آنگن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آنگن پاکستان کی معروف ناول نگار خدیجہ مستور کا ایک اردو ناول ہے اور مصنفہ کے چند مشہور ترین ناولوں میں سے ایک ہے۔[1]

آنگن
مصنفخدیجہ مستور
ملکپاکستان
زباناردو
صنفناول
تاریخ اشاعت
1962
تاریخ اشاعت انگریری
2001 ,2018

کردار نگاری[ترمیم]

فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے ”آنگن “ کی کردار نگاری ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں میں ایسے کردار بھی ہیں، جو شروع سے لے کر آخر تک قدم قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کے قدموں، بلکہ اپنے قدموں کی آہٹیں بھی سنتے چلے جاتے ہیں لیکن آہٹوں کی اس معیت میں بھی ہر کردار اپنی جگہ تنہا اور بے یار و مدگار دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسے کردار بھی ہیں جو پل بھر کے لیے رونما ہوتے ہیں او رپھر ناول کی دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کے والد مظہر چچا، تہمینہ باجی، عالیہ، چھمی، اماں، صفدر بھائی، بڑ ے چچا، بڑی چچی، جمیل بھائی، کریمن بواء، شکیل، اسرار میاں، ظفر چچا اماں کے بھائی اور انگریز بھابی اس ناول کے دائمی کردار ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک ناول کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ رائے صاحب، کسم دیدی، شیام، شیام کے والدین، تھانیدار کا بیٹا منظور صفدر بھائی کی ماں سلمیٰ، بڑے چچا کی بیٹی، ڈیم پھول کہنے والا انگریز افسرمسز ہاروڈ، نجمہ اور دادی اماں آنگن کے ضمنی کردار ہیں۔ سب سے پہلے ہم چند اہم اور بڑے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں،

عالیہ[ترمیم]

عالیہ ناول کی ہیروئن ہیں۔ اور ساری کہانی عالیہ کے کردار کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مصنفہ نے بڑ ے خوبصورت انداز میں اس کردار کو تراشا ہے۔ یہ ایک خوبصورت تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔ بے سہارا ہونے کے بعد اپنے بڑے چچا کے گھر میں آجاتی ہے اور آخر میں پاکستان آکر ایک کامیاب عورت بنتی ہے۔ اس کردار کی مکمل نفسیاتی کیفیات مصنفہ نے واضح کرتے ہوئے کردار کا نفسیاتی تجزیہ خوبصورتی سے کیا ہے۔۔ عالیہ دراصل ایک ذہنی کشمکش کا شکار نظرآتی ہے۔ تہمینہ باجی کی خودکشی کے واقعے کے بعد اُسے ایک طرح مردوں سے نفرت ہو گئی ہے اور وہ مردوں سے دور رہتی ہے اس لیے بڑے چچا کے گھر میں آنے کے بعد جب جمیل بھیا اُس کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو وہ اُسے ٹھکرا دیتی ہے لیکن دوسری طرف ایک عورت ہونے کی وجہ سے اُس کی خواہش ہے کے اُسے چاہا جائے اور ایک مردکی محبت کو ٹھکرانے کے بعد بھی مکمل نظر انداز نہیں کر سکی۔ جب وہ پاکستان جانے کے لیے روانہ ہوتی ہے تو اس کی حالت سے اُس کی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کم از کم جمیل اس کی طرف دیکھ تو لے اس سے بات تو کرلے۔ اور اس ذہنی کشمکش کو بڑے خوبصورت اندا ز میں مصنفہ نے پیش کیا ہے۔ اس کے وہ اپنی ماں کی بھر پور نفرت کے باوجود وہ بڑے چچا سے محبت رکھتی ہے۔ گھر میں اسرار میاں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر اُس کا دل کڑتا ہے۔ جو اُس کو ایک اچھے ذہن اور نرم دل کا کردار ثابت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالیہ کا کردار اردو ادب کا زندہ جاوید کردار ہے جس میں مصنفہ نے فن کردار نگاری کے تمام اصولوں کو برتا ہے۔

جمیل بھائی[ترمیم]

