پرویز ہودبھائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پرویز ہودبھائی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 11 جولا‎ئی 1950ء (74 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش اسلام آباد
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مقام_تدریس جامعہ قائداعظم
National Center for Physics
ایف سی کالج یونیورسٹی
مادر علمی میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ طبیعیات دان،  معلم،  جنگ مخالف کارکن،  جوہری طبیعیات دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل طبیعیات  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز،  جامعہ قائداعظم،  یونیورسٹی آف واشنگٹن  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر عبد السلام  ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

پرویز امیر علی ہود بھائی (پیدائش: 11 جولائی 1950ء) ایک پاکستانی نیوکلیئر طبیعیات دان، مضمون نگار اور قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ ہود بھائی نے مساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے الیکٹریکل انجینئری اور ریاضیات میں گریجویٹ کیا، اس کے بعد سولڈ سٹیٹ طبیعیات (ٹھوس حالت طبیعیات) کے موضوع میں ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کی اور پھر نیوکلئر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں جیسے ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف میری لینڈ، کارنیگ میلن یونیورسٹی وغیرہ میں عارضی پروفیسر شپ کے طور پر کام کیا۔ 2003ء میں انھیں پیوگوش کونسل میں چھ روزہ قیام کے لیے مدعو کیا گیا۔ ہودبھائی "دی بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس" کے کفیل بھی ہیں اور "پرماننٹ مانیٹرنگ پینل آن ٹیرارزم آف دی ورلڈ فیڈریشن آف سائنٹسٹس" کے ایک اہم رکن بھی۔[7]

ہودبھائی نے مختلف وقتوں میں اپنی کارکردگی کی بنا پر مختلف ایوارڈ بھی حاصل کیے مثلاََ 1968ء میں الیکٹرانکس کے لیے IEEE Baker Award اور 1984ء میں ریاضیات کے میدان میں عبد السلام ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اس کے علاوہ لوگوں میں سائنسی شعور بیدار کرنے کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے انھیں UNESCO Kalinga Prize بھی 2003ء میں دیا گیا۔ امیریکن فزیکل سوسائٹی کی جانب سے 2010ء میں the Joseph A. Burton Award عطا کیا گیا اور ٹفٹس یونیورسٹی سے The Jean Meyer Award بھی ملا۔ 2011ء میں فارن پالیسی میگزین نے انھیں دنیا کے سو متاثر کن گلوبل تھنکرز کی فہرست میں شامل کیا۔[8] 2013ء میں پرویز ہودبھائی UN Secretary General's Advisory کے ایک نہایت اہم رکن منتخب ہوئے۔[9]

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی "اسلام اور سائنس: مذہبی راسخ الاعتقادی اور معقولیت کی جنگ" [9] کے مصنف ہیں اور اس کتاب کا ترجمہ اب آٹھ زبانوں میں دستیاب ہے۔ انھوں نے ٹیلی وژن پر پاکستان میں تعلیمی نظام کے موضوع پر ایک  مکمل سیریز کا انعقاد اور میزبانی کی ہے۔ اس کے علاوہ دو دیگر سیریز بھی ٹی وی پر نشر کی گئیں جن کا تعلق سائنسی نظریات کوعام لوگوں میں روشناس کرانے سے ہے۔ ہودبھائی مشعل بکس لاہور کے سربراہ ہیں اور اس سربراہی کے دوران میں انھوں نے بے شمار اہم سائنسی  و غیر سائنسی کتب کا اردو ترجمہ کیا ہے جس میں جدید سوچ، انسانی حقوق، خواتین کا معاشرے میں کردار وغیرہ کے موضوعات زیادہ نمایاں ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

