یہودیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یہودیت
ستارہ داؤدی: دینِ یہودیت کی نشانی
ستارہ داؤدی: دینِ یہودیت کی نشانی
ستارہ داؤدی: دینِ یہودیت کی نشانی

بانی موسیٰ۔
مقام ابتدا مسوپتامیہ۔
فرقے راسخ الاعتقاد یہودیت، رجعت پسند یہودیت، اصلاح یہودیت.
مقدس مقامات یروشلم، صفد، حبرون، طبریہ
قریبی عقائد والے مذاہب مسیحیت، اسلام، مندائیت، بہائیت.
مذہبی خاندان ابراہیمی مذہب۔
پیروکاروں کی تعداد 13.4 ملین[1]
دنیا میں اسرائیل میں اکثریت، امریکا وفرانس میں اہم اقلیت ہے۔ اور باقی دنیا میں اقلیتیں۔
سلسلہ مضامین
یہودیت

  

باب یہودیت

یہودیت توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک دين ہے جس كے تابعين اسلام ميں قومِ نبی موسیٰ يا بنی اسرائيل کہلاتے ہيں مگر تاريخی مطالعہ ميں یہ دونوں نام اس عصر اور اس قوم كے لیے منتخب ہيں جس كا تورات كے جز خروج (Exodus) ميں ذكر ہے۔ اس كے مطابق بنی اسرائيل كو فرعون كی غلامی سے نبی موسٰی نے آزاد كيا اور بحيرہ احمر پار كر کے جزيرہ نمائے سینا لے آئے۔

حالانکہ یہودیت ميں كئی فقہ شامل ہيں، سب اس بات پر متفق ہيں کہ دين كی بنياد بيشک نبی موسٰی نے ركھی، مگر دين كا دارومدار تورات اور تلمود كے مطالعہ پر ہے، نہ كہ كسی ايک شخصیت كی پیروی کرنے پر۔

یروشلم كی دیوار رات كے وقت

2006ء کے اواخر تک دنيا ميں یہودیوں كی تعداد 14 ملين تھی۔ اس وقت اسرائيل یہودی اکثریت والا واحد ملک ہے جہاں اُن كو حقِ خود اراديت پوری طرح حاصل ہے۔

عقائد[ترمیم]

یہودی عقائد کی بنیاد خدا کی وحدانیت اور بنی اسرائیل کی فضیلت ہے۔[2]

دينی كتب[ترمیم]

یہودیت كی سب سے اہم دينی كتاب تورات ہے جو نہ صرف یہودیوں كے لیے بلكہ مسیحیت اور اسلام ميں بھی آسمانی كتابوں ميں شمار كی جاتی ہے۔ تورات تناخ كا پہلا حصہ ہے۔ "تناخ" كو اكثر انگريزی ميں عبرانی بائبل کہا جاتا ہے كيونكہ تورات كے علاوہ اس ميں دو اور حصے شامل ہيں جن ميں یہودی تاريخ و عقائد كے اہم عنصر بيان كئے گئے ہيں۔ تناخ كا دوسرا حصہ ہے "نوی إيم" يعنی انبياء اور تيسرا "كيتُوِيم" يعنی كتابيں يا درج كردہ چيزيں۔[3]

تورات[ترمیم]

یہودیت كی يہ سب سے مقدس كتاب قديم عبرانی زبان ميں ہے۔ اس كے پانج اجزاء ہيں جن كو موسٰی علیہ السلام كی پانچ كتابيں" بھی کہا جاتا ہے چونكہ عقيدہ كے مطابق صرف يہ پانچ موسٰی پر نازل ہوئی تھيں اور تناخ كے باقی حصے اسرائیل کا خدا نے اور پيغمبروں يا عام انسانوں كے ذمے لگائے تھے۔

تورات ميں كائنات اور انسانی تخليق كا قصّہ درج ہے جو آدم اور حوّا سے شروع ہوتا ہے، نوح اور سيلاب كا بيان ديتا ہے اور پھر ابراہیم كی رسالت، بياہ اور بيٹوں كا قصہ بيان كرتا ہے۔ تورات كی اس کہانی كا مقصد يہ بيان كرنا ہے كہ اسرائیل کا خدا نے ابراہیم سے ايک وعدہ يا معاہدہ كيا تھا كہ تم ميری عبادت كرو اور ميرے احكامات كی پيروی كرو اور ميں تمھاری نسل ميں سے بڑی بڑی قوميں پيدا كروں گا۔

