والدہ مرحومہ کی یاد میں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ نظم اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی۔ اسے مرثیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکل میں اس کے گیارہ بنداور 89 اشعار تھے۔ ”بانگ درا“ میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں تبدیلی کی اور موجودہ شکل میں نظم کل تیرہ بندوں اور چھیاسی اشعار پر مشتمل ہے۔ علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ گھر میں انھیں بے جی کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حسنِ سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گروید ہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطور امانت رکھواتیں۔ برادری میں کوئی جھگڑا ہوتا تو بے جی کو سب لوگ منصف ٹھہراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کر دیتیں۔ اقبال کو اپنی والدہ سے شدید لگاؤ تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں زیر نظر مرثیے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ماجدہ ان کی بخیریت واپسی کے لیے دعائیں مانگتیں اور ان کے خط کی ہمیشہ منتظر رہتیں۔ ان کا انتقال اٹھتر سال کی عمر میں 9 نومبر، 1914ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا۔ اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ اور انھوں نے اپنی ماں کی یاد میں یہ یادگار نظم لکھی۔

فکری جائزہ[ترمیم]

نظم یا ( مرثیہ )کا اصل موضوع والدہ ماجدہ کی وفات حسرت آیات پر فطری رنج و غم کا اظہار ہے۔ اس اظہار کے دو پہلو ہیں،

1)فلسفہ حیات و ممات اور جبر و قدر 2) والدہ مرحومہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا رد عمل

پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے ”والدہ مرحومہ کی یاد میں “ اردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے جس میں وہ پڑھنے والے کو فکراور جذبہ دونوں کے دام میں اسیرکرتے نظر آتے ہیں۔

فلسفہ جبر و قدر[ترمیم]

موت کے تصور سے اور خاص طور پر اُس وقت جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اُچک کر لے گئی ہو، قلب حساس پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی و بے چارگی کا نقش اُبھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ اس لیے مرثیے کا آغاز ہی فلسفہ جبر و قدر سے ہوتاہے۔

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پردہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ سورج چاند ستارے، سبزہ و گل اور بلبل غرض دنیا کی ہر شے فطر ت کے جابرانہ قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکونی نظام میں ایک معمولی پرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔

انسانی ذہن پر فلسفہ جبر و قدر کا رد عمل[ترمیم]

تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کافطری رد عمل ہے۔ مگر دوسرے بند میں اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبر و قدر مشیت ایزدی ہے اس لیے گریہ و زاری اور ماتم نا مناسب ہے۔ آلام ِ انسانی کے اس راز کو پا لینے کے بعد کہ رقص ِ عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظام کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے، میں زندگی میں انسان کی بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی رد عمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریہ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میر ے لیے ممکن نہیں ۔

یہاں دوسرے بند کے آخری شعر میں اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر صابر و شاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے، ساری حکمتیں اور محکم ضوابط، دکھی دل کے رد عمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اوروالدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی بیت رہی ہے۔

یہ تری تصویر قاصد گریہ پیہم کی ہے
آہ یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے

گریہ و زاری کا مثبت پہلو[ترمیم]

گریہ وزاری کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے زندگی کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ روح کی آلودگی اور داخلی بے قراری ختم ہونے سے قلب کو ایک گونہ طمانیت اور استحکام نصیب ہوتا ہے اور انسان ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ زمانے کی سختیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ نفسیات دان بھی یہ کہتے ہیں کہ رونے سے انسان کا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ اقبال نے اس شعر میں جیسے کہا ہے۔

موج دو دِ آہ سے روشن ہے آئینہ مرا
گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا

والدہ اور بچے کا باہمی تعلق[ترمیم]

والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوئوں نے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے۔ سارا میل کچیل آنسوئوں میں تحلیل ہو کر آنکھوں کے راستے خارج ہو گیا ہے۔ اب وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا اور معصوم بچے کی مانند محسوس کرتا ہے۔ شفیق والدہ کی یا د شاعر کو ماضی کے دریچوں میں لے گئی ہے۔ جب وہ چھوٹا سا تھا اور ماں اس ننھی سی جان کو اپنی گودمیں لے کر پیار کرتی اور دودھ پلاتی۔ اب وہ ایک نئی اور مختلف دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے علم و ادب اور شعر و سخن کی دنیا ہے۔ ایک عالم ان کی شاعری پر سر دھنتا ہے

