واہ کینٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

واہ کینٹ
ملک پاکستان
پاکستان کی انتظامی تقسیمپنجاب، پاکستان
ڈویژنراولپنڈی
قیام1951
رقبہ
 • شہر90.65 کلومیٹر2 (35 میل مربع)
بلندی471 میل (1,545 فٹ)
آبادی (2012)
 • کثافت3,861/کلومیٹر2 (10,000/میل مربع)
 • شہری350,000
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
 • گرما (گرمائی وقت)پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
General Post Office(GPO)47040
ٹیلی فون کوڈ0514
ویب سائٹwww.wahcantt.com/

واہ کینٹ (انگریزی: Wah Cantonment)۔ واہ کینٹ پاکستان کا ایک عسکری شہر ہے جو صوبہ پنجاب کے شہر ٹیکسلا سے منسلک اور  راولپنڈی / اسلام آباد  سے 30 ​​کلومیٹر (19میل) شمال مغرب میں واقع ہے۔یہ پاکستان میں سب سے اعلی درجے کے ترقی یافتہ مقامات میں سے ایک ہے۔

تاریخ[ترمیم]

واہ کینٹ (Wah Cantt) ٹیکسلا سے متصل ہے جو دنیا کی قدیم ترین تاریخی تعمیرات سے مزین ایک چھوٹا سا قصبہ ہے.

'واہ' (Wah) نام کی وجہ تسمیہ کا آغاز مغلیہ دور سے ہوا  ہے۔ اس کا نام مغل شہنشاہ جہانگیر نے نامزد کیا تھا جب انھوں نے کشمیر سے واپس آتے ہوئے واہ گاؤں (قدیم نام جلال سر) میں کیمپ  لگایا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر نے اس جگہ کے مناظر اور خوبصورتی سے متاثر ہو کر بے ساختہ کہا  "واہ" ('واہ'، سبحان اللہ ) اور اس طرح اس گاؤں (جلال سر) کو  'واہ' کا نام دے دیا گیا تھا۔ مغلوں کی مہم جوئی کا اس گاؤں اور پورے علاقے کی طرز تعمیر پر بڑا گہرا اثر پڑا جو اب بھی مغل تعمیرات جیسے 'واہ باغات' (Wah Gardens) سے جھلکتا نظر آتا ہے۔

یہ ذکر ہے سن 1580کا جب واہ کا نام واہ نہیں ’’ جلالسر‘‘ ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مغل بادشاہ اکبر کی حکومت تھی۔ شہنشاہ اکبر کے ایک وزیر راجا مان سِنگھ جو شہنشاہ جہانگیر کے برادرِ نسبتی بھی تھے ان کو 1581میں یہاں تعینات کیا گیا تاکہ وہ دشمنوں کو اٹک پار کرنے سے روک سکیں۔ یہ وہی راجا مان سنگھ ہیں جن کے نام پر پاکستان کے ایک بہت خوبصورت شہر اور سیاحتی مقام مانسہرہ ( ناران، کاغان، بالاکوٹ وغیرہ) کا نام مانسہرہ رکھا گیا- راجا مان سنگھ 1581سے 1586 تک یہاں رہے اس وقت حسن ابدال اور جلالسر کی پہاڑی ( موجودہ واہ گارڈن) ایک وادی کا منظر پیش کرتی تھیں جہاں سے اب جی۔ٹی روڈ گزرتا ہے۔ چنانچہ راجا مان سنگھ نے اس جگہ کا انتخاب کیا اور یہاں بارہ دروازوں پر مُشتمل ایک باغ اور خوبصورت تالاب بنایا جس کو آج کل مغل گارڈن واہ یا واہ گارڈن کہا جاتا ہے۔

29 اپریل 1607 کو مغل بادشاہ جہانگیر کابل جاتے ہوئے جب یہاں سے گذرے تو یہ خوبصورت جگہ دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا ’’ واہ ‘‘ ۔ چونکہ مغلوں کی زبان فارسی تھی اور فارسی میں واہ حیرت کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے۔ لہذا شہنشاہ کا یہ لفظ تاریخ کے ورق پہ ثبت ہو گیا اور اس علاقے کو جلال سر کی بجائے ’’ واہ‘‘ کہا جانے لگا۔ اس جگہ کا ذکر بادشاہ جہانگیر نے اپنی کتاب میں بھی کیا جس میں وہ لکھتے ہیں کے : ’’ بارہویں محرم ؁ 1014ھ حسن ابدال میں قیام کیا۔ اس مقام کی مشرقی سمت میں ایک کوس کے فاصلے پر ایک آبشار ہے جس کا پانی بہت تیزی سے گرتا ہے اور اس تالاب کے وسط میں آبشار کا منبع ہے ۔ راجا مان سنگھ نے ایک مختصر سی عمارت بنوائی ہے، تالاب میں چوتھائی گز لمبی مچھلیاں بکثرت ہیں۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے جال ڈال کر دس بارہ مچھلیاں پکڑیں اور ان کی ناک میں موتی ڈال کر پھر پانی میں چھوڑ دیا۔‘‘

