اموی معاشرہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علم و ادب[ترمیم]

اسلام نے حصول علم کی جس طرح حوصلہ افزائی کی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اموی قوم کے افراد نے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ قرآن و حدیث کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا۔ ان کی تعلیمات کو سمجھا اور دنیا بھر کے معلم قرار پائے۔ انھوں نے دوسری قوموں کے عوام سے بھی فائدہ اٹھایا اور حقائق کو قصے کہانیوں سے الگ چھانٹ کر ان کو نئے اسلوب سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ جس کا آغاز نبوت اور خلافت راشدہ میں ہوا اور جس کے بھرپور مظاہر خلافت عباسیہ میں سامنے آئے۔ عہد بو امیہ میں یہ ارتقا غیر محسوس طریقے سے جاری رہا

قرآن[ترمیم]

اموی دور کی فتوھات نے ان علاقوں کی تعداد میں بہت اضافہ کر دیا جہاں اسلام کی تبلیغ ہو سکتی تھی۔ چنانچہ مفتوحہ قوموں کے بے شمار افراد نے قرآن پاک لکھنا شروع کیا لیکن ان کے لیے اعراب کے بغیر کتاب کو پڑھنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے عبد الملک بن مروان نے اپنے دور حکومت میں قرآن پاک پر اعراب لگوائے اور ایک جیسے حرف کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کے لیے نقطے لگائے گئے۔ عبد الملک خود قرآن پاک سے گہرا شغف رکھتا تھا اور عمر بن عبد العزیز کی دینی ذوق کے بارے میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں۔ ان دونوں خلفاء کے زمانوں میں قرآن پاک کے حفظ کے بارے میں تفسیر لکھنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ اموی دور کے مشہور مفسرین قرآن میں عکرمہ، قتادہ بن دعامہ سروسی، مجاہد بن جبیر، سعید بن جبیر اور حسن بصری معروف ہیں اور بعد کے مفسرین انہی کی آراء کے حوالے دیتے ہیں۔ حضرت علی کے ایک رفیق اور حمزہ اور امام باقر نے بھی تفاسیر لکھی تھیں۔

حدیث[ترمیم]

حدیث کی تدوین کے نقطہ نظر سے بھی اموی دور بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دور میں بعض صحابہ تابعین کی کثیر تعداد اور تبع تابعین موجود تھے۔ اس لیے فطری طور پر یہ روایات جمع کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا دور تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس شعبہ کی طرف توجہ فرمائی اور احادیث کے مجموعے مرتب کروائے اور ان کی نقول دور دراز کے علمی مراکز کو بھجوائیں۔ خالد بن معدان، عطا بن ابی رباح اور عبد الرحمن ( جو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پوتے تھے) کے صحیفے اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ثمرہ بن جندب اور وہب بن منبہ کی بیاضیں ان کے علاوہ تھیں۔ ہشام بن عبد الملک نے امام زہری سے چار سو احادیث کا مجموعہ مرتب کروایا۔

فقہ[ترمیم]

قفہ کی ترقی کے اعتبار سے بھی یہ دور انتہائی اہم ہے۔ احکام دین کی تشریح کے لیے اس زمانے میں صحابہ زادے موجود تھے جو بیک وقت محدث بھی تھے اور فقیہ بھی۔ انھیں صرف ایک واسطے سے بارگاہ رسالت سے فیض ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس لیے ان کی آراء بہت دقیع ہیں۔ ان فقہا میں عبید اللہ بن عبد اللہ بن مسعود، عروہ بن عوام، قاسم بن محمد بن ابی بکر، سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، ابوبکر بن عبد الرحمن اور خارج بن زید کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ابراہیم نخعی، امام شعبی، امام جعفر صادق، عبد الرحمن بن ابی سلمی اور قاضی شریح بھی اس دور کے نامور فقہا ہیں۔

تاریخ[ترمیم]

