پرنب مکھرجی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پرنب مکھرجی
(بنگالی میں: প্রণব মুখোপাধ্যায় ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل=
تفصیل=

13ویں بھارتی صدر
آغاز منصب
25 جولائی 2012
وزیر اعظم منموہن سنگھ
نائب صدر محمد حامد انصاری
پرتیبھا پاٹل
رام ناتھ کووند
وزیرِ مالیات
مدت منصب
24 جنوری 2009 – 26 جون 2012
وزیر اعظم منموہن سِنگھ
منموہن سِنگھ
منموہن سِنگھ
مدت منصب
15 جنوری 1982 – 31 دسمبر 1984
وزیر اعظم اِندِرا گاندھی
راجیو گاندھی
آر وینکٹارمن
وی پی سنگھ
وزیرِ امورِ خارجہ
مدت منصب
10 فروری 1995 – 16 مئی 1996
وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ
دنیش سنگھ
اٹل بہاری واجپائی
وزیرِ دفاع
مدت منصب
22 مئی 2004 – 26 اکتوبر 2006
وزیر اعظم منموہن سِنگھ
جارج فرنینڈس
اے کے انٹونی
منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدر
مدت منصب
24 جون 1991 – 15 مئی 1996
وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ
موہن دھاریا
مدھو دنڈاوتے
معلومات شخصیت
پیدائش 11 دسمبر 1935ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 اگست 2020ء (85 سال)[3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نئی دہلی [5]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات کووڈ-19 [6]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت [6]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (1947–2020)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب ہندو مت
جماعت انڈین نیشنل کانگریس   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ انجماد خون [7]  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ سویرا مکھرجی (1957–2015)[8]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد شرمستھا، ابھیجیت مکھرجی، اندراجیت
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کلکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان ،  آپ بیتی نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ ،  انگریزی ،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ کلکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Awards پدم وبھوشن (2008)
اعزازات
 پدم وبھوشن   (2008)
بانگا بیبھوشن (1997)
نمایاں ماہرِ پارلیمانی امور اعزاز (1997)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پرنب مکھرجی (ولادت: 11 دسمبر 1935ء - وفات: 31 اگست 2020ء)[10][11][12][13] بھارت کے سابق سیاست داں تھے جو 2012ء تا 2017ء صدر بھارت کے عہدہ پر رہے۔ 5 دہائیوں سے زیادہ کی مدت پر مشتمل اپنے سیاسی زندگی میں وہ انڈین نیشنل کانگریس کے تاحیات رکن رہے اور جماعت اور حکومت ہند میں کئی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ 2009ء تا 2012ء مرکزی وزیر خزانہ رہے اور 2019ء میں موجودہ صدر بھارت رام ناتھ کووند کے ہاتھوں انھیں بھارت رتن سے نوازا کیا۔ ان کی پیدائش مغربی بنگال کے ویربھوم ضلع میں کرناہر شہر کے قریب واقع مراتی گاﺅں کے ایک برہمن خاندان میں کامدا کنکر مکھرجی اور راج لکشمی مکھرجی کے یہاں ہوا تھا۔ ان کے والد 1920ء میں کانگریس پارٹی میں سرگرم ہونے کے ساتھ مغربی بنگال اسمبلی میں 1952ء سے 1964ء تک رکن اور ویربھوم (مغربی بنگال) ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر رہ چکے تھے۔ ان کے والد ایک معزز آزادی سینانی تھے، جنھوں نے برطانوی اقتدار کی خلافت کے نتیجے میں 10 سال سے زیادہ جیل کی سزا بھی کاٹی تھی۔

پرنب مکھرجی نے ویربھوم کے سوری ودیاساگر کالج میں تعلیم پائی، جو اس وقت کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک تھا۔

ذاتی زندگی[ترمیم]