آج یہودیت ميں يہ عہد بہت اہميت ركھتا ہے اور اسی كے بل بوتے پر اس دين كے ديگر اعمال مبنی ہيں۔ مثلاً مردوں پر ختنہ كی رسم فرض ہے، جو اسلام ميں سنتِ ابراہیمی کہلاتی ہے، چونكہ وہ اسی معاہدے كی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جو اس رسم كو پورا نہ كرے وہ ہالاخا (یہودی شرع) كے مطابق یہودی مانے نہيں جاتا۔

قوم كی تاريخ كے علاوہ ان پانچ كتابوں ميں احكامات بھی شامل ہیں۔ خصوصا وہ "دس احكامات" جن كا مغرب ميں چرچا رہتا ہے۔ تورات میں کل 613 احکامات مندرج ہیں جو شرع اورقوانین، معاشرے اور اخلاقیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

عبرانی زبان ميں "تورات" كے لغوی معنے ہيں سبق۔ چنانچہ تورات ميں وہ کچھ شامل ہے جس سے ايک دينی قوم كو سبق ہو اور جس پر تاريخ اور شریعت كی بنياد کھڑی ہو ـ

مِشناہ[ترمیم]

جس زمانے میں بیت المقدس پر روم کا راج تھا اور بنی اسرائیل صرف رومی گورنر کی خاص اجازت سے اپنے معبد پر آیا کرتے تھے، اس زمانے کے علما اپنا زیادہ تر وقت شرعی اور فقہی ٖؑغور و فکر میں گزارتے تھے جو تورات پر مبنی تھاـ جب سن 70 عیسوی میں روم نے اس معبد کو تباہ کر دیا اور موسوی امت بکھر گئی، اس کے علما نے تفسیر و تفہیم کے کام پر اور زور دیاـ نتیجہ یہ ہوا کہ سن 200 قبل مسیح اور سن 200ء کے درمیان ایک مصحف جمع ہو گیا جس میں یہودیت کے سب سے نامور علما کی آراء اور تفسیریں شامل تھیں ـ اس مصحف کو 'مشناہ (لغوی: روایات جو دہرائی گئی ہیں) [4]' کہتے ہیں ـ[5] آئندہ کی فقہی اور قانونی تفکیر اسی پر مبنی ہے اور تلمود اسی سے ماخوذ ہےـ

مشناہ چھ حصوں میں بنٹی ہوئی ہے: بیج، عیاد، نساء، نقصانات، مقدس امور اور تحارات ـ البتہ ان ناموں سے انکا مکمل مواد ظاہر نہیں ہوتا ـ مثلاً بیج کے حصہ میں فصلوں کی کاشت سے وابستہ قانونی امور کے ساتھ ساتھ غریبوں کا حصہ اور عبادات کے اصول بھی شامل ہیں ـ اسی طرح عیاد کے حصہ میں پیساخ اور شابات جیسے تہواروں کے علاوہ مقدس صحف کی کتابت کے اصول بھی درج ہیں [6] ـ

تلمود[ترمیم]

دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں یہودی اپنے معبد سے محروم درسِ تورات میں مجذوب رہے ـ سلطنتِ روم نے قوم یہود کے لیے یروشلم میں کوئی جگہ نہ چھوڑی تھی ـ چنانچہ وہ بکھر کر موجودہ اسرائیل اور عراق کے دیگر شہروں میں بس گئےـ تورات کو پڑھنا اور گذرے علما کے زبانی کلام کو یاد کر کہ اس پہ غور و فکر کرنا ایک عبادت سی بن گئی ـ اس عبادت کے نتیجہ میں تلمود وجود میں آئی ـ

کنعانی اور بابلی مدن ٘٘میں مقیم یہودی علما نے اپنی زندگی کا مقصد موسیٰ کی تورات کو سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا بنا لیاـ لہذا انھوں نے مشناہ، یعنی ان کے گذرے علما و اساتذہ (عبرانی: رابی، لغوی: میرے آقا") کی روایات کا مطالعہ اپنا بنیادی موقف بنا دیاـ اس مطالعہ کے نتیجہ میں تفسیر کی دو اقسام ظاہر ہوئیں :

آگادہ ـ تاریخی اور معرفی روایات
ہالاخاہ ـ قانونی، اصولی اور اخلاقی روایات [7]