پرویز ہودبھائی کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں پرورش پائی۔ کراچی گرائمر اسکول سے  او-لیول اور اے-لیول  کے امتحانات پا س کیے۔[10] سکالرشپ کے ذریعے امریکا کی یونیورسٹی مساچوسیٹس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے مزید تعلیم حاصل کی۔[10] ایم آئی ٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں پرویز ہودبھائی ایک لوکل پاکستانی ریسٹورنٹ میں کام کرتے رہے اور وہاں سے ملنے والے معاوضے سے اپنے تعلیمی اخراجات ادا کیے۔ ایم آئی ٹی سے پرویز ہودبھائی نے 1971ء میں  دو مرتبہ گریجوئیٹ کیا۔ ایک ریاضیات میں اور دوسرا الیکٹریکل انجینئرنگ میں۔ اس کے بعد 1973ء میں سالڈ سٹیٹ فزکس میں دلچسپی کے باعث ایم ایس کی تعلیم اسی مضمون میں حاصل کی۔ گریجویٹ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پرویز ہودبھائی نے قائد اعظم یونیورسٹی بطورِ محقق جوائن کی اور اپنی نئی سکالرشپ کے تحت امریکا میں اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔[10]

ہودبھائی نے طبیعیات کے میدان میں تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور 1978ء میں ایم آئی ٹی سے نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔[10]امریکا میں ان کے تعلقات اس وقت کے ذہین اور مشہور سائنس دانوں کے ساتھ تھے۔ اسی سلسلے میں 1940ء کی دہائی میں مین ہٹن پراجیکٹ سے ان کا تعلق رہا جس میں دنیا کے بہترین سائنسدان شامل تھے۔[10] یونیورسٹی آف واشنگٹن سے تھوڑے سے عرصے کے لیے انھوں نے ڈاکٹری کے بعد کی ریسرچ کا آغاز شروع کیا۔[10] 1973 میں پرویز ہودبھائی نے لاہور میں واقع یونیورسٹی آف انجیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ طبیعیات کو جوائن کیا۔[10]

تعلیمی میدان[ترمیم]

کوانٹم فیلڈ تھیوری، پارٹیکل فینومولوجی اور سُپر سائمیٹری کے میدانوں میں پرویز ہودبھائی نے اپنے ریسرچ کیریئر کا خاصا وقت صرف کیا۔ ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری وصول کرنے کے بعد ان کی ملاقات ریاض الدین اور ڈاکٹر عبد السلام سے ہوئی۔ ڈاکٹر عبد السلام جو پاکستان کے ایک بہت مشہور اورنوبل انعام یافتہ سائنس دان ہیں، یہ دونوں افراد ایم آئی ٹی میں پارٹیکل فزکس پر لیکچرز دینے آیا کرتے تھے۔ پرویز ہودبھائی نے اسی عرصے میں اٹلی کے شہر ٹریسٹی میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹکل فزکس میں  پاکستانی طبیعیات دانوں کے ایک گروہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا ان اقدام کے باعث ان لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہو گیا جو ڈاکٹرعبدالسلام کے شاگرد تھے اور جنھوں نے 1970ء کی دہائی میں عبد السلام کے زیرِ نگرانی سائنسی کام سر انجام دیے تھے۔

اس گروہ میں شامل ہونے اور اس میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ڈاکٹر پرویز ہودبھائی پاکستان واپس آئے اور قائد اعظم یونیورسٹی میں طبیعیات پر لیکچرز دینا شروع کیے۔ کچھ عرصے بعد وہ اسی یونیورسٹی میں موجود انسٹی ٹیوٹ آف تھیوریٹکل فزکس (جسے اب ڈیپارٹمنٹ آف فزکس کہا جاتا ہے) کے سربراہ منتخب ہوئے۔ اس یونیورسٹی میں 30 سال سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد ہودبھائی لاہور آ گئے جہاں انھوں نے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر کام کیا اور ساتھ ہی سٹینفرڈ لینیئر ایکسیلیریٹر سینٹر میں وزٹنگ سائنس دان کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ لمز یونیورسٹی میں ان کے کنٹریکٹ کے تنازع کو ہوا ملی جس وقت نیوز میڈیا میں یہ خبر چلی کہ لمز یونیورسٹی کے چانسلر کی ای میل پبلک ہو چکی ہے تو ہودبھائی فورمین کرسچین کالج یونیورسٹی میں مستقل طور پر آ گئے اور سینئر سٹاف کو جوائن کر لیا اور یہیں فزکس کے بہت سے کورسز کرائے۔