13 جولائی 1957ء میں سروا مکھرجی سے ان کی شادی ہوئی اور ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ پڑھنا، باغبانی اور موسیقی ان کے شوق ہیں۔ مکھرجی کہتے ہیں”بنگال کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں دیپک کی روشنی سے دہلی کی جگمگاتی روشنی تک کے اس دورے کے دوران میں نے بڑے اور کچھ حد تک ناقابل اعتماد تبدیلیاں دیکھی ہیں“۔

ملک کے 13 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اپنی تقریر میں پرنب مکھرجی نے کہا کہ اس وقت میں بچہ تھا، جب بنگال میں قحط نے لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ وہ درد اور دکھ میں بھولا نہیں ہوں۔

اسکول جانے کے لیے اکثر دریا تیر کر پار کرنے والے پرنب نے زمین سے اٹھ کر کئی مقام حاصل کیے اور آج بالآخر ملک کے سپریم شہری بن گئے۔ وہ بھارت اور بھارتی کے تانے بانے کو پوری مستعدی اور منطق سے سمجھنے کے قابل رہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں انھیں نقص گیر کہا جاتا تھا۔ سربراہ اور جماعتوں کی سرحد کے پار اپنی منظوری کے لیے وہ مشہور رہے۔ کچھ وقت کے لیے پرنب نے وکالت بھی کی اور اس کے ساتھ ہی صحافت اور تعلیم کے علاقے میں بھی کچھ وقت گذرا۔ اس کے بعد ان کا سیاسی سفر شروع ہوا۔

سیاست میں ابتدائی قدم[ترمیم]

وہ پہلی بار 1969 میں راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ ایک بار راجیہ سبھا کی طرف گئے تو کئی سالوں تک عوام کے درمیان میں جا کر الیکشن نہیں لڑا۔ سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال بعد انھوں نے لوک سبھا کا رخ کیا۔ 2004 میں وہ پہلی بار مغربی بنگال کے جنگی پور پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوئے۔ 2009 میں وہ لوک سبھا پہنچے۔

وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے 1991ء میں انھیں وزیر خارجہ بنانے کے ساتھ ہی منصوبہ بندی کمیشن کا نائب صدر کا عہدہ دیا۔ منموہن کی حکومت میں وہ وزیر دفاع وزیر خارجہ وزیر خزانہ کے عہدوں پر رہے۔

پرنب وزیر اعظم بننے سے کئی بار چوکے، لیکن اس اہم عہدے پر نہ ہوتے ہوئے بھی بحران کے وقت تمام لوگ ان کی طرف ہی دیکھتے تھے۔

اسی(80) کی دہائی میں وزیر اعظم کے عہدے کی حسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کانگریس سے الگ ہو کر نئی پارٹی بنائی۔ بعد میں وہ پھر سے کانگریس میں آئے اور سیاسی بلندیوں کو چھوتے چلے گئے۔

معیشت سے لے کر خارجہ امور پر گہری پکڑ رکھنے والے پرنب بابو نے حکومت میں رہتے ہوئے کمرتوڑ محنت کی اور آج بھی وہ دیر رات تک اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔

پرنب سیاست کی ہر کروٹ کو بخوبی سمجھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ان کی پارٹی اور موجودہ یو پی اے حکومت پر مصیبت آئی تو وہ سب سے آگے نظر آئے۔ کئی بار تو ایسا لگا کہ حکومت کی ہر مرض کی دوا پرنب بابو ہی ہیں۔

گذشتہ 26 جون کو وزیر خزانہ کے عہدے سے پرنب کے استعفی دینے کے فورا بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انھیں خط لکھ کر حکومت میں ان کی خدمات کے لیے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ ان کی کمی حکومت میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ حکومت کے وزراء نے بھی ان کی کمی محسوس کی بات کہی۔

