استنباط

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

استنباط عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہيں کہ ﷲ تعالٰیٰ نے جو پانی زمین کی تہ میں پیدا کر کے عوام کی نظروں سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ کھود کر نکال لینا۔

استنباط کی اصطلاحی معنى[ترمیم]

اصول السر خسی (ج2، ص128، طبع جدید، حیدرآباد دکن) میں ہے کہ:

و الاستنباط ليس إلا استخراج المعنى من النصوص بالراي

ترجمہ : اور استنباط صرف نکالنا ہے کسی حکم کو نصوص (قرآن و حدیث) سے رائے کے ذریعے سے

استنباط کرنے والوں کو اہل_استنباط کہتے ہیں اور انھیں اہل_اجتہاد بھی کہتے ہیں۔

استنباط کا قرآن میں حکم[ترمیم]

جس طرح دنیا میں ہر فن میں اسی کی بات تحقیقی مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہو، نہ کہ کسی فن سے نا آشنا کی۔ مثلاً ہیرے جواہرات کے بارہ میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ موچی کی، سونے چاندی کے بارہ میں ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی کمھار کی اور قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی۔ اسی طرح دین میں دین کے ماہرین کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ ہر کندہ تراش کی۔ اسی لیے ﷲ تعالٰیٰ نے جس طرح تحقیق کا حکم دیا يہ بات بھی واضح فرما دیا کہ تحقیق کا حق کس کس کو ہے۔ فرمایا:

﴿وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم ولولا فضل الله عليكم و رحمته لاتبعتم الشيطان إلا قليلا﴾ (النساء/83)

ترجمہ : اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کہ کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر ديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسول تک اور اپنے اولوا الامر (علما و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوت استنباط (تحقیق کرنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے مگر تھوڑے۔

چنانچہ امام رازی اس آیت کی تفسیر کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

ترجمہ : بس ثابت ہوا کہ استنباط حجت ہے اور قیاس یا تو بذات خود استنباط ہوتا ہے یا اسی میں داخل ہوتا ہے، لہذا وہ بھی حجت ہوا جب یہ بات طے ہوگی تو اب ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت چند امور (باتوں) کی دلیل ہے، ایک یہ کہ نت نئے مسائل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو نص سے (واضح) معلوم نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا حکم معلوم کرنے کے لیے استنباط کی ضرورت پڑتی ہے، دوسرے یہ کہ استنباط حجت ہے اور تیسرے یہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آنے والے مسائل و احکام کے پارے میں علما کی تقلید کرے۔ [تفسیر_کبیر : 3/272]

پھر امام رازی بعض حضرات کے اس اعتراض پر کہ یہ آیت جنگ کے مخصوص حالات پر مشتمل ہے، جواب دیتے ہیں کہ :

الله تعالیٰ کا یہ ارشاد : جب ان کے سامنے "امن" یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے۔.. بالکل عام ہے، جس میں جنگ کے حالات بھی داخل ہیں اور تمام شرعی مسائل بھی، اس لیے امن اور خوف دو ایسی چیزیں ہیں کہ تکلیفات شرعیہ کا کوئی باب ان سے باہر نہیں، لہذا ثابت ہوا کہ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو اسے صرف جنگ کے حالات سے مخصوص کر دے . [تفسیر_کبیر : 2/273]

استنباط کا حق اور اہلیت کسے؟[ترمیم]

درج بالا آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ استنباط کا حق اور اہلیت رسول صلی الله علیہ کے بعد اولوا الامر (ماہر علما جنہیں فقہا بھی کہتے ہیں) ہی کو ہے۔ عوام کو نہیں ۔

جیسے : کسی بھی شعبہ یا فن میں تحقیق کا حق اور اہلیت (غیر عالم) عوام یا غیر ماہر (علما) کو نہیں دی جاتی۔

اس لیے مسائل فقہ میں فقہا کا قول و اجماع، مسائل نحو (عربی گرامر) میں نحویین کا قول و اجماع، مسائل اصول میں اصولیین کا قول و اجماع اور مسائل کلام میں متکلمین کا قول و اجماع معتبر ہوگا۔

حوالہ جات[ترمیم]