اقوام متحدہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(اقوامِ متحدہ سے رجوع مکرر)
اقوام متحدہ
پرچم اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کا نقشہ
صدر دفترنیویارک شہر میں بین الاقوامی علاقہ
عربی، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی
193رکن ممالک
Leaders
پرتگال کا پرچم انٹونیو گوٹیرش
Ecuador کا پرچم ماریا فرنینڈا ایسپینوسا
قیام
26 جون 1945
• چارٹر کا بین الاقوامی اطلاق
24 اکتوبر 1945
ویب سائٹ
www.un.org

25 اپریل، 1945ء سے 26 جون، 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکا میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ یا United Nations کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر، 1945ء میں معرض وجود میں آئی۔

تنظیمِ اقوامِ متحدہ یا United Nations Organisation کا نام امریکا کے سابق صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے تجویز کیا تھا۔

منشور اور مقاصد[ترمیم]

1945 میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخطوں کی تقریب، سان فرانسسکو، امریکا

اس کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ

  1. ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔
  2. انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے۔
  3. مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے۔ اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔
  4. ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔
لہذا
  • یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔
  • ہمسایوں سے پر امن زندگی بسر کریں۔
  • بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں۔ نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں اس بات کا یقین دلائیں کہ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔
  • تمام اقوام عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں۔

مقاصد[ترمیم]

اقوام متحدہ کی شق نمبر 1 کے تحت اقوام متحدہ کے مقاصد درج ذیل ہیں۔

  1. مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔
  2. قوموں کے درمیان میں دوستانہ تعلقات کو بڑھانا۔
  3. بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔
  4. ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
  5. آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کا مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔

رکنیت[ترمیم]

ہر امن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کر سکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے۔ بعد میں بڑھتے گئے۔ سیکورٹی کونسل یا سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔ سلامتی کونسل معطل شدہ اراکین کے حقوق رکنیت کو بحال کر سکتی ہے۔ اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔ تفصیلی فہرست کے لیے دیکھیے : اقوام متحدہ کے رکن ممالک۔

اعضاء[ترمیم]

اقوام متحدہ کے 6 اعضاء ہیں

  1. جنرل اسمبلی
  2. سلامتی کونسل
  3. اقتصادی و سماجی کونسل
  4. سرپرستی کونسل
  5. بین الاقوامی عدالت انصاف
  6. سیکریٹریٹ

جنرل اسمبلی[ترمیم]

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہال

جنرل اسمبلی تمام رکن ممالک پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر رکن ملک اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ پانچ نمائندے بھیج سکتا ہے۔ ایسے نمائندوں کا انتخاب ملک خود کرتا ہے۔ ہر رکن ملک کو صرف ایک ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے۔

جنرل اسمبلی کا معمول کا اجلاس سال میں ایک دفعہ ماہ ستمبر کے تیسرے منگل کو شروع ہوتا ہے، تاہم اگر سلامتی کونسل چاہے یا اقوام متحدہ کے اراکین کی اکثریت کہے تو جنرل اسمبلی کا خاص اجلاس کسی اور وقت میں بھی بلایا جا سکتا ہے۔

کمیٹیاں[ترمیم]

جنرل اسمبلی کا کام سر انجام دینے کے لیے چھ کمیٹیاں بنائی گئیں ہیں۔ ان کمیٹیوں میں نمائندگی کا حق ہر ممبر ملک کو حاصل ہے۔

  • پہلی کمیٹی تحفظاتی اور سیاسی معاملات سے متعلق ہے۔ ہتھیاروں میں تخفیف کا معاملہ بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ اس کی مزید امداد کے لیے ایک خصوصی سیاسی کمیٹی بھی ہے۔
  • دوسری کمیٹی اقتصادی اور مالیاتی معاملات کے متعلق ہے۔
  • تیسری کمیٹی سماجی انسانی اور ثقافتی معاملات کے بارے میں ہے۔
  • چوتھی کمیٹی تولیتی معاملات کے متعلق ہے جس میں غیر مختار علاقوں کے معاملات بھی شامل ہیں۔
  • پانچویں کمیٹی انتظامی معاملات اور بجٹ کے متعلق ہے۔
  • چھٹی کمیٹی قانون سے متعلق ہے۔

ان کے علاوہ جنرل اسمبلی کے ایک پریذیڈنٹ، 17 وائس پریذیڈنٹ اور بڑی کمیٹی کے 6 ارکان پر مشتمل ہے، جن کا انتخاب جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ جنرل کمیٹی کا اجلاس اسمبلی کے کام کا جائزہ لینے اور اسے بخوبی سر انجام دینے کے لیے اکثر منعقد ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی کی امداد کے لیے مزید کئی کمیٹیاں بھی ہیں۔ جنرل اسمبلی اکثر اوقات بہ وقت ضرورت ہنگامی کمیٹیاں بھی مقرر کرتی ہے۔ مثلاً اسمبلی نے دسمبر 1948ء میں کوریا کے لیے اقوام متحدہ کا کمیشن مقرر کیا۔ اقوام متحدہ نے مصالحتی کمیشن برائے فلسطین مقرر کیا۔ تمام کمیٹیوں کی سفارشات جنرل اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔

