محمد بن ابی عامر المنصور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد بن ابی عامر المنصور
(عربی میں: أبو عامر محمد بنفانيسا أبي عامر ابن عبد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 938ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الخضراء ،  سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 اگست 1010ء (71–72 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ پامپلونا کی یوراکا سانچیز (983–)
عائشہ   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبد الرحمن شنجول ،  عبد المالک المظفر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
حاجب   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
978  – 1002 
 
عبد المالک المظفر  
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  فوجی افسر ،  عسکری قائد [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات

محمد بن ابی عامرکے آباواجداد کا تعلق یمن سے تھا اور اس کا جدا مجد عبد المالک المعافری طارق بن زیاد کی فوج میں سپاہی تھا جو اندلس میں جزیرہ الخضرہ کے قریب ایک قصبہ ”طرش“ میں آکر آباد ہو گیا۔محمد بن ابی عامر اسی کی آٹھویں نسل میں طرش ہی میں 938ءمیں پیدا ہوا۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اس نے طرش ہی میں حاصل کی مگر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ قرطبہ آگیا۔ دوران میں تعلیم ہی اسے بڑا آدمی بننے کا شوق پیدا ہوا اور خود کو حاجب السلطنت ( یعنی وزیر اعظم) سمجھنے لگا، ہر وقت اسی منصوبہ بندی میں لگا رہتا وہ وزیر اعظم بن کر ملکی معاملات کو کیسے سدھارے گا۔ اس کے سب دوست اسے شیخ چلی سمجھ کر مذاق اڑاتے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا۔

ڈوزی کا دوستوں کو نوزنے کا واقعہ[ترمیم]

اس کے کیرئر کا آغاز بھی عجیب و غریب انداز میں ہوا جس کا ذکرمشہور مورخ ڈوزی(DOZY) نے بہت لطیف پیرائے میں کیا ہے۔ مصنف عبد القوی ضیاء نے اس کوباپنی کتاب ”تاریخ اندلس“ میں کچھ یوں بیان کیا ہے: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پانچ طالبعلمم قرطبہ(قرطبہ) کے ایک باغ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ‘ یہ نوجوان غالباً پکنک منانے کے لیے یہاں آئے تھے ، کیونکہ کھانے پینے کا سامان بھی ان کے پاس تھا۔یہ سب کھا پی رہے تھے اور ایک دوسرے سے چہلیں بھی کر رہے تھے۔لیکن ان میںسے ایک طالبعلم گم سم کسی خیال میںڈوبا ہوا خاموش بیٹھا تھا۔اس کی شکل و صورت سے شرافت اور ذہانت ٹپک رہی تھی،ماتھے پر غرور کی علامات بھی تھیں۔ ساتھی طالبعلموں نے اسے چھیڑتے ہوئے خاموشی کا سبب پوچھا تووہ چونک کر بولا:”مجھے یقین ہے کہ میں بہت جلد اس ملک کا حکمران بن جاﺅں گا، اسی وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے اس ملک کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے؟“ اس کے ساتھی یہ سن کر ہنسنے اور اس کا مذاق اڑانے لگے۔ اس نے اس ہنسی ‘ مذاق کا کچھ بھی اثر نہ لیا اور بڑے اعتماد سے بولا:”دوستو!وہ وقت دور نہیں جب قوت، طاقت اور حکومت میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں پورے اندلس کا حکمران ہوں گا، تم لوگ ابھی سے مجھ سے مانگ لو جو تمھیں چاہئیے کہ یہ وقت ِقبولیت ہے، بتاﺅ!تم سب کن کن عہدوں پر مامور ہونا چاہو گے؟“ اس کے دوست پھر ہنس دیے، لیکن جب اس خوبرو نوجوان نے ان کو مجبور کیا تو ان میں سے ایک بولا:”میاں !ہمیں تو آج کی یہ میٹھی روٹیاں اور خستہ ٹکیاں بہت اچھی لگیں، تو تم مجھے انسپکٹر بازار مقرر کر دینا تاکہ جب جو چیز چاہوں بڑے شوق سے کھاﺅں۔ دوسرا بولا:”ہمیں تو یہ انجیر بہت پسند آئے ، تم مجھے مالقہ(مالقہ) کا قاضی بنا دیناکہ وہ میرا وطن بھی ہے اور وہاں کے انجیر بھی بہت لذیذ ہوتی ہے۔ تیسرے نے باغ کے ہرے بھرے درختوںکی طرف دیکھ کر کہا کہ مجھے تو یہ سر سبز باغ بہت پسند ہے ، تم مجھے قرطبہ کا حاکم بنا دینا۔ چوتھا خاموش بیٹھا اس متکبر دوست سے زیادہ اپنے بقیہ ساتھیوں پر پیچ و تاب کھا رہا تھاکہ وہ اس سے عہدے اس انداز سے طلب کر رہے تھے جیسے و ہ سچ مچ بادشاہ اندلس ہو گیا ہو۔ جب اس نے اس سے پوچھا تو وہ غصہ سے بولا:” جب طاقت تمھارے ہاتھ میں آ جائے تو میرے سارے جسم پر شہد مل دینا تاکہ خوب مکھیاں بیٹھ کر بھنبھنائیں اور کاٹیں، پھر منہ کالا کر کے گدھے پر الٹا سوار کرا کے سارے شہر میں گشت کرا دینا۔ وہ بولا : ”دوستو !گھبراﺅ نہیں ایسا ہی ہوگا۔“پھر قدرت کوبھی یہی منظور تھا اور ایک وقت آیاکہ وہ نوجوان اندلس کاوزیر اعظم بنا اور وزیر اعظم بھی ایسا کہ اندلس کی تاریخ میں پھر ایسا وزیر اعظم کوئی دوسرا نہ بن سکا اور پھر اس نے اپنے تمام دوستوں کی خواہشات بھی من وعن پوری کیں۔

عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم سے فارغ ہو نے کے بعدکچھ دیر اِدھر اُدھر پھرتا رہا پھراپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قصر خلافت کے سامنے ایک دکان کرایہ پر لے لی اور یہاں عرضی نویسی کا کام شروع کر دیا ۔ وہ اُجرت لے کر لوگوں کے خطوط اور عدالت میں پیش ہونے والی عرضیاں لکھ دیا کرتا۔ اس دوران میں اس نے قصر خلافت کے ملازموں سے بھی خاصے مراسم بڑھا لیے۔

شہزادہ ہشام اورعبد الرحمان کا اتالیق[ترمیم]

اتفاقاً انہی دنوں خلیفہ وقت الحکم ثانی کو اپنے دونوں شہزادوں عبد الرحمان اور ہشام کی جائداد کا حساب رکھنے کے لیے محررّ اور ان کے لیے ایک قابل اتالیق کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کام کے لیے محل ہی کے ایک خواجہ سرا کی سفارش پر محمد بن ابی عامر کو اتالیق اور محرر مقرر کر دیا گیا۔ اس کے ان فرائض کی نگران خلیفہ کی عیسائی بیگم جواب مسلمان ہو چکی تھی ملکہ الصبح تھیں۔ اب محمد بن ابی عامر قصر خلافت تک رسائی حاصل کر چکا تھا اور اپنی ذہانت، ایمانداری اور دن رات محنت سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دیں۔ وہ ملکہ کی بے حد عزت کرتا تھا اور ملکہ بھی اس پر بہت اعتماد کرنے لگی۔

محصول افسر اور قاضی کا عہدہ[ترمیم]

ملکہ ہی کی سفارش پر اسے اشبیلیہ(اشبیلیہ) کا قاضی اور وہاں کے محصولات کی وصولی کا افسر مقرر کردیاگیا۔وہ کچھ عرصہ قرطبہ کا قاضی بھی رہا پھراسے شہر کے فوجی دستے اور بعد میں دارالضرب ( ٹکسال) کا نگران بھی بنا دیا گیا۔ اس نے تمام فرائض بہ احسن و خوبی انجام دیے۔ خلیفہ بھی اس کی صلاحیتوں کا معترف ہو چکا تھا اچانک اسی زمانے میں بڑے شہزادے عبد الرحمان کو سرسام ہو گیا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس کی موت کے بعد خلیفہ الحکم ثانی بھی بیمار رہنے لگا اور اس نے چھوٹے شہزادے ہشام ثانی کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔ کچھ وقت گذرا تو 976ء (366ھ) میں خلیفہ کا بھی انتقال ہو گیا۔

