حمید الدین فراہی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حمید الدین فراہی
معلومات شخصیت
پیدائش 18 نومبر 1863ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعظم گڑھ ضلع  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 نومبر 1930ء (67 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متھرا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی
الہ آباد یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر اسلامیات،  مفسر قرآن،  دعوہ،  معلم،  محقق،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  عربی،  فارسی،  انگریزی،  عبرانی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حمید الدین فراہی (پیدائش: 18 نومبر 1863ء– وفات: 11 نومبر 1930ء) برصغیر پاک و ہند کے ممتاز قرآنی مفسر اور دین اسلام کی تعبیر جدید کے بانی تصور کیے جاتے ہیں آپ نے امت میں تفقہ فی الدین کو دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک لافانی نہج پر قائم کیا بعد ازاں اسی نہج نے دین اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر پیچیدہ سوال کا دندان شکن جواب دیا۔

شجرہ نسب[ترمیم]

ابو احمد حمید الدین فراہی بن عبد الکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہا الدین۔

آباء و اجداد[ترمیم]

مولانا حمید الدین فراہی کا نسبی تعلق صدر اول کے مسلمانوں کی دوسری وحدت سے معلوم ہوتا ہے لیکن بعض قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا تعلق انصار مدینہ منورہ سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا کے خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ ایک عرصہ تک انصاری لکھتے رہے۔

ولادت[ترمیم]

مولانا فراہی کی جائے پیدائش بھارت کے صوبہ یوپی (موجودہ اترپردیش) ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤںپھریہاں ہے جواعظم گڑھ۔ سلطان پور شاہ راہ پر اعظم گڑھ شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔گاؤں کے نام کا مقامی تلفظ ’پھریہاں‘ جب کہ کاغذی نام پھریہا ہے۔ یہ اعظم گڑھ ضلعے کاایک مشہور گاؤں ہے، پھریہا کی معلوم تاریخ بس اسی قدر ہے کہ یہ شبلی نعمانی کا ننھیال اور فراہی کا وطن ہے مولانا فراہی کی پیدائش ان کے جدی مکان میں6 جمادی الثانی 1230ھ بروز بدھ بمطابق 18 نومبر 1863ء کو ہوئی۔

اسم گرامی[ترمیم]

مولانافراہی کے نام کے بارے میں مختلف بلکہ متضاد آراء اور روایات ملتی ہیں تحریر دستاویزات میں حمید الدین اور عبد الحمید دونوں نام کثرت سے موجود ہیں اور اہل علم نے اپنے اپنے انداز سے اس کی توجیہ بھی کی ہے۔ مولانا فراہی کی وفات پر سید سلیمان ندوی نے پہلے ایک شذرہ اور اس کے بعد ایک مقالہ لکھ کر معارف میں شائع کیا اس میں نام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

مولانا کا اصلی نام تو حمیدالدین تھا مگر وہ اس نام کو جو دراصل عربی قاعدے سے لقب ہے اپنے لیے معنوی حیثیت سے بلند سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ عربی تصانیف میں اپنا نام عبد الحمید لکھتے تھے اور تمام بڑے عالمانہ آداب والقاب چھوڑ کر صرف معلم کہلانا پسند کرتے تھے بنا بریں وہ اپنا نام المعلم عبد الحمید الفراہی کتابوں کی لوحوں پر لکھا کرتے تھے [2]

نسبت فراہی[ترمیم]

فراہی مولانا کا نسبتی نام ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اصل نام بھی پس منظر میں چلا گیا آج کہیں مولانا کا ذکر آتا ہے تو یہی نام لیا جاتا ہے مولانا نے یہ نسبت کس کی طرف سے اختیار کی اور اس کا ماخذ کیا ہے؟ سید سلیمان ندوی کا خیال اور جو قرین قیاس بھی معلوم ہوتا ہے کہ

یہ نسبت مولانا کے آبائی گاؤں پھریہا کی طرف ہے اسی پھریہا کو عربی شکل دے کر مولانا اپنے نام کے ساتھ فراہی لکھا کرتے تھے[3]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مولانا فراہی کے ہاں واضح طور پر رسمی تعلیم کے دو دور ہیں اور ان میں ہر دور اپنی جگہ نمایاں اور مکمل ہے تعلیم کے پہلے دور میں انھوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عربی اور مشرقی علوم سیکھے جس کی تکمیل نجی تعلیمی درسگاہوں میں ہوئی دوسرے دور میں انھوں نے انگریزی اور مغربی علوم کی تحصیل کی جس کے لیے سرکاری تعلیم گاہوں میں داخلہ لیا۔