اختیارات اور فرائض[ترمیم]

جنرل اسمبلی کے اختیارات اور فرائض وسیع ہیں۔ مثلاً

  • امن اور عافیت کے لیے بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا۔
  • بین الاقوامی سیاست کی ترویج کرنا
  • بین الاقوامی قانون کی ترقی و تدوین
  • تمام بنی نوع انسان کے لیے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو حاصل کرنا۔
  • اقتصادی، سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور صحت عامہ کے متعلق بین الاقو امی اشتراک عمل
  • سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے دوسرے اعضا کی رپورٹوں پر غور کرنا
  • کسی تنازع کی صورت میں اس کے حل کے لیے اپنی سفارشات پیش کرنا
  • ٹرسٹی شپ کونسل کے ذریعہ تولیتی معاہدات کی تعمیل کی نگرانی کرنا
  • سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان کا انتخاب
  • اقوام متحدہ کے بجٹ پر غور و غوض کرنا اور اسے منظور کرنا
  • ارکان ملک کے لیے چندے کی رقم مقرر کرنا
  • مخصوص اداروں کے بجٹ کی جانچ پڑتال کرنا وغیرہ
  • اہم مسائل دو تہائی اکثریت سے طے پاتے ہیں۔ باقی مسائل کا فیصلہ حاضر ارکان کی سادہ اکثریت سے کیا جاتا ہے۔

سلامتی کونسل[ترمیم]

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا چیمبر

سلامتی کونسل یا سکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے اہم عضو ہے اس کے کل پندرہ ارکان ہوتے ہیں، جن میں سے پانچ مستقل ارکان جو فرانس، روس، برطانیہ، چین اور امریکا ہیں اور ان کے پاس کسی بھی معاملہ میں راے شماری کو تنہا رد یعنی ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔

ان کے علاوہ اس کے دس غیر مستقل اراکین بھی ہیں جن کو جنرل اسمبلی دو دو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ انھیں فوری طور پر دوبارہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔

سلامتی کونسل کے فرائض اور اختیارات[ترمیم]

  • اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا
  • کسی ایسے جھگڑے یا موضوع کی تفشیش کرنا جو بین الاقوامی نزاع پیدا کر سکتا ہو
  • بین الاقوامی تنازعوں کو سلجھانے کے بارے میں منصوبے تیار کرنا۔
  • سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے تمام اراکین کی طرف سے کارروائی کرتی ہے۔ یہ سب اراکان سلامتی کونسل کے فیصلوں کی تعمیل میں ہامی بھرتے ہیں اور اس کی درخواست پر بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے مسلح فوجیں یا دیگر مناسب اقدام کرتے ہیں۔
  • سلامتی کونسل کی کارروائی ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اس لیے رکن ملک کا ایک ایک نمائندہ ہر وقت اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں موجود رہتا ہے۔ سلامتی کونسل جہاں چاہے اپنا اجلاس فورا منعقد کر سکتی ہے۔
  • فوجی عملے کی کمیٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے چیف آپ سٹاف یا ان کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

سلامتی کونسل کی کمیٹیاں[ترمیم]

1- ملٹری اسٹاف کمیٹی۔ 2-تخفیف اسلحہ کمیٹی۔ 3-داخلہ کمیٹی۔ 4-ماہرین کی کمیٹی۔ 5-اجتماعی تدابیر کمیٹی۔

اکنامک اور سوشل کونسل[ترمیم]

اکنامک اور سوشل کونسل

اس کے 54 اراکین ہیں جس میں سے 18 ممبروں کو جنرل اسمبلی ہر بار باری باری 3، 3 سال لے لیے منتخب کرتی ہے۔ جنرل اسمبلی کے زیر انتظام یہ کونسل اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی سرگرمیوں کی ذمہ دار ہے۔

اس کونسل میں ہر فیصلہ محض کثرت رائے سے کیا جاتا ہے۔ یہ رکن کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ یہ کونسل کمیشنوں اور کمیٹیوں کے ذریعے کام کرتی ہے۔

اس کونسل کے کمیشنوں میں درج ذیل کمیشن شامل ہیں۔

  • اقتصادیات، روزگار اور ترقی سے متعلق کمیشن
  • رسل اور مواصلات سے متعلق کمیشن
  • سرکاری خزانے سے متعلق کمیشن
  • شماریات سے متعلق کمیشن
  • آبادی سے متعلق کمیشن
  • انسانی حقوق سے متعلق کمیشن
  • سماجی ترقی سے متعلق کمیشن
  • خواتین کے حقوق سے متعلق کمیشن
  • منشی ادویات سے متعلق کمیشن
  • ان کے علاوہ تین علاقہ واری کمیشن بھی موجودہ ہیں۔
  • یورپ کے لیے اقتصادی کمیشن
  • ایشیا اور مشرق بعید کے لیے اقتصادی کمیشن
  • جنوبی امریکا کے لیے اقتصادی کمیشن

ٹرسٹی شپ کونسل[ترمیم]

ٹرسٹی شپ کونسل

اقوام متحدہ نے ایک بین الاقوامی تولیتی نظام قائم کیا تاکہ ان علاقوں کی نگرانی اور بندوبست کا انتظام کرے جو جداگانہ تولیتی معاہدوں کے ذریعہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آ گئے۔

