ہن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ہون (Hunes) نیم وحشی خانہ بدوش قبیلے تھے۔ یہ لوگ مشرقی یورپ، قفقاز اور وسطی ایشیا میں پہلی صدی عیسوی اور ساتویں عیسوی کے درمیاں آباد تھے۔ ان کا اصل وطن سائبیریا کا صحرائی علاقہ تھا۔ جس کو اسٹپس کا میدان (Land of Stepe) کہتے ہیں۔ جہاں آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انھیں اپنے وطن میں خوراک ملنا مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ان قبیلوں نے دوسرے علاقہ کا رخ کیا۔[1] ان کی ایک شاخ سیر دریا یا سیحوں کی طرف بڑھی اور دوسری شاخ دریائے اتل (Valga ) کے راستہ یورپ میں داخل ہو گئی جہاں ہونوں نے ایک وسیع حکومت قائم کی تھی۔[2] ان کا مشہور سردار اٹلا (Atila) تھا۔ جس نے یورپ میں تباہی مچادی تھی۔ اٹلا کی موت 453ء؁ میں ہوئی اور اس کی موت سے یورپ میں ہن مملکت کو زبردست صدمہ پہنچا اور ہن مملکت کا زوال شروع ہو گیا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 771)ہن قوم جو ہیاطلہ (Haytals) یا سفید ہن (With Hun) اور رومی ہفالت (Ephthalites)، چینی یزاYetha کے علاوہ چیونی اور اپنے حکمران کے نام سے یققلی کہلاتے تھے۔[3][4]

ماخذ[ترمیم]

ہونی سلطنت
Hunnic Empire
370s–469
آٹلا کے ماتحت ہنی سلطنت
آٹلا کے ماتحت ہنی سلطنت
عمومی زبانیںہونش
گوتھک
مختلف قبائلی زبانیں
حکومتTribal Confederation
High King 
• 370s
Balamber
• c. 435-445
ایٹلا اور بلیڈا
• 445-453
Attila
• 453-469
Dengizich
تاریخ 
• Huns appear north-west of the بحیرہ قزوین
pre 370s
• 
370s
• ایٹلا اور بلیڈا become co-rulers of the united tribes
437
• Death of Bleda, Attila becomes sole ruler
445
451
• Invasion of northern Italy
452
454
• 
469
موجودہ حصہ مجارستان
 یوکرین
 مالدووا
 روس
 رومانیہ
 سلوواکیہ
 چیک جمہوریہ
 پولینڈ
 جرمنی
 بیلاروس
 سربیا
 آسٹریا
 لتھووینیا
 کرویئشا
 بلغاریہ

انھیں ہیپھتھال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے کم از کم تین بادشاہوں کے نام ہیپھتھال تھا۔ مغربی دنیا میں سب سے پہلے پروکوپس نے توجہ دی۔ اس کا کہنا ہے کہ ہن خانہ بدوش نہیں تھے وہ اس سے بہت پہلے زرعی اراضی پر آباد تھے اور انھوں نے میڈیا کے ساتھ مل کر روم پر حملہ کیا ہے۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 81) ہونگ نو (ہن) منگولی نہیں تھے ان خڈ و خال آریائی تھے اور یہ بات ان کے سپاہیوں کی تصاویر سے ظاہر ہے جو چینیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا رنگ، لمبی ستواں ناک اور گھنی ڈراھیاں تھیں۔ چہرے جا زاویہ اور چپٹی ناک جو منگولی نسل کا خاصہ ہے ہنوں کے ہاں نہیں ملتے ہیں۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 83)

ہون کے برتن

افغانستان میں نفوذ[ترمیم]

ہونوں کا مشرق کی طرف خانہ بدوشی کا مجوزہ راستہ

ہن افغانستان میں یوچییوں کی چھوٹی شاخ کے ساتھ آئے تھے۔ جب یوچی خورد کے بادشاہ نے اپنی فتوحات کا دائرہ کوہستان ہندوکش کے جنوب تک بڑھایا اور کابل، غزنی، گندھارا کے علاقے اپنی مملکت میں شامل کیے، تو ہنوں کا ایک قبیلہ غزنین کے علاقے میں آباد ہو گیا۔ یہ ہنوں کی اپنی مملکت کی تشکیل کی ابتدائی کوشش تھی۔ کیدار نے جب آزادی کا حق منوانے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں شاپور سے ازسرنو تصادم ہوا اور میں کیدار کی مملکت چھن گئی اور خود بھی مارا گیا۔ اس جنگ میں ہنوں نے شاپورکا ساتھ دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں باختریہ کی مملکت ہنوں کے قبضہ میں آگئی، جو اپنے حکمران خاندان کے نام پر یققلی کے نام سے معروف ہوئے۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) 400ء؁ عیسوی کے قریب کوہ ہندوکش کے شمال و جنوب کی سرزمین ہنوں کے قبضہ میں آچکی تھی۔ جنہیں ہندوکش کے سلسلہ کوہستان نے دو حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ مگر زابلی شاخ شمالی شاخ کی برتری تسلیم کرتی تھی اور دونوں ریاستیں ساسانیوں کی باج گزار تھیں۔ ساسانی جب تک طاقتور رہے ہن ساسانیوں کے باج گزار رہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں ہنوں نے دیکھا ایران رومیوں کے طویل عرصہ تک رزم و پیکار اور کوہ قاف کے دروں کی وحشی قبائل کے مقابلے میں ان کی حفاظت مشکلات کا باعث ہو رہی ہے، تو ایرانی اقتدار کا جوا اتارنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے اور انھوں نے خراسان پر حملہ کر دیا۔ لیکن بہرام گورنے نہایت مستعدی سے ان کا مقابلہ کیا اور انھیں مرو کے قریب ایسی شکست دی کہ ہن بہرام کی زندگی میں سراٹھانے کی ہمت نہیں کرسکے۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 98)

