وطنیت و قومیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مغربی تصور قومیت سے بدظنی[ترمیم]

آج کے جدید مغربی سیاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بناءپر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی ان کا خیال تھا کہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ اور بلا وجہ تنازعات کی بناءپڑتی ہے۔ جو بعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اور بلا خیز تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ اسی نظام کو انھوں نے دنیائے اسلام کے لیے خاص طور پر ایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھا اور جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مدد کی تو انھیں یقین ہو گیا کہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کے لیے زہر قاتل سے زیادہ نقصان ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قومیت کے مغربی تصور کے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کا تصور پیش کیااور یہ ثابت کیا کہ مسلمانان ِ عالم کے لیے بنیادی نظریات اور اعتقادات کی رو سے ایک وسیع تر ملت کا تصور ہی درست ہے۔ اور قومیت کے مغربی نظریہ ہمیں بحیثیت ملت ان کی تباہی کے بے شمار امکانات پوشیدہ ہیں۔ارادی طور پر ان پر عمل پیرا ہونا تاریکی کی جانب راغب ہونے کے مترادف ہے.

قوم اور ملت ہم معنی[ترمیم]

اقبال قوم اور ملت کو مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مسلمان قوم سے ان کی مراد ہمیشہ ملت اسلامیہ ہوتی ہے۔ اس بارے میں وہ اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں۔ ” میں نے لفظ ”ملت“ قوم کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی میں یہ لفظ اور بالخصوص قرآن مجید میں شرع اور دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن حال کی عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بکثرت سندات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں ”ملت “بمعنی قوم استعمال کیا ہے۔“

آگے چل کر لکھتے ہیں۔

” ان گزارشات سے میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، قران کریم میں مسلمانوں کے لیے ”امت“ کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا۔ ”قوم“ رجال کی جماعت کا نام ہے۔ یہ جماعت با اعتبار قبیلہ، نسل، رنگ ،زبان، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ”ملت“ سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ”ملت“ یا ”امت“ جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہوتی۔

اقبال کا تصور قومیت[ترمیم]

اقبال قومیت کے اس تصور کے خلاف ہیں جس کی بنیاد رنگ، نسل ،زبان یا وطن پر ہو۔ کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پر امید مستقبل ہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے۔ اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول توحید خدا ملی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کا دوسرا رکن رسالت ہے۔ اور یہی دو نوں اساس ملت ہیں۔ نہ کہ وطن جو جنگ اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتاہے۔

اس سلسلہ میں اقبال نے اپنے ایک مضمون میں یوں لکھا ہے۔

”قدیم زمانہ میں ”دین“ قومی تھا۔ جیسے مصریوں، یونانیوں اور ہندیوں کا۔ بعد میں نسلی قرار پایا جیسے یہودیوں کا۔ مسحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیوٹ ہے۔ جس سے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن ”سٹیٹ “ ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نو ع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ ”دین“ نہ قومی ہے نہ نسلی ہے، نہ انفرادی اور نہ پرائیوٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اور اس کامقصد باوجود فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد اور منظم کر نا ہے۔

ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اخوت کے قائل ہیں لیکن اس کی بنیاد اسلام پر رکھتے ہیں کیونکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کے پاس وسیع انسانی مسائل کا حل موجود ہے وہ قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے وجود میں آ سکتا ہے۔ چنانچہ ان کے تصور قومیت کی بنیاد اسلامی معتقدات پر ہے۔ وہ کہتے ہیں،

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے

قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

ملت کے لیے اخوت کی ضرورت[ترمیم]

اسلام نے عالم ِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم کو بپا کرکے انسان کو رنگ و نسل، نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔ اقبال کے نزدیک یہ ” ہیئت اجتماعیہ“ قائم کرنا اسلام ہی کا نصب العین تھا۔ مگر بدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں، گرہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔ اقبال مسلمانوں کو پھر اسی اخوت اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اور ایک ملت میں گم ہو جانے کا سبق سکھاتے ہیں۔ وہ ایک عالمگیر ملت کے قیام کے خواہش مند ہیں جس کا خدا، رسول کتاب، کعبہ، دین اور ایمان ایک ہو،

منفعت ایک ہے اسی قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ملت اور اخوت کا پیغام[ترمیم]

اسی جذبہ کے تحت اقبال مسلمانوں کو اخوت کا پیغام دیتے ہیں اور انھیں مشورہ دیتے ہیں کہ رنگ و خون کو توڑ کر ایک ملت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک قوم، نسل اور وطن کی مصنوعی حد بندیوں نے نوع انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیاہے۔ اور اس کا علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلامی معاشرہ کے تصور کو رائج کیا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی معاشرہ کا حصہ بنا لیں۔