جمیل بھائی ایک کمزور کردار ہے کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ناول کا ہیرو ہے لیکن ہیرو ہونے باوجود وہ ایک عام سا کردار ہے۔ جس میں ایک اچھا مرد ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ بالکل عام مردوں کی طرح پہلے چھمی سے محبت کرتا ہے۔ لیکن جب عالیہ گھر میں آتی ہے تو اُس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر عالیہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اس طرح یہی بات اسے ایک کمزور کردار ثابت کرتی ہے۔ دوسری طرف عالیہ کے بار بار ٹھکرانے کے باوجود بھی وہ اُس کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ گھر کی حالت سے کافی تنگ آچکا ہے بڑے چچاسے نظریاتی اختلا ف ہے اس لیے مسلم لیگ کا حامی ہے۔

چھمی[ترمیم]

چھمی کا کردار ناول کے خوبصورت اور اچھے کرداروں میں سے ہے۔ چھمی شروع سے بڑے چچا کے گھر بڑی ہوئی ہے اسے یہ شدید احساس ہے کہ والد اس کا حق ادا نہیں کر رہا۔ اسے ان پڑھ رہ جانے کا بھی صدمہ ہے۔ ناول نگار نے اس کردار کا نفسیاتی تجزیہ بڑی خوبصورتی سے کیا ہے چھمی اپنے حالاتِ زیست کے تحت رد عمل کے طور پر باغیانہ رویہ اختیار کر لیتی ہے۔ والد کے رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتی ہے کہ کیا شادی کا مقصد یہی ہے کہ لوگ پلوں کی طرح بچے پیدا کرتے رہیں۔

تہمینہ باجی[ترمیم]

تہمینہ باجی عالیہ کی بہن ہے اپنے پھوپھی کے بیٹے صفد ر سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے لیکن اپنی ماں کے ڈر کے مارے اس کا برملا اظہار نہیں کر سکتی اور محبت کا سارا سلسلہ پس پردہ چلتا ہے۔ تہمینہ باجی کی محبت میں اتنی شدت ہے کہ جب اس کی شادی کسی دوسرے آدمی سے طے کر دی جاتی ہے تو وہ خودکشی کر لیتی ہے۔ جس کا اثر عالیہ کے ذہن پر آخر تک رہتا ہے۔ تہمینہ باجی سماج اورمحبت کے درمیان پس کر رہ جانے والا کردار ہے۔

صفدر بھائی[ترمیم]

صفد ر بھائی کا جہاں تک تعلق ہے تو ناول نگار نے اس کا نفسیاتی تجزیہ بڑی چابکدستی سے کر دیا ہے۔ اماں کے ناروا سلوک سے تنگ آکراُس کے علی گڑھ جانے کے بعد یوں لگتا ہے کہ صفدر بھائی نے سکھ کا سانس لیا ہے اس کی خودی اور خوداری یہاں تک جاگ اٹھتی ہے کہ وہ تہمینہ کے ابو کی طرف سے بھیجی ہوئی رقم بھی واپس کر دیتا ہے۔ اس کی شخصیت کے نہاں گوشوں میں چھپا ہوا جذبہ رد عمل اسے ایسا کرنے پر اکستا تا ہے۔ وہ واپس آنے کا نام بھی نہیں لیتا اور یہی اس کی نفسیاتی کیفیت کے نشیب و فرا ز ہیں۔ اس کے علاوہ یتیم ہونے کی وجہ سے یہ کردار احساس کمتری کا بھی شکار نظرآتا ہے۔ لیکن محبت کے معاملی میں وہ کسی قسم کی بغاوت سے قاصر ہے اور میدان چھوڑ کر بھاگ جانے میں اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔

بڑے چچا[ترمیم]

بڑے چچا جمیل کے والد ہیں۔ بڑے چچا اُ س وقت کے ہندوستانی مسلمان کی ایک مکمل تصویر ہیں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ اپنی اولاد سے دور ہو گئے ہیں۔ اور اس کے رد عمل کے طو ر پر گھر کے زیادہ تر لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی اپنی اولاد بھی ان کے نظریات کی مخالف نظرآتی ہے۔ لیکن وہ ایک سچے کانگرسی ہیں اور جس را ہ کا انھوں نے انتخاب کیا ہے اُس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کی جان بھی اسی راہ میں چلی جاتی ہے۔