دونوں اقسام تورات اور مشناہ کے مطالعہ کا نتیجہ ہیں ـ

در حقیقت آج دو الگ مجموعے وجود میں ہیں جن کو ہم تلمود کا نام دے سکتے ہیں ـ ان میں سے ایک پہلے تیار ہوئی جو چوتھی صدی کے اسرائیلی مدن کی پیداوار ہےـ اس کو یروشالمی تلمود کا نام دیا جاتا ہےـ[8] دوسری پانچویں صدی میں بابل میں مکمل ہوئی اور اس کو بابلی تلمود کہا جاتا ہےـ [8] بابلی تلمود کو ذرہ زیاد عزت حاصل ہے اور حال میں زیادہ استعمال میں ہےـ

عبادات[ترمیم]

ایک یہودی صبح کی عبادت کے دوران

شابات (ہفتہ)[ترمیم]

یہوديوں پر روز كی عبادت فرض ہے جس كا جائزہ اس مقالے كے اگلے حصے ميں كِيا جائے گا۔ مگر ايک یہودی خاندان كا پورا ہفتہ شابات (سبت) كے 26 گھنٹوں كی تياری اور انتظار ميں گذر جاتا ہے كيونكہ وہ 26 گھنٹے پوری طرح عبادت كے لیے وقف ہوتے ہيں۔

شابات (سبت) كا آغاز جمعہ كی شام سورج كے ڈھلنے پر ہوتا ہے اور اختتام ہفتہ كی رات كو تين ستارے نظر آنے پر۔ اس دوران دين كے پيروكار:

- پيسے كمانے والے كام نہیں كرتے
- پيسوں كے ذكر سے پرہيز كرتے ہيں
- بجلی كو نہیں چھيڑتے يعنی جو بتياں جلی ہيں ان كو بجھاتے نہیں ہيں اور بجھی بتيوں كو جلاتے نہیں ہيں
- آگ سے آگ نہیں جلاتے يعنی چولھا بند رہتا ہے
- گاڑی نہیں چلاتے
-- اور ديگر پابندياں

ان پابنديوں كے پيچھے منطق يہ ہے كہ جب يروشلم ميں بنی اسرائيل كی بڑی عبادت گاہ ہوتی تھی، جو عالمی یہودیت كا مركز تھی، تو دين كے تمام شرعی فرائض وہیں ادا ہوتے تھے۔ سن 70 عيسوی ميں روم كی فوج نے اس عبادت گاہ كو تباہ كر ديا، جس كے نتيجے ميں یہودی بكھر گئے اور اب قومِ یہود كو اس مسيحا كا انتظار ہے جس كی آمد پر انكی يہ مركزی عبادت گاہ دوبارہ تعمير ہوگی۔ وہ وقت آنے تک شابات ہی وہ عبادت گاہ ہے، وقت اور آرزو كی تعمير كردہ، جو ہر ہفتہ دوبارہ بنتی ہے اور ہر ہفتہ بكھر جاتی ہے۔[9]

روز کی عبادات[ترمیم]

روز کی تین عبادات مقرر ہیں جن میں سے صبح اور دوپہر کی فرض ہیں اور شام کی اپنے آپ پر واجب کی جا سکتی ہے ـ یہودیت میں دیگر احکام اس وقت تک اختیاری ہوتے ہیں جب تک انسان ان کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے کی نیت نہ کر لےـ اس نیت کے بعد وہ واجب ہو جاتے ہیں اور ان میں اور فرائض میں کوئی فرق نہیں رہتا ـ

تمام عبادات فرداً بھی ادا ہو سکتی ہیں اور باجماعت بھی تاہم باجماعت ادا کرنے میں فضیلت ہے خصوصاً اس لیے کہ جماعت جب اکٹھی ہو جائے تو وہ خدا کے دربار میں بطور بنی اسرائیل حاضر ہوتی ہے ـ جماعت کو پورا ہونے کے لیے کم از کم دس افراد کی ضرورت ہے ورنہ ایک ساتھ رہ کر بھی عبادت فرداً ہی قبول ہوجاتی ہے ـ یہودیت کے کئی مذاہب میں دس مردوں کو جماعت مانا جاتا ہے اور کئی میں دس افراد کو، خوا وہ مرد ہوں یا عورتیں ـ