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل، اچھل کر بے کراں ہو جا

مگر وحدت کا یہ احساس اور اخوت کا یہ جذبہ اگر نوع انسانی کے اندر پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسلا م کے ذریعہ ہی پیدا ہونا ممکن ہے۔ اقبال کی نظر میں اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے۔ جو انسان کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں۔

ربط ملت و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گذر

اتحاد اقوام اسلامی کا تصور[ترمیم]

اسلام بنیادی طور پر ایک عالمگیر پیغام ہے اور تما م نوع انسانی کو اخو ت کی لڑی میں پرو کر ایک وسیع تر ملت اسلامیہ کے قیام کی دعوت دیتا ہے۔ تاکہ انسان کی ہوس کا علاج ہو سکے۔ لیکن اس کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں پرئوے جائیں۔ اقبال کی بھی یہی تمنا ہے ان کے نزدیک اسلام ایک ازلی، ابدی، آفاقی اور عالمگیر نوعیت کا پیغام ہے، یہ ہر زمانہ، ہر قوم اور ہر ملک کے لیے راہ ہدایت ہے۔ اس لیے اس کے پیروکاروں کو رنگ و نسل اور ملک وطن کے امتیازات مٹا کر یکجاہو جانا اور دنیائے انسانیت کے لیے ایک عالمگیر برادری کی مثال پیش کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ”جمعیت اقوام“کی تنظیم پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصل مقصد انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا ہو نا چاہیے نہ کہ قوموں کا ایک جگہ اکٹھا ہو جانا۔

اس دور میں قوموں کی محبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

مکہ نے دیا خاک جینو ا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام ہے جمعیت آدم

اتحاد عالم اسلام میں رکاوٹ[ترمیم]

اقبال کے نزدیک اسلامی قومیت کی بنیاد اسلام پر ہے ملک و نسب نسل وطن پر نہیں۔ اس تصور کی انھوں نے عمر بھر شدو مد سے تبلیغ کی۔ ہر مسلمان اسی تصور کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن مسلم ریاستوں کے اتحاد اور دنیا کے تمام مسلمانوں کے ایک قوم بن جانے کا حوصلہ اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وطنیت اور قومیت کے مغربی نظریہ کی گرفت کمزور نہیں پڑجاتی۔ قریب قریب سارا عالم اسلام کافی عرصہ تک مغربی اقوام کا محکوم رہا ہے اور جدید اسلامی ریاستوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کی تشکیل ہی مغربی نظریہ قومیت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اس طرح انھیں مغربی نظریات کے سحر سے آزاد ہونے میں کچھ وقت عرصہ لگے گا۔ لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ کہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر بھی ایک نہ ایک دن ضرور پوری ہوگی اور دنیا کے تمام مسلمان ملت واحدہ کی شکل اختیار کرکے ایک عالمگیر برادری کی شکل میں ڈھل جائیں گے۔

اس تما م بحث سے پتہ چلتا ہے کہ قومیت کے متعلق نظریات کے حوالے سے اقبال ایک ارتقائی عمل سے گذرے اور آخر کا ر اس نتیجے پر پہنچے کہ نسلی، جغرافیائی، لسانی حوالے سے اقوام کی تقسیم مغرب کا چھوڑا ہو ا شوشہ ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صر ف مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ اس لیے انہو ں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے نظریہ ملت سے ایک ہونے کا پیغام دیا۔ تاکہ مغرب کی ان سازشوں کو ناکام بنا یا جا سکے۔ اور مسلمان اقوام عالم مے ں اپنا کھویا ہوا مقا م ایک بار پھر حاصل کر سکیں۔

نظریہ وطنیت و قومیت[ترمیم]

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا

وطن پرستی کا دور[ترمیم]

اقبال کی ابتدائی نظموں میں وطن سے ان کی گہری محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر شخص کی طرح انھیں بھی اپنے وطن سے بڑی محبت تھی۔ بلکہ یہ محبت وطن پرستی کی حدوں تک پہنچی تھی۔ چنانچہ ان کی اس دور کی نظموں میں بقول مولانا صلاح الدین احمد،

” جب ہم اقبال کی ابتدائی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو قدرت اور عورت کے حسن کی پرستش کے بعد جو جذبہ سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ وہ وطن کی پرستش ہے۔“

وطن سے ان کی گہری محبت کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ ان کے اولین اردو مجموعہ” بانگ درا“ کا آغاز ہی ایک ایسی نظم سے ہوتا ہے۔ جو وطن پرستی کے بلند پایہ جذبات سے بھرپور ہے اس کا شمار ان نظموں میں ہوتا ہے جو حصول تعلیم کی غرض سے ان کے یورپ جانے سے قبل لکھی گئیں۔ مثلاً اپنی نظم ” تصویر درد “ میں وہ ہندوستان کی قسمت پر آنسو بہاتے ہوئے کہتے ہیں،