مظہر چچا[ترمیم]

مظہر چچا عالیہ کے والد ہیں۔ اُس وقت کے عام ہندوستانی ذہنیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ اور غلام ہونے کی وجہ سے اپنے آقا انگریز سے شدید نفرت کرتے ہیں اور اس نفرت میں ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں جتنی شدت ہے اور جب یہ آتش فشاں پٹتا ہے تو وہ اپنے انگریز افسر کی خوب پٹائی کی سزا میں جیل چلے جاتے ہیں۔ جہاں اُن کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اپنے بچوں سے شدید محبت کرتے ہیں۔ اور اپنی بہن کے بیٹے صفدر سے اپنی بیوی کی نفرت کے باوجود محبت کرتے ہیں۔

کسم دیدی[ترمیم]

کسم دیدی کا کردار ایک ناقابل فراموش ضمنی کردار ہے جو ایک ہندو بیوہ ہے سماج کے ہاتھو ں مجبور ہے کیوں کہ بیوہ ہونے کے بعد اس سے زندہ رہنے کے تمام خواہشات چھین لیے گئے ہیں اور وہ مردہ لاش کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کا کردار تمام تر نفسیات کے ساتھ اس ناول میں حرکت و عمل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنے خاوند کی یاد میں ”کون گلی گیو شیام بتا وے کوئی“ اور ”جو میں جانتی بچھڑت ہو پیا گھونگٹ میں آگ لگا دیتی۔ “ جیسے بول اس کی نفسیاتی کیفیات کی ترجمانی و عکاسی کرتے ہیں ۔

اسرار میاں[ترمیم]

اسرار میا ں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کسی داشتہ کا بیٹا ہے۔ چنانچہ ناول نگار نے اسے نفسیاتی طور پر دبا دبا سا دکھایا ہے۔ وہ ہر وقت دکان پر ہوتا ہے یا بیٹھک میں پڑا رہتا ہے۔ گھر والے اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے وہ انتہائی احساس ِ کمتری کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ کریمن بوااگر سب گھر والے ناشتا کر چکے ہوں تو مجھے بھی ناشتا بھجوا دیجیئے۔ یہ وہ التجا ہے جو اسرار میاں روزانہ ہی نحیف سی آواز میں گداگروں کی طرح کرتے رہتے ہیں۔ اس گھر کے رہنے والوں نے اسرار میاں کو یقین دلا رکھا ہے کہ واقعی تم کسی داشتہ کے بیٹے ہو اور وہ اس لقب پر صابر و شاکردکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر شاید اپنے آپ کو گداگر ہی سمجھتے ہیں۔ گھر والوں کے ساتھ آمنے سامنے بات کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عالیہ جب ایک موقعے پر اسرار میاں سے بات کرنا چاہتی ہے۔ تو وہ یہ کہتے ہوئے باہر کی طرف بھاگتے ہیں کہ پردہ ہے بیٹا۔ اس طرح خدیجہ مستور نے اپنے اس کردار کا نفسیاتی تجزیہ بھی بڑی فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو کردار نگاری کرتے ہوئے مصنفہ نے فن کردار نگاری کے اصولوں کو بڑی کامیابی اور فن کاری سے نبھایا ہے۔ انھوں نے کردار نگاری کرتے ہوئے ہر کردارکی فطرت اور حیثیت کا خاص خیال رکھا ہے کرداروں کے عمل سے ان کی فطر ت حیثیت اور اہلیت ظاہر ہوتی ہے۔ جس میں انسانی جذبات و نفسیات اور احساسات کی ہلچل اور گہما گہمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ خدیجہ مستور نے ہر کردار کے دل و دماغ میں جھانک جھانک کر دیکھا ہے۔ اس طرح اسے جو کیفیت نظرآتی ہے۔ ہو بہو بیان کر دی ہے۔

مکالمہ نگاری[ترمیم]