سیاست کے ایوانوں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے بعد پرنب اب ملک کے سب سے اوپر آئینی عہدے پر مقرر ہیں۔ ظاہر ہے حکومت اور سیاست میں ان کے 45 سال کے تجربے کا کوئی سانی نہیں ہے۔ بھلے ہی وہ ایک قائم وکیل نہ رہے ہوں لیکن آئین، معیشت اور غیر ملکی تعلقات کی اپنی سمجھ اور پکڑ کا لوہا انھوں نے بار بار منوایا۔

صدارتی محل ملک کا سب سے اہم پتہ ہے جو بھارت کے پہلے شہری کے نام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ملک کے جس عالیشان عمارت میں رہنے کا اعزاز پہلے شہری کو ملتا ہے اس کی شوقت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چار منزلہ اس عمارت میں 340 کمرے ہیں اور تمام کمروں کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں کیا جا رہا ہے۔

تقریباً دو لاکھ مربع فٹ میں بنا صدارتی محل آزادی سے پہلے برطانوی وائسرائے کا سرکاری رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔ تقریباً 70 کروڑ اینٹوں اور 30 لاکھ گھن فٹ پتھر سے بنے اس عمارت کی تعمیر میں اس وقت ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔

پرنب مکھرجی کی بڑی بہن انپورنا دیوی بینرجی نے کہا، میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میں بتا نہیں سکتی کہ آج میں کتنی خوش ہوں۔ میں آج بہت، بہت خوش ہوں۔ میں اسے بیان نہیں کر سکتی۔ ابھی میرے دماغ میں کئی پرانی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ میں اب ان کے یہاں آنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ ا نپورنا دیوی نے کہا کہ مجھے پرانے دن یاد آ رہے ہیں انھوں نے کچھ سال پہلے کے اس دن کو یاد کیا جب ان کے بھائی پرنب ایک رکن پارلیمان تھے اور وہ دونوں دہلی میں بنگلے کے برآمدے میں ساتھ بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ وہاں سے صدر میں گھوڑے کا استبل دکھ رہا تھا تبھی گھوڑوں کی جانب دیکھتے ہوئے پرنب نے کہا تھا، ان گھوڑوں کی کتنی موج ہے، انھیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا اور ان کی خدمت بھی ہوتی رہتی ہے۔ کاش میں بھی اگلے جنم میں ان میں سے ایک بنوں۔

تب میں نے ان سے کہا کہ صدر کے استبل میں ایک گھوڑا کیوں … آپ ایک دن ملک کے صدر بنیں گے۔ آج یہ سچ ہو گیا۔

سیاسی کریئر[ترمیم]

ان کا پارلیمانی کیریئر تقریباً پانچ دہائیوں پرانا ہے، جو 1969 میں کانگریس پارٹی کے راجیہ سبھا رکن کے طور پر شروع ہوا اور وہ 1975، 1981، 1993 اور 1999 میں پھر سے منتخب ہوئے۔ 1973 میں وہ صنعتی ترقی محکمہ کے مرکزی نائب وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہوئے۔ وہ سن 1982 سے 1984 تک کئی کابینہ عہدوں کے لیے منتخب کیے جاتے رہے اور اور سن 1984 میں بھارت کے وزیر خزانہ بنے۔ سن 1984 میں انھوں نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے منسلک گروپ 24 کے اجلاس کی صدارت کی۔ مئی اور نومبر 1995 کے درمیان میں انھوں نے سارک وزیر کونسل کانفرنس کی صدارت کی۔24 اکتوبر 2006 کو انھیں بھارت کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ منموہن سنگھ کی دوسری حکومت میں انھوں بھارت کے وزیر خزانہ بنے، جس عہدہ پر وہ پہلے 1980 کی دہائی میں کام کر چکے تھے۔ 6 جولائی، 2009 کو انھوں نے حکومت کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں انھوں نے فرنج بینیفٹ ٹیکس اور کموڈٹیز ٹرانسکشن کر کو ہٹانے سمیت کئی طرح کے ٹیکس اصلاحات کا اعلان کیا۔ سن 1980–1985 کے دوران میں وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں انھوں نے مرکزی کابینہ کی میٹنگوں کی صدارت کی۔