تاریخ نویسی کی بھی باقاعدہ ابتدا ہوئی۔ غزوات کے حالات اور سیرت کی کتب تیار کی گئیں۔ اس سلسلے کی اہم کتب عروہ بن زبیر یا محمد بن اسحق نے لکھیں۔ ابن اسحق کی مرتب کردہ سیرت نبوی کی بنیاد ہی پر بعد میں سیرت ابن ہشام مرتب کی گئی جو آج تک سیرت کی اہم ترین کتاب ہے۔ قدیم عرب اور ایران کے ساسانی حکمرانوں کے حالات بھی اس دور میں قلمبند کیے گئے۔ امور خلفاء کو ان سے خاصی دلچسپی تھی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ امیر معاویہ نے عبید سے ’’کتاب الملوک و اخبار الماضین ‘‘ مرتب کروائی تھی۔ عواتہ بن حکم کلبی نے کتاب التواریخ اور سیرت معاویہ بھی لکھیں۔

فلسفہ اور طب[ترمیم]

فلسفہ اور طب کی جو ترقی عباسی دور میں سامنے آئی اس کی خشت اول دور بنو امیہ میں رکھی گئی تھی۔ یونانی فلسفہ و منطق کے اثرات اسی دور ہی میں نظر آنے لگے تھے۔ معتزلہ فرقہ کے بانی واصل بن عطاء اسی زمانے میں پیدا ہوا، جو حسن بصری کی مجلس سے علیحدگی اختیار کرنے ہی کی بدولت ’’معتزلی‘‘ کہلایا۔ یونانی طب نے بھی اس زمانے میں فروغ پایا۔ حکیم عرب حارث بن کلاوہ اور اس کا بیٹا طائف کے معروف طبیب تھے۔ ابن اثال جیسے مسیحی طبیب کی شہرت اور سرپرستی امور حکمرانوں کی علم پروری اور غیر متعصبانہ روش کی آئینہ دار ہے۔

شعر و شاعری[ترمیم]

اموی حکمران شعر و شاعری کے سرپرست تھے۔ امیر معاویہ، یزید اول، عبد الملک سب کے سب شاعروں کی قدر دانی اور سرپرستی کرتے۔ دربار میں درباری شعرا موجود رہتے۔ عمر بن ابی ربیعہ، جمیل نصیب اور لیلہ خیلیہ غزل گو شعرا میں ممتاز تھیں۔ عمر بن ابی ربیعہ تو عربی غزل گوئی کا بانی ہے قصیدہ گو شعرا میں فرزوق، جریر اور اخطل مشہور و معروف شخصیتیں تھیں۔ اخلط جو یزید اول کا مصاحب تھا خمریات کا بہت بڑا شاعر تھا۔ ان قصیدہ گو شعرا میں سخت رقابت رہتی۔ چنانچہ انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہجویہ اشعار بھی لکھے۔ حماد الرادیہ نے قدیم عرب شاعری کے نمونے جمع کیے۔ معلقات (سات قصائد) اس کے مجموعہ میں کافی مشہور ہیں۔

خطاطی[ترمیم]

عہد بنو امیہ میں کتابت اور انشاء کے فن نے بہت عروج حاصل کیا۔ حکومت اور امرا کاتب ملازم رکھتے تھے۔ فن انشاء کو سرکاری طور پر بہت اہمیت حاصل تھی اور کئی کتابیں لکھیں گئیں۔ عبد الملک کا کاتب عبد الحمید اس فن کا امام تھا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ کہ کتابت عبد الحمید سے شروع ہوئی اور ابن العمید (عباسی عہد ) پر اس کا خاتمہ ہوا۔

فن تعمیر اور عمارات[ترمیم]

اموی دور سے پہلے اسلامی فن تعمیر کا کوئی وجود نہ تھا۔ سادہ سی عمارات بنائی جاتی تھیں۔ اموی دور میں ایرانی و رومی تہذیبوں کے ساتھ رابطہ قائم ہوا تو پر شکوہ عمارات تعمیر کرنے کی طرف توجہ دی گئی۔ فطری طور پر اس شان و شوکت کا پہلا مظاہرہ عظیم مساجد کی تعمیر کی صورت میں ہوا۔ امیر معاویہ کے دور میں کوفہ کی چھاؤنی تعمیر ہوئی تو اس کے وسط میں ایک عظیم الشان مسجد بنائی گئی۔ بعد ازاں بصرہ کی مساجد کی تعمیر نو ہوئی تو ساسانی معماروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان دونوں عمارات میں ساسانی طرز کے ستون بنائے گئے نیز بصرہ کی مسجد میں پہلی بار ایک مینار تعمیر ہوا جو بعد ازاں اسلامی فن تعمیر کا امتیازی نشان قرار پایا۔ امیر معاویہ کے زمانے میں خضرا محل کی تعمیر سے رہائشی محلات کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔

عبد الملک کے زمانہ میں اسلامی فن تعمیر میں مزید ترقی ہوئی۔ قبتہ الضحراء فن تعمیر اور حسن کے لحاظ سے اس دور کی اہم ترین عمارات میں سے ہے۔ ضحراء پہاڑ کی وہ چھوٹی ہے جہاں شب معراج کو آنحضور آسمان کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہ جگہ اہل کتاب کے لیے مقدس تھی۔ عبد الملک نے اس مقام پر گنبد تعمیر کرایا۔ فنی کمال اور حسن، گل بوٹوں، نگینہ کاری، خوبصورتی، دلکشی اور پائداری کے لحاظ سے یہ اسلامی طرز تعمیر کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے اس تعمیر میں کچھ خام مال اور قیمتی پتھر پرانے کھنڈر سے بھی لیے گئے۔ اس کے علاوہ عبد الملک نے مسجد اقصیٰ کی بھی تعمیر کی۔

خلفائے بنو امیہ میں ولید بن عبد الملک کا زمانہ تعمیرات کے لیے بے حد مشہور ہے۔ اس کے زمانہ کی مشہور عمارات جامع دمشق، جامع مسجد دمشق، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ اسلامی تہذیب و تمدن اور فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ جامع مسجد دمشق پر بے دریغ روپی خرچ کیا گیا روم، ایران، مصر اور ہندوستان سے گاریگر منگوائے۔ تمام دیواریں سنگ مرمر اور نگینوں کی پچی کاری سے آراستہ کی گئیں۔ یہ مسجد اپنی تزئین و آرائش پچی کاری اور خوب صورتی کی بنا پر دنای کا چوتھا عجوبہ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں پہلے مسیحیوں میں بیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ چھتوں پر سونا اور فرش پر چاندی کا استعمال کیا گیا تھا ساری عمارت سنگ مرمر اور سنگ رفام سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس پرمجموعی لاگت کا کم سے کم اندازہ پچپن لاکھ اشرفی اور زیادہ سے زیادہ گیارہ کروڑ دینار لاگت آئی۔

مذہبی عمارات کے علاوہ تعمیرات کے میدان میں مسلمانوں کی دیگر یادگاریں بھی ہیں مثلاً صحرائی محلات جن میں شاہی خاندان کے افراد قیام کرتے تھے ان محلات میں قصر خضرا اور قصر عمرو وغیرہ مشہور ہیں اس قسم کے صحرائی محلات کے کھنڈر آج بھی موجود ہیں۔

مصوری[ترمیم]

اسلام شبیہ سازی یا مجسمہ گری کی اجازت نہیں دیتا۔ اس بنا پر مسجدوں میں کہیں بھی تصاویر یا انسانی اور حیوانی شبیہ نہیں بنائی گئیں لیکن چونکہ حسن اور اس کا استحسان فطرت انسانی کا تقاضوں میں سے ایک ہے اس لیے ہندسی اشکال یا پھل پھول کا سہارا لیا، یہ بیل بوٹے اور پھول پتیاں اسلامی مصوری کی بنیاد قرار پائیں۔ خالص توحید کے پرستاروں کا آغوش فطرت میں پناہ لینا ایک قدرتی اور حقیقی فعل تھا بعض خلفاء نے اپنے حماموں یا محلات کی دیواروں پر رجزیہ اور فحش تصاویر کی نقاشی کو اختیار کیا لیکن بہ حیثیت مجموعی اسلامی فن مصوری ان قباحتوں سے پاک رہا

موسیقی[ترمیم]

اسلامی کلچر اور تہذیب و تمدن میں نغمہ و سرور، موسیقی اور راگ رنگ کو بطور فن اور مشغلہ کے کبھی بھی پسندیدہ شمار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے لہو لعب قرار دے کر اس سے اجتناب ہی کی تلقین کی گئی۔ ظہور اسلام سے قبل گیت، راگ اور راگنیاں اور موسیقی کے ساز وغیرہ اہل عرب میں رائج تھے لیکن خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایسی تمام سرگرمیاں فسق و فجور کے ذیل میں شمار کی گئیں۔ اس لیے ان کو قبول عوام نہ ہو سکا اور ایسے تمام فنون اور سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بنو امیہ چونکہ شاہی روایات اور اطوار کو اپنا چکے تھے اس لیے ایک بار پھر راگ رنگ اور موسیقی کو خوب رواج ہوا کیونکہ ان فنون کو اب مناہی کی بجائے شاہی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ مکہ اور مدینہ جو دینی علوم کے مرکز تھے اب شعر و شاعری اور موسیقی کے بھی سب سے بڑے خالق اور پرستار تھے۔

