یزید بن عبدالملک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یزید بن عبدالملک
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 687ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 جنوری 724ء (36–37 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اربد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سل  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ سل  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ولید ثانی بن یزید  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبدالملک بن مروان  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ عاتکہ بنت یزید  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان خلافت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
خلیفہ سلطنت امویہ[1] (9 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
9 فروری 720  – 28 جنوری 724 
عمر بن عبدالعزیز 
ہشام بن عبدالملک 
دیگر معلومات
پیشہ سیاست دان،  خلیفہ،  گورنر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تخت نشینی[ترمیم]

عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد یزید بن عبد الملک تخت نشین ہوا۔ یہ ایک اوباش اور عیاش طبع انسان تھا۔ عمر بن عبد العزیز، سلیمان بن عبدالملک کی وصیت کو کالعدم قرار دے کر یزید کی نامزدگی کو ختم نہ کر سکے تاہم وفات سے قبل بلا کر اسے عدل و انصاف سے حکمرانی کرنے کی تلقین کی۔ لیکن اس کا جذبہ عیاشی عود کر آیا اور عمر ثانی کی وفات کے چالیس روز بعد ہی ان کی جاری کردہ تمام اصلاحات کا دوبارہ خاتمہ کرکے وہی پرانا نظام دوبارہ نافذ کر دیا۔ اس کے عہد حکومت میں مضری اور حمیری آویزش دوبارہ زندہ ہوئی۔ اور اسی باہمی کش مکش کی بدولت بنو امیہ کا زوال قریب سے قریب تر ہو گیا۔

یزید بن مہلب کی بغاوت[ترمیم]

بنو امیہ کے زمانہ میں آل مہلب کو کافی عروج حاصل ہوا۔ خلیفہ سلیمان کے زمانہ میں یزید بن مہلب خراسان کی ولایت پر مامور تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے بیت المال کی رقم میں خردبرد کے الزام میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ یزید کا تعلق حمیری قبیلہ سے تھا۔ یہ اپنے ایام اقتدار میں حجاج کے خاندان کے ساتھ سختی سے پیش آیا تھا۔ یزید بن عبد الملک چونکہ مضری قبیلہ کا ہمنوا تھا۔ اس لیے یزید بن مہلب کو اپنی زندگی خطرہ میں نظر آئی چنانچہ عراق پہنچ کر اپنے بھائی کی مدد سے بغاوت کر دی۔ خلیفہ یزید ثانی نے مسلمہ بن عبدالملک اور عباس بن ولید کی ماتحتی میں مقابلہ کے لیے فوج روانہ کی دونوں فوجوں کا آمنا سامنا انبار کے مقام پر ہوا۔ امویوں نے دریائے فرات کے پل کو آگ لگا دی۔ مہلب کی سپاہ میں افراتفری مچ گئی اور وہ میدان سے بھاگ گئے۔ ابن مہلب مارا گیا۔ اس کے دوسرے بھائی بھی یکے بعد دیگرے مارے گئے اور اس طرح آل مہلب کی خوفناک بغاوت کا خاتمہ ہو گیا۔

اس بغاوت کے نتیجے اور آل مہلب کے قتل کے نتائج بڑے دور رس تھے۔ اس واقعہ نے بنو امیہ کی تاریخ کے رخ کو تباہی اور زوال کی طرف موڑ دیا۔ مضری اور حمیری (مینی) عربوں کی قدیم کش مکش نے دوبارہ سپین، شمالی افریقہ، سندھ اور خراسان وغیرہ میں جنم لیا۔ اس باہمی عداوت اور قبائلی عصبیت کی بدولت ان ملکوں کے حالات بد سے بدتر صورت اختیار کر گئے اور دشمنان اسلام کو کامیابی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ بالاخر ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے فائدہ اٹھا کر بنو عباس نے اموی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

مزید بغاوتیں[ترمیم]

بنو امیہ
خلفائے بنو امیہ
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680
یزید بن معاویہ، 680-683
معاویہ بن یزید، 683-684
مروان بن حکم، 684-685
عبدالملک بن مروان، 685-705
ولید بن عبدالملک، 705-715
سلیمان بن عبدالملک، 715-717
عمر بن عبدالعزیز، 717-720
یزید بن عبدالملک، 720-724
ہشام بن عبدالملک، 724-743
ولید بن یزید، 743-744
یزید بن ولید، 744
ابراہیم بن ولید، 744
مروان بن محمد، 744-750