تولیتی نظام کا مقصد بین الاقوامی امن و امان اور حفاظت کو ترویض کرنا۔ تولیتی علاقی جات کے باشندوں کی ترقی کا خیال رکھنا تا کہ وہ خود مختاری اور آزادی حاصل کر سکیں۔

تولیتی کانفرس کا فرض ہے کہ تولیتی علاقہ جات کے باشندوں کی سیاسی، اقتصادی، سماجی اور تعلیمی ترقی کے بارے میں استفسار نامہ مرتب کرے جس کی بنا پر انتظام کرنے والی حکومتیں سالانہ رپورٹ تیار کریں۔ اس کے ممبروں میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے علاوہ ٹرسٹ علاقوں کا انتظام کرنے والے ممالک شامل ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی عدالت[ترمیم]

بین الاقوامی عدالت

بین الاقوامی عدالت کا صدر مقام شہر ہیگ واقع نیدر لینڈز (ہالینڈ) ہے۔ یہ عدالت اقوام متحدہ کا سب سے بڑا قانونی ادارہ ہے۔ تمام ملک جنھوں نے آئین عدالت کے منشور پر دستخط کیے، جس مقدمے کو چاہیں اس عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں خود بھی سلامتی کونسل قانونی تنازعے عدالت بھیج سکتی ہے۔

بین الا قوامی عدالت 15 ججوں پر مشتمل ہے۔ عدالت کی ان ارکان کو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل آزاد رائے شماری کے زریعی نو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ جج اپنی ذاتی قابلیت کی بنا پر منتخب ہوتا ہے۔ تاہم یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اہم قانونی نظام کی نمائندگی ہو جائے۔ یاد رہے کہ ایک ہی ملک کے دو جج بیک وقت منتخب نہیں ہو سکتے۔

سیکریٹریٹ[ترمیم]

نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کے صدر مقام کے قریب واقع سیکریٹیریٹ کی عمارت

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے سب سے بڑے ناظم امور کی حثیت سے کام کرتا ہے۔ سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی سیکٹری جنرل منتخب کرتی ہے۔ سیکٹری جنرل اسمبلی کو ایک سالانہ رپورٹ پیش کرتا ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ اپنا عملہ خود نامزد کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ میں مندرجہ ذیل دفاتر شامل ہیں۔

  1. سیکٹری جنرل کا دفتر
  2. اقتصادی اور سماجی امور کا محکمہ
  3. خصوصی سیاسی معاملات کا دفتر
  4. تولیتی اور غیر مختار علاقوں کا عملہ
  5. اطلاعات عامہ کا دفتر
  6. قانونی امور کا دفتر
  7. کانفرس سروس کا دفتر
  8. کنٹرولر کا دفتر
  9. جنرل سروسز کا دفتر
  10. سیاسی اور تحفظاتی امور کا محکمہ
  11. اقوام متحدہ کا جنیوا کا دفتر

مندرجہ ذیل امدادی اداروں میں بھی اقوام متحدہ کا عملہ کام کرتا ہے۔

وہ ادارے جنہیں جنرل اسمبلی یا اقتصادی کونسل قائم کرے

  • یونیسف (unicef) اس کا صدر دفتر ینو یارک میں ہے۔
  • ترقیاتی پروگرام (UNDP)
  • مہاجرین کا کمیشن (UNRWA)
  • اقتصادی ترقی کی تنظیم (UNIDO)
  • انکٹاڈ (UNCTAD)
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل[1]
شمار نام ملک قلمدان سنبھالا قلمدان چھوڑا نوٹس
1 تریگوہ لی  ناروے 2 فروری 1946 10 نومبر 1952 مستعفی
2 داگ ہمارشولد  سویڈن 10 اپریل 1953 18 ستمبر 1961 دفتر میں انتقال
3 اوتہاں  برما 30 نومبر 1961 31 دسمبر 1971
4 کرٹ والڈہائیم  آسٹریا 1 جنوری 1972 31 دسمبر 1981
5 خاویر پیریز دے کوئیار  پیرو 1 جنوری 1982 31 دسمبر 1991
6 بطرس بطرس-غالی  مصر 1 جنوری 1992 31 دسمبر 1996
7 کوفی عنان  گھانا 1 جنوری 1997 31 دسمبر 2006
8 بان کی مون  جنوبی کوریا 1 جنوری 2007 برسرمنصب

شہاب نامہ سے اقتباس[ترمیم]

قدرت اللہ شہاب باقاعدہ الیکشن جیت کر یونائیٹڈ نیشنز کے ایگزیکیوٹو بورڈ کے 6 سال کے لیے ممبر رہے تھے۔ اپنی کتاب شہاب نامہ[2] میں یونائیٹڈ نیشنز کے بارے میں لکھتے ہیں:

"پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن و امان کو فروغ دینے کے لیے لیگ آف نیشنز وجود میں آئی تھی، لیکن یہ انجمن کفن چوروں کی جماعت ثابت ہوئی اور اقوام عالم کی بہت سی قبریں آپس میں تقسیم کرنے کے بعد اس نے آرام سے جنیوا میں دم توڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تنظیم نو یو این او نے جنم لیا۔ اس ادارے کا رہنما اصول جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ جب کوئی لاٹھی والا طاقتور ملک جارحیت سے کام لے کر کسی چھوٹے اور کمزور ملک کی بھینس زبردستی ہنکا کر لے جاتا ہے تو یو این او فوراً جنگ بندی کا اعلان کر کے فریقین کے درمیان سیز فائر لائن کھینچ دیتی ہے۔ جنگ بندی کے خط پر یو این او کی نامزد فوج اور مبصر متعین ہو جاتے ہیں۔ جو اس بات کی خاص نگہداشت رکھتے ہیں کہ مسروقہ بھینس دوبارہ اپنے ملک کے پاس واپس نہ پہنچنے پائے۔ اس کے بعد یہ سارا معاملہ جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کی قرار دادوں میں ڈھل ڈھل کر نہایت پابندی کے ساتھ یو این او کے سرد خانوں میں جمع ہوتا رہتا ہے۔"
"نیویارک میں جگہ کی کمیابی کے باعث مختلف شعبوں کے اپنے اپنے سرد خانے یو این او کے دم چھلا بین الاقوامی اداروں کے نام سے بہت سے دوسرے یورپی ممالک میں قائم ہیں۔ غالباً سیاسی گرد و غبار موسمیاتی تپش و حرارت اور ناخواندگی و افلاس کی گرم بازاری کے پیش نظر مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید سمیت کسی افریقی اور ایشیائی ملک کو اقوام متحدہ کے کسی بڑے ذیلی ادارے سے نہیں نوازا گیا۔ البتہ ابھی حال ہی میں Prog کے متعلق ایک بین الاقوامی ادارہ نیروبی میں قائم ہوا ہے۔ جس کی وجہ غالباً یہی ہو سکتی ہے کہ وہ عین خط استوا کے قریب واقع ہے۔"
"اقوام عالم میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کی ترقی و تعمیر و ترویج کے لیے یو این او کا جو ادارہ پیرس میں قائم ہے اس کا نام یونیسکو (UNESCO) ہے۔ (United Nation's Education, Science and Culture Organization)"
"اس کا ایک خاص طرۂ امتیاز یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے بجٹ کا تقریباً دو تہائی حصہ پیرس میں متعین اپنے ہیڈ کوارٹر اسٹاف پر صرف کرتا ہے اور باقی ایک تہائی حصہ ساری دنیا میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے فروغ پر لگاتا ہے۔ یعنی سارے عالم میں تیس روپے کے تعلیمی سائنسی اور ثقافتی پروگراموں پر عمل درآمد کے لیے یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں بیٹھے ہوئے اسٹاف پر ستر روپے خرچ کرتا ہے۔"
"شروع میں یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر ایک پانچ منزلہ عمارت میں سمایا ہوا تھا۔ جوں جوں یونیسکو کا بجٹ بڑھتا گیا، اسی رفتار سے اس کے عملے میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک دوسری عمارت بھی تعمیر ہوئی جس کی بلندی گیارہ منزلہ ہے۔ سنا ہے کہ بتدریج بڑھتے ہوئے اسٹاف کی ضروریات کے لیے دو عمارتیں بھی اب ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مضافات میں ایک نہایت خوبصورت محل نما وسیع و عریض بنگلہ بھی ہے جو خاص الخاص لوگوں کے لیے مناسب اوقات پر عیش و نشاط فراہم کرنے کے کام آتا ہے۔"
"یونیسکو کی یہ ترقی معکوس اس کے ایک فرانسیسی ڈائریکٹر جنرل موسیو رینے ماہیو کے زمانے میں ہوئی۔ یہ صاحب نیچے درجے کی اسامیوں سے ترقی کرتے کرتے اس عہدہ جلیلہ پر پہنچے تھے اور پورے بارہ برس تک یونیسکو کے سیاہ و سفید پر چھائے رہے۔"
"یو این او کے دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرح یونیسکو کی خود مختاری ہر نوعیت کے احتساب سے بالا تر ہے۔ رینے ماہیو جیسا کائیاں ڈائریکٹر جنرل یونیسکو میں دونوں سپر پاورز کی ترازو کے پلڑے قریباً قریباً ہم وزن رکھتا تھا۔ دوسرے ممالک کے نمائندے اگر کسی موضوع پر کوئی حرف شکایت زبان پر لاتے تھے تو ان کا منہ بند کرنے کے لیے سیکرٹریٹ میں ملازمتوں کی رشوت فوراً کام آتی تھی۔ کچھ لوگ دنیا بھر میں سفر کرنے والے کمشنوں اور کمیٹیوں میں شمولیت پر ہی آسانی سے ٹرخا دیے جاتے تھے۔ بعض لوگوں کی قیمت صرف اتنی تھی کہ وہ وقتاً فوقتاً یونیسکو کے خرچ پر پیرس آتے جاتے رہیں۔ ان حربوں سے ہر طرح کی تنقید و تنفیص کا راستہ بند کرنے کے بعد جزل کانفرنس اور ایگزیکٹو بورڈ کا کوئی اجلاس ڈائریکٹر جنرل کا ہال تک بیکا نہ کر سکتا تھا۔"