دینی تعلیم[ترمیم]

مولانا فراہی کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے شرفاء کی طرح گھر پر ہوئی اس کا آغاز دستور کے مطابق ناظرہ اور حفظ قرآن سے ہوا راجا پور سکرور کے حافظ احمد علی مرحوم نے گھر پر رہ کر حفظ کرایا مولانا نے خود بھی اپنے حالات زندگی تحریر کیے تو پیدائش کے بعد جس بات کا ذکر کیا وہ حفظ قرآن ہی ہے مولانا کی خود نوشت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ انھوں نے تقریباً دس سال کی عمر میں طے کر لیا تھا فرماتے ہیں

کہ جب میں نے قرآن مجید حفظ کیا اس وقت میری عمر قریب قریب دس برس تھی [4]

حفظ قرآن سے فارغ ہو کر عام دستور کے موافق پہلے فارسی کی تعلیم لی اس زمانے کا عام طریقہ تعلیم یہ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی مضمون ہی پڑھتے تھے فارسی زبان میں بہت جلد اس قدر ترقی کرلی کہ شعر کہنے لگے شاعری کا مذاق ان میں فطری تھا زبان سے تھوڑی ہی مدت میں اس قدر گہری مناسبت پیدا کرلی کہ اساتذہ کے رنگ میں قصیدے لکھنے لگے مولانا کی عمر ابھی چودہ برس ہی تھی کہ طلب علم میں وہ پھریہا سے اعظم گڑھ آئے اور شبلی نعمانی سے پڑھنا شروع کیا یہ 1877ء کا سال تھا مولانا فراہی کی تعلیم و تربیت میں شبلی کا خاصا حصہ ہے اس حوالے سے مولانا فراہی خود لکھتے ہیں کہ

میں نے چودہ برس کی عمر میں عربی زبان پڑھنا شروع کی اور درس نظامی کی اکثر کتابیں پھوپھی زاد بھائی علامہ شبلی سے پڑھیں[4]

تعلیم و تربیت میں مولانا شبلی سے کسب فیض کرنے کے بعد مولانا فراہی نے وقت کے مشہور اساتذہ کے حلقہ دروس سے مستفید ہونے کا ارادہ کیا اس سلسلہ میں وہ قدم بقدم مولانا شبلی کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں۔ اس زمانہ میں مولانا ابوالحسنات عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی کے حلقہ دروس کی بڑی شہرت تھی چنانہ فقہ کی تحصیل کے لیے مولانا فراہی نے کچھ مدت تک عبد الحئی لکھنوی کے حلقہ دروس میں شرکت کی۔ وہاں مولانا فضل اللہ انصاری جو معقولات کے ماہر تھے، سے بھی استفادہ کیا لیکن مولانا کی طبیعت ابتدا ہی سے تحقیق پسند واقع ہوئی تھی اور ان کے اس ذوق کو مولانا شبلی کے فیض صحبت نے مزید ابھار دیا تھا لہٰذا وہ زیادہ عرصہ لکھنؤ میں نہ رکے اسی دوران مولانا فراہی نے تقریباً ان تمام مراکز علم کا رخ کیا جو مولانا شبلی کا مرجع رہ چکے تھے۔ مولانا فراہی کی تعلیم کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے،ان کی آخری عمر کے تلمیذ امین احسن اصلاحی ایک جگہ لکھتے ہیں

مولانا فراہی نے لکھنوء چھوڑنے کے بعد لاہور کا سفر کیا اور لاہور میں مشہور ادیب مولانا فیض الحسن سہارنپوری مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے مولانا فیض الحسن مرحوم اس وقت اورینٹل کالج لاہور میں پروفیسر تھے اور عربی ادب میں پورے ملک کے اندر اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ادب میں مولانا شبلی بھی انہی کے شاگرد تھے مولانا فراہی نے ان کی شاگردی سے پورا فائدہ اٹھایا اور مولانا فیض الحسن موحوم نے بھی بڑی شفقت کے ساتھ مولانا کو علوم ادب کی تکمیل کرائی[5]

انگریزی تعلیم[ترمیم]

مولانا فراہی نے دینی تعلیم 82-1883ء تک مکمل کرلی تھی۔اس کے بعد وہ بیماریوں کا شکار رہے اور کچھ عرصہ کے بعد انگریزی زبان مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی مولانا خود فرماتے ہیں کہ