ایرانیوں پر غلبہ[ترمیم]

بہرام گور کی موت کے بعد یزدگرد جانشین ہوا تو ہنوں نے نہ صرف خود مختیاری حاصل کرلی بلکہ ایران پر حملے شروع کر دیے۔ یزدگرد کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہرمزد تخت نشین ہوا، مگر اس کے دوسرے بیٹے فیروز نے نہیں مانا اور مدد لینے کے لیے ہنوں کے پاس پہنچ گیا اور ان سے مدد حاصل کرکے ایک لڑائی میں ھرمز کو قتل کر دیا اور ساسانی تخت حاصل کر لیا۔ فیروز نے ہنوں کو ایک خظیر رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر فیروزنے تخت حاصل کرنے کے بعد ایفائے عہد سے انکار کر دیا۔ اس پر ہنوں نے ساسانی سلطنت کے مشرقی حصہ کو تاراج کرکے اجاڑ دیا۔ فیروز نے کوشش کی کہ ہنوں کی اس سرکش کی روک تھام کرے۔ مگر وہ ناکام رہا اس لیے مجبوراََ ایک خطیر رقم کے بدلے فیروز کو ہنوں سے صلح کرنی پڑی۔ مگر یہ صلح دیرپا ثابت نہیں ہوئی اور ہنوں کے حملے دوبارہ شروع ہو گئے۔ فیروز 482ء؁ میں وہ ایک لشکر لے کر گیا اور فیروزاور ہنوں کے درمیان میں بلخ کے قریب جنگ ہوئی، اس جنگ میں ساسانیوں کو شکست ہوئی اور فیروز ماراگیا۔ فیروز کے جانشین بلاش نے خراج کی ادائیگی پر صلح کرلی اور ہنوں کو ایک خظیر رقم سالانہ دینا منظور کر لیا اور اس طرح ہن ساسانیوں کے باج گزار کی بجائے ساسانیوں سے خراج لینے لگے اور ساسانیوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک ہنوں کو خراج دیا۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 99۔ 100)

ترکوں کا ہونوں پر غلبہ[ترمیم]

531ء؁ میں نوشیرواں عادل ساسانی خاندان کا سب سے نامور حکمران ہوا۔560ء؁ میں وسط ایشیا کی بساط پر ایک نئی قوم نمودار ہوئی، یعنی ترکوں کی مغربی سلطنت جس کا حکمران ایل خان تھا۔ نوشیروان نے اس سے دوستانہ تعلقات قائم کرلیے اور ترکوں کی مدد سے ہنوں پر حملے کیے، جس میں ان کا سردار مارا گیا اور انھیں شکست ہوئی اور ان کی مملکت کا خاتمہ ہو گیا۔ مگراس علاقے پر ترکوں کا اثر و رسوخ قائم ہو گیا۔ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 106)

برصغیر پر حملہ[ترمیم]

ہنوں کی جنوبی یعنی زابلی سلطنت جو انھوں نے کشن حکمرانوں کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔ وہ کشنوں کو شکست دے کر برصغیر میں داخل ہو گئے اور 854 عیسوی میں انھوں نے پہلی مرتبہ گپتا مملکت پر حملہ کیا۔ شروع میں سکندا گپت نے بڑی حد تک ان کا مقابلہ کیا اور انھیں کامیابی سے روک لیا۔ لیکن ہنوں کے نئے نئے گروہ برابر آتے رہے اور آخر کار گپتا مملکت میں داخل ہو گئے۔ ان لڑائیوں کی تفصیلات تو نہیں ملتی ہیں، لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ سکندا گپت خود اپنے علاقے کے وسط میں ان پر حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ گپتا حکومت کے سکوں کی قیمت گرگئی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ ہن گپتا حکومت کے وسیع علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 171۔176۔ 177)

زابلی خاندان[ترمیم]

پانچویں صدی عیسوی میں زابلی مملکت پر ایک نیا خاندان حکمران تھا۔ اس خاندان کے دو بادشاہوں ٹورامن (Toramana) اور مہرکلا (Miheracula) نے برصغیر میں وسیع فتوحات کیں۔ ٹورامن نے شمال مغربی علاقوں کے وسیع حصے پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے سکے اور کتبے ہونوں کی تاریخ کا سب سے بڑا ماخذ ہیں۔ جو مدھیہ پردیش سے لے کر شمالی علاقوں اور ایران سے ملے ہیں۔ اس سے اس کی سلطنت کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔[4]۔[5]