شاخاریت
فجر کی عبادت ـ یہ سب سے لمبی اور دن کی سب سے اہم عبادت ہوتی ہے ـ اس کے چھ حصے ہیں ـ پہلے حصہ میں علما کی تفسیریں پڑھی جاتی ہیں ـ دوسرے میں توریت اور زبور کے اجزا پڑھے جاتے ہیں ـ تیسرے میں شماع پڑھی جاتی ہے، جو اس عبادت کا سب سے اہم حصہ ہے کیونکہ اس میں پوری قوم بنی اسرائیل کو پکارا جاتا ہے کہ وہ توحید کی شہادت دےـ اس کے بعد آمیدہ پڑھی جاتی ہے اور پھر مسیحا کی آمد کی دعا کی جاتی ہے جو زبور میں سے پڑھی جاتی ہے ـ آخر میں بنی اسرائیل کے فرائض کو دُہرایا جاتا ہے اور توحید کی شہادت بھی دہرائی جاتی ہےـ [10]
مِنخا
دوپہر کی عبادت : اس میں آمیدہ پڑھی جاتی اور تہواروں پر توریت کا جز بھی پڑھا جاتا ہے ـ [11]
معاریب
مغرب کی عبادت ـ اس میں شماع اور آمیدہ پڑھی جاتی ہیں ـ [12]

یہودیت اور دیگر مذاہب[ترمیم]

اسلام اور یہودیت[ترمیم]

اسلام اور یہودیت کے درمیان خصوصی اور قریبی رشتہ ہے۔ دونوں مذاہب ایک ہی جدِّ امجد یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتے ہیں اور اس لیے ابراہیمی مذاہب میں شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ہی مذاہب عقیدۂ توحید پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن یہودیوں کو اہل الکتاب کا خطاب دیتا ہے، ایک خطاب جو یہودیوں نے بعد ازاں تورات اور اپنی دگر کتب سے رشتہ واضع کرنے کے لیے خود بھی اپنا لیا۔[13] دوسری طرف بہت سے یہودی بھی یہ مانتے ہیں کہ مسلمان سات قوانین نوح کی پابندی کرتے ہیں اور اس لیے اسرائیل کا خدا کے ہدایت یافتہ بندے ہیں۔[14] یہودیوں کا مسلمانوں سے ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ نمائے عرب میں آغازِ اسلام سے واسطہ ہے اور اسلام اور یہودیت کے بہت سے بنیادی عقائد اور قوانین مشترک یا ملتے جلتے ہیں۔[15][16] مسلم ثقافت اور فلسفے نے مسلم علاقوں میں رہنے والے یہودیوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔[17] یورپ کے برعکس قرون وسطیٰ کے مسلم ممالک میں یہودیوں کو شاذونادر ہی قتل و غارت، جبری تبدیلی مذہب یا جبری بیدخلی کا سامنا کرنا پڑا؛ انھیں مسلم ممالک میں عمومی طور پر مذہب، رہائش اور کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کی آزادی حاصل تھی۔[18] یہاں تک کہ 712ء سے 1066ء تک بنو امیہ اور بنو عباس کے دور حکومت کو ہسپانیہ میں یہودی ثقافت کا عہدِ زریں مانا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] ان مالک میں رہنے والے یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کو ذمّی شمار کیا جاتا تھا۔ ذمّیوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے اندرونی معاملات اپنی مرضی سے طے کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، تاہم ان پر کچھ پابندیاں بھی تھیں جو مسلمانوں پر نہیں لگائی جاتی تھیں۔[19] مثلاً ان پر جزیہ لاگو ہوتا تھا جو ایک فی کس ٹیکس تھا اور ہر بالغ غیر مسلم مرد سے وصول کیا جاتا تھا۔[19] یہودیوں کے لیے ہتھیار لے کر چلنا اور ایسے مقدمات میں گواہی دینا بھی منع تھا جس میں کوئی مسلمان فریق ہو۔[20] ذمّیوں سے متعلق کئی قوانین علامتی اور امتیازی تھے؛ مثلاً کچھ ممالک میں ذمّیوں کے لیے علاحدہ لباس مخصوص تھا تاکہ ان کی آسانی سے شناخت ہو سکے۔ یہ قانون قرآن یا حدیث میں کہیں مذکور نہیں بلکہ قرون اولیٰ کے بغداد میں بنایا گیا اور بعد ازاں مختلف ممالک میں مختلف انداز اور شدّت سے نافذ کیا گیا۔[21] مسلم ممالک میں یورپ کی نسبت بہتر سلوک کے باوجود یہودی مکمل طور پر جبری اقدامات سے آزاد نہ تھے، مثلاً کچھ یہودیوں کو بارہویں صدی عیسوی میں ایران اور دولت موحدین کے حکمرانوں کی جانب سے ہسپانیہ اور شمالی افریقہ میں قتل و غارت، جبری بیدخلی اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا پڑا۔[22] نامور یہودی راہب، فلسفی اور طبیب موسیٰ بن میمون، جو مغرب میں میمونائڈز کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے اسی زمانے میں ہسپانیہ سے نقل مکانی کر کے مصر میں سکونت اختیار کی۔[حوالہ درکار] بعض اوقات یہودیوں پر رہائشی پابندیاں بھی لگائی گئیں، مثلاً پندرھویں صدی کے بعد سے مراکش میں یہودیوں کو شہروں کے مخصوص محلّوں تک محدود کر دیا گیا اور اس طرز عمل میں انیسویں صدی اور اس کے بعد مزید اضافہ ہوا۔[23]

یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلم ممالک میں یہودیوں سے امتیازی سلوک کی زیادہ مثالیں ہسپانیہ اور شمالی افریقہ میں دیکھنے میں آتی ہیں جو یورپ اور بالخصوص ہسپانیہ کے نصرانی علاقوں سے قریب ہونے کے باعث وہاں نصرانیوں کی جانب یہودیوں پر جاری جبر و استبداد کے اثرات قبول کر رہے تھے۔

بیسویں صدی میں اسرائیل کی صیہونی تحریک (Zionism) اور اسرائیل میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کے رویّے میں تبدیلی آئی ہے۔ مسلم ممالک میں رہنے والے زیادہ تر یہودی اب اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثر تحاریک، جیسے اسرائیل کا خدااور حماس میں یہودی مخالف جذبات اور رویّے واضع طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Major Religions of the World Ranked by Number of Adherents"۔ 15 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2017 
  2. Louis Jacobs.The Book of Jewish Belief. USA: Behrman House, Inc, (1984)
  3. Corrigan et al. Jews, Christians, Muslims: A Comparative Introduction to Monotheistic Religions. Upper Saddle River: Prentice Hall, 1998. pp. 7-12
  4. Corrigan et al. p. 20
  5. Fishbane, Michael A. Judaism: Revelation and Traditions. San Francisco: HarperCollins, 1987. p. 41.
  6. Fishbane p. 41
  7. Corrigan et al p. 21
  8. ^ ا ب ٖFishbane p. 42
  9. Corrigan et al. 'p. 220
  10. "shaharith." Encyclopædia Britannica. 2008. Encyclopedia Britannica Online. 19 Sept. 2008 <http://www.search.eb.com.offcampus.lib.washington.edu/eb/article-9067073[مردہ ربط]>
  11. " minhah ." Encyclopædia Britannica. 2008. Encyclopedia Britannica Online. 19 Sept. 2008 <http://www.search.eb.com.offcampus.lib.washington.edu/eb/article-9052846[مردہ ربط]>.
  12. " maarib ." Encyclopædia Britannica. 2008. Encyclopædia Britannica Online. 19 Sept. 2008 <http://www.search.eb.com.offcampus.lib.washington.edu/eb/article-9049583[مردہ ربط]>.
  13. Hence for example such books as People of the Book: Thirty Scholars Reflect on Their Jewish Identity (Johns Hopkins University Press, 1997) and People of the Book: Canon, Meaning, and Authority (Harvard University Press, 1997).
  14. "Jewish Rabbi admits Islam is the oldest religion"۔ YouTube۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2010 
  15. Prager, D; Telushkin, J. Why the Jews?: The Reason for Antisemitism. New York: Simon & Schuster, 1983. page 110-126.
  16. Jewish-Muslim Relations, Past & Present آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ rabbidavidrosen.net (Error: unknown archive URL), Rabbi David Rosen
  17. "The Golden Age of Arab-Jewish Coexistence, The Golden Era"۔ The Peace FAQ۔ 1998-09-01۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2010 
  18. Lewis (1999), p.131; (1984), pp.8,62
  19. ^ ا ب Lewis (1984), pp.10,20
  20. Lewis (1987), p. 9, 27
  21. Lewis (1999), p.131
  22. Lewis (1984), pp. 17, 18, 52, 94, 95; Stillman (1979), pp. 27, 77
  23. Lewis (1984), p. 28