تخت نشینی کے بعدمغل بادشاہ جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں نے سن 1639 میں پہلی بار یہاں قیام کیا اور اپنے مرکزی محکمہ تعمیرات کو یہاں بلایا اور عمارت کو از سرِ نو تعمیر کرانے کا حکم دیا ، اس دور کے ماہرِ تعمیرات احمد معمار لاہوری نے یہاں کے باغوں ، محلات اور سرائے کے نقشے تیار کیے اور دو سال تک اپنی نگرانی میں تعمیر کرایا۔

اس باغ کی تعمیر مُغلیہ طرز پر کی گئی اور خوبصورت نہریں بنوائی گئیں۔ اس تصویر میں تالاب کے عقب میں نظر آنے والی پہاڑی حسن ابدال کی ہے ۔ شاہ جہاں کے ہم عصر مورخین عبد الحمید لاہوری نے اس باغ کو بہشتِ امین اور محمد صالح کنبوہ نے قائم مقامِ گُلستانِ ارم کے انقلاب سے منسوب کیا۔ باغ کی تکمیل کے بعد مغل بادشاہ شاہ جہاں نے مزید چار دفعہ سن 1646, 1647, 1649 اور 1654 میں یہاں قیام کیا ۔ اس کے بعد مغل دور کے بہت عظیم، روشن ضمیر اور نیک بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بھی جولائی 1676میں یہاں قیام کیا۔ اس کے بعد 1747 سے 1826کے دوران احمد شاہ ابدالی (جن کے بیٹے حسن شاہ ابدالی کے نام پر حسن ابدال کا نام حسن ابدال پڑا تھا)اور پھر 1826 سے 1849 کے دوران سکھ رُول کے دور میں یہ باغ بہت بُری طرح متاثر ہوا ۔ کیونکہ سکھ سپہ سالار ہری سنگھ نالوہ (جس کے نام پر حسن ابدال کے قریبی ہزارہ کے شہر ہری پور کا نام ہری پور رکھا گیا تھا)نے مسلمانوں کی تمام عمارات اور مقبروں کو مسمار کرنے کی کوشش کی جس میں حسن ابدال میں واقع شہزادی لالہ رخ اور حکیموں کے مقبرے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ واہ کے اس باغ پہ بھی حملہ کیا گیا۔

سن 1848 میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھوں کے درمیان لڑی جانے والی دوسری لڑائی میں واہ کے ایک سردار کرم خان نے ایک انگریز بریگیڈئیر جان نیکولسن جو ٹیکسلا کے قریب ایک حملے میں زخمی ہوا کی جان بچائی مگر اس واقعے کے بعد سردار کرم خان کے بھائی فتح خان نے ان کا قتل کر دیا لیکن 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران یہی جان نیکولسن ایک مسلم سپاہی کالا خان کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کی یاد میں 1868 میں ٹیکسلا بائی پاس کے قریب جی ٹی روڈ پہ اسی پہاڑی پہ 40 فٹ اونچا گرینائیٹ کا ٹاور تعمیر کیا گیا جو ’’ نیکولسن اوبلیسک‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے اور اب بھی موجود ہے۔

چنانچہ سردار کرم خان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے اسی وفاداری کی بدولت انگریز حکومت نے1865 میں واہ کے اس پورے علاقے بشمول مغل گارڈن واہ کا انتظام ان کے بیٹے   نواب محمد حیات خان کے حوالے کر دیا جن کی قبر ابھی بھی واہ گارڈن کے تالاب کے کنارے موجود ہے۔

انگریز دور میں اسلحے کی ضروریات کے پیشِ نظر برصغیر میں 16 اسلحہ ساز فیکٹریاں بنائی گئی تھیں مگر قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے حصے میں صرف ایک اسلحہ ساز فیکٹری آئی جو واہ میں ہی قائم تھی اور ’’ رائل آرڈنینس فیکٹریز‘‘ (ROF) کے نام سے مشہور تھی۔ اس لیے قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مزید اسلحہ ساز فیکٹری بنانے کی منظوری دی لہذا دسمبر 1951 میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین نے اسی فیکٹری کے ساتھ مزید چار ورکشاپس کا افتتاح کیا اور رائل آرڈنینس فیکٹریز کوپاکستان آرڈنینس فیکٹریز (POF) کا نام دے دیا گیااور چوہدری سردار خان پی۔او۔ایف کے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل بنے۔

