان کا حسن ہے۔ انھوں نے شاعری کو پیچیدہ ترکیبوں، فارسی اور عربی کے غیر مانوس الفاظ سے بچانے کی کوشش کی اور سیدھی سادھی زبان میں واقعات اور محسوسات کو بیان کیا۔ اس وجہ سے ان کا کلام تصنع اور تکلف سے خالی ہے۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

کہتے ہیں اسے زبان اردو
جس میں نہ ہو رنگ فارسی کا

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے

زبان اور شاعری پر ناز:۔[ترمیم]

داغ زبان و بیان اور فصاحت کے علمبردار شاعر ہیں اس لیے وہ اپنی زبان اور شاعری پر ناز کرتے ہیں۔ اُن کی اس شاعرانہ تعلیٰ کی مثالیں اُن کی شاعر ی میں جابجا موجود ہیں۔

کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ کس کی ہے شہرت
کیاتم نے کبھی داغ کا دیوان نہیں دیکھا

داغ معجز بیان ہے کیا کہنا
طرز سب سے جدا نکالی ہے

داغ سا بھی کوئی شاعر ہے ذرا سچ کہنا
جس کے ہر شعر میں ترکیب نئی بات نئی

صاف اور با محاورہ زبان:۔[ترمیم]

داغ اپنی شاعری میں صاف اور بامحاورہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ روزمرہ محاورے کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، مثلاً

تو بھی اے ناصح کسی پر جان دے
ہاتھ لا اُستاد کیوں کیسی کہی

آپ کے سر کی قسم داغ کو پروا بھی نہیں
آپ کے ملنے کا ہوگاجسے ارمان ہوگا

غیر کی محفل میں مجھ کو مثلِ شمع
آٹھ آٹھ آنسو رلایا آپ نے

صاف گوئی:۔[ترمیم]

داغ صاف صاف بات کرنے کے عادی ہیں اپنے دل کی بات واضح طور پر سامنے لاتے ہیں اور سادگی اختیار کرتے ہیں۔ اس سادگی اور اور صاف گوئی کی مثالیں جابجا داغ کی شاعر ی میں نظرآتی ہے۔ مثلاً

ہم ساتھ ہو لیے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جدا چلے

لے لیے ہم نے لپٹ کر بوسے
وہ تو ہر کہتے رہے ہر بار یہ کیا

راہ میں ٹوکا تو جھنجلا کر بولے
دور ہو کمبخت یہ بازار ہے

حق گوئی :۔[ترمیم]

داغ کا ظاہر و باطن ایک ہے اور اُن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ وہ عملی زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں اس پر شرمندہ نہیں ہوتے اور اس کا شاعری میں برملا اظہار کرتے ہیں،

غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کاانتظار کیا

شب وصل ایسی کھلی چاندنی
وہ گھبرا کے بولے سحر ہو گئی

دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

کلام میں دلکشی خلوص و صداقت:۔[ترمیم]

داغ صرف زبان کا شاعر ہی نہیں بلکہ اُنکی شاعری میں صداقت اور خلوص کا جذبہ بھی کارفرما نظرآتا ہے۔ اُن کے کلام میں حد سے زیادہ دلکشی، خلوص اور صداقت واضح طور پر نظرآتاہے۔ مثلاً

جو گذرے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیاجانیں

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتادو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو

انفرادیت:۔[ترمیم]

داغ نے اپنے ہمعصر شعرا ءکی پیروی نہیں کی بلکہ اپنی الگ راہ سخن اور طرز گفتار نکالی جو ان سے شروع ہوئی اور ان ہی پر ختم ہوئی مثلا! وہ خود کہتے ہیں کہ،

یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں
وہ ایک ہی تو ہے سارے جہاں میں

داغ معجز بیان ہے کیا کہنا
طرز سب سے جدا نکالی ہے

داغ ہی کے دم سے تھا لطف سخن
خوش بیانی کا مزہ جاتا رہا

طنز و تعریض کی آمیزش:۔[ترمیم]

داغ کی شاعری کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ محبوب کے بارے میں ان کے لب و لہجے میں طنز و تعریض کی آمیزش نظرآتی ہے۔ مثلاً

غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا
دنیا میں بات بھی نہ کرے کیا کسی سے ہم

تمھارے خط میں نیا اک پیام کس کاتھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کاتھا

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کر و بیٹھے ہوئے گیسو اپنے

مکالمہ نگاری:۔[ترمیم]

داغ کی شاعر ی میں مکالمہ نگاری کو اہمیت حاصل ہے۔ وہ اشعار اس طرح کہتے ہیں جیسے کسی کو سامنے بٹھا کر باتیں کرتے ہوں او ر یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے۔ مثلاً

کیا کہا؟ پھر تو کہو ! ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں
مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا

لطف مئے تجھ سے کیا کہوں واعظ
ائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

زبان دہلی کا استعمال:۔[ترمیم]

داغ نے لال قلعے میں پرورش پائی اور دہلی کی گلی کوچوں میں جوان ہوئے۔ اس لیے داغ اپنی شاعری میں زبان دہلی کا استعما ل کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

مستند اہل زباں خاص ہے دہلی والے
اس میں غیروں کا تعرف نہیں مانا جاتا

داغ کی شاعری کامحور:۔[ترمیم]

داغ کی شاعری صرف ایک محور پر گردش کرتی ہے اور وہ ہے عشق۔ مومن کی طرح ان کے ہاں بھی نفسیاتی بصیرت کا اظہار جگہ جگہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں،

