ہیبر کا طریقہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ہیبر کے طریقہ (Haber process) یا ہیبر بوش پروسیس سے مراد ایک صنعتی طریقہ ہے جس میں ہوا کی نائٹروجن اور کسی بھی طریقے سے حاصل شدہ ہائیڈروجن باہم عمل کر کے امونیا بناتی ہیں۔ امونیا سے مصنوعی کھاد بنائی جاتی ہے جو آخیر کار جانداروں کی غذا بنتی ہے۔

N2 + 3 H2 → 2 NH3   (ΔH = −92.4 kJ·mol−1)

اس طریقے سے امونیا بنانے میں بڑی مقدار میں توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ اس طریقے کی ایجاد سے پہلے امونیا بنانا بڑا مہنگا پڑتا تھا۔
Fritz Haber نے یہ طریقہ 1909 میں بنایا تھا جسے فوراً جرمنی کی BASF کمپنی نے خرید لیا اور Carl Bosch کے حوالے کیا کہ وہ اسے مزید بہتر بنائے۔ اس نے سال بھر میں اسے صنعتی پیمانے پر کام کرنے کے قابل بنا دیا اور 1913 تک جرمنی میں اس طریقے سے امونیا کی بڑی مقدار میں پیداوار شروع ہو گئی۔ ہیبر کو 1918 میں اور بوش کو 1931 میں نوبل پرائز ملا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی کو چلی سالٹ پیٹر یعنی قلمی شورے کی خطیر مقدار میں ضرورت تھی کیونکہ گولہ بارود بنانے کے لیے نائٹریٹ اسی نمک سے حاصل ہوتا تھا۔ لیکن دشمن کی فوجوں نے ہر ممکن طریقے سے چلی سے جرمنی تک سالٹ پیٹر کی رسد کاٹ دی۔ اگر عین اس موقع پر ہیبر کا طریقہ ایجاد نہ ہوتا تو جرمنی کے لیے ناممکن تھا کہ اپنا گولہ بارود بنا سکے۔

Nitrogen Fixation[ترمیم]

ہر زندہ جاندار کے لیے کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن، فاسفورس اور نائٹروجن لازمی ہیں۔ پودے، جن پر جانوروں کی زندگی کا دارومدار ہے، ہوا اور پانی سے کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن با آسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ کاربن پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے حاصل کرتے ہیں جو ہوا میں صرف %0.3 ہوتی ہے۔ لیکن جانور اور پودے ہوا میں موجود نائٹروجن بالکل استعمال نہیں کر پاتے حالانکہ ہوا کا 78 فیصد حصہ نائٹروجن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نائٹروجن کے مالیکیول میں نائٹروجن کے دونوں ایٹم ٹرپل بونڈ (تہرے بونڈ) سے جڑے ہوتے ہیں جو بہت مضبوط بونڈ ہوتا ہے اور زندہ اجسام اتنے مضبوط بونڈ کو توڑ کر نائٹروجن کو اپنے استعمال کے لیے حاصل نہیں کر پاتے۔ صرف چند بیکٹیریا اور بیکٹیریا نما جاندار (archaea) ہی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ نائٹروجن کی 945 کلو جول کی بونڈ انرجی پر قابو پا سکیں اور اس میں سے نائٹروجن نکال کر بطور غذا استعمال کریں۔ ان جانداروں میں ایسے انزائم ہوتے ہیں جن میں مولبڈینیئم، ویناڈیئم یا لوہا موجود ہوتا ہے۔[1]

آسمانی بجلی گرنے کے دوران دس کروڑ وولٹ کے تحت لگ بھگ 30,000 ایمپئر کا کرنٹ ہوا میں سے گزرتا ہے جس کی وجہ سے روشنی، ریڈیو کی لہریں، ایکس رے اور گاما رے نکلتی ہیں۔ اس پلازمہ کا درجہ حرارت 28,000 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جو ہوا کی نائٹروجن کے مولیکیول کو توڑ دیتا ہے۔[2]
چنا، مٹر ،سیم اور کئی پھلی دار پودوں (legumes) کی جڑ میں ایسی چھوٹی چھوٹی گلٹیاں ہوتی ہیں جن میں اربوں Rhizobia نامی بیکٹیریا رہتے ہیں جو ہوا کی نائیٹروجن کو توڑ سکتے ہیں۔ اس طرح بننے والے نائیٹریٹ پودوں کی اہم غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں جبکہ یہ پودے ان بیکٹیریا کو گھر فراہم کرتے ہیں۔ دو مختلف جانداروں کا اس طرح ایک دوسرے کی مدد کرنا symbiosis کہلاتا ہے۔

جب بھی آسمانی بجلی کڑکتی ہے تو ہوا میں سے بڑی مقدار میں کرنٹ گزرتا ہے جس سے پیدا ہونے والی سخت حرارت نائیٹروجن کے مولیکیول کو توڑ دیتی ہے۔ اس طرح نائیٹروجن کے نئے مرکبات بنتے ہیں جو بارش کے پانی کے ساتھ زمین تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے پودے انھیں جذب کرکے اپنی ضرورت کے پروٹین بنا لیتے ہیں جو پھر جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ ہوا کی نائٹروجن کا اس طرح پودوں کے لیے قابل استعمال بننا نائٹروجن کی فکسیشن کہلاتا ہے۔ بیکٹیریا اور آسمانی بجلی نائیٹروجن کو قدرتی طریقے سے فکس کرتے ہیں جبکہ ہیبر کا طریقہ انسانی طریقے سے نائیٹروجن کو فکس کرتا ہے۔
اندازہ کیا جاتا ہے کہ اگر ہیبر کے طریقے جیسا کوئی عمل ایجاد نہ ہوا ہوتا تو آج دنیا کی ایک تہائی آبادی کو خوراک میسر نہ آتی۔ انسانی جسم میں موجود پروٹین کا نصف حصہ ہیبر کے طریقے سے بنی امونیا اور کھاد سے تشکیل پاتا ہے۔

ہیبر کا عمل[ترمیم]

نائیٹروجن اور ہائیڈروجن کو ملا کر اس طرح امونیا بنانے کے لیے ہوا کے دباو سے 150 سے 250 گنا زیادہ پریشر استعمال کیا جاتا ہے اور درجہ حرارت 300 سے 550 ڈگری سنٹی گریڈ رکھا جاتا ہے۔۔ اگرچہ ہیبر اور بوش نے اوسمیئم کو بطور عمل انگیز (catalyst) استعمال کیا تھا مگر اب مسام دار لوہا اس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سستا پڑتا ہے۔

مصنوعی کھاد[ترمیم]

ہیبر کے طریقے سے 50 کروڑ ٹن مصنوعی کھاد ہر سال بنائی جاتی ہے۔ اگر فصلوں کی کیڑے مار دوائیں اور مصنوعی کھاد ایجاد نہ ہوتی تو دنیا بھر میں کھیتوں سے حاصل ہونے والی فصل صرف ایک چوتھائی رہ جاتی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالے[ترمیم]