سن 1951 میں ہی واہ کو چھاؤنی یعنی کینٹ ( واہ کینٹونمنٹ) کا درجہ دیا گیا اور POF کے ملازمین کے لیے رہائشی منصوبے (کوارٹرز) کا بھی افتتاح کیا گیا۔

واہ کینٹ کے وسط سے گزرتا ہوا مال روڈ دراصل وہی جی۔ٹی روڈہے جو سن 1545 میں برصغیر کے عظیم حکمران شیر شاہ سوری نے بنایا تھا مگر 1951میں واہ کینٹونمنٹ کے قیام کا ساتھ ہی  جی۔ٹی روڈ کا روٹ تبدیل کر کے اسے  واہ کینٹ کے باہرسے گزارا گیا اور اندر سے گزرنے والے روڈ میں ترمیم کر کے اسے مال روڈ کا نام دیا گیا۔ 

90 کلومیٹر سکوئیر رقبے پر پھیلے اس خوبصورت شہر کی آبادی اب تقریباََ ساڑھے تین لاکھ ہے۔ چاروں جانب حسن ابدال ، دھامرہ ،خان پور اور ٹیکسلا کی پہاڑیوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے واہ کینٹ کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگ جاتے ہیں ۔

دار الحکومت اسلام آباد سے صرف 30 کلومیٹر فاصلہ اور صدیوں پُرانی تاریخی اہمیت ہونے کی وجہ سے اس وقت واہ کینٹ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کا سب سے پُرامن ، خوبصورت اور 97 % شرح خواندگی رکھنے والا شہر ہے۔

واہ سے ملحقہ تاریخی شہر ٹیکسلا (جولیاں) میں واقع دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کے کھنڈر کی دریافت اور گندھارا تہذیب و تمدن کی ایک یادگار ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ذہانت اس شہر کی مٹی میں شامل ہے اسی لیے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر دو یونیورسٹیاں ایک میڈیکل کالج دو انجنئیرنگ کالج اور سینکڑوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز اور کالجز موجود ہیں۔

آزادی کے بعد پاکستان کو اسلحہ اور گولہ بارود کی پیداوار کے لحاظ سے کوئی سہولیات موجود نہیں تھیں ، لہذا پنجاب کے قریب اس گاؤں 'واہ' میں ہنگامی بنیادوں پر ایک فیکٹری کے لیے فوری منصوبہ بندی کی گئی۔ اس طرح 1951 میں جب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کا سنگ بنیاد رکھا تو 'واہ کیننٹ' کا قیام عمل میں آیا .

پی او ایف(P. O. F) صرف بارود بنانے والی فیکٹری ہی نہیں ہے بلکہ 14 فیکٹریوں کا ایک کمپلیکس ہے جس میں گولہ بارود اور اسلحہ کی وسیع اقسام جیسے گولیاں، اسالٹ رائفلز، میزائل اور بم تک تیار ہوتے ہیں۔ نزدیکی ہیوی انڈسٹریز(H.I.T) ٹیکسلا میں ٹینک اور دیگر بھاری مشینری تیار ہوتی ہے۔ نزدیک ہی موجود کامرہ شہر میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس(P. A.C) ہے جہاں پاکستان ائیر فورس کے لیے ہوائی جہازوں کی تیاری ، اسمبلی ، مرمت اور اوو رہالنگ  کی جاتی ہے.

جغرافیہ[ترمیم]

واہ کینٹ اسلام آباد سے 30 کلومیٹر(19 میل. appx) شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ ہر سمت سے پہاڑوں میں گھری ہوئ ایک وادی ہے۔ واہ کینٹ ہر طرح کی فصل، خاص طور پر پھل کی بڑھوتری کے لیے موزوں ایک علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے نے پی او ایف کی تعمیر سے پہلے کچھ خاص ترقی نہی کی تھی ، لیکن اب یہ پاکستان میں سب سے اعلی درجے کے ترقی یافتہ مقامات میں سے ایک ہے۔

دفاع[ترمیم]

پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) واہ کینٹ، روایتی ہتھیاروں کی پیداوار کی ذمہ دار ہے۔ POF پاکستان کا ایک سرکاری ادارہ ہے جو وزارت دفاع میں دفاعی پیداوار کے تحت کام کرتا ہے۔ POF اپنے 40،000 سے زائد ملازمین کے ساتھ اسلحہ اور گولہ بارود بنانے والی فیکٹریوں کا ایک کمپلیکس ہے۔ پی او ایف پاکستان آرمی اور اس کے تمام غیر ملکی گاہکوں کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتی ہے۔

پی او ایف چونکہ افواج کی اسلحہ کی تمام  ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی اس لیے بڑی تعداد میں درآمدآت کی جاتی ہیں۔اس میں آرمی،بحریہ اور ایئر فورس کے لیے تقریبا 70 اہم مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ اہم مصنوعات میں خود کار رائفل، ہلکی، درمیانی اور بھاری مشین گن، مارٹر اور آرٹلری گولہ و بارود کی مکمل رینج،جنگی طیاروں، طیارہ شکن اور ٹینکوں کے لیے گولہ بارود اور ٹینک شکن گولے، بموں،بارودی سرنگیں ، پیرو ٹیکنیکس اور سگنل اسٹور وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔پی او ایف کی کپڑے کی فیکٹری میں مسلح افواج کے افراد کے لیے یونیفارم بھی تیار کی جاتی ہیں.

تعلیم[ترمیم]

واہ کینٹ اعلی شرح خواندگی کی وجہ سے پاکستان اور ایشیا میں سرفہرست ہے۔اس کی شرح خواندگی تقریباً %100ہے. اس چھوٹے سے شہر میں دو چارٹرڈ یونیورسٹیاں، ایک میڈیکل کالج،ایک انجینئری کالج اور اسکولوں اور کالجز کی ایک بڑی تعداد ہے۔ واہ کینٹ کے طالب علم پاکستان کے تعلیمی اداروں اور دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ واہ کینٹ میں پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں سائیکل کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس لحاظ سے یہ شہر اپنے ماضی کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ ٹیکسلا جو زمانہ قدیم میں ہزاروں سال علوم و فنون کا مرکز رہا تھا اس شہر کے ساتھ ہی منسلک ہے.

ٹرانسپورٹ[ترمیم]

واہ کینٹ میں ایک منفرد قسم کی ٹرانسپورٹ بھی ہے  جسے عام طور پر پی او ایف ویلفیئر ٹرانسپورٹ (POFWT) کہتے ہیں۔یہ ادارہ واہ کینٹ بھر میں سات راستوں پر بسیں اور وین چلاتا ہے۔ یہ ٹرسٹ پاکستان میں پہلا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک بھی تھا جس میں خاتون مسافروں کے لیے خواتین کنڈکٹرز کو ملازمت دی گئی۔ بعد میں خاتون کنڈیکٹرز بند کردی گئیں .

محلے[ترمیم]

  • قائد اعظم سٹریٹ
  • سلیم نگر،
  • دربار کریمی،
  • چھاچھی محلہ،
  • مصطفی آباد،
  • لیاقت آباد ،
  • جمیل آباد،
  • مدینہ سٹریٹ،
  • علی سٹریٹ،
  • شاہد آباد،
  • لوہسر شرفو،
  • محلہ ٹھیکیداراں ،
  • گلبرگ کالونی
  • جلالہ روڈ،
  • نواب آباد ۔
  • احمد نگر
  • منیر آباد
  • سادات کالونی
  • قاضی آباد

اہم شخصیات[ترمیم]

واہ کینٹ سے قابل ذکر افراد میں شامل ہیں:

  1. لیفٹیننٹ جنرل عمر فاروق درانی ہلال امتیاز(ملٹری )، چیئرمین پی او ایف بورڈ، واہ کیننٹ

2. بریگیڈیر خرم شہزاد اسٹیشن کمانڈر / صدر کنونشن بورڈ، واہ کیننٹ،

3.کینٹ ایگزیکٹو آفیسر عمر صدیق چوہدری، واہ کیننٹ

4.امجد محمود کشمیری، کینٹ نائب صدر، واہ کیننٹ 5 سید سبط علی صبا اردو شاعر

6.پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا مفتی عدیل ربانی نقشبندی مجددی صاحب مدظلہ العالی مکی مسجد پنڈ کمالہ بانیاں ڈاکخانہ 26 ایریا واہ کینٹ

محمد عارف قادری

ڈاکٹر رؤف امیر

9. سید علی مطہر اشعر

مزید دیکھیے[ترمیم]

Central Mosque (Markai Jamia Masjid), Wah Cantt

حوالہ جات[ترمیم]

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