فنی نقطہ نظر سے مکالمہ نگاری بھی ایک اہم خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ ناول نگار نے کہیں تو اس ناول کو پیش کرنے میں بیانیہ انداز اپنایا ہے۔ اور کہیں اس کے ساتھ ساتھ فن مکالمہ نگاری کو بھی نبھایا ہے۔ مکالمہ نگاری کرتے وقت خدیجہ مستور نے کرداروں کی ذہنی حیثیت و کیفیت کا خوب خیال رکھا ہے ان کے لکھے ہوئے سبھی مکالمے کرداروں کی شخصیت پسند و ناپسند اور محبت و نفرت کی بھر پور عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسم دیدی کا خاوند وطن کی آزادی کے لیے لیے قربان ہو جاتا ہے تو کسم دیدی عالیہ کی ماں سے کہتی ہے۔

"انھیں اگر مجھ سے محبت ہوتی تو کبھی نہ جاتے۔ انھیں تو صرف اپنے دیش سے محبت تھی۔"


اس طرح مسز ہاروڈ کی گلابی اردو سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی کوئی انگریز خاتون بول رہی ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اس ناول کے مکالمے انتہائی فطری معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر
”ہم آپ لوگوں سے مل کر بہت کھوش ہوا ہے۔ “
”تم ہمارے پاس بیٹھنا مانگتا عالیہ"۔
اس کے علاوہ غصے کی وجہ سے فطری ضرورت کے تحت غصیلے کردار ایک دوسرے کے مقام کا پاس نہیں رکھتے مثلاً جب بڑی چچی کہتی ہے

"ارے اس کے بابا کو ہوش ہی کہاں، جو اس کے دو بول پڑھا کر ٹھکانے لگا دے۔"

تو چھمی یوں جواب دیتی ہے۔

"جسے شوق ہو وہ خود اپنے دو بول پڑھوالے۔"

اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ناول آنگن میں ہر کرداری گفتگو موقع و محل کے مطابق ہے۔ کرداروں کا ایک ایک لفظ ان کی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی حیثیت کے عین مطابق ہے چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس ناول کی مکالمہ نگاری فطری تقاضوں سے میل کھاتی ہے۔

پلاٹ[ترمیم]

ناول کے پلاٹ پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ناول کا پلاٹ بھی فنی اصولوں کے عین مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ناول کی پوری کہانی قصہ در قصہ ہونے کے ساتھ ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک ہے۔ سبھی حالات و واقعات یکے بعد دیگرے ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ناول کے پلاٹ میں ایک خاص طرح کا ربط و ضبط پیدا ہو گیا ہے۔ پورے پلاٹ میں کوئی قصہ فالتو یا بے جا دکھائی نہیں دیتا۔ پلاٹ کا فنی کمال یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی نکال دیا جائے تو پوری کہانی ایک خلا اور خلیج کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ ہر واقعے کا اپنی جگہ حسب ضرورت ہونا اس ناول کے پلاٹ کی ایک اہم فنی خصوصیت ہے جو ناول نگار کی فہم و فراست اور فن کاری و پرکاری کا نتیجہ ہے۔ فنی لحاظ سے یہ ایک انتہائی اہم اور بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے۔

منظر نگاری[ترمیم]

منظر نگاری کو بھی فنی حیثیت سے کسی بھی کہانی میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس ناول میں قدرتی منظر کشی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف سامنے والے درختوں سے الو کے بولنے کی آواز آتی رہتی ہے اور درختوں کے جھنڈ قدرتی منظر کی ایک جھلکی سی پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک موقعے پر رات کے وقت آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور ایسے میں پرندے اڑ رہے ہیں جو ایک نامکمل اور قابل گرفت منظر ہے کہ رات کے وقت پرندے کب اُڑتے ہیں۔

اسلوب[ترمیم]

ناول نگار نے انتہائی سادہ اور سلیس اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے ناول کی عبارت کو دلکش اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ پورے ناول کے شروع سے لے کر آخر تک ایسے مشکل الفاظ بالکل نظر نہیں آتے جو ذہن پر بوجھ کا سبب بنتے ہوں۔ ناول کی عبارت سادہ اور سلیس ہونے کے باعث رواں دواں ہے۔ یہی وہ روانی ہے جس کے نتیجے میں ناول دل آویزی کی حد تک دلکشی اور دلچسپی سے ہمکنار ہوا ہے۔ ناول نگار نے بیچ بیچ میں طنزیہ و مزاحیہ انداز بیان اختیار کرتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر چھمی ایک موقعے پر کہتی ہے ۔