معاشرتی حالت[ترمیم]

اموی حکومت بنیادی طور پر خالص عرب حکومت تھی۔ اس لیے اس دور میں لوگوں کی معاشرتی زندگی میں عرب عنصر غالب تھا۔ غیر عرب عوام عربی تہذیب و ثقافت کو اپنا رہے تھے اور عجمی عوام میں اس عربیت کے خلاف رد عمل بھی موجود تھا۔ معاشرے میں بظاہر کوئی طبقاتی تقسیم نہ تھی۔ اس کے باوجود کئی قسم کے لوگ پیدا ہو گئے تھے جو حالات کے تقاضوں کے تحت ایک دوسرے سے الگ نظر آتے تھے۔ جن واضع طبقات کو پہچانا جا سکتا تھا وہ حسب ذیل تھے۔

حکمران خاندان کے افراد[ترمیم]

اموی خلفاء شہزادے ان کے اعزہ و اقارب جو وسیع زمینوں کے مالک بن چکے تھے۔ جس کی آمدن سے عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کو سیاسی اثر و رسوخ بھی حاصل تھا اور اعلیٰ مناصب پر بھی فائز کیے جاتے تھے۔

عام عرب[ترمیم]

اگرچہ عام عرب حکمران طبقہ کے برابر تو نہ تھے لیکن دوسرے مسلمانوں سے بلند نہ سمجھے جاتے تھے اموی حکومت میں عربوں کو ہر معاملے میں عجمیوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اس لیے ان کو اونچے طبقے میں شمار کیا جاتا تھا

موالی[ترمیم]

مفتوحہ علاقوں کے غیر عرب مسلمان کسی نہ کسی عرب قبیلے کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرتے۔ بالخصوص آزاد کردہ غلام عرب قبائل کے ساتھ منسلک ہو کر ’’موالی‘‘ کہلاتے۔ موالی شروع میں تو رشتہ محبت میں منسلک ہوئے لیکن عبد الملک بن مروان کی عرب نواز پالیسی نے انھیں یہ احساس دلایا کہ مسلمان ہونے کے باوجود عربوں کے مساوی درجہ کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ بات اسلامی مساوات کے تصور سے متصادم تھی۔ اس لیے ان کے اندر رد عمل پیدا ہوا جو بنو امیہ کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا موجب بنا۔ نو مسلموں سے جزیہ کی وصول کا ضابطہ فی الحقیقت بنو امیہ کے لیے تباہی کا پیغام لے کر آیا۔

ذمی[ترمیم]

وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلام قبول نہ کیا لیکن جزیہ دینا منظور کیا اور مسلمان حکومت نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی۔ اموی دور میں ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک برقرار رکھا گیا۔ نو مسلم اموی حکومت کے خلاف تھے لیکن ذمیوں کو اس حکومت سے کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ اپنی زمینوں پر کاشت کرتے، البتہ خراج کی رقم ادا کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ اپنے مذہب پر عمل کرتے۔ ان کی عبادت گاہیں نہ صرف محفوظ تھیں بلکہ حکومت کے حفاظت میں تھیں۔ 679 میں ایک زلزلہ کے سبب اوڈیسیا کا گرجا ٹوٹ گیا تو امیر معاویہ نے سرکاری خرچ سے اس کی تعمیر نو کروائی۔ ذمی اپنے ذاتی قانون کے تحت اپنے مقدمات کا فیصلہ کروا سکتے تھے بلکہ اپنی پنچایتوں میں خود مقدمات کا فیصلہ کر سکتے تھے

غلام[ترمیم]

