ٹکسالی دروازہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ٹکسالی دروازہ، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ یہ مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ بادشاہی مسجد لاہور اس کے قریب واقع ہے۔ لاہور کا پرانا بازارِ حسن المعروف ہیرا منڈی بھی اس دروازے کے قریب واقع ہے۔ اصل دروازہ کے آثار غائب ہو چکے ہیں۔ خیال ہے کہ یہاں پر ایک ٹکسال واقع تھی جس میں سکے ڈھالے جاتے تھے اسی لیے اس کا نام ٹکسالی دروازہ پڑ گیا۔ یہ دروازہ اپنی تاریخی شکل میں ٹھیک اِسی مقام پر شہر کے مغربی جانب واقع تھا۔ گو کہ ہمیں معلوم ہے کہ شہر کے 12 دروازوں (تیرھواں موری گیٹ شامل کرتے ہوئے) کے ساتھ موجود فصیل اور شہر کا حقیقی موجدِ اعلیٰ (بانی) مغل شہنشاہ ،اکبرِ اعظم ہی تھا۔ لیکن اس تاریخی دروازے کا نام، عہدِ شاہ جہانی (شاہ جہان کے دورِ حکومت 1628ء-1658ء)میں اس نام سے موسوم ہونا شروع ہوا ۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں کرنسی کی تاریخی شکل "سِکّوں کی صورت میں "ہوا کرتی تھی۔ یعنی سکّے ہی کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔ لہٰذا، انھیں سکّوں پر مطلوبہ عبارت کو کندہ کرنے (جَڑنے ) کے لیے ایک ٹیکسال خانہ تعمیر کروایا گیا۔ اسے اس وقت کی مقامی اور درباری زبان میں اس جگہ کو "دارالضرب " بھی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیکسال خانہ بہت مضبوط اور پختہ مکان میں بنوایا گیا تھا۔ اس زمانے کو گذرے، حالانکہ 400 سال کے قریب عرصہ ہو چکا ہے۔ البتہ، اندرونِ لاہور کے رہائشی اور دنیا بھر کے لوگ اس دروازے کو آج بھی اس کے تاریخی نام "ٹکسالی دروازہ " کے نام ہی سے جانتے ہیں ۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ "سکھ دورِ حکومت " کے آغاز ہی سے یہ قدیمی "ٹیکسال خانہ "، کھنڈر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن انگریز عہدِ حکومت کے بعد سے تو اس کے آثار تک نظر آنا مٹ چکے تھے

ٹکسالی دروازہ لاہور کے معروف بارہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ یہ دروازہ مغل عہد حکومت  میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یہاں سکے ڈھالنے کے لیے قائم کی گئی ٹکسال کی وجہ سے پڑا. کنہیا لال ہندی "تاریخ لاہور" میں لکھتے ہیں "شاہان سلف کے عہد میں اس دروازے کے اندرون شمالی میدان میں دارالضرب شاہی ایک عالی شان مکان بنا ہوا تھا۔ اور اسی جگہ ہر ایک کا سکہ مسکوک و مضروب ہوتا تھا۔ اس ٹکسال کے سبب سے اس کا نام ٹکسالی دروازہ مشہور ہوا." جبکہ سید محمد لطیف نے ٹکسالی دروازے کے نام کہ متعلق دو اور روایات بھی درج کی ہیں۔ بقول سید لطیف "اس دروازے کا رخ ٹیکسلا کی جانب ہے جو مہاتما بدھ کے قابل تعریف کارناموں کے لیے مشہور ہے.....یہ بات واضح ہے کہ اس نام کو ٹکاس سے اخذ کیا گیا ہے۔ جو ایک دور میں پنجاب کے بلا شرکت غیر ے حکمران تھے اور اب کافی تعداد میں جہلم اور راوی کے درمیان پہاڑیوں میں موجود ہیں." راولپنڈی گزیٹیئر 1893ء میں ٹکاس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیکسلا کے قدیم باشندے تھے۔ اس کے علاوہ تاکسیلیز یا ٹیکسالیز نامی حکمران بھی گذرا ہے, جس نے دریائے سندھ و جہلم کے درمیانی علاقے پر حکومت کی تھی. مگر لاہور گزٹیئیر 1883ء کے مرتبین نے ٹکسالی دروازے کے ٹیکسلا کی جانب ہونے کے کو غلط قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے "ٹیفن تھیلر نامی سیاح کا بیان ہے کہ یہ دروازہ ٹیکسلا کے قدیم شہر سے منسوب ہے۔ لیکن اگر ٹیکسلا آثار قدیمہ کا شہر ہے تو راولپنڈی کے قریب شاہ کی ڈھیری کے آثار اس سے پہلے آتے ہیں۔ اس طرح یہ مفروضہ درست معلوم نہیں ہوتا۔" بعض لوگ اس دروازے کا نام "لکھی دروازہ"  بھی بتاتے ہیں۔ البتہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ دروازہ عہد شاہ جہانی میں تعمیر ہونے والی ٹکسال کی وجہ سے ٹکسالی دروازہ کہلاتا ہے۔ موجودہ دور میں نہ تو  ٹکسال ہے اور نہ ہی دروازہ.

