نوروز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نوروز
گندم کے پودے اُگانا نوروز کی مشترکہ روایتی تیاریوں میں سے ایک ہے۔
منانے والے
قسمقومی، ثقافتی، بین الاقوامی
اہمیتسال نو کی تعطیل اور جشن
تاریخمارچ 19، 20 یا 21
2023ء  تاریخپیر 20 مارچ 2023ء
بوقت 21:24 UTC *
2024ء  تاریخبدھ، 20 مارچ 2024ء
بوقت 03:06 UTC *
تکرارسالانہ
Norooz, Nawrouz, Newroz, Novruz, Nowrouz, Nawrouz, Nauryz, Nooruz, Nowruz, Navruz, Nevruz, Nowruz, Navruz
ملکایران، افغانستان، آذربائیجان، بھارت، عراق، قازقستان، کرغیزستان، پاکستان، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان
حوالہ1161
خطہAsia and the Pacific
تاریخ نقش
کتبہ2016 (4th session)


نوروز (لغوی معنی: ’’نیا دن‘‘) ایرانی سال نو کا نام ہے۔

اپنی بنیاد میں ایرانی اور زرتشتیتی تہوار ہونے کے باوجود، نوروز کا تہوار دنیا بھر میں متنوع نسلی و لسانی گروہ مناتے ہیں۔ مغربی ایشیا، وسط ایشیا، قفقاز، بحیرہ اسود اور بلقان میں یہ تہوار 3000 سالوں سے منایا جا رہا ہے۔ بیشتر تہوار منانے والوں کے لیے یہ ایک سیکولر تعطیل ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مناتے ہیں، لیکن زرتشتی، بہائی اور بعض مسلم گروہوں کے لیے یہ مذہبی دن ہے۔

نوروز بہاری اعتدالین کا دن ہے اور شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن منایا جاتا ہے۔ سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرنے اور دن اور رات برابر ہونے کے لمحے کو ہر سال شمار کیا جاتا ہے اور خاندان رسومات ادا کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔

نوروز کو ایرانی قوم کی مختلف نسلی گروہوں کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے: ایران نسلی گروہوں جیسے فارس ، آذربائیجانی، کورد، بلوچی، سمنانی، تالش، لور ، بختیاری ، گیلکی ، مازندرانی ، خوزستانی عرب اور گورگانی ترکمنوں سب مل کر یہ جشن مناتے ہیں.

پس منظر[ترمیم]

یہ ایک قدیم ایرانی تہوار ہے، جو آج بھی بکثرت منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار ایرانی مہینہ فروردین کے پہلے دن منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کی بنیاد اگرچہ پارسی مذہب پر مبنی ہے تاہم اسے کئی مسلم ممالک میں اب بھی منایا جاتا ہے۔

نئے شمسی سال اور تیرہ سو ترانوے سال کے آغاز کی مناسبت سے تبریک وتہنیت عرض کرتے ہوئے نئے سال اور عید نوروز کے پہلے دن ہم آپ سے اس کی تاریخ اور اسے وجود میں لانے اور اب تک اسے باقی رکھنے میں جن لوگوں نے مدد کی ہے گفتگو کریں گے اور اس قدیم اور ایرانی جشن اور تہوار کے بارے میں جو نہ صرف کئی صدیوں سے ایران میں منایا جاتاہے بلکہ اس کے علل واسباب کی وجہ سے یہ جشن دوسرے ملکوں میں بھی منایاجاتاہے ۔

ممکن ہے موسم بہار کے آغاز کا جشن ارو اس موقع پر شہروں سے لوگوں کے باہر نکل جانے اور اجتماع کی روایت ایران کے کسانوں کی ہے اس لیے ایران کے کسان گذشتہ صدیوں سے اس طرح کا جشن منعقد کرکے بعض عقائد جیسے حلول بہار کو باطل پر کامیابی کی تشبیہ دے کر اس جشن میں شامل کر دیا اور اسے ممکل طور پر ایرانی جشن میں تبدیل کر دیا۔ قدیم زمانے سے یہ عوامی جشن غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے ایک عام عوامی جشن میں تبدیل ہو گیا اور آہشتہ آہستہ ایسے جشن میں تبدیل ہو گیا کہ حکومتوں نے بھی رسمی تقریب کے طورپراس جشن کو منتخب کر لیا ہے ۔

ایران کے معروف دانشور، ریاضی داں اور منجم ابو ریحانی کے نزدیک نوروز خلقت کی پیدائش کا جشن ہے اور ایسا دن ہے جو لوگوں کو اس بات پر تیار کرتاہے کہ اپنی پرانی چیزوں کو نئی چیزوں میں تبدیل کرکے خود کو آراستہ اور اپنی روح کو تازگی عطاکرے۔ نوروز اکیس مارچ مطابق یکم فروردین یعنی نئے سال کے آغاز جشن کا دن ہے جو بہت ہی قدیم چشن شمار ہوتاہے، نئے سال کی تحویل اور بہار کے معتدل لمحات کے ساتھ جشن نوروز کا آغاز ہوتاہے ۔