اس کے بعد میں بیماریوں کا شکار رہا اور سال بھر کسی پڑھائی میں نہ لگ سکا پھر انگریزی زبان اور مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی[6]

مولانا فراہی کے فرزند محمد سجاد صاحب مرحوم کے بیان کے مطابق مولانا فراہی نے پہلے مڈل پاس کیا اور پھر کرنل گنج اسکول الہ آباد سے پرائیویٹ طور پر میڑک کا امتحان دیا تاکہ وقت کم صرف ہو وقت ہی کے خیال سے کچھ پڑھائی اسکول سے باہر بھی کرنی پڑی۔ انٹرنس اور علی گڑھ کالج میں داخلے کے بارے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ

اس زمانہ میں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا مگر یہ کفر مولانا نے توڑا نج کے طور پر انگریزی کچھ پڑھ لینے کے بعد کرنل گنج اسکول الہ آباد میں داخل ہو گئے انٹر نس کا امتحان پرائیویٹ طور پر دے کر ایم او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے یہ علی گڑھ کالج کے عروج کا زمانہ تھا سرسید اس کے ناظم اعلٰی مسٹر آرنلڈ اوربک وغیرہ اس کے پرنسپل اور پروفیسر ، مولانا شبلی نعمانی اس کے مدرس اور مولانا حالی وہاں کے مقیم وساکن تھے ہر وقت علمی مسائل و تحقیقات کے چہچہے رہتے تھے اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جن میں ہر ہونہار طالب علم کے فطری جوہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا[7]

مولانا فراہی عربی، فارسی اور دینیات میں اس قدر مہارت پیدا کرچکے تھے کہ کالج میں انھیں ان اسباق سے مستثنیٰ کر دیا گیا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ

اس زمانے میں کالج کے ہر طالب علم کو عربی اور فارسی بھی لازماً پڑھنی پڑھتی تھی مگر سرسید نے ان کے متعلق پروفیسر آرنلڈ کو لکھ بھیجا کہ حمید الدین عربی اور فارسی کے ایسے فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں اس لیے ان کو مشرقی علوم کے گھنٹوں(پیریڈز) سے مستثنیٰ کر دیا جائے،چنانچہ وہ مستثنیٰ کیے گئے[7]

علی گڑھ میں مولانا فراہی نے انگریزی اور دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ خاص توجہ سے فلسفہ جدیدہ(ماڈرن فلاسفی) کی تحصیل کی اور اس میں امتیاز حاصل کیا مولانا فراہی نے فلسفہ جدیدہ اسی کالج میں معروف مستشرق پروفیسر آرنلڈ سے پڑھا مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان کی زبان اور قلم سے بھول کر ایک دفعہ بھی ان کا نام نہیں نکلا ان (پروفیسر آرنلڈ) کے متعلق مولانا کے ذہنی رویے کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے مزید وضاحت امین احسن اصلاحی کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ

مولانا نے فلسفہ کے درس تو ان(پروفیسر آرنلڈ) سے ضرور لیے لیکن ان سے خوش نہیں تھے وہ آرنلڈ صاحب کو بھی اسی بساط سیاست کا ایک مہرہ سمجھتے تھے جو انگریزوں نے علی گڑھ میں بچھا رکھی تھی علی گڑھ کا حلقہ پروفیسر آرنلڈ صاحب کی کتاب (Preaching of Islam) کا مداح تھا ،لیکن مولانا فراہی اس کتاب کے سخت مخالف تھے وہ فرماتے تھے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد ختم کرنے کے لیے لکھی گئی ہے[8]

علی گڑھ کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فراہی کو میرٹ سکالر شپ ملتا تھا داخلے کے دو سال بعد 1893ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈویژن میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا اس سال فرسٹ ڈویژن میں کوئی طالب علم پاس نہیں ہوا، دو سال بعد 1895ء میں مولانا فراہی نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان بھی سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا 1895ء کے اوائل میں مولانا فراہی بی اے سے فارغ ہو چکے تھے وہ چاہتے تھے کہ اسی سال پہلی فرصت میں ایم اے عربی کا امتحان دے ڈالیں عربی کے وہ اسکالر تھے انھیں کسی خاص تیاری کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ بلا تاخیر امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے مگر چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ ایم اے نہ کرسکے اس سلسلے میں امین احسن اصلاحی صاحب لکھتے ہیں کہ