شہزادہ ہشام کی خلافت میں کردار[ترمیم]

خلیفہ کے انتقال کے ساتھ ہی محلاتی سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومتی مشینری کا ایک بااثر حلقہ خلیفہ الحکم ثانی کے بھائی مغیرہ کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا ان میں قصر سلطانی کے محافظ دستے کا افسر خواجہ سرا فائق اور قرطبہ کا کوتوال خواجہ سرا جوذر پیش پیش تھے۔ یہ دونوں خواجہ سرا اس قدر بااثر تھے کہ بڑے بڑے امرا ان سے ڈرتے تھے اور ان کی خوشنودی حاصل کر نے کی کوشش کیا کرتے تھے جبکہ ملکہ صبح کے علاوہ وزیر اعظم جعفر مصحفی عثمانی سپہ سالار غالب ، حاکم قرطبہ زیاد بن افلح اور محمد بن ابی عامر جیسے اہم لوگ شہزادہ ہشام کو مسند خلافت پر بٹھانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک منصوبہ بندی کے تحت وزیر اعظم جعفر مصحفی نے ابن ابی عامر کے ہاتھوں شہزاد مغیرہ کو قتل کروا دیا اور شہزادہ ہشام ثانی کی خلافت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس وقت ہشام کی عمر صرف11 برس تھی۔

شریک وزیر اعظم[ترمیم]

خلیفہ الحکم ثانی کے انتقال اور نو عمر خلیفہ کے بر سر اقتدار آتے ہی چند روز بعد شمالی سرحد کے عیسائی باجگذار حکمرانوں نے نہ صرف خراج دینے سے انکار کر دیا بلکہ اسلامی علاقے میں گھس کر لوٹ مار بھی شروع کر دی۔ ان حالات میں وزیر اعظم مصحفی بھی کوئی خاص کارنامہ انجام نہ دے سکا چنانچہ ملکہ صبح کے حکم اور اشارے پر خلیفہ ہشام ثانی نے محمد ابن ابی عامر کو وزیر اعظم کے کاموں میں شریک مقرر کر دیا۔ جعفر مصحفی پہلے ہی محمد ابن ابی عامر کے اس قدر تیزی سے ترقی کرنے سے خائف تھا۔ اب جو اسے ”شریک وزیر اعظم“ مقرر کر دیا گیا تو وہ باقاعدہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ چنانچہ اسے اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے اس نے ایک فوج دے کر اسے عیسائیوں سے مقابلے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے خیال میں محمد بن ابی عامر کو جنگ و جدل کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس لیے یہ یاتو وہاں عیسائیوں کے ہاتھوں مارا جاتا یا پھر ناکام واپس لوٹتا یہ دونوں امکانات جعفر مصحفی کے حق میں ہوتے۔

ابن ابی عامر نے جعفر مصحفی کا یہ چیلنج قبول کیا اور فوج لے کرشمالی سرحدوں کو روانہ ہو گیا۔ قدرت اس پر مہربان تھی، وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا کامیابیاں اور کامرانیاں اس کی منتظر ہوتیں یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے عیسائیوں کو عبرتناک شکستیں دیں۔ نہ صرف ان سے خراج لیا بلکہ انھیں اطاعت پر بھی مجبور کر دیا اوروہاں سے ڈھیروں مال غنیمت سمیٹ کرواپس لوٹا۔ واپسی پر اہل قرطبہ نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ یوں دربار میں اس کااثر و رسوخ مزید بڑھ گیا۔ ابن ابی عامرنے سپہ سالار غالب کو اپنا ہمنوا وہم خیال بناکر جعفر مصحفی کوو زارت سے معزول کروادیا۔ یہاں تک کہ اس کو کرپشن کے الزام میں قیدکردیاگیا اور وہ اسی حالت میں مرا ۔ غالب اُندلسی فوج کا سپہ سالار اعلیٰ تھا۔ ابن ابی عامر نے اس سے بہترین دوستی استوار کرلی۔ یہاں تک کہ غالب نے اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا۔ جعفر کی معزولی کے بعد خلیفہ نے اسے مکمل وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اب غالب سے رشتہ داری کے بعد اسے اس طرف سے بھی کوئی خطرہ نہ تھا لیکن چونکہ اس میں اولوالعزمی حد سے زیادہ تھی اور وہ ایک مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے اندلس پر حکومت کرناچاہتاتھا چنانچہ اس نے غالب کی فوج کے متوازی ایک نئی فوج تیار کرنا شروع کردی۔ جلد ہی اس نے پرانی فوج کا ایک حصہ موقوف کر دیا، باقی کو غیر اہم کاموں میں مصروف کرکے غالب کی قوت کو کمزور کر دیا‘ پھر اس نے جلد ہی نئی فوج کی تعداد بڑھا کر اسے بہت زیادہ مضبوط کر لیا۔