نوروز کی تاریخ پیدایش اور سرچشمے کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران میں جشن نوروز پانچ سو اڑتیس برس قبل مسیح یعنی حکومت کورش اورہخامنشی بادشاہ کے زمانے میں رائج تھا انھوں نے باقاعدہ طور پر اس کو قومی جشن قراردیا اوراس دن وہ فوجیوں کی ترقی، پبلک مقامات، ذاتی گھروں کی پاک سازی اورمجرمین کو معاف کرنے کے سلسلے میں پروگرام اور تقریبات کا اہمتام کرتے تھے۔ ہخامنشی بادشاہ داریوش یکم کے زمانے مین تخت جمشید میں نوروز کی تقریب منعقد ہوتی تھی اور یہاں کے پتھروں پر لکھی ہوئی تحریروں سے پتہ چلتاہے کہ ہخامنشیوں کے دور میں لوگ نوروز کا جشن بڑے اہمتام کے ساتھ مناتے تھے اور پرشکوہ اجتماعات ہوتے تھے۔ ثبوت وشواہد سے پتہ چلتاہے کہ دیریوش اول نے قبل مسیح چودہ سو سولہ میں نوروز کی مناسبت سے سونے کا سکہ بنایا اور سکہ کے ایک طرف تیر چلاتے ہوئے ایک فوجی کی تصویر بنائی گئی ہے ۔

اشکانیان اور ساسانیان کے دور میں بھی نوروز کا جشن منایاجاتاتھا اور ایرانیوں کا اہم ترین سالانہ جشن شمار ہوتا ہے، ساسانیان کے دور میں عید نوروز کا جشن کئی دن تک منایاجاتا تھا اور دو دوروں یعنی چھوٹے اور بڑے نوروز میں تقسیم ہوجاتا تھا ۔

ایران میں اسلام کے آنے ،ایرانیوں کے مسلمان ہونے اور ساسانیوں اور آل بویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعدعید نوروز بڑے اہمتام اور وسیع پیمانے پر منایا جانے لگا۔ سلجوقیوں کے دور میں ایرانی منجمین کے ماہرین کی ایک تعداد منجملہ خیام، گاہشمار ایرانی کلنڈر کی تدوین اور قدیمی گاہشمارکلنڈر کی اصلاح کے لیے جمع ہوئے۔ منجمین کے ماہرین نے نوروزکو بہار کا پہلا دن اور فروردین کی پہلی تاریخ قرار دیا اور کلنڈر کو اس کے مطابق مرتب اور منظم کیا۔ گاہشمار کے مطابق جو جلالی کلنڈر کے نام سے معروف ہے نوروز کو بہار کے آغاز میں ثابت رکھنے کے لیے یہ طے ہوا کہ ہر چار برس میں ایک بار سال کے دنوں کو تین سو پینسٹھ کی بجائے تین سو چھیاسٹھ دن معین کیے جائیں۔ البتہ گاہشمار جلالی کلنڈر تحریک مشروطہ سے پہلے تقریباً ایک صدی قبل باقاعدہ رائج نہیں تھا بعد میں مبدا، ناموں اورمہینوں میں تبدیلی کے بعد بارہ سو نواسی ہجری شمسی میں کلنڈر کی شکل میں رائج ہو گیا ۔

جلالی کلنڈر عرفی سال کو فطری سال کے ساتھ تطبیق کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور نہ صرف نوروز بہار کے اول میں یا منجمین کی اصطلاح میں بہار نقطہ اعتدال میں قرار پایا ہے بلکہ تام عرفی موسم حقیقی موسم کے ساتھ منطبق ہو گئے ۔ یہ بات دلچسپ ہے جس سال کا جلالی کلنڈر کے ساتھ حساب کیاجاتاہے عیسوی سال کے برخلاف ہر دس ہزار برس میں اس میں اور حقیقی سال کے درمیان میں تقریباً تین دن کا فرق ہوجاتاہے۔ لیکن ہمیشہ حقیقی سال کے مطابقہ ہوتاہے اور کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں رہتاہے۔ اسی لیے جلالی کلنڈرمیں عیسوی سال ثابت نہیں نہیں فقط سالانہ رصد کی بنیاد پر معین ہوتے ہیں۔

ان روایات اور تاریخی دستاویزات کے علاوہ نوروز اور اس کی تاریخ کے بارے میں افسانوی کہانیاں بھی ہیں جو ایران کی بعض قدیمی کتابوں منجملہ شاہنامہ فردوسی اور تاریخ طبری میں موجود ہیں۔ ان کتابوں میں جمشید اور گاہ کیومرث کو نوروز کے بانیوں کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔ حکوت جمشید کے دور کو طلائی دور کے نام سے یاد کیا گیا ہے جس میں تمام نعمتیں موجود تھیں اور لوگ خوش حال اوررفاہ میں تھے۔ شاہنامہ میں آیا اہے کہ جمشید آذربائجان سے گذرتے وقت حکم دیا کہ اس کے لیے وہاں ایک تخت رکھا جائے اور خود اپنے سر پر ایک زرین تاج رکھکر ا سپر بیٹھ گئے اور سورج کی کرنیں جب اس پر پڑیں تو دنیا نورانی ہو گئی اور لوگوں نے خوش ہوکر جشن منایا اوراس دن کا نام نو روز یعنی روز نو رکھدیا ۔