عموماً لاہور میں سیر و سیاخت کے لیے آنے والے "شریف" سیاخ ٹکسالی دروازے جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً ٹکسالی کا بازار حسن سے قُرب ہے۔ لیکن یقین جانیں ٹکسالی کے لوگ بھی ہمارے جتنے ہی "شریف" ہیں۔ نیز ٹکسالی میں دیکھنے کی اور بھی کئی چیزیں ہیں۔ داخل ہوتے ساتھ ہی قدیم ٹکسالی مسجد متوجہ کرلیتی ہے۔ یہ دروازہ مذہبی ہم آہنگی کی بھی عُمدہ مثال ہے۔ یہاں مسجد، مندر و گُردوارہ قریب قریب ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ ہمارے جتنے مُتشدد نہ تھے۔ ٹکسالی کا شیخوپوریاں بازار جو اکبر کے صاحبزادے سلیم عرف شیخو کہ نام پر ہے, اپنے کھسہ جات, کوہاٹی اور پشاوری چپل کے حوالے سے خاص شہرت کا حامل ہے۔ آلات موسیقی کی معروف مارکیٹ لاہنگا منڈی بھی ساتھ ہی ہے۔ اس کے علاوہ ٹکسالی میں موجود بگھی بازار, ترنم چوک, مسلم ہائی اسکول, زمرد چوک بھی کافی مشہور ہیں۔ ٹکسالی مختلف شعبوں میں کمال حاصل کرنے والے ستاروں کی رہائش گاہ بھی رہا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی,چیترم,مولانا عبد القادر آزاد ,ملکہ ترنم نور جہاں, شاہدہ منی, ادکارہ نادرہ و نازلی, شازیہ منظور, سرحد پار شہرت پانے والی اداکارہ پروین بوبی, سابق پی سی بی چیف سلیکٹر محمد الیاس, معروف کرکٹ کھلاڑی نذر محمد و مدثر نذر, اور محسن لاہور سر گنگا رام قابل ذکر ہیں۔ سر گنگارام کی سمادھی بھی یہاں سے کچھ دور نہیں. مقام افسوس یہ ہے کہ لاہور کی تعمیر و ترقی کے لیے تن من دھن سے کام کرنے والے اس محسن کی سمادھی اور رہائش آج  بحالی کے لیے ترس رہی ہے۔ لاہور کی وجہ شہرت کھابے شہاب الدین حلوائی, فضل الدین المعروف پھجا, عارف چٹخارا, شاہ چکن توا,تاج محل سویٹ ٹکسالی کی شان ہیں۔ لاہور کا اولین سینما ناظر تھیٹر جو تقسیم کے بعد پاکستان ٹالکیز کہلایا بھی ٹکسالی میں ہے۔ ایک گوراہ قبرستان بھی نزدیک ہی ہے۔ تحقیقات چشتی میں درج ہے کہ پنجابی کے معروف شاعر شاہ حسین کا حجرہ بھی ٹکسالی میں ہے۔ شاہ حسین سے منسوب اس حجرے میں استاد دامن بھی رہائش پزیر رہے. آج کل اس حجرہ میں استاد دامن اکیڈمی قائم ہے۔ کبھی یہاں ادبی محفلیں ہوا کرتی تھیں اب یہ ادبی بیٹھکیں ویران ہیں۔ اندرون ٹکسالی دروازے میں حکیم فضل الٰہی مرحوم کا معروف دواخانہ "چشمہ حیات" آج بھی قائم ہے۔ دواخانے کے سامنے ایک جوتوں کی دکان سے ایک صاحب نے آواز دی. جناب نے پوچھا کیا تلاش کر رہے ہیں؟ بتایا کہ حضرت تاریخی عمارتیں دیکھنے کا خبط ہے۔ آپ کچھ جگہوں کی نشان دہی ہی کر دیں. اُن سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ سابق اولمپین ہیں اور آج کل ریلوے کی ٹیم کے کوچ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ٹکسالی دروازہ فن پہلوانی کے حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے کئی نامور پہلوان ٹکسالی کے اکھاڑوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان میں بوٹا پہلوان, مہنی پہلوان,گاموں پہلوان بالی والا, گونگا پہلوان,  ساجا گھگھو, فرید پینٹر, برکت ناگاں والا, محمد حسین اور عظیم پہلوان قابل ذکر ہیں۔ ٹکسالی میں قدیم شاہجہانی مسجد بھی ہوتی تھی. اب اس کو گرا کر نئی مسجد تعمیر کردی گئی ہے۔  معروف مزار بابا نو گزے پیر بھی اسی دروازے میں ہے۔ محمود کے معروف غلام ایاز جس کو علامہ نے امر کر دیا, اس کا مقبرہ بھی یہیں قریب ہے۔ اس کے نزدیک ہی سکھ عہد حکومت کے انتہائی معروف و متنازع کردار راجا دھیان سنگھ کی حویلی ہے۔ ماضی میں تو یہ حویلی کافی عالیشان تھی. اب اس کا فقط دربار ہال ہی بچا ہے جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں اس کی کیسی شان و شوکت ہوگی۔

شاید اندرون لاہور میں ٹکسالی دروازہ وہ واحد جگہ ہے جہاں موسیقی، ثقافت، تاریخی نوادرات و لاہوری کھانا سب کچھ ایک جگہ ملتا ہے۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تحریر و تحقیق: طلحہ شفیق