2014 بھارت-پاکستان سیلاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
2014 بھارت-پاکستان سیلاب
This image of the northern Indian subcontinent captured by NASA on 4 September 2014 shows that heavy clouds over Jammu and Kashmir
دورانیہ3 ستمبر 2014 - جاری
اموات480
200 بھارت میں[1]
280 پاکستان میں[2]
نقصانات2,500 متاثرہ گاؤں[3]
80,000 افراد بے گھر[4]
متاثرہ علاقے
بھارت
جموں و کشمیر
پاکستان
آزاد کشمیر
گلگت بلتستان
پنجاب

ستمبر 2014 میں کشمیر کے علاقے میں برسات کی بے پناہ بارشوں سے سیلاب آیا تھا۔ بھارت میں جموں اور کشمیر کے علاقے اور پاکستان میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب کے علاے سب سے زیادہ متائثر ہوئے۔ 7 ستمبر 2014 تک بھارت میں 200 کے قریب جبکہ پاکستان مین 205 کے قریب لوگ سیلاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارت کے محکمہ داخلہ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں ہزاروں گاؤں بارشون سے متائثر ہوئے ہیں اور 350 دیہات پانی کے نیچے ڈوب گئے ہیں۔ ابھی تک کل 1 لاکھ 30 ہزار افراد کو نکالا جا چکا ہے جن میں سری نگر شہر سے 87000 افراد شامل ہیں۔ سری نگر کے بہت سارے حصے اور اہم سڑکیں بھی زیرِ آب آ گئی ہیں۔

ابتدا[ترمیم]

بھارت میں برسات کے اختتام پر 2 ستمبر سے جموں اور کشمیر میں شدید بارشیں شروع ہوئیں۔ ان بارشوں سے بھارت اور پاکستان کے علاقوں میں نہ صرف سیلاب بلکہ لینڈ سلائیڈنگ بھی شروع ہو گئیں۔ 5 ستمبر کو سری نگر میں دریائے جہلم میں 22.40 فٹ پانی گذرنے لگا جو خطرے کے نشان سے 4.40 فٹ بلند تھا۔ اننت ناگ کے ضلعے میں سنگم کے مقام پر پانی کی سطح 33 فٹ تھی جو خطرے کے نشان سے 12 فٹ زیادہ تھی۔ دریائے چناب میں بھی خطرے کے نشان سے اوپر موجود پانی کی سطح سے اس کے کنارے آباد سینکڑوں دیہات متائثر ہوئے ہیں۔ قادر آباد، سیالکوٹ، نارووال، گجرات، منڈی بہاؤالدین، گجرانوالہ، حافظ آباد، شیخو پورہ وسطی پنجاب میں طوفانی بارشوں سے سب سے زیادہ متائثر ہوئے ہیں۔

سیلاب[ترمیم]

ستمبر 2014 میں وادئ کشمیر کے اکثر اضلاع میں بدترین سیلاب آیا۔ 10 ستمبر تک وادئ کشمیر میں 190 افراد جاں بحق ہوئے اور 2600 دیہات پورے جموں و کشمیر میں متائثر ہوئے۔ ان میں سے 390 مکمل زیرِ آب آ گئے ہیں۔ 1225 دیہات جزوی طور پر زیرِ آب آئے ہیں اور 1000 دیہات کسی نہ کسی طرح متائثر ہوئے۔ زیادہ تر تباہی جنوبی اضلاع میں آئی جن میں اننت ناگ، اوانتی پور اور پلوامہ اہم ہیں۔ ان علاقوں میں دریائے جہلم میں پانی خطرے کی سطح سے اوپر چلا گیا ہے۔ ان علاقوں میں پانی کی آمد 70000 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ عام سطح 25000 کیوسک ہوتی ہے۔ کم از کم 200 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ 8 ستمبر تک سری نگر کے آس پاس سیلابی پانی 12 فٹ اونچا ہو چکا تھا جس سے زیادہ تر گھر ڈوب گئے ہیں۔ لوگوں نے پناہ کی خاطر بلند مقامات یا رشتہ داروں اور دوست احباب کے گھروں کا رخ کیا ہے۔

نتائج و عواقب[ترمیم]

بھارت[ترمیم]