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنا دل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

”ترانہ ہندی“ ان کی وہ مشہور اور مقبول عوام نظم ہے جو عرصہ تک ہندوستان کے بچے بچے کی زبان پر رہی ہے۔ اس میں انتہائی دلنشین طریقہ سے اپنے وطن کے ساتھ گہرے لگائو اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہیں ہم بھی، دل ہو جہاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا
یونان و مصر و روما، سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا

اس زمانہ کی ایک اور نظم” ہندوستانی بچوں کا گیت“ ایک ایسی نظم ہے جس کے ایک ایک لفظ سے وطن پرستانہ جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ وطن کے ساتھ اتنے گہرے لگائو کا اظہار کرنے والی اردو میں بہت کم نظم لکھے گئے ہیں اس میں اقبال کی وطن کے ساتھ محبت اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔

بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کا سینا
نو ح نبی کا ٹھہرا آکے جہاں سفینا
رفعت ہے زمین کی بام فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

اس نظم کے آخری بند میں اقبال نے اپنے وطن کو جس والہانہ انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اس کی اردو شاعری میں شائد ہی کوئی اور مثال مل سکے۔ اسی طرح اپنی نظم ” نیا شوالہ“ میں انھوں نے یہ کہہ کر اپنی وطن پرستی کی اتنہا کر دی تھی کہ ’ ’ خاک وطن کا جھکو یہ ذرہ دیوتا ہے۔“ ظاہر ہے کہ وطن پرستی کی خاطر اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کہ شاعر اپنے وطن کے ذرے زر ے کا پجاری ہے۔

بعد کی وطن دوستی کی شاعری[ترمیم]

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ جوں جوں اقبال فکری ارتقاءکے مراحل طے کرتے گئے، ان کی وطن پرستانہ جذبات دھیمے اور ملت پرستانہ جذبات گہرے ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ وطن کی محبت کے نظریہ سے قطعاً کنارہ کش ہو گئے۔ مگر یہ اعتراض درست نہیں ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ بعد کے ادوار میں ان کی شاعری میں وطن پرستی کا وہ والہانہ جذبہ نہیں ملتا جو ابتدائی دور کی خصوصیت ہے۔ مگر وطن دوستی کا اظہار وہ اپنی شاعری کے ہر دور میں جابجا کرتے ہیں۔ دراصل وطن کی جغرافیائی حیثیت سے انھوں نے کبھی انکار نہیں کیا اور نہ اس کے ساتھ ان کی محبت میں کبھی کمی آئی۔ ان کی مخالفت صرف وطنیت کے سیاسی نظریہ سے تھی۔ طاہر فاروقی ”سیرت اقبال“ میں لکھتے ہیں،

” وطنیت کا وہ نظریہ جس کی تبلیغ سیاستِ مغرب کی طرف سے ہوئی ہے آپ اس کی شدید مخالف ہیں۔ اور اقوام و عمل کے حق میں اس کو سم قاتل خیال کرتے ہیں لیکن وطنیت کا یہ مفہوم کہ ہندی، عراقی، خراسانی، افغانی، روسی، مصری وغیرہ ہونے کے اعتبار سے ہر فرد کو اپنے وطن ولادت سے تعلق اور نسبت ہے اور اسی لیے اس کو اپنے وطن کی خدمت کرنی چاہیے اور قربانیوں سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔ اس کے آپ قائل اور معترف ہیں۔“

گویا ان کے وطن دوستی کے جذبات میں نہ کبھی تغیر آیا اور نہ ان میں کبھی کمی ہوئی۔ ان کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی پختگی کے دور کی تصانیف ”جاویدنامہ “۔”پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق“ اور مثنوی مسافر میں بھی وطن پرستی کے لطیف جذبات کا اظہار جا بجا ہوا ہے ”جاوید نامہ کا وہ حصہ تو خاص طور پر قابل ذکر ہے جہاں انھوں نے ”قلزم خونیں“ کے تحت روح ہندوستان اور اس کے نامہ و فریاد کی تصویر کشی کا حق ادا کر دیا ہے۔ انھوں نے میر جعفر اور میر صادق جیسے وطن کے غداروں کو ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن، قرار دیکر ان کی روحوں کو ایک قدر ناپاک ثابت کیا ہے کہ انھیں دوزخ بھی قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اقبا ل نے انھیں ایک قلزم خونیں میں مبتلائے عذاب دکھایا ہے۔ کیونکہ اقبال کے نزدیک وطن سے غداری ایک ایسا خوفناک جرم ہے جسے کسی حالت میں بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔

وطنیت کے سیاسی تصور کی مخالفت[ترمیم]