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے
بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے
علم کی سنجیدہ گفتاری بڑھاپے کا شعور
دینوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

ماضی اور حال کی ان کیفیات میں زبردست تضاد کے باوجود، اقبال کے خیال میں ایک عمر رسیدہ بزرگ یا عالم فاضل شخص بھی جب اپنی والدہ کا تصور کرتا ہے۔ تو اس کی حیثیت ایک طفل سادہ کی رہ جاتی ہے جو صحبتِ مادر کے فردوس میں بے تکلف خندہ زن ہوتا ہے۔

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل ِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

والدہ اور بھائی سے وابستہ یادیں[ترمیم]

والدہ کو یاد کرتے ہوئے دور گذشتہ اور اس سے متعلق حالات و واقعات کا یا د آنا سلسلہ خیال کاحصہ ہے۔ اقبال کو وہ دور یا د آتا ہے جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں امام بی بی مرحومہ، اقبال کی سلامتی کے لیے فکر مند رہتیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کی بخیریت واپسی کے لیے دعائیں مانگتیں اور انھیں ہمیشہ اقبال کے خط کا انتظار رہتا۔

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

یہاں اقبال اپنی والدہ کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ میری تعلیم و تربیت، میری عظیم والد ہ کے ہاتھوں ہوئی، جن کی مثالی زندگی ہمارے لیے ایک سبق تھی۔ مگر افسوس جب مجھے والدہ کی خدمت کا موقع ملا تو وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں ،البتہ بڑے بھائی شیخ عطا محمدنے ایک حد تک والدہ کی خدمت کی اور اب والدہ کی وفات پر وہ بھی بچوں کی طرح رو رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ نے اپنے پیار اور خدمت کے ذریعے اپنی محبت کا جو بیج ہمارے دلوں میں بویا تھا، غم کا پانی ملنے پر اب وہ ایک پودے کی شکل میں ظاہر ہوکر الفت کا تناور درخت بنتا جا رہا ہے۔

تخم جس کا تو ہماری کشت ِ جاں میں بو گئی
شرکتِ غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی

فلسفہ حیات و ممات[ترمیم]

والدہ سے وابستہ پرانی یادوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ چھٹے بند سے سلسلہ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طرف مڑجاتا ہے۔ مرثیے کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفہ جبر و قدر پر اظہارخیال تھا مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں دنیا میں جبر و مشیت کا پھندا اس قدر سخت ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر (بجلیاں، زلزلے، آلام مصائب قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی وہ اپنا کام کر جاتے ہیں بے چارہ انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا کیا کر سکتا ہے۔

نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت ِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوقِ گلو افشار ہے

اس کے بعد اقبال دوسرے رخ کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جبرو قدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں، بلکہ عارضی ہے۔ موت مستقلاً زندگی پر غالب نہیں آسکتی۔ کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانہ کائنات نہ چل سکتا۔

موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقشِ حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات

بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں غالب بنایا ہے۔ انسان کوزندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہر میں نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیند کر کے پھر اُٹھ جاتا ہے۔

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپایداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں فطر ت ایک بااختیار خلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ جسے بناو اور بگاڑ پر پوری قدرت حاصل ہے۔ فطرت چونکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتی ہے۔ اس لیے اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے۔ تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہو سکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیات ِ نو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو
خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو

عظمت انسان[ترمیم]

نویں بند میں اقبال نے نظام کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتاہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک، دمک اور طوالتِ عمرکے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے میں اپنا مقررہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر، اس کی نگاہ کہیں زیادہ دور رس اور وسیع اور اس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیا دہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ کہ نظام کائنات میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے، جیسے نظام ِ شمسی میں سورج کا مرتبہ اس لیے موت انسان کوفنا نہیں کر سکتی۔ جومثال شمع روشن محفل ِ قدرت میں ہے
آسماں اک نقطہ جس کی وسعت ِ نظر میں ہے

غم و اندوہ کا رد عمل[ترمیم]

گیارہویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج وغم کے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ فرقت کے لیے وقت مرہم ِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اقبال کو اس سے اتفاق نہیں ہے ان کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہوا اور مصیبت بھی ناگہاں ہو تو صبر و ضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو نکلتا ہے اور وہ پہلو ہے جس کی طرف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا ہے کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔

جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

اسی طرح موت کے وقفہ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہو کر اُٹھ کھڑا ہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اور پھر وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے۔

والدہ کے لیے دعا[ترمیم]

نظم کے خاتمے پر سلسلہ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑ جاتا ہے۔ ابتداءمیں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری کا اظہار کیا وہ والدہ سے محبت رکھنے والے مغموم و متاسف بچے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہارتھا۔ لیکن فلسفہ حیات و ممات پر غور و غوض کے بعد شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ ایک پختہ کا مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے درد و غم کو اپنی ذات میں اس طرح سمو لیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے۔

یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعائوں سے فضا معمور ہے

یوں کہنا چاہیے کہ اقبال نے غم کا ترفع کر لیا ہے۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے بھی متاسف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ آخری تین اشعار دعائیہ ہیں۔ اقبال دعا گو ہیں جس طرح زندگی میں والدہ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھی جن سے سب لوگ اکتساب ِ فیض کرتے تھے۔ خدا کرے ان کی قبر بھی نور سے معمور ہو۔ اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ سبزہ نورستہ خدا کی رحمت کی علامت ہے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

فنی جائزہ[ترمیم]

”والدہ مرحومہ کی یاد میں “ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بند کی ہے۔ مرثیہ بحرِ رمل مثمن مخدوف الآخر میں ہے۔ ارکان یہ ہیں

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

لہجے کا تنوع[ترمیم]

”والدہ مرحومہ کی یاد میں “ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اور دھیما لہجہ رکھتا ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی، قدرت کی جبریت اور زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے وہاں لہجے کاسخت اور پر جوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے اپنی والدہ سے وابستہ یادِ رفتہ کو آواز دی ہے وہاں اس کے لہجے میں درد و کرب اور حسرت و حرماں نصیبی کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اتار چڑھاو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات آشکار ا ہے۔

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

سوز و گداز[ترمیم]

زیر مطالعہ مرثیہ اپنے تاثرکے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار اتنے پرتاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غالباً یہ مرثیہ شعر و ادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کر سکے۔ اس انفرادیت اور اثر انگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیر متاثر رہنا ممکن نہیں۔

تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ
صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

علامہ اقبال نے اس کی ایک نقل اپنے والد محترم شیخ نو رمحمد کو بھیجی تھی۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سو ز و گداز سے ان پر گریہ طاری ہو جاتا اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوز و گداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر یہ ایک جذباتی موضوع تھا۔

فارسیت[ترمیم]

یہ مرثیہ بھی اقبال کی ان نظموں میں سے ہے جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔ بحیثیت مجموعی پوری نظم پر ایک نظر دوڑانے سے یہی احساس ہوتا ہے۔ مصرعوں کی تراش اور تراکیب کی بناوٹ بھی اسی پر شاہد ہے۔

خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رودبار
ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار

حسن بیان کے چند پہلو[ترمیم]

خالص فنی اعتبار سے مرثیہ حسنِ بیان کا ایسا خوبصورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شائد ہی ملے گی۔ رشید احمد صدیقی کہتے ہیں،

” فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں لیکن ان میں ایک بھی توجہ پر بار نہ ہو۔“

نظم میں زبان و بیان او ر صنائع بدائع کے وسائل غیر شعوری طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ حسن بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں۔

تشبیہات:۔

یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعائوں سے فضا معمور ہے

صنعت مراعاة النظیر:۔

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحظ ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں

صنعت طباق ایجابی:۔ علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دینوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

صنعت ترافق:۔

دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات

صنعت ایہام تضاد:۔

مثل ِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نو رسے معمور یہ خاکی شبستا ں ہو ترا

قافیوں کی تکرار:۔

دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں گریاں نہیں
خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار

محاکات:۔

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل ِسادہ رہ جاتے ہیں ہم

مجموعی جائزہ[ترمیم]

نظم کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جدا ہونے عزیز ہستی کے بارے میں اقبال کا طرز فکر اور پیرایہ اظہار ایک سچے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔ جو والدہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے دست بہ دعا ہیں کہ باری تعالٰیٰ مرحومہ کی قبر کو نور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔

نظم کے بارے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں،

” اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے۔ جس کی بدولت اقبال کو اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے۔ اور دوسری حیثیت اس مجبور اور مغموم انسان کی ہے جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے۔“

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]