"خود حفاظتی کا یہ حصار کھینچ کر موسیو رینے ماہیو نے بارہ برس تک یونیسکو میں اپنی اندر سبھا قائم کیے رکھی۔ ان کا زمانہ اخلاقی اقدار کی پامالی، نا انصافی، خویش پروری اور جنسی بے راہروی کا دور تھا۔ انھوں نے اپنی ایک داشتہ کو اپنے ذاتی عملے میں ایک بڑی اسامی پر مامور کر رکھا تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرا بہت سا اسٹاف بھی اسی دوش پر چل نکلا۔ جب میں پہلی بار یونیسکو کی جزل کانفرنس میں شریک ہونے پیرس گیا، تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دفتر کے بہت سے کابک نما کمروں میں ایک ایک مرد کے سامنے ایک ایک عورت سج دھج کر بیٹھی ہے اور دونوں ٹکٹکی باندھے ایک دوسرے کی جانب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق لگاتار دیکھ رہے ہیں۔ یونیسکو کی غلام گردشوں میں گھومتے پھرتے یہ بھی نظر آیا کہ کہیں کہیں یہ جوڑے اس محویت کے عالم میں سارا سارا دن آمنے سامنے گلدانوں کی طرح سجے رہتے تھے۔ اس زمانے میں یہ دستور عام تھا کہ یونیسکو کے کئی منچلے انٹر نیشنل سول سرونٹ اپنی محبوباؤں کو سیکرٹری کے طور پر بھرتی کر کے اپنے دفتر کے کمرے کی زینت بنا لیتے تھے۔ انہی دنوں فرانس میں ایک اسٹیج ڈراما انتہائی مقبول ہو رہا تھا جس کا موضوع پیرس کی سڑکوں پر ٹریفک کے ہجوم کی وجہ سے مرد حضرات کی بے بسی اور بے چارگی تھا۔ ڈرامے کا مرکزی کردار ایک بین الاقوامی ادارے (غالباً یونیسکو) کا ملازم تھا جس کی ایک بیوی گھر میں منتظر ہوتی تھی۔ ایک داشتہ کو دفتر سے گھر پہنچانا ہوتا تھا اور اس کے بعد پیرس کے مضافات میں دوسری داشتہ سے ملنے کے لیے جانا بھی ہر روز لازمی تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک جام اس مظلوم عاشق مزاج بین الاقوامی سول سرونٹ کے پروگرام کو اس قدر درہم برہم کر دیتا تھا کہ اس کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی جاتی تھی۔ جس میں شیرینی گھولنے کے لیے یونیسکو کا بجٹ ہر سال اس کی تنخواہ اور دیگر مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کرتا رہتا تھا۔ جس طرح ڈائریکٹر جنرل اپنی من مانیاں کرنے میں مختار کل تھا، اسی طرح اس کا منظور نظر عملہ بھی اپنے ماتحتوں پر ہر طرح کی مشق ناز آزمانے میں آزاد تھا۔ لیکن فرعونے رامو سے، رینے ماہیو کی فرعونیت کا طلسم توڑنے کے لیے یونیسکو میں احتجاج اور مزاحمت کی جو آواز اٹھی، وہ ایک پاکستانی کے مقدر میں لکھی تھی۔ ان کا نام نسیم انور بیگ ہے۔ نسیم بیگ گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک ممتاز طالب علم تھے۔ وہ اپنے زمانے کے نہایت نامور مقرر تھے اور طلبہ کے آل انڈیا مباحثوں میں حصہ لے کر بہت سی ٹرافیاں جیت چکے تھے۔ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے لاہور لا کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن بھی تھے اور تحریک پاکستان میں طلبہ کے کردار کے بارے میں قائد اعظم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمت میں کئی بار حاضر ہو چکے تھے۔ 1947ء میں لاہور میں خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ لے کر وہ کچھ عرصہ تک جیل میں بھی رہے تھے۔ 1954ء میں وہ انٹر نیشنل سول سروس میں داخل ہو کر یونیسکو کے ہیڈ کوارٹر میں آ گئے۔ یہاں پر وہ کئی برس متواتر یونیسکو اسٹاف یونین کے صدر منتخب ہوتے رہے۔ ملازمین کے حقوق کی حفاظت کے لیے انھوں نے جس دور اندیشی اور جرات مندی کا مظاہرہ کیا اس کی دھوم یو این او کے تمام بین الاقوامی اداروں میں پھیل گئی اور یونائیٹڈ نیشن کے تمام اداروں کی یونینوں کی فیڈریشن نے بھی ان کو کافی عرصہ تک اپنا مشترکہ صدر منتخب کیے رکھا۔ اس حیثیت میں نسیم بیگ کا یونیسکو کے آمرانہ ڈائریکٹر جزل رینے ماہیو کے ساتھ کئی بار شدید ٹکراؤ ہوا۔ اس قسم کے ہر تصادم میں ڈائریکٹر جنرل نے ہمیشہ منہ کی کھائی اور ذاتی سطح پر اس نے نسیم بیگ کی ملازمت میں ہر طرح کے رخنے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ نسیم بیگ صاحب کی ہمت تھی کہ ڈائریکٹر جنرل کی انتقامی کارروائیوں کو خاطر میں لائے بغیر وہ اپنے عدل و انصاف کے موقف پر کامیابی سے ثابت قدم رہے اور یونیسکو میں تیس سالہ بے لوث خدمت کی روایات چھوڑ کر ابھی حال ہی میں وہاں سے ریٹائر ہوئے ہیں۔"