بی اے کی ڈگری مولانا نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے لی ،اس کے بعد ایم اے کے لیے بھی تیاری کی لیکن اس کے امتحان میں نہیں بیٹھے ، اس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ جہاں تک تحقیق وتنقید کا تعلق ہے اس کی راہیں تو ان کے لیے کھل چکی تھیں اب محض ڈگری کی خاطر امتحان دیتے پھرنا ان کی طبیعت کے بالکل خلاف تھا[8]

ایم اے کا خیال ترک کرنے کے بعد مولانا فراہی نے مروجہ قانون (ایل ایل بی) پڑھنا شروع کر دیا جس کا ذکر انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے

اور اس کے بعد دو سال تک ناپسندیدگی کے باوجود مروجہ قانون (ایل ایل بی) کا مطالعہ کرتا رہا ، پھر اسے چھوڑ کر تدریس شروع کردی[9]

مقام و مرتبہ[ترمیم]

امام حمید الدین فراہی ایک متبحر عالم اور مجتہد فی المذہب تھے آپ گہری علمیت اور بے مثال وسعت نظری کا عجیب وغریب مرقع تھے، مولانا نے امت کے لیے وہ علمی خدمات سر انجام دیں جن کے بارے میں امت مسلمہ کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتی، زعمائے ملت کی نظر میں مولانا ایک بلند مقام ومرتبہ رکھتے تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں مولانا کا علمی پایہ مسلم تھا، عربی و فارسی ہی میں وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور ادیب جن سے انھوں نے تعلیم حاصل کی، ان کی ذہانت اور علمی فکر سے متاثر تھے۔ آپ کے جلیل القدر استاد مولانا شبلی نعمانی آپ کی قرآنی فکر کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اس حوالے سے سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں کہ

مولانا حمید الدین فراہی نے نظم آیات کا جو تصور دیا ، مولانا شبلی کو اپنے اس شاگرد کے اس نظریے سے اختلاف تھا اور وہ مولانا فراہی کی کوششوں کو رائیگاں سمجھتے تھے لیکن جب انھوں نے ان کی تفسیر کے متعدد اجزاء دیکھے تو قائل ہوتے چلے گئے اور داد دینے لگے اور آخر میں تو وہ حمید الدین کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہو گئے تھے کہ قرآنی مشکلات کے حل میں وہ ان سے مشورہ لینے لگے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ تفسیر ابی لہب اور جمہرۃ البلاغہ کے اجزاء بغور دیکھے ، تفسیر پر تم کو مبارکباد دیتا ہوں ، تمام مسلمانوں کو تمھارا ممون ہونا چاہیے۔[10]

مشہور مراکشی عالم شیخ تقی الدین ہلالی نے مولانا فراہی کے بارے میں 17 رمضان 1342ھ میں کچھ تاثرات لکھے تھے جو بعد میں مجلہ الضیاء لکھنؤ رجب 1352ء کے شمارے میں چھپے، تقی الدین ہلالی فرماتے ہیں کہ

علامہ حمیدالدین صاحب کا ایک دیوان شعر بھی ہے جو میں نے ان سے سنا، یہ دیوان بلیغ اور موثر طور پر مسلمانوں کے حوصلے بلند کرتا ہے ان کے دلوں میں زندگی کی لہر دوڑاتا ہے۔ اس میں فرنگیوں کی مسلم دشمنی ، جنگ طرابلس اور جنگ عظیم کا ذکر ہے ، وہ بڑی فصیح گفتگو کرتے ہیں۔ علمائے ہند تو ایک طرف علمائے عرب میں بھی ایسے اشخاص بہت کم ہیں ان کی عمر اندازہً 70 برس ہوگی ، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے جس کا نام مدرستہ الاصلاح رکھا ہے۔ اس میں صرف قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے جو ان کی متاع گم گشتہ ہے ، میں نے ان سے ان کی تفسیر قرآن کا مقدمہ سنا اس کی فصاحت اور حقانیت سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، وہ مسئلہ خلافت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس پر ان کی محققانہ نظر ہے ، اہل ہند کے برعکس ان پر اس مسئلے کی کوئی بات مشتبہ نہیں ہے۔ عقائد اور اعمال میں مجتہدانہ شان کے مالک ہیں کسی فقہی مذہب کی طرف نسبت کو پسند نہیں کرتے لیکن نماز حنفی طریقے کے مطابق ہی پڑھتے ہیں اس لیے کہ اسی مذہب پر ان کی نشو و نما ہوئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اسی طرح آسانی رہتی ہے۔ رنگ گندم گوں ،چہرہ بشرہ خوبصورت ،قد کشیدہ، داڑھی گول سفید اور براق ہے ، انگریزی ، عربی ، فارسی اور اردو میں مہارت رکھتے ہیں۔ کئی عہدوں پر فائز رہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ علی گڑھ میں کالج کی سطح پر استاد تھے ، مختصر یہ کہ اس وقت تک میں جتنے لوگوں لوگوں سے ملا ہوں وہ ان میں سے سب سے بڑے عالم ہیں۔[11]