نوروز کے بارے میں نوروز نامہ معتبر ترین کتاب ہے جسے حکیم عمر خیام نیشا بوری نے سن چار سواسی شمسی مطابق گیارہ سو ایک عیسوی میں لکھا ہے۔ یہ کتاب جشن روز کی پیدائش اور اس کے آداب ورسوم کے بارے میں ہے اوراس میں نوروز سے متعلق تاریخی اور افسانوی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

خیام نے نورز نامہ میں نوروز کو موضوع قرار دے کر جو ایران کا قومی جشن ہے خداوند متعال کی حمد وستایش کے بعدلکھا ہے کہ میں نے اپنے ایک دوست کی خواہش پر اسے لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ جمشید نے اس کا نام نوروز رکھااور جشن منایا۔ اس کے بعص دوسرے بادشاہوں اور لوگوں نے ان کی پیروی کی ۔

چنانچہ ہم کہہ چکے ہیں نوروز کا نام خیام کے نام سے جڑا ہوا ہے باوجود اس کے کہ وہ ایک دانشور اور فلسفی تھے انھوں نے اپنے اشعار میں دنیا کی گردش پرتوجہ دی ہے اور اسے اپنابنیادی نظریہ قراردیا ہے۔ درحقیقت وہ ایسے شخص ہیں جنھوں نے اس گردش کو دیکھا ہے اور اسے محسوس کیا ہے انھوں نے سال سال اور مہینوں کی آمد، انسان کے بوڑھے ہونے اور زمانے کے گذرنے اور فانی ہونے کو مکمل طور پر درک کیا ہے۔ اسی لیے خیام نے زندگی اور نوروز کے بہار کے بارے میں جو اشعار کہے ہیں ان میں اور دوسروں کے اشعار میں بنیادی فرق پایاجاتا ہے۔ انھوں نے موت وزندگی کے بارے میں فلسفیانہ اور عمیق رباعیات کہی ہیں ایسی رباعیات وہ شخص کہہ سکتا ہے جس نے دنیا کے بارے میں بہت دقیق اور باریکیوں کے ساتھ غور و فکر کی ہے۔ اسی لیے ہر سال کی آمد پر خیام کی یاد آتی ہے جنھوں نے دنیا کا دقیق ترین کلنڈر مرتب کیا اورہمیں خوبصورت ترین اشعار تحفے میں دیے اور نوروز کی تاریخ بھی لکھ دی تاکہ ان کے بعد کی نسلیں جب نوروز کا جشن منائيں تو وہ افتخار کے ساتھ نوروز کے پرشکوہ اور قدیم جشن کو یاد کرسکیں ۔

اعتراض[ترمیم]

مسلم علما کے ایک طبقے نے اس جشن میں مسلمانوں کے شامل ہونے کو غلط اور ممنوع قرار دیا ہے جبکہ کوئی خوشی منانا سال بھر میں مختلف تہوار ماننا اس خطے کا رواج ہے۔[17]

Gallery[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "The World Headquarters of the Bektashi Order – Tirana, Albania"۔ komunitetibektashi.org۔ 18 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2012 
  2. "Albania 2010 Bank Holidays"۔ Bank-holidays.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2010 
  3. "Nowruz conveys message of secularism, says Gowher Rizvi"۔ United News of Bangladesh۔ 6 April 2018۔ 31 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2019 
  4. "Xinjiang Uygurs celebrate Nowruz festival to welcome spring"۔ Xinhuanet۔ 12 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2017 
  5. "Nowruz Declared as National Holiday in Georgia"۔ civil.ge۔ 21 March 2010۔ 18 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2013 
  6. "Nowruz observed in Indian subcontinent"۔ www.iranicaonline.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2013 
  7. "20 March 2012 United Nations Marking the Day of Nawroz"۔ Ministry of Foreign Affairs (Iraq)۔ 13 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2012 
  8. ^ ا ب
  9. "Farsnews"۔ Fars News۔ 25 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2017 
  10. "Россия празднует Навруз [Russia celebrates Nowruz]"۔ Golos Rossii (بزبان الروسية)۔ 21 March 2012۔ 02 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2013 
  11. "Arabs, Kurds to Celebrate Nowruz as National Day"۔ 20 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2013 
  12. For Kurds, a day of bonfires, legends, and independence. Dan Murphy. 23 March 2004.
  13. [1] Anadolu'da Nevruz Kutlamalari
  14. Emma Sinclair-Webb, نگہبان حقوق انسانی, "Turkey, Closing ranks against accountability", Human Rights Watch, 2008. "The traditional Nowrouz/Nowrooz celebrations, mainly celebrated by the Kurdish population in the Kurdistan Region in Iraq, and other parts of Kurdistan in Turkey, Iran, Syria and Armenia and taking place around March 21"
  15. "General Information of Turkmenistan"۔ sitara.com۔ 06 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2012 
  16. ماشین حرام گویی بہ مناسبت نوروز، خاموش!