"اکتوبر 1968ء میں مجھے پاکستانی وفد کا سربراہ بنا کر یونیسکو کی جزل کانٹرنس میں شرکت کے لیے پیرس بھیجا گیا تھا۔ وہاں پر میں نے یہ چلن دیکھا کہ تقریباً ہر ملک کے وفد کا قائد زبانی کلامی تو ڈائریکٹر جنرل کے خلاف بڑھ چڑھ کر تنقید و تنقیص کرتا ہے۔ لیکن اسٹیج پر آ کر اپنی تقریر میں اس کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منافقت اور خوشامد کے اس گھٹیا معیار نے ایک بندھی بندھائی رسم کے صورت اختیار کر رکھی تھی۔ ریا کاری کی اس بدعت کو توڑنے کا موقع حسن اتفاق سے میرے ہاتھ آگیا۔ میں نے اپنی تقریر میں اعداد و شمار اور حقائق و شواہد کو بنیاد بنا کر یونیسکو کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی بد نظمیوں، بد عملیوں، نا انصافیوں، فضول خرچیوں ، بد اعتدالیوں اور عیاشیوں کا تفصیل کے ساتھ پردہ چاک کیا۔ یہ باتیں سن کر چند لمحے تو ہال میں گہرا سناٹا چھایا رہا۔ لیکن اس کے بعد زبردست تالیوں کے ساتھ ایک ایک فقرے کی یوں پزیرائی ہوئی جیسے مشاعروں میں اشعار پر داد ملتی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینے ماہیو بھی اسٹیج پر بیٹھا تھا۔ میری تقریر سن کر وہ اتنا بے چین ہوا کہ اس نے پے در پے اورنج جوس کے چار یا پانچ گلاس نوش کیے اور تقریر ختم ہوتے ہی غیظ و غضب کے عالم میں بھنایا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔"
"اسی جزل کافتراس کے دوران ایگزیکٹو بورڈ کی چند خالی نشستوں کے لیے انتخاب بھی منعقد ہونے والا تھا۔ ایک نشست کے لیے انتخاب لڑنے کا میں بھی امیدوار تھا۔ ہندوستان، روس اور امریکا تینوں میری مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ ہندوستان تو صرف اس لیے میرے خلاف تھا کہ میں پاکستانی ہوں، لیکن روس اور امریکا کے پاس ناراضی کی یہ مشترکہ وجہ تھی کہ چین کو یونیسکو کا رکن بنانے کی مہم میں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ اس کے علاوہ امریکا کو یہ شکایت بھی تھی کہ یروشلم اور مقبوضہ عرب علاقوں میں اسلامی تاریخی آثار اور اسلامی ثقافت کے نشان کو مسخ کرنے اور مٹانے پر میں اسرائیل کے خلاف شدید احتجاج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔ اب اس پر مستزاد یہ کہ ڈائریکٹر جنرل بھی میری مخالفت پر آمادہ ہو گیا۔ اس نے اپنے حواریوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ وہ ہر قیمت پر مجھے ایگزیکٹو بورڈ میں آنے سے روکیں۔"
"مخالفانہ قوتوں کے اس بھاری بھر کم صف آرائی کے مقابلے میں میرا بھروسا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا۔ نسیم انور بیگ نے اپنا اثر و رسوخ بھی میرے حق میں بے دریغ استعمال کیا اور اپنے دفتر کا کمرہ عملی طور پر میری انتخابی مہم کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ پاکستانی وفد کے تین اراکین تنویر احمد خان، عبد اللطیف مرحوم اور ڈھاکہ کی بیگم رقیہ کبیر نے دن رات کی محنت اور جانفشانی سے انتہائی مفید کام کیا۔ خوش قسمتی سے انہی دنوں عرب ممالک نے جنرل کانفرنس میں یہ قرارداد پیش کر رکھی تھی کہ یونیسکو میں انگریزی، فرانسیسی ہسپانوی اور رو‏‏سی زبانوں کی طرح عربی کو بھی بین الاقوامی زبان کا درجہ دیا جائے۔ امریکا، برطانیہ اور تمام یورپی ممالک اپنے حواریوں سمیت اس تجویز کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ کسی قدر تیاری اور محنت کے بعد میں نے ہر موقع پر عربی زبان کے حق میں ایسی تقریریں کیں کہ عرب ممالک کے وفود نے مطمئن ہو کر یونیسکو میں اس تحریک کی قیادت میرے اوپر چھوڑ دی۔ ساتھ ہی مجھے معلوم ہوا کہ ہر طرح کے دباؤ اور مخالفت کو نظر انداز کر کے عرب ممالک کا پورا گروپ ایگزیکٹو بورڈ کے الیکشن میں مجھے ووٹ دینے پر رضا مند ہے۔ اس طرح افریقہ اور لاطینی امریکا کے گروپوں کی جانب سے بھی میں اشارے ملے کہ وہ بھی میرے حق میں ووٹ دینے پر متفق ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایگزیکٹو بورڈ میں وہ ایک ایسا شخص بھیجنا چاہتے تھے جو ڈائریکٹر جنرل کی آمریت اور بد عنوانیوں پر کھل کر بات کر سکے۔ یہ ساری وجوہات اندازے اور قیاس آرائیاں محض طفل تسلیاں تھیں۔ اصل بات صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہا اور جب الیکشن ہوا تو میں 117 میں سے 91ووٹ حاصل کر کے چھ برس کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کا رکن منتخب ہو گیا۔"
"ایگزیکٹو بورڈ کے ارکان کی حیثیت سے مجھے یونیسکو کے ظاہر اور باطن کو اچھی طرح کھنگالنے کا موقع نصیب ہوا۔ مجموعی طور پر میں نے اس کا اندر اور باہر کھوکھلا کر دیا۔ گرمی گفتار اس کی روح اور چھپا ہوا کاغذ اس کا پیرہن ہے۔ اس کی چار دیواریوں میں ہر دوسرے برس تحریری اور تقریری الفاظ کا سیلاب طوفان نوح کی طرح اٹھتا ہے اور نیا بجٹ اور پروگرام منظور ہوتے ہی دفعتاً فرو ہو کر زیر زمین غائب ہو جاتا ہے۔ یونیسکو کی تحریر اور تقریر کی اپنی مخصوص زبان پر اپنا لہجہ اپنی اصطلاح اور اپنا اسلوب ہے۔ اس ادارے کا سب سے نمایاں خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اس کے زیر سایہ تقریباً ڈھائی تین ہزار ملازمین پیرس کے سیکرٹریٹ میں اور تقریباً ڈیڑھ دو ہزار افراد دنیا کے دوسرے حصوں میں اچھی تنخواہوں پر آرام اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد نہایت عمدہ پینشن پاتے ہیں۔ یونیسکو کے اسی ایک کام کو غالباً اس کا سب سے بڑا فلاحی اور تعمیری درجہ دیا جا سکتا ہے۔"