انہی دنوں ابن ابی عامر کو ایک عیسائی ریاست جلیقیہ (گالیسیا (ہسپانیہ)) پر حملہ کرنا پڑا۔ اہل جلیقیہ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر بالآخر شکست کھائی۔ ابن ابی عامر بہت سا مال غنیمت سمیٹ کر واپس لوٹا۔ ابھی وہ قرطبہ پہنچاہی تھاکہ اسی رات اسے اطلاع مل گئی کہ ”لیونمملکت لیون کے حکمران رومیر نے جلیقیہ کا بدلہ لینے کے لیے اس پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی عامر نے فوراً شہر بھر میں منادی کرادی کہ صبح ” رومیر“ کی سرکوبی کے لیے پھر کوچ ہوگا۔

اس معرکہ میں غالب بھی اس کے ساتھ تھا وہ چونکہ ابن ابی عامر کے اقدامات سے خوش نہیں تھا اور اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا تھا اس لیے محاذ جنگ پر اس کی ابن ابی عامر سے کسی بات پر تلخی ہو گئی اور اس نے اس پر حملہ کر دیا۔اس اچانک حملہ کے لیے ابن ابی عامر تیار نہیں تھا اس لیے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ ابن ابی عامر کے سپاہیوں نے اسے گرفتار کرنا چاہا مگر وہ فرارہونے میں کامیاب ہو گیا اور ساتھیوں سمیت عیسائی بادشاہ رومیر سے جاکر مل گیا۔ ابن ابی عامر کی فوج نے غالب اور رومیر دونوں کامقابلہ کیا۔ غالب اس معرکہ میں ماراگیا۔ ابن ابی عامر چونکہ غالب کے اچانک حملہ سے شدیدزخمی ہو گیا تھا اس لیے اسے لیون فتح کیے بغیرواپس لوٹنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ بہت سا مال غنیمت اور تقریباً10ہزار عیسائیوں کو قیدی بنا کر واپس قرطبہ پہنچا۔

اب ابن ابی عامر کے راستے کے تمام کانٹے صاف ہو چکے تھے۔ اس نے ملکہ صبح کے اقتدار کو امور سلطنت سے بالکل خارج کر دیا تھااور خلیفہ ہشام کو ”نظر بند“ کر کے قصر خلافت میں ہی گوشہ نشیں کردیاتھا۔ اس کے لیے محل کے اندر عیش و عشرت اور لہو ولعب کے تمام لوازمات فراہم کر دیے گئے تھے اور وہ اپنی اسی حالت پر مطمئن اور خوش تھا ۔ بغیر ابن ابی عامر کی اجازت سے کوئی اس سے مل بھی نہیں سکتا تھا ۔ اس کے بعد ابن ابی عامر نے ہر طرف سے مضبوط اور محفوظ ہوکر فوجی اصلاح و تربیت کی طرف توجہ دی اور عیسائیوں کے خلاف جہاد میں مصروف ہو گیا۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے لیے ”المنصور“ کا لقب اختیار کر لیا اور وہ جلد ہی نہ صرف ”المنصور “ بلکہ ” منصورِ اعظم“ کے نام سے جانا جانے لگا۔ جمعہ کے خطبہ میں خلیفہ کے نام کے ساتھ ساتھ المنصور کا نام بھی پڑھا جانے لگا۔ یورپ میں ”المنصور “ کو” المنظور“ محمد بن ابی عامر المنصور  کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔

محمد بن ابی عامر المنصور نے اپنے26سالہ دورِ حکومت میں عیسائیوں کے خلاف 52جہاد کیے اوران میں سے اسے کسی ایک میں بھی شکست کاسامنانہیں کرناپڑا۔ وہ تمام معرکوں میںہمیشہ ظفر یاب رہا۔ اس نے لیون(لیون، ہسپانیہ) اوراس کے اردگرد کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو خلافت قرطبہ کا براہ راست صوبہ بنالیا۔ بارسلونا(BARCELONA)قسطلہ(مملکت قشتالہ) اورنوار (مملکت ناوار)کو اپنا باجگذار بنالیا۔کئی ریاستوں کو ممالک محروسہ میں شامل کرکے باقیوں کو ایسی سزائیں دیں کہ عیسائی حکمران اس کے نام سے لرزنے لگے اور نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ خود عیسائی سرداروں نے اس کی فوج میں شریک ہو کر بہت سی عیسائی ریاستوں کو پامال کیا اور خودعیسائیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گرجوں کو ڈھانے اور مسمار کرنے پر آمادگی ظاہر کی مگر منصور نے انھیں معبدوں کی بے حرمتی اورتباہی سے روک دیا۔

ایک مرتبہ غر سیہ والی ریاست لشکبنس کے پاس منصور اعظم کا کوئی ایلچی گیا۔ غرسیہ نے اس کا شاندار استقبال کیا اور اسے اپنے پورے ملک کی سیر کرائی۔ اس دوران میں ایلچی کو معلوم ہوا کہ یہاں ایک گرجا میں ایک مسلمان عورت قید ہے جس کو راہبوں نے اپنا قیدی بنا رکھاہے۔ ایلچی نے واپس آکر منصور کو سارے حالات سنائے اوراس قیدی عورت کا بھی تذکرہ کیا۔ چنانچہ منصور اسی وقت فوج لے کر ریاست لشکبنس پر حملہ آور ہوا۔ وہ جب ریاستی حدود کے قریب پہنچا تو غرسیہ عاجزانہ خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ”جناب میں کسی گستاخی کامرتکب تو نہیں ہوا، پھرآپ نے میرے ملک پر حملہ کیوں کر دیا؟ “ منصور نے جواب دیا ” تو نے وعدہ کیا تھاکہ اپنے ملک میں کسی مسلمان کو قید نہ رکھے گا، پھر تمھارے فلاں گرجے میں ایک مسلمان عورت کو قید کیوں رکھا گیاہے؟“ غرسیہ نے فوراً عورت کو منصور کے حوالے کیا اور ساتھ ہی اس گرجے کو بھی مسمار کر ڈالا جس میں وہ عورت قید تھی۔

24جمادی الآخر387 ھ( 2 جولائی997ئ) کو منصور نے قرطبہ سے شہر قوریہ کی جانب کوچ کیا۔ قوریہ کو فتح کرکے جلیقیہ میں داخل ہوا۔ یہاں بھی تمام سرداروں نے اس کی اطاعت کی پھراس نے سمندر کے کنارے تمام علاقے کے سرکش لوگوں کو سزائیں دے کر ان قلعوں کو بھی مسمار کر دیا جہاں سے اس کے خلاف بغاوتیں ہوتی رہیں۔ یوں وہ ساحل فرانس کے تمام شہروں کو فتح کرتا ہوا واپس لوٹا۔ یہ منصور اعظم کا عیسائیوں کے خلاف48واں جہاد تھا۔

علامہ قرطبی نے اپنی مشہور کتاب تاریخ قرطبی میں ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ اندلس کے حکمرانوں میں سے کوئی ابن ابی عامر المنصور جیسا نہیں گذرا۔اس نے50 سے زائد جنگیں لڑیں اورانہی جنگوں میں اس کی وہ مشہور لڑائی بھی شامل ہے جو رومیوں کے خلاف لڑی گئی۔ اس میں مسلمانوں کو دو پہاڑوں کے درمیان میں ایک ایسی تنگ جگہ سے گذرنا تھا جہاں سے ایک وقت میں صرف گھڑ سوار مشکل سے گذر سکتا تھا