سید سلیمان ندوی کو مختلف حیثیتوں سے مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا ان کی نظر میں مولانا فراہی کیا مقام رکھتے تھے؟ اس کی جھلک مولانا کی وفات پر لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتی ہے

اس عہد کا ابن تیمیہ 11 نومبر 1930ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا وہ جس کے فضل وکمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں ، جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عصر حاضر کا معجزہ تھی ، عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ ، زہد و ورع کی تصویر ، فضل وکمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا شوق عکاظ، ایک شخصیت منفرد لیکن جہان دانش، ایک دنیائے معرفت ،ایک کائنات علم ، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطان ہنر ، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز ،دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے ردوقبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پروا، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ، وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن اور صرف قرآن کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو ہر شے سے بیگانہ اور شغل سے ناآشنا تھی۔[12]

ندوۃ العلماء کے سابق ناظم ابو الحسنات مولانا عبد الحئی لکھنوی مولانا فراہی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ

وہ چوٹی کے علما میں سے تھے علوم ادبیہ سے پوری واقفیت رکھتے تھے انشا و ادب پر پورا عبور حاصل تھا ادبا اور ادب سے انھیں بڑا لگاؤ تھا۔ فہم و فراست ، ذکاوت و ذہانت ،زہد وتقوی، نیک نفسی وہ بلند ہستی کی وہ تصویر تھے لایعنی باتوں سے بہت دور ، انبار دنیا سے بالکل بے پروا، عربی علوم میں انھیں رسوخ حاصل تھا ، بلاغت پر گہری نظر تھی ، جاہلی دواوین اور عربی اسالیب کلام پر وہ حاوی تھے صحف سماویہ کا بڑا وسیع مطالعہ تھا یہود و نصاری کی کتابوں پر اچھی نظر تھی۔ ان کی ساری دلچسپیوں اور عرق ریزیوں کا محور قرآن پاک تھا، وہ قرآن پاک پر غور وتدبر کرتے اس کے بحر معانی میں غواصی کرتے ، اس کے تمام اسالیب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ، ان کا عقیدہ تھا کہ پورا قرآن ایک مرتب ومنظم کلام ہے ساری آیات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں چنانچہ ان کی تفسیر نظام القرآن کا اصل الاصول یہی ہے[13]

مولانا ابو الکلام آزاد مولانا فراہی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ

مولانا حمید الدین فراہی مرحوم ، جن کی عبارت پر ہنگامہ برپا کیا گیا ہے ان علمائے حق میں سے تھے جن کا سرمایہ امتیاز صرف علم نہیں بلکہ عمل بھی ہوتا ہے اور اس دوسری جنس کی کمیابی کا جو عالم ہے وہ اہل حق سے پوشیدہ نہیں ، میں جب کبھی ان سے ملا مجھ پر ان کے علم سے زیادہ ان کی عملی پاکی کا اثر ہوا ، وہ پورے معنوں میں ایک متقی اور راست باز انسان تھے ان کے دل کی پاکی اور نفس کی طہارت دیکھ کر رشک ہوتا تھا۔[14]