"ایک بار نوجوانوں کے مسائل پر سوچ بچار کرنے کے لیے یونیسکو کے زیر اہتمام پیرس میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے جو نمائندے مدعو کیے گئے، ان سب کی عمر ساٹھ برس سے اوپر تھی۔ ایگزیکٹو بورڈ کے ارکان کی حیثیت سے میں بھی اس میں شریک ہوا۔ میری عمر بھی اس وقت ا5 برس کے قریب تھی۔ اس کے باوجود میں اس سیمینار کا سب سے کم عمر ڈیلیگیٹ تھا۔ میں نے سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں یہ پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا کہ یہ انتہائی غیر نمائندہ اجلاس ہے کیونکہ پچاس ساٹھے برس سے اوپر والی عمر کے لوگ آج کل کی نوجوان نسل کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس پر بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ تماشائیوں کی صف سے کچھ نوجوان کود کر ہال میں آ گئے اور انھوں نے الٹی میٹم دیا کہ جب تک نئی نسل کے نمائندوں کو اس سیمینار میں شامل نہیں کیا جاتا، وہ اس اجلاس کی کارروائی کو جاری رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجبوراً ان کی شرط مانی گئی اور نوجوانوں کی بعض تنظیموں کے نمائندوں کو بھی سیمینار کے اجلاس میں شامل کیا گیا۔"
"سیمینار میں ایک مقالہ میں نے بھی پڑھا۔ اس کا ایک حصہ کچھ علمی طبقوں میں کسی قدر پسند کیا گیا۔ خاص طور پر یورپ میں نوجوانوں کی کئی تنظیموں نے اس کی کئی زبانوں میں خاصی تشہیر کی۔"
"یونیسکو کے اسٹاف میں ایک اسامی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی بھی تھی۔ ایک بار موسیو رینے ماہیو کے سر پر بھوت سوار ہو گیا کہ اس کے نیچے ایک کی بجائے دو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہونا چاہئیں۔ دوسری اضافی اسامی کی نہ کوئی ضرورت تھی، نہ کوئی جواز تھا۔ بات صرف یہ تھی کہ وہ اپنے کسی منظور نظر کو خواہ مخواہ ترقی دے کر اس عہدے پر فائز کرنا چاہتا تھا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی دوسری اسامی کی منظوری کے خلاف ایگزیکٹو بورڈ میں بڑی لے دے ہوئی۔ رینے ماہو اس تجویز کو جنرل کونسل میں لے گیا۔ حسن اتفاق سے وہاں پر تقریر کرنے کے لیے پہلے میری باری آئی۔ میں نے انتظامی لحاظ سے اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے اس تجویز کی شدید مخالفت کی اور اپنی تقریر ان الفاظ پر ختم کی۔
If You have two bottle necks instead of one, does it really double the capacity of the bottle Please answer this question. Mr. Director General"
"میری تقریر کا یہ فقرہ چل نکلا۔ میرے بعد بہت سے مندوبین جو اس مسئلہ پر تقریر کرنے آئے ان میں سے ہر ایک نے یہ سوال ضرور دہرایا۔ صبح سے شام تک سارا دن سے فقرہ سنتے سنتے ڈائریکٹر جنرل کے اعصاب جواب دے گئے اور ووٹ اندازی سے پہلے ہی اس نے اپنی تجویز واپس لے لی۔"
"فلسطینی مہاجرین کے بچوں کے لیے یونیسکو نے اپنے خرچ پر یروشلم، دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بہت سے اسکول کھول رکھے تھے۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ مسلمان اساتذہ بھی یونیسکو کی منظوری سے تعینات ہوتے تھے اور ان میں جو درسی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، وہ بھی یونیسکو کی جانب سے منظور شدہ ہوتی تھیں۔ جب یروشلم سمیت ان علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تو رفتہ رفتہ یہ خبریں آنے لگیں کہ اسرائیلی حکومت نے ان اسکولوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یونیسکو کے متعین کردہ مسلمان اساتذہ کو زبردستی گھر بٹھا دیا گیا ہے۔ ان کو تنخواہ تو باقاعدہ ملتی ہے، لیکن کسی اسکول کے قریب تک آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی استاد کسی جگہ حرف شکایت زبان پر لاتا ہے، تو وہ اپنے بال بچوں سمیت ناقابل بیان مظالم اور تشدد کی زد میں آ جاتا ہے۔ ان مسلمان اساتذہ کی جگہ ہر اسکول میں اب کٹر یہودی اسٹاف فلسطینی مہاجر بچوں کو پڑھانے پر مامور ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسکول سے یونیسکو کی منظور شدہ درسی کتابیں بھی نصاب سے خارج کر دی ہیں۔ اور ان کی جگہ اب ایسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں اسلام سیرت مبارکہ اور عرب تاریخ و ثقافت کے خلاف انتہائی گمراہ کن غلیظ اور شرمناک پروپیگنڈا ہوتا ہے۔"