ہیونگ سانگ نے لکھا ہے کہ گپتا خاندان کے بالادیتہ نے ہون سردار ٹورامن کے حملہ کو روکا اور اس کو شکست دے کر اس کے بیٹے مہر گل (Miheracula) کو قید کر لیا اور بعد میں اس کو قید سے آزاد کر دیا۔

دار الحکومت[ترمیم]

وی اے اسمتھ (V A Smith) کا کہنا ہے کہ ہنوں کے دار الحکومت کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بامیان تھا کہ ہرات۔ مہرگل جب برصغیر کا گورنر تھا تو اس کا دار الحکومت سالہ (سیالکوٹ) تھا۔ مگر ہنوں کی وسیع مملکت کا دار الحکومت بامیان تھا۔ چینی مصنف سون لونگ Song long 915 عیسوی میں ہرات میں مہر کولا کے دربار میں آیا تھا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178)

ہونوں کا زوال[ترمیم]

ٹورامن کا جانشین مہر کولا (مہر گل) (515ء؁ تا 544ء؁) حکمران بنا۔ یہ ایک طاقتور حکمران تھا اور چالیس ملکوں سے خراج وصول کرتا تھا۔ ہندی روایات میں اسے ایک ظالم حکمران بتایا گیا ہے کہ وہ بنی نوح انسان پر ظلم توڑتا تھا۔ اس نے اپنے ظلم کا مظاہرہ مقامی لوگوں کے قتل عام سے کیا۔ اس نے امن پسند بدھوں کو تہ بالا کرڈالا اور نہایت بے رحیمی سے ان کی خانقاہوں اور اسٹوپوں کو تباہ و برباد کرڈالا۔ اس کے ظلم و ستم نے مقامی راجاؤں کو اس کے خلاف ایک متحدہ وفاق بنانے پر مجبور کر دیا اور اسے قومی وفاق نے پہلے اسے بالادیتہ کی سرکردگی میں شکست دی اور اس کو بعد میں 335ء؁ میں منڈسور کے راجا یسودھرمن نے اسے مکمل شکست دی۔ اس کے بعد اس کی حکومت افغانستان تک محدود ہو کر رہے گئی۔ اس شکست کے بعد مہراکولا زیادہ دیر تک زندہ نہ رہا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178 تا 180) ہنوں نے وسطہ ہند اور ہند پر تقریباََ دوسو سال حکومت کی، ان کے دور میں ہندوستان میں دوبارہ ہندو مذہب کا احیاء ہوا اور بدھ مت کا زوال شروع ہوا۔ ہن سورج کی پوجا کرتے تھے، اس لیے ان کو سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر شیو مہاراج کو اپنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ انھوں نے اپنے جھنڈے پر آنندی (بیل) کی تصویر بنائی تھی، جو شیو کی علامت تھی۔ چینی سیاح ہوانگ سانگ ہنوں کے آخری دور 629ء؁ میں برصغیر آیا تھا۔ اس کے سفر نامے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور یہ ریاستیں ہنوں کی باج گزار تھیں۔ جب ہنوں کی حکومت کمزور ہوئی تو یہ ریاستیں خود مختار ہوگئیں۔ (سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، 146۔ 147)

خاتمہ[ترمیم]

مہرکلا کے مرنے کے بعد جلد ہی افغانستان سے ہنوں کا اقتدار ختم ہو گیا اور ترکوں کے عروج نے ان کی قوت کو زبر دست صدمہ پہنچایا۔ ترکوں نے ایران کے نوشیروان کے اتحاد سے افغانستان میں ان کے اقتدار کا 563ء؁ تا 567ء؁ کے دوران مکمل خاتمہ کر دیا اور کچھ عرصہ تک ساسانیوں نے ہنوں کے کچھ علاقوں پر قبضہ جمالیا، لیکن ترکوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نے سارے افغانستان پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ ہنوں کی دونوں سلطنتوں کے خاتمہ کے بعد ان کے امرا کے قبضہ میں علاقہ رہے تھے۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت ان کے بہت سے خاندانوں کی افغانستان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں اور ان میں سے بعض چینیوں کو اور بعض ایرانیوں کو خراج ادا کر رہے تھے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Denis Sinor (editor) (1990)۔ The Cambridge history of early Inner Asia (1. publ. ایڈیشن)۔ Cambridge [u.a.]: Cambridge Univ. Press۔ صفحہ: 177–203۔ ISBN 978-0-521-24304-9 
  2. Gmyrya L. Hun Country At The Caspian Gate، Dagestan, Makhachkala 1995, p. 9 (no ISBN but the book is available in US libraries, Russian title Strana Gunnov u Kaspiyskix vorot، Dagestan, Makhachkala, 1995)
  3. ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 153
  4. ^ ا ب پ افغانستان۔ معارف اسلامیہ
  5. ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178