ولایت (ولی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ولی کی تعریف

امام ابن تیمیہ نے ولایت کے سلسلے میں اہل سنت کے عقیدہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے اہل سنت وجماعت کے عقیدہ میں ولیوں کی کرامت کی تصدیق بھی داخل ہے۔ خود اللہ نے ولیوں کی تعریف اپنے ان الفاظ میں کردی ہے :

أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ[1]

یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور برائیوں سے پر ہیز رکھتے ہیں ۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں جس کے اندر ایمان وتقوی ہوگا وہی اللہ تعالٰی کا ولی شمار ہوگا۔

وضاحت

واضح رہے کہ ولایت محض دعوی اور تمناسے حاصل نہیں ہوتی، اصل ولایت تو ایمان لانا اور اللہ کا تقوی اختیار کرنا ہے، اس لیے ہم اگر کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو اپنے ولی ہونے کا دعوی تو کرتا ہے لیکن اللہ کا تقوی اختیار نہیں کرتا تو اس کا قول اس کے منھ پر مار دیا جائے گا ۔

ولی کی کرامات

البتہ جہاں تک کرامات کا تعلق ہے تو اصل میں یہ کرامت کی جمع ہے اور کرامت وہ خارق عادت کام ہے جسے اللہ اپنے ولی کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے، جس کا مقصد اس کی تائید یا اس کی مدد یااسے ثابت قدم رکھنا یا دین کی مدد کرنا ہوتا ہے ۔

چنانچہ صلۃ بن اشیم کا واقعہ جن کے مردہ گھوڑے ک اللہ نے زندہ کر دیا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گئے اور جب گھر پہنچ گئے تو اپنے بیٹے سے کہا : اس گھوڑے پر سے زین اتار لو کیونکہ یہ عاریۃ لیا گیا ہے، چنانچہ جیسے ہی اس پر سے زین اتاری گئی وہ گرا اور مرگیا، یہ اس نیک بندے کی کرامت تھی جس سے ان کی مدد کی گئی ۔[2]

حوالہ جات

  1. سُورَةُۃ یونُسَ:62، 63
  2. تاریخ حقائق النساب صفحہ 3 مورخ مولوی سید محمد رفیع کمہیڑہ

،