"اے ہے کلو کی اماں ایک لڑکا تھا نا مزدوروں کی کسی جماعت میں چلا گیا وہ جماعت انڈر گرائونڈ رہتی ہے اللہ وہ زمین کے اندر کیسے رہتے ہوگے۔"

ترجمہ[ترمیم]

آنگن کا 13 مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ان میں ہندی ، بنگالی، روسی، گجراتی اور انگریزی وغیرہ شامل ہیں۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ دو مرتبہ کیا گیا۔

تجسّس وجستجو[ترمیم]

فن کے پیش نظر تجسّس اور جستجو کے عناصر بھی کہانی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مذکورہ ناول میں یہ عناصر خوب زوروں پر ہیں۔ شروع سے لے کر آخر تک تجسّس کی ایک برقی رو دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ پڑھنے والا قدم قدم پر سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ مظہر چچا جب جیل چلے جاتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ بڑے چچا کے گھر میں عالیہ اور اس کی اماں کس طرح گزارہ کریں گے؟ کیا مظہر چچا کوقید ہو جائے گی یا رہا ہو کر واپس آجائیں گے؟ تہمینہ اور صفدر ایک دوسرے کو پالیں گے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے؟ صفدر کبھی واپس آئے گا یا نہیں؟ تہمینہ کی شادی جمیل کے ساتھ ہوگی کہ نہیں؟ جب تہمینہ خودکشی کر لیتی ہے تو ہمیں ان سوالوں کے جواب خود بخود مل جاتے ہیں۔ اس طرح کسم دیدی کا واقعہ ہو، شکیل کا گھر سے بھاگ جانا ہو، چھمی کی طلاق ہو، کانگریس اور مسلم لیگ کے جلسے جلوس ہوں یا ہندو مسلم فسادات سبھی حالات و واقعات اپنے اندر بے پناہ تجسّس لیے ہوئے ہیں جن سے ناول کی دلچسپی اور دلکشی میں بھر پور اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ناول آنگن فنی لوازمات کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے چنانچہ ہم اسے ایک کامیاب ناول قرار دے سکتے ہیں۔

فکری جائزہ[ترمیم]

فکری لحاظ سے دیکھا جائے تو ناول آنگن بنیادی طور پر سیاسی اور رومانی ناول ہے جس پر معاشرتی و سماجی رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس ناول میں ناول نگار نے زندگی کے تقریباً سبھی مسائل سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ناول ہندوستان کی نجی اور گھریلو زندگی سے لے کر دور غلامی کے لوگوں کی قومی حیثیت کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ناول میں گھریلو آنگنوں کے ساتھ ساتھ پور ے ہندوستان کو ایک آنگن قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ مذکور ہ ناول میں مظہر چچا، رائے صاحب اور کسی حد تک ماموں کے گھریلو حالات کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی صورت حال کانقشہ کھینچا گیاہے۔

ٍناول کا تانا بانا اس طرح تیار کیاگیاکہ رومانیت کا عنصر بڑی حد تک ناول میں پایا جاتا ہے۔ تہمینہ آپا اور صفدر بھائی کی محبت ناول کی فضاءمیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن تہمینہ کی شادی ا س کی مرضی کے خلاف جمیل بھائی سے طے کر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ تہمینہ کی خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس طرح مصنفہ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ رشتے جیسے مقدس اور نازک مسئلے کا فیصلہ کرتے وقت اولا د کی مرضی کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

کسم دیدی کا خاوند جلیانوالہ باغ کے جلسے میں مارا جاتا ہے تواس کے بعد اپنے خاوند کی جدائی کے صدمے میں وہ جس طرح مبتلا رہتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی کسم دیدی محبت، ایفا اور وفا کی ایک عظیم دیوی ہے۔ اس کے یہ بول
”جو میں جانتی بچھڑت ہو پیا گونگھٹ میں آگ لگا دیتی “