سری نگر میں شہر کے زیادہ تر حصے زیرِ آب آ گئے۔ دریائے جہلم میں سیلاب سے راج باغ، جواہر نگر، گوگجی باغ اور وزیر باغ کے مضافات بھی زیرِ آب آ گئے۔ راج باغ میں مکانات اور ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے کہ ان کی پہلی منزلیں زیرِ آب آ گئیں۔ جموں و کمشیر کے وزیرِ اعلٰی عمر عبد للہ کے مطابق دہلی سے کشتیاں لائی گئیں تاکہ لوگوں کا انخلاء کیا جا سکے اور ہوائی فوج نے شہر میں امدادی کارروائیاں کیں۔ ریاست بھر میں 50 کے لگ بھگ پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم سیلابی پانی کے اترنے کے بعد ہی نقصانات کا درست تخمینہ لگایا جا سکے گا۔ ریاستی حکومت نے متائثرہ افراد کی امداد کے لیے مرکزی حکومت سے 25٫000 خیمے اور 40٫000 کمبل مانگے ہیں۔ جموں ڈویژن میں سخت بارش کے بعد تودے گرنے لگ گئے تھے جن سے سڑکوں، درجنوں پلوں، عمارات اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ جموں تا پٹھانکوٹ شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی تھی۔ 12 ستمبر سے شروع ہونے والی حج پروازیں ملتوی ہو گئی ہیں۔ جموں تا پٹھانکوٹ کی قومی شاہراہ 8 ستمبر کو کھولی گئی۔ سری نگر تا لداخ شاہراہ کو 9 ستمبر کو ٹریفک کے لیے کھولا گیا۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اسے قومی آفت قرار دیا ہے۔

امدادی کارروائیاں[ترمیم]

بھارت[ترمیم]

بھارت کے سیکریٹری داخلہ انیل گوسوامی نے بتایا کہ 82 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر، 10 بٹالین بارڈر سکیورٹی فورس، انڈین فوج کے 329 کالم اور 300 کشتیوں نے امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ انھوں نے کہا کہ 10 مواصلاتی نظام کو ہوائی ذریعے سے منتقل کیا گیا تاکہ اہم مواصلاتی رابطہ بحال ہو سکے۔ دو آئی ایل 76، ایک سی جے 130 اور ایک اے این 32 جہازوں نے کل 50 ٹن سامان منتقل کیا جن میں خوراک، پانی اور ادویات شامل تھیں۔ 300 کشتیاں بھیج کر زیرِ آب علاقوں سے لوگوں کا انخلاء ممکن بنایا گیا۔ مسلح افواج بشمول بارڈر سکیورٹی فورس اور نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس نے اب تک کل 1٫30٫000 افراد کو جموں اور کشمیر کے مختلف علاقوں سے بچایا ہے۔ امداد اور بحالی کی کارروائیوں میں انڈین افواج نے بے مثال کام کیا ہے۔

وزارتِ دفاع نے سری نگر میں اپنا مرکز قائم کیا تاکہ وہاں سے امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی جا سکے۔ حکومت بھارت نے دہلی میں بھی ایک کنٹرول روم بنایا ہے جہاں سے لوگ متائثرہ علاقوں میں پھنسے اپنے رشتہ داروں کے بارے معلومات لے سکتے ہیں۔

بحالی[ترمیم]

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 1٫000 کروڑ روپے کی امداد ریاستی حکومت کو دی ہے۔ اس سے قبل 1٫100 کروڑ روپے اس آفت کے شروع میں دیے جا چکے تھے۔ مودی نے سیلاب سے متائثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا اور پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر میں ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بھی مالی امداد کی پیش کش کی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیرِ اعلٰی نے اپنے خصوصی اختیاراتی فنڈ سے 10 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، گجرات اور آندھرا پردیش نے بھی 5 کروڑ فی صوبہ امداد دینے کا اعلان کیا ہے اور اپنی عوام کو بھی مدد کے لیے دعوت دی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Kashmir floods: phones down, roads submerged; toll touches 200, rescue ops on"۔ Hindustan Times۔ 8 September 2014۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2014 
  2. "India and Pakistan Strain as Flooding Kills Hundreds"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 8 September 2014۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2014 
  3. "Jammu and Kashmir flood tolls climbs up to 160, Rajnath Singh assures help"۔ The Economic Times۔ IANS۔ 6 September 2014۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2014 
  4. Rupam Jain Nair (10 September 2014)۔ "Tempers flare as mass flood evacuations begin in Kashmir"۔ Reuters۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2014