جب 1976ء میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی پاکستان واپس آئے تو اس وقت پاکستان کا ایٹمی پروگرام اپنے اختتامی مراحل سے گذر رہا تھا اور پرویز ہودبھائی اس پروگرام کے اسرار و رموز سے بھی اچھی خاصی واقفیت رکھتے تھے۔ ہودبھائی کا پاکستان میں ہونے والی نیوکلیئر سوسائٹی کی تحریکوں سے خاصا گہرا تعلق تھا اور اس سلسلے میں پاکستان کے بہت سے نامور سائنس دانوں اور تھیوریٹکل ماہرینِ طبیعیات  خصوصاََ اشفاق احمد سے ملنا جلنا ان کے کیریئر میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مختلف مواقع پر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ سخت گیر تقابل ہوتا تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر عبد القدیر سے متعلق "فادر آف" والے دعویٰ کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی نیوکلیئر فزکس کے متعلق تحقیق اور ریسرچ ورک کو بھی اپنی تنقید سے گزارا۔ 1980ء کی دہائی میں انھوں نے بشیر الدین محمود کے ساتھ شمسی نقاط، موت کے بعد زندگی اور فلسفے کے موضوعات پر مباحثے کیے۔

1999ء میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے اشفاق احمد اور ریاض الدین کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑا اور موثر کام کیا اور وہ تھا نیشنل سینٹر آف فزکس (این سی پی) کا قیام۔ اس ادارہ کا مقصد ملک میں سائنسی سوچ کو عام کرنا تھا اور یہ اپنے اہداف میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ این سی پی کو آغاز میں کئی اکیڈمک سائنس دانوں نے جوائن کیا۔

ہودبھائی نے جوہری ہتھیاروں اور ان سے منسلک ہر قسم کے منصوبوں پر کڑی تنقید کی بالخصوص جنوبی ایشیاء میں بلکہ بھارت اور پاکستان میں ان کی اشاعت کے خلاف میدان میں آئے۔ 2011ء میں انھوں نے پاکستان کے تشاکلی نیوکلیئر ویپن پروگرام (جوہری ہتھیاروں کے منصوبوں) کی شروعات کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا کیونکہ یہ دفاع کے لیے پاکستان کا ایک ردِ عمل تھا۔ ہودبھائی کے مطابق بھارت کے نیوکلیئر ٹیسٹ نے 1974ء میں پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ بھی جوہری میدان میں قدم رکھے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر 1998ء میں جب بھارت نے پاکستان کو  ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دیں تو پاکستان کو اسی ماہ اس تشویش ناک صورت حال کو سنجیدگی سے دیکھنا پڑا اور جوہری میدان میں داخل ہونے کے لیے اقدام کرنا پڑا۔ اس بات کو مانتے ہوئے کہ پاکستان کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی نے ملک کو کسی بھی بیرونی جارحیت سے بچایا ہے اور بھارت سے بے شمار جنگی حالات سے بھی محفوظ رکھا ہے، ہود بھائی نے دوسری طرف نیوکلیئر اسلحے کے بارے میں کچھ خدشات ظاہر کیے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ یہ کسی انتہا پسند گروہ کے ہاتھ لگ جائے۔

قومی سلامتی اور ملکی سیاست پر تبادلۂ خیال[ترمیم]

ہودبھائی بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس کے ایک اہم ترین کفیل ہیں اور انھوں نے اس بلیٹن میں پاکستان کے معاملے کو اجاگر کیا۔