اس کے دلی جذبات و احساسا ت کا بھر پور کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر کسم دیدی کے حوالے سے ناول نگار نے انتہائی حقیقت نگاری اور نفسیات نگاری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے۔ یہ تلخ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ وہی کسم دیدی جو اپنے خاوند کی یاد میں دن رات روتی تھی ،آخر ایک غیر مرد کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ اس مقام پر خدیجہ مستور نے یہ نفسیاتی حقیقت ظاہر کی ہے کہ محبت اور عورت و مرد کی قربت ایک فطری جذبہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی سماجی ناول ہے۔ تحریک آزادی کا مسلمان گھرانوں کی زندگی اور مسلمانوں کے ذہنوں پر کیا اثر ہوا۔ ان سب کااحوال اس ناول میں موجود ہے۔ ناول میں انگریزی تہذیب و تمدن اور انگریزوں کی مخالفت ہی سے تحریک آزادی کا آغاز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ”ڈیم پھول“ کہنے پر مظہر چچا انگریز افسر کے سر پر ایسا وار کرتے ہیں کہ افسر کا سر پھوڑ ڈالتے ہیں۔ ناول نگار نے یہاں پر اس مقام کی عکاسی کر دی ہے۔ جہاں غلامی کی زنجیریں ہندوستانی غلاموں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب وہ ان زنجیروں کو پاش پاش کر دینا چاہتے ہیں۔ مظہر چچا کا کردار راہ آزادی کے ایسے ہی جانباز وں کی زندہ جاوید قربانیوں کی لازاوال مثال جو طوق غلامی اتار پھینکنے کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دینے پر تلے ہوئے تھے، ان کی ساری ساری زندگیاں جیلوں میں کٹ گئیں، بے شمارافراد ایسے بھی تھے جن کی اموات جلیوں میں واقع ہوئیں۔ آزادی کا نام لینے کے جرم کی پاداش میں وہ آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے۔ لیکن دوبار جیتے جی اپنے پیاروں سے نہ مل سکے۔ ان کی آنکھیں آزادی کے چراغاں کو ترستی رہ گئیں، لیکن جیل کے آہنی دروازوں سے ان کی لاشیں ہی باہر آسکیں۔ آزادی کی خاطر مظہر چچا کی طرح بے شمار لوگوں کے گھر اجڑے۔ آنگن ان سب تلخ حقائق کی عکاسی بھر پور انداز میں کرتی ہے۔
راہ آزادی کے مسافروں نے منزی آزادی تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ مظہر چچا کی طرح ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے۔ گھر بار اجاڑ دیے۔ بال بچے در بدر ہوئے۔ بڑے چچا کی طرح کاروبار کی آمدن اولاد پر خرچ کرنے کی بجائے، تحریک آزاد ی کے مجاہدوں نے آ زادی پرسب کچھ لٹا دیا۔ جس کی وجہ سے خاندانوں کی معاشی حالت بھی بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ گھر میں شکیل جیسے معصوم بچوں کے لیے پڑھنے کو کتابیں نہ تھیں۔ اس لیے کہ بڑے چچا جیسے مجاہد سب کچھ آزادی پر نچھاور کر رہے تھے۔ گھر میں ماں جیسی قریبی ہستی کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر لوگ ماں کا سوگ منانے کی بجائے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف رہتے۔
دوسری طرف مزید باریک بینی میں جاتے ہوئے مسلم لیگ اور کانگرس کی آویزش اور کشمکش کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بڑے چچا مسلمان ہوتے ہوئے بھی کانگرسی ہیں اور اپنے گھر والوں خصوصاً چھمی سے کافر چچا کا خطاب پاتے ہیں۔ یعنی ہندوستان کا ایک ایک مسلمان گھرانہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جمیل کی لاہور آمد اور قرارداد پاکستان میں شرکت اس سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک ہی خاندان کے قریبی رشتے مختلف سیاسی نظریات و تصورات رکھتے تھے کوئی پاکستان بنا رہا ہے اور کوئی بڑے چچا کی صورت میں اس کی مخالفت کر رہا ہے۔
ناول کی فضاءسے عدم تعاون کی تحریک اور خلافت کی ترجمانی بھی ہو رہی ہے۔ جذبہ آزادی اور تحریک خلافت کی متوالی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو کھلے دل سے کہتی تھیں۔