عزت اور امتیاز[ترمیم]

نیو یارک سے شائع میگزین، یورومنی کے ایک سروے کے مطابق، انھیں سال 1984 کے لیے دنیا کے بہترین پانچ وزراء خزانہ میں سے ایک قرار دیا گیا۔ انھیں سن 1997 میں سب سے بہترین ممبر پارلیمنٹ کا ایوارڈ ملا۔

2008ء میں انھیں عوامی معاملات میں ان کی خدمات کے لیے پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

وفات[ترمیم]

10 اگست 2010ء کو کورونا وائرس کی عالمی وبا، 2019ء - 2020ء کے دوران میں انھوں نے اپنے ٹویٹر کھاتہ سے اعلان کیا کہ وہ کورونا وائرس کا مرض 2019ء سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان کے دماغ میں خون کا جماو ہو گیا جس کی سرجری ہوئی۔ غسل خانہ میں پھسل کر گرنے کے بعد انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔[14][15] آرمی ریسرچ اینڈ ریفرل دہلی میں انھیں بھررتی کرایا جہاں تا وفات ان کا علاج کیا گیا۔ انھیں پھیپھڑا اور گردہ میں تکلیف ہوئی اور انھیں متنفسہ پر رکھا گیا۔[16] 31 اگست 2020ء ان کے لڑکے ابھیجیت مکھرجی نے ان کی وفات کا اعلان کیا۔[17][18]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mukherjee-pranab — بنام: Pranab Mukherjee
  2. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000016636 — بنام: Pranab Kumar Mukherjee — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. https://timesofindia.indiatimes.com/india/breaking-news-live-former-president-pranab-mukherjee-passes-away/liveblog/77846091.cms
  4. https://www.setn.com/News.aspx?NewsID=820357 — اخذ شدہ بتاریخ: 12 اکتوبر 2020
  5. https://www.nytimes.com/2020/08/31/world/asia/pranab-mukherjee-dead.html
  6. ^ ا ب https://www.cna.com.tw/news/firstnews/202009240334.aspx — اخذ شدہ بتاریخ: 12 اکتوبر 2020
  7. Deccan Chronicle — اخذ شدہ بتاریخ: 12 اگست 2020
  8. https://economictimes.indiatimes.com/news/politics-and-nation/pranab-mukherjee-the-president-who-could-never-be-prime-minister/articleshow/77853662.cms
  9. "آرکائیو کاپی"۔ 04 ستمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2012 
  10. Manas Joshi (31 اگست 2020)۔ "Pranab Mukherjee, former President of India, dies at 84"۔ www.indiatvnews.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2020 
  11. "From an election campaign manager to the President of India 's political journey"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 31 اگست 2020۔ 31 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2020 
  12. "Pranab Mukherjee Biography – About family, political life, awards won, history"۔ Elections in India۔ 26 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2020 
  13. "Pranab Mukherjee | Biography & Facts"۔ Encyclopedia Britannica (بزبان انگریزی)۔ 26 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2020 
  14. Abantika Ghosh (10 اگست 2020)۔ "Former President Pranab Mukherjee critical after brain surgery to remove clot"۔ ThePrint۔ 31 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2020 
  15. "Pranab Mukherjee's health remains critical, still on ventilator support"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ 12 اگست 2020۔ 31 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2020 
  16. "Pranab Mukherjee in critical condition, says hospital"۔ Deccan Chronicle (بزبان انگریزی)۔ 11 اگست 2020۔ 31 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2020 
  17. "BREAKING: Former President Pranab Mukherjee passes away"۔ DNA India (بزبان انگریزی)۔ 31 اگست 2020۔ 31 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2020 
  18. "Pranab Mukherjee, ex-president and Congress veteran, dies in Delhi hospital"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 31 اگست 2020۔ 31 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2020