اپنی ریسرچ کے دائرہ کار کے علاوہ بھی ہودبھائی نے مختلف موضوعات پر بہت کچھ کہا اور لکھا، جیسے اسلام اور سائنس، تعلیم کا نظام اور جوہری ہتھیاروں کے  دنیا بھر میں خطرناک استعمال کے خلاف پرویز ہودبھائی نے کتاب "اسلام اور سائنس: مذہبی راسخ الاعتقادی اور معقولیت کی جنگ" تصنیف کی، اس کتاب کا اب تک پانچ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے پاکستان کی تاریخ، مذہبی رجحان اور پاکستان میں لگنے والے مارشل لا پر بات کی ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے تعلیمی نظام میں ٹیکسٹ بُکس کی بحالی کے مسئلے کو بھی بخوبی اجاگر کیا۔ ان کے نیچرل سائنس اور سوشل سائنس پر مبنی بہت سے مضامین آئے دن بین الاقوامی میڈیا پر شائع اور نشر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی بہت سی تصانیف تکنیکی اور غیر تکنیکی پرچوں میں وقتاََ فوقتاََ شائع ہوتی رہی ہیں۔

ہودبھائی نے پاکستانی افواج کی جدت اور کردار پر بہت کچھ لکھا، خصوصاً حکومت پاکستان کی جانب سے فوج پر خرچ کیے جانے والے دفاعی بجٹ پر تجزیے کیے۔ ماضی میں پرویز ہودبھائی نے فوج کے پاکستانی سیاست میں دخل اندازی کے معاملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا مگر اب حال ہی میں وہ سعودی عرب میں وہابی اسلام کے متعارف ہونے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل سے یہودیوں کی فلسطین پر درندگی اورغیر قانونی اجارہ داری کے خلاف بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔

ایک انٹرویو میں سیکولرزم پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سائنسی معاملات میں شامل مذہبی شدت پسندی مسلمانوں میں سائنسی طرزِ فکر اور ترقی کے راستے میں گذشتہ کئی سالوں سے   سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 2003ء میں پرویز ہودبھائی ہیومنست مینیفیسٹو کے اہم دستخط کنندہ تھے۔

سائنسی تحقیقات[ترمیم]

ہودبھائی نے طبعیات، خاص کر پارٹیکل فزکس کے میدان  میں بہت سی اہم خدمات سر انجام دیں۔ طبعیات پر ان کے بہت سے لیکچرز انٹرنیٹ پر آن لائن دستیاب ہیں۔ نیشنل سینٹر آف فزکس میں انھوں نے پارٹیکل فزکس کے مختلف پہلوئوں پر  تحقیقات کیں اور ماڈرن فزکس بشمول اس کی ریاضیات پر ری سرچ ورک کیا۔ 2006ء میں پرویز ہودبھائی نے جنرلائزڈ پارٹون ڈسٹری بیوشن (عام پارٹون کی تقسیم کاری) پر ایک جامع ریاضیاتی معلوماتی مضمون لکھا۔ 2007ء میں ہودبھائی نے جینز لِنگ کے ریسرچ ورک کو ازسرِ نو شائع کیا جو سٹرنگ تھیوری اور کشش کو ایک خلا میں بیان کرتا ہے اور ایک یا ایک سے کم ڈائی مینشن میں کشش کے بغیر سٹرنگ تھیوری   پر بات کرتا ہے۔ اس نئی اشاعت میں انھوں نے اس پر ریاضیاتی طرز سے کام کیا۔ اسی سال، انھوں نے ایڈورڈ وِٹن کے Anti-de Sitter Space اور ہولوگرافی کے شعبے میں اس کی وسعت پر ازسرِ نو ری سرچ ورک شائع کیا۔ ہودبھائی نے Sitter Space (عام نظریہ اضافت میں عددیہ  یا سکیلر خم )کے موضوع پر ریاضیاتی دلائل اور اسے سمجھنے کے لیے  لاجک کی مفصل معلومات فراہم کیں جنہیں  1998ء میں ایڈورڈ نے تجرباتی مراحل سے گزارا۔

14 اپریل 2001ء میں یہ اعلان کیا گیا کہ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کوصدرِ مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے ستارہء امتیاز سے نوازا جائے گا مگر پرویز ہودبھائی نے یہ امتیاز لینے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار انھوں نے Friday Times کے ایک انٹرویو میں کیا۔

 دستاویزی فلمیں[ترمیم]