چنانچہ رومیوں نے بے شمار فوج لا کر اس تنگ درے کوبند کر دیا۔ منصور کو صورت حال کا علم ہوا تو اس نے وہاں سے خیمے اکھڑ وائے اورمضبوط عمارتیں بنانے کا حکم دیا اور چاروں طرف اپنے گورنروں کو احکامات جاری کر دیے کہ میں نے استخار ے کے بعد یہاں قیام کا فیصلہ کرلیاہے۔ چنانچہ یہاں ایک شہر آباد کررہا ہوں تم لوگ مزدوروں اور کاریگروں کو جلد یہاں بھجوا دو۔ رومیوں نے جب یہ منظردیکھا تو صلح کے لیے جھک گئے۔ منصور نے کہا کہ ”میں تم سے اسی وقت صلح کروں گا جب تم اپنے بادشاہ کی بیٹی میرے نکاح میں دو گے“۔ رومیوں نے جواب دیا کہ ” ایسی ذلت کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے “۔ چنانچہ انھوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے لڑائی کا ارادہ کر لیا۔ دوسری طرف منصور کے پاس20ہزار شہسوار تھے۔ دونوں لشکروں کا خوفناک مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ منصور اپنے بیٹے اور چند مجاہدین کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ میرا خیمہ کسی بلند جگہ پر نصب کیا جائے چنانچہ ایساہی کیا گیا۔ مسلمانوں نے انپے امیر کا خیمہ دیکھاتو دوبار ہ اکٹھے ہو گئے اور پھر ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ رومیوں کو عبرتناک شکست ہوئی۔ ان کے بہت سارے آدمی مارے گئے‘بہت سے گرفتار کر لیے گئے۔ رومیوں نے پھرصلح کی درخواست کی۔ منصور نے اپنی پرانی شرط دہرائی اور ساتھ بہت سے مال و دولت کا بھی مطالبہ کیا۔ رومی راضی ہو گئے اور روم کے معززین نے وہ مال اور لڑکی منصورتک پہنچائی۔ لڑکی کوالوداع کرنے والے رومیوں نے لڑکی سے کہا کہ ” اب تم اپنی قوم کی فلاح کے لیے کچھ کرنا “ تو اس لڑکی نے جواب دیا کہ ”عزت عورتوں کے جسم سے نہیں مردوں کے نیزوں سے حاصل کی جاتی ہے“۔

جب منصور فتح مند ہوکر واپس اپنے شہر پہنچا تو ایک عورت نے کہا ” آپ اور دوسرے لوگ خوشیاں منا رہے ہےں جبکہ میں رو رہی ہوں کیونکہ میرا بیٹا تو رومیوں کی قید میں ہے“۔ منصور نے اسی وقت لشکر کوواپسی کا حکم دیا اور جب وہ دوبارہ شہر میں واپس آئے تو ان کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔

8 اکتوبر1002ء(392ھ) میں26 سال کی حکومت کے بعد قسطلہ کے آخری جہاد سے واپسی پر مدینہ سالم (MEDINCELI) کے مقام پر منظور اعظم کا انتقال ہو گیا۔ اس کی زندگی بھر یہ روٹین رہی کہ وہ جب بھی کسی جہاد سے واپس آتا تو اپنے جسم اور لباس پر پڑی گرد کو بڑی احتیاط سے ایک جگہ پر جھاڑ کر اسے ایک برتن میں محفوظ کرلیتا اوریہ برتن ہر جہاد میں اس کے ساتھ ہوتاتھا۔ چنانچہ اپنی تمام عمر کے جہادوں کی جمع شدہ خاک کو اپنی عمر کے آخری وقت میں اپنے بیٹے عبد المالک کے حوالے کیا اور اسے وصیت کی کہ ”مجھے قبر میں دفن کرنے کے بعد یہ خاک میرے بدن پر چھڑک دینا “ چنانچہ ایساہی کیا گیا ۔

المنصور کی وفات کے بعد خلیفہ ہشام (ثانی) نے اس کی جگہ اس کے بیٹے عبد المالک کو حاحب یعنی وزیر اعظم مقرر کر دیا مگراس حکومت کو پھر کبھی وہ عروج دیکھنا نصیب نہ ہو سکا جو منصور اعظم کے عہد میں تھا۔