متعلقہ مضامین[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Former Secretaries-General"۔ United Nations۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 نومبر 2013 
  2. shahab-nama
اقوام متحدہ کے بنیادی اعضاء [1]
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی
— اقوام متحدہ کے تمام اراکین ممالک کی مشترکہ اسمبلی  —
اقوام متحدہ سیکریٹریٹ
— اقوام متحدہ کی انتظامی اکائی —
بین الاقوامی عدالت انصاف
— بین الاقوامی قوانین کی عدالت —
UN General Assembly hall
Headquarters of the UN in New York City
International Court of Justice
  • امن و امان کے خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا۔
  • اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے سفارشات کے بعد جنرل اسمبلی یہ فیصلہ کریگی کہ نئے ریاست(وں) کو رکنیت دینا ہے یا نہیں;
  • مخصوص اداروں کے بجٹ کی جانچ پڑتال کرنا وغیرہ;
  • سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان کا انتخاب کرنا، ہر ملک کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔
  • انٹظامی طور پر اقوام متحدہ کی دیگر اعضاء کے ساتھ تعاون کرتا ہے (مثلاََ کسی کانفرنس کا انعقاد کرنا،مختلف رپورٹ وغیرہ پیش کرنا اور بجٹ کی تیاری اس کے اہم کاموں میں شامل ہیں)۔
  • اس کا چیئرمین کا انتخاب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کرتی ہے جس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔یہ چیئرمین درحقیقت اقوام متحدہ کا سب سے اعلیٰ نمائندہ ہوتا ہے۔
  • ان تمام ریاستوں کے درمیان تنازعات پر اپنا فیصلہ سناتا ہے جو ریاستیں اس کے قوانین کو تسلیم کرتے ہیں۔
  • قانونی رائے پیش کرتا ہے
  • بین الا قوامی عدالت پندرہ (15) جج صاحبان پر مشتمل ہے۔ عدالت کی ان ممبران کو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل آزاد رائے شماری کے زریعی نو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔
سلامتی کونسل
— بین الاقوامی حفاظتی معاملات کے لیے —
اقوام متحدہ اقتصادی اور سماجی کونسل
— عالمی اقتصادی اور سماجی امور کے لیے —
ٹرسٹی شپ کونسل
— ٹرسٹ علاقہ جات کے انتظام کے لیے (فی الحال یہ غیر فعال ہے) —
UN security council
UN Economic and Social Council
UN Trusteeship Council
  • سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری بین الاقوامی یا قوام متحدہ کے قوانین کے مطابق دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا؛
  • بہت زیادہ اہم قرارداد پیش کرسکتا ہے
  • اس کے کل 15 اراکین ہیں جن میں سے پانچ مستقل اور دس منتخب شدہ ہوتے ہیں.
  • اس کے اہم کاموں میں مختلف ریاستوں میں اقتصادی اور معاشرتی معاملات پر تعاون پیدا کرنا ہے؛
  • یہ اقوام متحدہ کے مختلف خصوصی ایجنسیوں کو آپریٹ کرتا ہے۔
  • اس کونسل کے 54 اراکین ہیں جن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے۔
  • اصل میں یہ نوآبادکاری کے انتظامات کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
  • اسے 1994 کے بعد غیر فعال کر دیا گیا ، جب آخری غیرمختار علاقے پلاؤ نے آزادی حاصل کی۔
  1. "UN Charter: Chapter III"۔ United Nations۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مارچ 2008