بوڑھی اماں کا تم غم نہ کرنا
جان بیٹا خلافت پہ دے دو

کانگرس اور مسلم لیگ کی حریفانہ کشمکش کے نتیجے میں ہندو مسلم کش فسادات بھی ہوتے رہتے ہیں اگرچہ اس وقت ابھی آزادی کی منزل بھی دور تھی۔ لیکن راہ آزادی کے مسافر ہندومسلم کی صورت میں پہلے ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے جو اپنی نوعیت کا ایک المیہ ہے۔

آخر تحریک آزادی اپنی منزل مقصود تک پہنچتی نظرآتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے دنوں میں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ اور پھر ناول میں اس بھیانک دور کا بھی ذکر ہے جب پورے ہندوستان میں فسادات ہوتے ہیں خون کی ندیاں بہتی ہیں۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ ہندو مسلمان دشمنی میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ ساری عمر کافر چچا اور ہندو مزا ج کے طعنے برداشت کرنے والے بڑے چچا کو قتل کر دیا جاتاہے۔ جو ایک کٹر کانگریسی تھے۔ لیکن ان کا گنا ہ صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہاں ناول نگار نے ایک لحاظ سے یہ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے۔ مذہبی فرق اور عقیدے کیوجہ سے اگر موقع ملے تو بڑے چچا جیسے کٹر کانگریسی بھی ہندو کے وار سے نہیں بچ سکتے۔

ناول نگار نے اس حقیقت کی ہو بہو عکاسی کر دی ہے کہ مسلمان تو کانگریسی تھے اور اب بھی ہیں لیکن کوئی ہندو تو اُس وقت مسلم لیگی نہیں تھا۔ اور نہ اب ہے۔ خدیجہ مستور نے تقسیم کی صورت میں مہاجرین اور کے قافلوں کا ادھر ادھر آنا جانا بھی دکھایا ہے۔ راستے میں جس طرح قافلے لٹ پٹ جاتے ہیں۔ ناول نگار نے ہو بہو عکاسی و ترجمانی کر دی ہے۔

اماں کے بھائی بہن کے لیے پاکستا ن میں ایک بنگلے کا بندوبست کر دیتا ہے اور کہیں سے جعلی رسیدے ں لا کر عالیہ کی موجودگی میں سمجھاتا ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو کہنا، فرنیچر ہم نے خریدا ہے۔ ناول نگار نے اس مقام پر دبے الفاظ میں اس جعل سازی، دھوکا دہی اور چور بازاری کی جھلکی دکھادی ہے۔ جو آج پاکستانیوں کا شعار بنی ہوئی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ایک بہت بڑا المیہ ہے اور یہ اس المیے کا آغاز پاکستان بنتے ہی ہو گیا تھا۔

بہر حال فکری طور پر ناول آنگن رومانوی انداز میں تحریک آزادی کی ایک دل دوز داستان ہے۔ مختلف ادوار کے حوالے سے مختلف تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے ناول نگار نے دور ِ غلامی اور تحریک آزادی کا تجزیہ اس انداز میں کیا ہے کہ ماضی اور حا ل کی پوری اور مکمل تصویر دل و دماغ میں نقش ہو کر رہ جاتی ہے۔ راہ آزادی کے مجاہدوں نے جن کٹھن اور نامساعد حالات میں آزادی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ان کا ذکر انتہائی موثر انداز میں کر دیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آیا ان مجاہدوں اور شہیدوں نے جو آزادی امانت کے طور پر ہمارے پاس چھوڑ ی ہم اس کی حفاظت میں کہاں تک مخلص ہیں؟ یہ سوال ہمارے لیے لمحہ فکر سے کم نہیں۔