ابن ابی عامر المنصور نہ صرف ایک مدبر سیاست دان ، اعلیٰ درجے کا عسکری کمانڈر اور جذبہ جہاد سے سرشار مجاہد تھا بلکہ وہ ایک بے مثال قاضی اور عادل حکمران بھی تھا۔ یوں تو اس نے اپنے دورِ حکومت میں بے شمار تاریخی عدالتی فیصلے کیے مگران میں سے ایک مقدمہ نہایت دلچسپ اورمنفرد اہمیت کا حامل ہے جس کی روداد کچھ یوں ہے کہ عدن کا ایک تاجر تجارت کی غرض سے قرطبہ آیا ہوا تھا۔گرمیوں کے دن تھے اس کا گذر دریائے کبیر کے پاس سے ہوا تو اس کا نہانے کو جی چاہا چنانچہ اس نے اپنے کپڑے اتارے اور اپنی اندرونی جیب سے سرخ رنگ کی ایک تھیلی نکالی اور وہ بھی کپڑوں کے ساتھ رکھ دی اور خود دریا میں نہانے لگ گیا۔ اچانک اوپر اڑتے ایک باز کی نظر اس کی سرخ رنگ کی تھیلی پر پڑی، وہ اس پر جھپٹا اور اپنے پنجوں کے ساتھ تھیلی اٹھا کر پھر فضا میں بلند ہوا اور ایک جانب کواڑ گیا۔ تاجرنے دیکھا تو اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔ وہ باہر نکلا اور باز کے پیچھے بھاگا مگر وہ دور جا چکا تھا اور پھر اڑتے ہوئے باز کو پکڑنا ویسے بھی ممکن نہ تھا۔ چنانچہ اس کی آہ وزاری اورشور سن کرلوگ اکٹھے ہو گئے تو وہ رونے لگا کہ میں پردیسی آدمی ہو ں‘ اپنے وطن سے یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا۔ باز میری ساری جمع پونجی لے کر اڑ گیا ہے، اب میں کیا کروں؟ لوگوں نے اس سے افسوس اور ہمدردی کااظہار کیا اور کہا کہ تو اپنا مقدمہ منصور اعظم کی عدالت میں لے جا۔ تاجر بولا میری تھیلی تو باز لے گیا ہے، معلوم نہیں وہ کہاں گیاہوگا۔ منصور اس سلسلہ میں بھلا میرا فیصلہ کیا کرے گا۔ لوگوں نے کہا نہیں تواپنا فیصلہ اسی کے پاس لے جا ، وہ نہ صرف ایک عادل حکمران ہے قدرت نے اسے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ ضرور اس مقدمہ کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا۔ چنانچہ تاجر منصور کے محل پہنچ گیا۔ منصور اس وقت وہیں اپنے قصر میں عدالت لگائے بیٹھا تھا۔ کچھ کیسز اور بھی تھے مگر تاجر کو ایک اجنبی اور پردیسی سمجھ کر فوراً سنا گیا۔ اس کا کیس بڑا عجیب تھا۔ منصور پریشان ہو گیا کہ اس کا کیا فیصلہ کرے؟ منصور نے تاجر سے پوچھا کہ باز کس سمت کو اڑ کر گیا تھا؟ تاجرنے بتادیا۔ چنانچہ منصور نے کافی غور وخوض کے بعد کہا کہ تاجر کے مقدمہ کا فیصلہ ایک ہفتہ کے بعد سنایا جائے گا۔ اس دوران میں وہ شاہی مہمان ہوگا۔ چنانچہ تاجر کوشاہی مہمان خانے پہنچادیاگیا۔ اس دوران منصو ر نے عامل شہر کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ پورے شہر کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ کون سا ایسا شخص ہے جو راتوں رات اچانک دولت مند ہو گیا ہو اور اس کے رہن سہن میں نمایاں تبدیلی آگئی ہو۔ عامل شہر نے جاسوسوں اوردیگر ذرائع کی مدد سے پورے شہر کی نگرانی شروع کردی۔ بالآخر چند روز میں مسئلہ حل ہو گیا۔اس شہر کے جنوبی حصے میں ایک باغبان تھا جس کے رہن سہن میں اچانک بڑی تبدیلی آگئی تھی اوراس کے طوراطوار بدل گئے تھے۔ عامل شہر نے اس کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش کی گئی تو تصدیق ہو گئی کہ تاجر کی تھیلی اسی باغبان کے پاس ہے۔ ایک ہفتہ بعد عدالت دوبارہ لگی تو باغبان اورتاجر دونوں کوعدالت میں پیش کردیاگیا۔ تھیلی برآمد ہو گئی۔ منصور نے تاجر سے پوچھا ” کیا یہ تمھاری تھیلی ہے اس کو شناخت کر“ تاجر نے اقرار کیا کہ یہ اسی کی تھیلی ہے۔ منصور نے کہا کہ اس میں سے اپنا مال بھی چیک کر“۔ تاجر نے تھیلی میں سے اپنے زر وجواہر چیک کیے تو اس میں سے 10دینار کا سونا کم نکلا۔ منصور نے باغبان سے پوچھا ”بتا تجھے یہ تھیلی کہاں سے ملی؟“ باغبان بولا ” جناب میں ایک باغ کا مالی ہوں اوراس کی نگرانی کرتاہوں۔ ایک روز میں باغ میں بیٹھا ہواتھا کہ ایک بازا سی باغ کے ایک درخت پر آکر بیٹھ گیا میں نے دیکھاکہ اس کے پنجوں میں کوئی سرخ رنگ کی شے ہے۔ میں نے دیکھا کہ درخت پر بیٹھنے سے اُس شے پر بازکے پنجوں کی گرفت کچھ کمزور ہوتی ہے تو میں نے زمین پر سے ایک کنکر اٹھاکر باز کی طرف اچھال دیا۔ باز ڈر کر اڑا تو یہ تھیلی اس کے پنجوں سے آزاد ہوکر زمین پر گر گئی۔ میں نے اٹھالی ، دیکھاتو اس میں بہت سے زر و جواہر تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ قدرت نے مجھ غریب آدمی کی غیبی مدد کی ہے چنانچہ میں اسے اپنے استعمال میں لے آیا۔