اسلام نے غلامی کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ کئی گناہوں کے کفارے کے طور پر غلام آزاد کیا جاتا تھا۔ زکواۃ کی مد سے گردنیں آزاد کرانے پر کافی رقم خرچ ہوتی۔ اس کے باوجود اس دور میں غلاموں کی ایک تعداد موجود تھی جو امرا کے گھروں میں کام کاج کرتی۔ تاہم غلاموں سے حسن سلوک کے احکام پر عمل کیا جاتا۔ کوئی عرب غلام نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ قبول اسلام کے بعد اکثر غلاموں کو کسی نہ کسی طریقے سے رہائی مل جاتی لیکن مسلسل جنگوں میں جنگی قیدیوں کی صورت میں نئے غلام اس معاشرے میں آتے رہتے ۔

عورتوں کا مقام[ترمیم]

اموی معاشرہ میں عورت کو نہایت اعلیٰ اور اونچا مقام حاصل تھا۔ دنیا کی دیگر متمدن قوموں کے مقابلہ میں انھیں بہت زیادہ آزادی حاصل تھی۔ وہ معاشرہ میں قدرو منزلت اور عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ تعملی سرگرمیوں میں وہ سرگرم حصہ لیتی تھیں۔ شعر و سخن کی محفلوں میں بھی ان کا خاصا مقام تھا

ولید اول کی بیوی ام البیان اس دور کی اہم اور نمایاں شخصیتوں میں سے تھی۔ معرفت و عرفان کی دنیا میں حضرت رابعہ کا مقام بہت بلند تھا۔ انھوں نے اس دور کے تہذیب اور کلچر کو سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ام البیان کا اثر خلیفہ ولید پر بہت زیادہ تھا۔ ایک بار اس نے حجاج بن یوسف کو اس کے ظالمانہ افعال پر سخت تنبیہ کی۔ خلفائے بنو امیہ کے آخری دور میں جب غلام کنیزوں کا حرام سرا میں دخل ہوا تو حکمران طبقہ اخلاقی تنزل کا شکار ہوا چنانچہ جب عورت اور عیاشی ان متاخر خلفاء کے کردار پر چھا گئیں تو ان کا نام و نشان تک مٹ گیا

معاشی حالات[ترمیم]

اموی دور حکومت بحیثیت مجموعی معاشی خوش حالی کا دور ہے۔ اس دور میں فتوحات نے مسلم معاشرے کو بے پناہ معاشی وسائل مہیا کیے۔ ایک وسیع و عریض اور مضبوط و مستحکم حکومت کے قیام نے تجارت و صنعت کے لیے سازگار ماحول پیدا کر دیے۔ قدیم زمانے سے ہی مشرق ممالک کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ سیاسی و فوجی قوت کے اضافے سے ان کی بحری تجارت کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ فتح اندلس سے عرب تاجروں کے لیے یورپ کی منڈیوں تک بھی رسائی حاصل ہو گئی تھی۔ ایران ترکستان کی فتح اور سندھ کی تسخیر سے مشرق و مغرب کے درمیان خشکی کے راسے سے تجارت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا اور ایک علاقہ کی پیداوار کو دوسرے علاقوں منتقل کرکے اس دور کے تاجروں نے بہت دولت کمائی

اموی دور میں زراعت نے بھی خوب ترقی کی۔ حکومت نے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے۔ آبپاشی کے کئی منصوبے بنائے گئے۔ افتادہ زمینوں کو آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پرانے زمانے کے روایتی جاگیردار جو زمین کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے ختم ہو گئے۔ مزارعین کو اگرچہ حکومت کو خراج ادا کرنا پڑتا تھا لیکن ان کی حالت پہلے سے بہت بہتر تھی۔ تجارتی ترقی نے ان کی زرعی پیداوار کے لیے مناسب قمیت کا بندوبست کیا۔ فتح اندلس نے مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کو مزید فروغ دیا تو مشرقی علاقوں کے زراعت پیشہ لوگ مزید خوش حال ہو گئے۔ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اموی حکومت میں عربوں اور غیر عربوں میں امتیاز روا رکھا گیا۔ اس کے نتیجے کے طور پر اس خوش حالی کا زیادہ حصہ عرب جاگیرداروں نے سمیٹا۔ عام کاشتکار رہنے سے بہت بہتر معاشی پوزیشن کے باجود احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ بنو امیہ کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں اس کی شمولیت کا ایک بڑا سبب اس کا یہ احساس محرومی تھا۔