اردو کے ادبی نقاد، نظریہ دان اور محقق احمد سہیل نے ناول " آنگن " کا اپنے ایک مضمون میں یوں تفھیم اور تجزیہ کرتے ہیں ۔"خدیجہ مستور کا ناول آنگن ایک ایسے آزاد خیال گھرانے کی کہانی ہے جہاں مختلف نظریات سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں۔ جو اپنے مزاج، رویوں اور خیالات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جو بے چین، پریشان ہیں، تذبذب کا شکار ہیں۔ دُہرے رویوں کے ساتھ اپاہج معاشرتی نظام نہ جانے کس سمت جا رہا ہے۔ اس ناول میں فرد کے وہی تجربے، وہی مسائل دکھائی دیتے ہیں جو فرد کے لیے چیلنج ہیں اور فرد ان کا کسی نہ کسی طور پر مقابلہ کر رہا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے کو ’’آنگن‘‘ میں گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ فرد کے ذاتی، خاندانی، رومانی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل اپنے اپنے انداز میں سامنے آتے ہیں یہ ناول یوپی کے متوسط مسلمان گھرانے کی جدوجہد آزادی سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں ایک گھر کے ’’آنگن‘‘ میں اشاراتی انداز میں برصغیر کا نقشہ بچھا ہوا ہے، جس میں جلد ہی نئی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ وہ معاشرتی نظاموں کی بنیاد پڑنے والی ہے۔۔۔۔۔۔ تصادم کہیں نہ کہیں ہر ناول میں ہوتا ہے۔ ’’آنگن‘‘ میں نظریاتی اور شخصی تصادم نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ تصادم عموماً مسلسم نہیں ہوتا۔ مثلاً ناول میں جس معاشرتی اور سیاسی صورت حال کا تذکرہ ہے تو یہ وہی جنگ ہے جو سر سید احمد خان نے شروع کی تھی۔ جب پہلے انگریز نے ہندوستان میں قدم رکھا تو اسی روز سے اس جنگ کی ابتدا ہو چکی تھی۔ اشاراتی طور پر گھر کے آنگن سے نظریاتی تصادم شروع ہوتا ہے جو دو بڑے سیاسی گروہوں کے درمیان ہے۔ آنگن میں بیٹھ کر بحث و مباحثہ ہوتا ہے یعنی گھر ایک لاشخصی تصادم سے دو چار ہے دراصل یہ نظریات کی مسابقت تھی جو تصادم کا سبب بنی اور یہی تصادم ایک نئے معاشرتی نظام کی بنیاد بنا۔ ۔۔۔۔۔ ’’آنگن‘‘ پڑھ کر یہ عمرانیاتی نکات سامنے آتے ہیں:

1: یہ ناول بنیادی طور پر عمرانیاتی تصادم کی کہانی ہے۔

2: یہ ناول روایت کے بزرگوں سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔

3: معاشرتی تبدیلی، معاشرتی رفتار میں رخنے ڈالتی ہے۔

4: فرد قربانیاں دینے کے بعد جب نئے معاشرے کو تشکیل دیتا ہے تو وہ اپنے آدرش بھلا دیتا ہے اور بعض دفعہ تنہائی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔

5: یہ ناول ’’معاشرتی نظامِ اشاریت‘‘ کا عمرانیاتی تصوّر پیش کرتا ہے۔

6: فرد نظریاتی تصادم سے عدم توجہی کا شکار ہو جاتا ہے۔

7: مشترکہ خاندانوں میں سربراہ کی موت کنبے میں انتشار کا سبب ہوتی ہے۔

8: ’’آنگن‘‘ برصغیر کی تاریخ کے ایک حصے کا عمرانیاتی تجزیہ ہے۔

9: افراد معاشرے میں تضادات کی دنیا میں رہتے ہیں۔

10: نظریات کے تفاوت سے انسانی تعلقات میں فرق آتا ہے۔

1: افراد کا احترام اقدار کے تحفظ سے عبارت ہے۔

12: ناول میں گروہی شناخت مذہب سے ہوتے ہوئے بھی دراصل نظریات اور رویوں سے ہوتی ہے۔"[احمد سہیل} 2۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Aangan Novel Summary In Urdu"۔ August 2020  النص " Urdu Notes " تم تجاهله (معاونت); النص " ناول آنگن کا خلاصہ " تم تجاهله (معاونت)

2۔احمد سہیل ،" آنگن" کا عمرانیاتی شعور "، فنون ، لاہور۔ خصوصی شمارہ 1983۔

  • آنگن: ایک مطالعہ