اقبال نے مارچ 1938ءمیں ایک مضمون لکھا جس میں وطنیت کے مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کی تھی۔ اور بتایا تھا کہ وہ کس قسم کی وطنیت کے مخالف ہیں اس مضمون میں وطنیت کے سیاسی تصور سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

” میں نظریہ وطنیت کی تردید اس زمانہ سے کر رہا ہوں جبکہ دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتداءہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی دلی اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں نیرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب ہو گئی۔

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں،

” اگر بعض علما ءمسلمان اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ”دین “ اور ”وطن“ بحیثیت ایک سے اسی تصور کے یکجا رہ سکتے ہیں تو میں مسلمانوں کو ہر وقت انتباہ کرتا ہوں کہ اس راہ سے آخری مرحلہ اول تو لادینی ہوگی اور اگر لادینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اس کے اجتماعی نظام سے لاپروائی۔“ ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال وطنیت کے مغربی سے اسی تصور کے مخالف ہیں اور یہ مخالفت اس وجہ سے ہے کہ نظریہ براہ راست اسلامی عقائد و تصورات سے متصادم ہوتا ہے۔

وطن کا بت[ترمیم]

انسانی فکریت اور بت پرستی کی ایسی خوگر رہی ہے کہ جب ایک بت ٹوٹ جاتا ہے تو دوسرا نیا بت تراش لیتی ہے۔ نت نئے بت تراشنے کا سلسلہ قدیم زمانہ کی طرح آج بھی جاری ہے۔ ان بتوں کی شکلیں تھوڑی بہت بدل گئی ہوں تو بد ل گئی ہوں، ورنہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج انسانی گروہوں نے وطنیت کا نیا بت تراشا ہے۔ جس کے آگے وہ سر بسجود ہیں۔ اس بت پر بلا تکلف و تامل انسانیت کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ چنانچہ اقبال کا دعویٰ ہے جس طرح دوسرے بت توڑے گئے ضرور ہے کہ اس بت کو بھی توڑا جا ئے تاکہ انسانیت کی گلو خلاصی ہو۔

فکر انسان بت پرستی، بت گری
ہر زماں در جستجو پیکری

باز طرح آزری انداخت است
تازہ تر بے روزگاری ساخت است

اقبال وطن کے اس طرح بت بنا کر پوجنے کے سخت خلاف ہیں اور اسے اسلام کی عالمگیر روح کے منافی خیال کرتے ہیں اسی لیے وہ اسے نئے بت کو توڑنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں چنانچہ ”بانگ درا“ کی ایک نظم ”وطنیت ‘ ‘ جس کا ذیلی عنوان ہے ”وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے “ ہے انھوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنے اس خیال کا اظہار کیا ہے۔

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے

بازو تر اتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

خالی ہے صداقت سے سے است تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

وطنیت اور ملوکیت کا رشتہ[ترمیم]

اقبال کا خیال ہے کہ جدید دور میں سامراجی ملوکیت وطنیت کے سیاسی تصور کا ہی کرشمہ ہے۔ اس لیے وہ اس تصور کے اس پہلو کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف حسین اپنی کتاب”روح اقبال “ میں لکھتے ہیں،

”اقبال ملوکیت یا امپیریلزم کو جارحانہ وطنیت ہی کا ایک شاخسانہ تصور کرتا ہے۔ اور اس کو اسلام کی اخلاقی تعلے م کی رد خیال کرتاہے۔ قومیت کے علمبرداروں کا نظریہ ” میرا وطن غلط ہو تو بھی صحیح ہے“ہے۔ یہ جھوٹی عصبیت حق و باطل میں تمیز نہیں ہونے دیتی۔ جب آدمی سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اور اپنے عمل کو حق بجانب ٹھہر ا سکتا ہے۔

مجموعی جائزہ[ترمیم]

مندرجہ بالا بحث سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اقبال اپنے وطن کی محبت میں کسی بھی شخص سے پیچھے نہیں ہیں اور یہ محبت تمام عمر ان کے لیے متاع عزیز رہی ہے۔ مگر وہ اس وطنیت سے بیزار ہیں جو ایک مستقل نظریہ حیات ہے۔ اور جس کی تبلیغ سب سے پہلے مغربی دنیا میں مخصوص اغراض و مقاصد کے تحت ایک منظم شکل میں ہوئی۔ یہ وطنیت عالمگیر اسلامی اخوت کے راستہ کا پتھر بنتی ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان دیوار حائل کرتی ہے۔ اقبال نے اس مغربی تصور کی بجائے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے پر زور دیا ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں رنگ و نسل وغیر ہ کے امتیازات اور قوم و وطن کے تعصبات کو اگر کوئی نظام ختم کر نے میں کامیاب ہوا ہے تو وہ اسلام ہے۔ اور اسی لیے انھوں نے ترانہ ہندی کے بعد ” ملی ترانہ “ لکھا۔