منصور نے اسے جھڑک دیا اور کہا کہ ”تونے بددیانتی کی ہے اصولی طور پر تجھے یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانی چاہیے تھے۔ چنانچہ تم اسے میرے پاس لے کر آتے۔ اب جو سونااس میں سے کم ہے اس کی کمی پوری کر“۔ باغبان منصور کے غصے سے خوفزدہ ہو کر کانپنے لگا۔ اس دوران میں تاجر نے مداخلت کی اور بولا ” جناب ! میں اسے 10 دینارکا سونا معاف کرتا ہوں میری باقی جمع پونجی ہی مجھے دے دی جائے“۔ منصور نے تاجر کو بھی ڈانٹ دیا اور کہا کہ ” یہ مقدمہ اب عدالت میں ہے تو اسے اپنی مرضی سے معاف نہیں کرسکتا “ وہ خاموش ہو گیا۔ اب باغبان کا براحال تھا وہ رونے لگا ” جناب میں غریب آدمی ہوں۔ رقم خرچ کر چکا ہوں، اس کا واپس لوٹانا میرے لیے ممکن نہیں ۔ چنانچہ مجھے معاف کردیاجائے “۔ منصور نے اس پر رحم کھا کر نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اسے سرکاری خزانے سے مزید10 دینار عطا کر دیے اور کہاکہ یہ لے جا تیری غربت کا آسرا ہوں گے اور آئندہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا “۔ دوسری طرف منصور نے تاجر کی رقم بھی سرکاری خزانے سے پوری کردی اور اسے نصیحت کی کہ آئندہ ایسی بے احتیاطی نہ کرنا۔ وہ دونوں منصور کا شکریہ ادا کرتے عدالت سے باہر آگئے اورمنصور نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس مشکل مقدمہ کا فیصلہ کرنے میں اس کی مدد کی۔

المنصور اندلس میں خلافت نبوامیہ کاایک عظیم سپہ سالار تھا اس کی یاد گار کے طور پر وسطی سپین میں ایک پہاڑی سلسلے کی سب سے بلند چوٹی(PICO ALMANZOOR)کو اس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سپین میں متعدد جگہوں پر اس کے مجسمے نصب ہیں جو آج بھی دسویں صدی کے اس نامورمسلم جرنیل کی بہادری اور شاندار کارناموں کی یاد دلاتے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Manṣūr — شائع شدہ از: دائرۃ المعارف بریطانیکا 1911ء — اقتباس: Mansūr died at Medinaceli on the 10th of August 1002, and was succeeded by his son Mozaffar.
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20221164965 — اخذ شدہ بتاریخ: 20 دسمبر 2022
  3. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14472794f — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