کیری لوگر بل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


کیری لوگر بل ستمبر 2009ء میں امریکی کانگرس میں منظور ہونے والا ایک بل جو آئندہ سالوں میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے کچھ متنازع شرائط پر پاکستانی پارلیمانی اور فوج کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہوا۔ بل کی شرائط کچھ یوں تھیں۔

٭ اس بل میں پاکستان کو دی جانے والی ترقیاتی امداد پر تو کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے تاہم فوجی امداد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ امداد اسی صورت میں دی جائے گی جب امریکی وزیرِ خارجہ کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو مندرجہ ذیل امور کے بارے میں سرٹیفیکیٹ دے گا۔

٭ یہ کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے متعلقہ سامان فراہم کرنے والے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں تعاون کر رہا ہے اور متعلقہ معلومات یا پھر ایسے نیٹ ورکس سے جڑے پاکستانی شہریوں تک براہِ راست رسائی دے رہا ہے۔

٭ یہ کہ پاکستانی حکومت شدت پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے مستقل کوشش کر رہی ہے اور اس نے اپنی خفیہ ایجنسی اور فوج میں ایسے عناصر خصوصاً افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج اور ہمسایہ ممالک یا ان کے شہریوں پر حملے کرنے والے عناصر کی حمایت پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

٭ یہ کہ پاکستان القاعدہ اور گذشتہ برس نومبر میں ممبئی حملوں کی ملزم لشکرِ طیبہ سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کو پاکستان میں کام کرنے اور ہمسایہ ممالک پر حملہ کرنے سے روک رہا ہے۔

٭ یہ کہ پاکستان اپنے شمال مغربی علاقے، کوئٹہ اور پنجاب میں مریدکے جہاں لشکرِ طیبہ کے حامیوں کا کمپلیکس ہے، میں دہشت گردوں کے مراکز کو تباہ کر رہا ہے۔

٭ یہ کہ پاکستانی فوج سیاسی اور عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہی۔

ان شرائط کے علاوہ بل میں امریکی وزیرِ خارجہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ بھی پیش کرے کہ کس حد تک پاکستان کی حکومت کا فوج پر سویلین کنٹرول ہے۔ اس جائزے میں یہ بھی بتایا جائے کہ فوجی بجٹ کی منظوری، چین آف کمانڈ اور اعلٰی فوجی افسران کی ترقیوں میں سیاسی رہنماؤں اور پارلیمان کا عمل دخل کس حد تک ہے۔

23 اکتوبر2009ء کو جماعت اسلامی نے ملک بھر میں اس بل کے لیے ریفرنڈم کروایا۔