یزید ثانی ایک نااہل حکمران تھا۔ چنانچہ اس کے عہد حکومت میں قبائلی تعصبات کے علاوہ خوارج اور دیگر مخالفین نے سر اٹھانے کی کوششیں کیں۔ آل مہلب کے زوال کے بعد یزید ثانی نے عراق کی ولایت مسلمہ بن عبد الملک کے سپرد کی۔ مسلمہ نے اپنے داماد سعید بن عبدالعزیز کو خراسان کا کا والی مقرر کیا۔ یہ بھی عیش پسند اور کمزور حکمران تھا اس کی کمزوری اور بزدلی سے فائدہ اٹھا کرچند ترک اور سعدی قبائل آمادہ بغاوت ہوئے۔ ترکوں نے بڑھ کر قصر باہلی کا محاصرہ کر لیا۔ والی سمرقند عثمان بن عبد اللہ بن مسیب بن بشیر رحاحی کو ترکوں کے مقابلہ پر فوج دے کر روانہ کیا۔ مسیب نے بڑی شدت سے ترکوں پر ہلہ بول دیا اور وہ محاصرہ اٹھا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔

اس کے بعد مسلمانوں نے سغدیوں کا تعاقب کیا کیونکہ انھوں نے قصر باہلی کے محاصرہ کے دوران میں ترکوں کی مدد کی تھی۔ اس دوران میں سعید بن عبد العزیز کو برخاست کرکے سعید بن ہیرہ کو خراسان کا والی بنا دیا گیا۔ اس نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ ان کی طاقت کا قلع قمع کر دیا اور کش اور نسف کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

اس دوران میں 104ھ میں آذربائیجان کے علاوہ میں بغاوت کی آگ پھیل گئی۔ خزر، قچاق اور اومن قبائل نے متحد ہو کر مسلمانوں کو شکست دی۔ یزید کو یہ حالات معلوم ہوئے تو جراح بن عبداللہ حکمی کو آرمینیہ کا حاکم مقرر کیا اور شام سے امدادی فوج روانہ کی۔ ابھی متحارب گروہوں میں کش مکش جاری تھی کہ یزید ثانی کا انتقال ہوا اور ان مہمات کی تکمیل ہشام کے زمانہ میں ہوئی۔ ان فتوحات کے علاوہ روم میں عباس بن ولید نے 103ھ، 726ء میں ولم اور مروان بن محمد نے قونیہ فتح کیے خوارج نے بھی شورش برپا کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

وفات[ترمیم]

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے یزید ثانی انتہائی عیاش اور نااہل حکمران تھا وہ اپنی دو داشتاؤں حبابہ اور سلامہ کے عشق میں اندھا ہو چکا تھا۔ ملکی معاملات تباہی سے دوچار تھے۔ لیکن اسے اپنی نشاط کی محفلوں سے غرض تھی۔ ایک دن وہ اپنی محبوبہ حبابہ کے ساتھ باغ میں داد عیش دے رہا تھا کہ ازراہ مذاق اس نے ایک گھٹلی حبابہ کے منہ میں پھینکی جو اتفاق سے اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئی جس کی بنا پر اس کی موت واقع ہو گئی۔ یزید ثانی پر اس ناگہانی حادثہ کا بے حد اثر ہوا اور وہ تین دن تک اس کے لاش سے لپٹے روتا رہا۔ بڑی مشکل سے جدا کیا گیا لیکن وہ اس صدمہ جانکاہ سے بچ نہ سکا اور ایک ہفتہ بعد خود بھی راہئی ملک عدم ہوا۔

مجموعی جائزہ[ترمیم]

یزید ثانی کا دور بنوامیہ کا بدترین دور تھا۔ اس دور میں بنو امیہ کے زوال کا آغاز ہوا۔ تمام مملکت اس کی سیاہ کاریوں اور نااہلی سے متاثر تھی۔ لوگ معاشرتی برائیوں سے تنگ آکر صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے۔ ہر طرف ابتری اور ذہنی انتشار کا دور دورہ تھا۔ اس دور میں عباسی دعوت اور پراپیگینڈہ کا آغاز ہوا امیر معاویہ کی بادشاہت یزید کے جور و جفا، امام حسین کی شہادت، حجاج کا ظلم و ستم، عرب اور غیر عرب کا فرق، نومسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک اور مضری اور حمیری کشمکش ایسے واقعات تھے جو بنوامیہ کے خاتمہ کی ہر جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بہترین فضا مہیا کر رہے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی کوشش کی لیکن یزید ثانی کی ناہلیت اور کوتاہ اندیشی کی بدولت بنو عباس کی کامیابی کے امکان روشن سے روشن تر ہو گئے اور چند ہی برس بعد اموی خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]