یہودیت و کیتھولکیت کے مابین تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اس مضمون میں کاتھولک کلیسیا اور یہودیت کے مابین دور حاضر (آخری پچاس سال بالخصوص یوحنا پولس دوم کے پاپائی دور) میں موجود تعلقات کی نشان دہی کی گئی ہے۔

پس منظر[ترمیم]

مرگ انبوہ (holocaust) کے رد عمل کے نتیجہ میں بہت سے مذہبی علما، مورخین اور ماہرین تعلیم نے واضح طور پر مسیحیت اور یہودیت کے مابین موجود تعلقات کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا۔ مسیحیت کا یہودیت کے جانب میلان اور ہم آہنگی کی فضا کے معنی یہ تھے کہ ایک ہزار سال سے کلیسا کے ذریعہ یہود مخالف تعلیمات کی تشہیر نے مرگ انبوہ جیسے عظیم واقعہ کے وجود پزیر ہونے میں کتنا اثر ڈالا تاکہ آئندہ اس جیسے واقعات عالم وجود میں نہ آئیں۔

جنگ عظیم دوم سے 2005ء تک[ترمیم]

مجلس ویٹیکن دوم جو عام طور سے ویٹیکن دوم کے نام سے مشہور ہے، اس نے تاریخ مسیحیت میں ایک انقلابی اعلان شائع کیا جو Nostra Aetate (ہمارے دور میں) کے نام سے سامنے آیا۔ ملاحظہ کریں:

یہ حقیقت ہے کہ یہودی حکام اور ان کے متبعین یسوع مسیح کے قتل کے درپے نہیں تھے اور نہ اس پر مصر تھے۔ کتاب مقدس کی پیروی میں یہود کو خدا کا ملعون ومردود نہ قرار دیا جائے۔ ہرفرد پر ضروری ہے کہ دینی کام اور کلام خداوندی کی تبلیغ میں کسی بھی ایسی تعلیم سے گریز کرے جو انجیل کی سچائی اور روح مسیح سے ہم آہنگ نہ ہو۔ علاوہ ازیں، کسی بھی انسان پر جور و ستم ڈھانے کے خلاف ہونے کی وجہ سے، کلیسا، یہودیوں کیساتھ مشترکہ میراث ہونے کا پاس رکھتے ہوئے اور سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ انجیل کی روحانی محبت کے اسباق کی وجہ سے ان چیزوں کو برا گردانتی ہے: نفرت، ظلم و ستم، یہودیوں سے نفرت کا پرچار کسی بھی وقت چاہے کوئی بھی کرے۔

1971ء میں کاتھولک کلیسیا نے کلیسیا کے تعلیمی ادارہ (magisterium) سے باہر ایک داخلی عالمی مجلس برائے کیتھولک-یہود ارتباط اور عالمی یہودی مجلس برائے مذہبی مشاورات تشکیل دی تاکہ ان کوششوں میں تیزی لائی جاسکے۔

جدید کیتھولک تعلیمات اور یہودیت[ترمیم]

4 مئی 2001ء کو عالمی مجلس ارتباط کے سترہویں اجلاس کے موقع پر کلیسیائی مقتدرہ نے بیان دیا کہ کیتھولک مدارس ومکاتب میں یہودیوں کے ساتھ رویے میں تبدیلی لائی جائے گی، ملاحظہ فرمائیں:

کیتھولک مدرسوں اور الٰہیات کے اسکولوں کے نصاب میں یہودیوں سے متعلق نئی سوجھ بوجھ کی جھلک کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ بائبل پر کوسز، ایسی developments جن سے دونوں کلیسہ اور پادریانہ یہودیت نے قدیمی یہودیت سے جنم لیا۔ یہ ایک ایسی مضبوط بنیاد فراہم کرے گا جس سے اس "قدیمی یہودیت سے دردناک جہالت " کا ازالہ ہو سکے گا۔ یہ تاریخ کا وہی حصہ ہے جس کے بارے میں عیسائیوں کو عموماً منفی اور مضحکہ خیز باتیں معلوم ہیں۔[1])
ایسے نصابہائے درس جن کا تعلق کتاب مقدس، تاریخ اور الٰہیات کے ایسے پہلوؤں سے ہو جو عیسایوں اور یہودیوں کے تعلقات سے متعلق ہوں نصاب کا لازمی جز ہونے چاہیں صرف اختیاری نہیں۔ وہ تمام جو دینی مدرسوں سے یا الٰہیات کے اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوں، انھوں نے لازمی طور پر یہودیوں اور یہودیت کے بارے میں علوم میں چرچ کے انقلاب: Nostra Aetate سے لے کر پوپ جان پال دوم کی دعا تک، جو انھوں نے مغربی دیوار پر 26 مارچ 2000 کو مانگی، کو پڑھا ہوا ہو۔ تاریخی وجوہات کی بنا پر بہت سارے یہودی نسلوں سے چلتے ہوئے یہودیوں پر ڈھائے گئے مظالم کو آسانی سے نہیں بھلا سکتے۔ اسی وجہ سے، عام اور مذہبی یہودی رہنماوں کو چاہیے کہ وہ ہمارے یہودی دینی مدرسوں اور اسکولوں میں ایسے تعلیمی پروگرام کا پرچار کریں جو مسیحی اور یہودی تاریخ، مسیحیت کی تعلیم اور یہودیت سے اس کے تعلق کو اجاگر کریں۔ دونوں ادیان کے مابین مکالمہ، تصدیق، سمجھ بوجھ اور ایک دوسرے کے عقیدوں پر ایمان لائے بغیر ان کے احترام کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ نہایت اہم ہے کہ یہودی اسکولوں میں ان چیزوں کے بارے میں پڑھایا جائے۔ مجلس ویٹیکن دوم اور اس کے بعد کے دستاویزات اور رویے کی تبدیلی جس کی وجہ سے دونوں ادیان پر نئے نقطہ نظر عیاں ہوئے اور نئے راستے کھلے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "ویٹیکن نوٹس"۔ Bc.edu۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2009