رخ روشن کی آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے

اپنی تصویر پہ نازاں ہو تمھارا کیا ہے
آنکھ نرگس کی، دہن غنچے کا، حیرت میری

قیامت ہیں بانکی ادائیں تمھاری
ادھر آؤ لے لوں بلائیں تمھاری

جذبات کا شاعر:۔[ترمیم]

داغ نہ فلسفی تھے اور نہ کوئی بڑا نظریہ حیات رکھتے تھے و ہ صرف شاعر تھے اور وہ بھی جذبات اور شوخی کے شاعر اُس نے اپنی شاعری میں جذبات کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ مثلاً

بہت جلائے گا حوروں کو داغ بہشت میں
بغل میں اُس کے وہاں ہند کی پری ہوگی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

خوبصورت چہروں کا دلدادہ:۔[ترمیم]

داغ کی زیادہ تر عمر عشق و عاشقی میں گذری دہلی کی ہر مشہور طوائف کے ساتھ اُن کا سلسلہ رہا۔ داغ خوبصورت چہروں کا دلدادہ رہے۔ خواہ وہ گوشت پوست کا انسان ہو یا پتھر کی مورت۔ اُن کی زندگی میں محبوب کے بچھڑنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ کے ونکہ وہ بہت جلد دوسری محبت تلاش کر لیتے ہیں۔

بت ہی پتھر کے کیوں نہ ہوں اے داغ
اچھی صورت کو دیکھتا ہوں میں

اک نہ اک کو لگائے رکھتے ہیں
تم نہ وہوتے تو دوسر ا ہوتا

کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں
دل بہل جائے گا کہیں نہ کہیں

معاملہ بندی:۔[ترمیم]

داغ کی معاملہ بندی انشاء، رنگین اور جرات کی طرح نہیں ہے وہ داغ کی اپنی ہے جس میں بے تکلفی اور سچائی ہے اور تصنع اور بناوٹ سے بالکل خالی ہے مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں،

پہلے گالی دی سوال وصل پر
پھر ہوا ارشاد کیوں کیسی کہی

حوروں کا انتظار کرے کون حشر تک
مٹی کی ملے توُ توروا ہے شباب میں

لے لیے ہم نے لپٹ کر بوسے
وہ تو کہتے رہے ہر بار یہ کیا

ناصح، واعظ اور رقیب:۔[ترمیم]

داغ کے ہاں ناصح اور واعظ اور رقیب کے لیے اچھوتے قسم کے مضامین ملتے ہیں عام طور شعراءنے ناصح، رقیب اور واعظ کے ساتھ نت نئے انداز میں چھٹر چھاڑ کی ہے لیکن داغ نے ان کے دلوں کو ٹٹول کر ہمدردی اور افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ مثلاً

وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرم سار آیا
رقیب پر مجھے بے اختیار پیار آیا

کچھ تذکرہ رنجش معشوق جوآیا
دشمن کے بھی آنسو نکل آئے میر ے آگے

لطف مئے تجھ سے کیا کہوں واعظ
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

ترنم او رموسیقیت:۔[ترمیم]

داغ کی غزلوں کی پسندیدگی میں اس کے ترنم اور موسیقیت کو اہمیت حاصل ہے۔ غزلوں کے ردیف اور قافیے کی تلاش میں ان کو کمال کا عبور حاصل ہے۔ اُن کی بحریں اور زمینیں نہایت باغ و بہار ہیں اُن کے ہاں الفاظ کا استعمال نہایت برمحل اور برجستہ ہے۔
داغ غیر ضروری الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں بیان کی شوخی ،بے تکلفی، طنز، جذبے کی فروانی اور تجربہ و مشاہدہ کی کثرت سے ان کی غزلیں بھر پور ہیں۔ مثلاً

ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
کسی کے دل کی حقیقت کسی کو کیا معلوم

بظاہر اُن کو حیادار لوگ سمجھیں گے
حیا میں ہے جو شرارت کسی کو کیا معلوم

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
تمھیں بھی یا د ہے کچھ یہ کلام کس کاتھا

داغ کے مصرعے جو محاورات بن کر اشعار کے قالب میں ڈھل کر ضرب الامثال بن گئے اور زبان زد خاص و عام ہو گئے ہیں۔

١)ہرروز کی جھک جھک سے مرا ناک میں دم ہے
٢)حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
٣)تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
٤)آپ کے سر کی قسم داغ کو پروا بھی نہیں
٥)ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
٦) بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ٧)جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
٨) ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے

مجموعی جائزہ:۔[ترمیم]

داغ کی شاعر ی کے متعلق فراق فرماتے ہیں” اردو شاعری نے داغ کے برابر کا فقرہ باز آج تک پیدا کیا ہے اور نہ آئندہ پیدا کر سکے گی۔“
بقول رام بابو سکسینہ :
” ان کی زبان کے ساتھ اس خدمت کی ضرور قدر کرنی چاہیے کہ انھوں نے سخت اور معلق الفاظ ترک کیے اور سیدھے الفاظ استعمال کیے۔ جس سے کلام میں بے ساختگی اور فصاحت مزید بڑھ گئی ہے۔“ بقول خلیل الرحمن عظمی
”داغ کے طرز بیان میں جو صفائی اور فصاحت، جو چستی، جو نکھار، جو البیلا پن اور جو فنی رچائو ملتا ہے وہ بہت کم غزل گویوں کے حصے میں آیا ہے۔ داغ کا فن اُن کی شخصیت کی ایک تصویر ہے اس لیے اس میں بڑی جان ہے۔“