فراحی نے تقریبا پچاس سال تک قرآن مجید پر غور کیا ، جو ان کی سب سے اہم دلچسپی اور ان کی تمام تحریروں کا مرکزی نقطہ رہا۔ اس کے مطالعہ میں ان کی سب سے بڑی شراکت قرآن میں ان کے ہم آہنگی کی دریافت ہے۔ شبلی نعمانی نے اپنے طالب علم کی عظیم کامیابی کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیے ، اس نے ناممکن کو حاصل کر لیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی کارنامہ سمجھا جاتا ہے ، فراحی نے تمام مغربی ناقدین کے سامنے یہ مظاہرہ کیا کہ عربی زبان کی صحیح تفہیم کے ساتھ ہی ، قرآن مجید کے اس ہم آہنگی کو سراہا جا سکتا ہے جو یقینا احکامات کو جمع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نجم کے تین اجزاء (ہم آہنگی) کو مدنظر رکھتے ہوئے ، انھوں نے حکم ، تناسب اور اتحاد سے ثابت کیا کہ قرآن کی ایک ہی تفسیر ممکن ہے۔ یہ اکیلا ہی قرآنی ناظم کے اصول کا ایک دور رس نتیجہ تھا۔ قرآن کی تفسیر میں شدید اختلافات جس نے مذہبی فرقہ واریت کی لعنت کو جنم دیا ہے در حقیقت متعدد قرآنی آیات اور پیراگراف کے انتظامات اور باہمی تعلقات میں نظریاتی اور ساختی ہم آہنگی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہر مسلک نے اس کی ترجمانی اس لیے کی ہے کہ کسی آیت کو اپنے سیاق و سباق سے الگ کرنے سے اس کے متعدد معنی مل سکتے ہیں۔ یہ صرف قرآن کا یکجہتی ہے ، جس پر اگر غور کیا جائے تو یہ 'الہی پیغام' کی ایک حتمی اور مربوط تفہیم کا باعث بنتا ہے۔ تب ہی قرآن کو صحیح معنوں میں میزان (انصاف کا توازن) اور فرقان (اچھ andے اور برے کام کا امتیاز) سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی قرآنی آیت: اللہ کی کیبل کو مضبوطی سے تھام لو اور تقسیم نہ کیا جائے ’(3: 103) ، ایک واضح حقیقت بن سکتا ہے اور امت مسلمہ میں اتحاد کا حصول ممکن ہے۔ فراہی نے قرآن کو سمجھنے اور اس کی ترجمانی کرنے کے لیے کچھ اصولوں کی تضحیک کی۔ ان میں سب سے اہمیت اتحاد کا اصول تھا۔ وہ یہ ظاہر کرنے میں کامیاب تھا کہ جب تک کہ قرآن ایک جامع نقطہ نظر کے ذریعے نہ سمجھا جائے تو اس کی حکمت کا بہت سارا خزانہ پوشیدہ ہے۔ []] [1]

مصنفات ومولفات[ترمیم]

مولانا حمید الدین فراہی بہت لکھنے اور رطب ویابس اکھٹا کرنے کے قائل نہ تھے جہاں تک ان کی تصانیف کا تعلق ہے تو انھیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ایک مصنف ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑے مفکر اور مصلح بھی تھے اور ان کی تصانیف سے ان کی اعلٰی فکری صلاحیتوں، مصلحانہ کردار اور بلند علمی مرتبے کا پتہ چلتا ہے مولانا کے منہج تالیف میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا طریقہ تصنیف وتالیف یہ نہیں تھا کہ ایک موضوع کے بارے میں فکر اور معلومات اکھٹی کرکے اسے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دیں بلکہ بیک وقت کئی ایک موضوعات ان کے پیش نظر موجود رہتے تھے، جب کسی موضوع پر تحقیق مکمل ہوجاتی، ذہن مطمئن ہوجاتا تو اسے لکھ لیتے اور بعد میں وقت ملنے پر ایک موضوع پر مختلف موقعوں پر لکھی ہوئی تحقیقات کو مرتب کرتے تھے اس طرح گویا وہ ایک ہی وقت میں کئی کتب پر کام کر رہے ہوتے تھے[15] ذیل میں مولانا کی تصانیف کا ذکر کریں گے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/305089 — بنام: Ḥamīduddīn Farāhī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. یادرفتگاں صفحہ113
  3. یادرفتگاں صفحہ112
  4. ^ ا ب ماہنامہ الضیاء لکھنوء نومبر:1933ءصفحہ 260
  5. مجموعہ تفاسیر فراہی:صفحہ 10
  6. ماہنامہ الضیاء:صحفہ 260
  7. ^ ا ب یاد رفتگاں صحفہ 116
  8. ^ ا ب دیباچہ مجموعہ تفاسیرفراہی: صفحہ 12
  9. ماہنامہ الضیاء : نومبر 1933ء صفحہ 260
  10. مکاتیب شبلی:2/25 یادرفتگاں صفحہ :119
  11. مجلہ الضیاء : رجب 1352ھ
  12. یاد رفتگاں صفحہ 110
  13. نزہتہ الخواطر :230/8
  14. ماہنامہ الاصلاح : اگست 1936ء صفحہ 57
  15. استفادہ عام: حمید الدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر

بیرونی روابط[ترمیم]