پرویز ہودبھائی نے تیرہ اقساط پر مبنی اردو زبان میں ایک دستاویزی سیریز کا پاکستان ٹیلی وژن پر آغاز کیا جس کا موضوع پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے دو دستاویزی فلمیں سائنس کی اشاعت اور سائنسی سوچ اور طرزِ فکر کے حوالے سے بھی نشر کیں۔ 2004ء میں انھوں نے"Crossing the Lines: Kashmir, پاکستان، India" کے عنوان سے ڈاکٹر ضیاء میاں کے ساتھ ایک دستاویزی فلمفلم بنائی۔ ان فلموں کا بنیادی مقصد تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کا حل تلاش کرنا تھا، اس کے ساتھ ساتھ عوام کی صحت کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی اور ساتھ ساتھ پاکستان میں سائنسی انقلاب کی کوششوں کو بھی اجاگر کیا گیا۔

اپنی دستاویزی فلموں میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے پاکستان اور بھارت کے جوہری منصوبوں اورایٹمی ہتھیاروں پر شدید تنقید کی۔ انھوں نے پاکستان میں طالبانائزیشن کے معاملے کو بھی اٹھایا اور اس کے جنوبی ایشیاء پر ازجلد اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کی دستاویزی فلموں میں یہ دکھایا گیا کہ امریکا اور نیٹو فورسز افغانستان میں افغانی لوگوں کی مدد نہیں کر رہیں اور نہ ہی انھوں نے افغانستان کی معاشی اور معاشرتی زندگی کے لیے کوئی اچھے اقدام کیے ہیں بلکہ اس کے برعکس کرپشن اور بغاوت کے عناصر پیدا کیے ہیں جن کا کافی حد تک  نقصان پاکستان کو بھی ہوا ہے۔

فلم سازی[ترمیم]

  • Crossing the Lines: Kashmir, پاکستان، India (2004)
  • The Bell Tolls for Planet Earth (2003)
  • پاکستان and India Under the Nuclear Shadow (2001)

ایچ ای سی پر تنقید[ترمیم]

پرویز ہودبھائی نے ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی اس حکمت ِ عملی پر کڑی تنقید کی کہ ایچ ای سی کا مقصد "کوالٹی کی بجائے بڑی تعداد بنانا ہے"۔ ان کا ماننا تھا کہ اس قسم کی پالیسیاں جن کے ذریعے ریسرچ پیپرز کے مصنفین اور پی ایچ ڈی سپروائزرز کو کیش اور پروموشن کے ثمر عطا ہوتے ہیں،  درحقیقت پاکستانی یونیورسٹیوں  کو اصل معلوماتی اور فائدہ مند ریسرچ پیپرز کی فراہمی کی بجائے ردی پیپرز اور بے کار پی ایچ ڈی  پیدا کرنے کی فیکٹریاں بن گئی ہیں۔ 2003ء سے ہی جب ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمن کے سربراہی میں چل رہی تھی، پرویز ہودبھائی نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور اس پر تنقید کے سلسلے میں   پاکستانی نیوز میڈیا پر بھی مختلف  گرما گرم مباحثے شروع ہو گئے۔

2009ء میںایچ ایس سی سے متعلق   ڈاکٹر عطاء الرحمن (آرگینک کیمسٹ) اور  ڈاکٹر پرویز ہودبھائی  کے معاملات  تصادم کی نوعیت تک آ پہنچے۔ یہاں تک کہ امریکا کے ایک جرنل Nature نے ایچ ای سی کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ایک جامع مضمون چھاپ دیا۔ پرویز ہودبھائی نے اس آرٹیکل کے خلاف انھیں شکایت کی کہ اس میں وہ "نیچر" اصل بات لکھنا ہی بھول گئے جو پرویز ہودبھائی نے بنیادی طور پر کہی تھی کہ "کروڑوں کا روپیہ بے بنیاد اور فضول میگا پراجیکٹس پر ضائع کیا جا رہا ہے۔" ایچ ای سی کے ان مباحثوں میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان، عادل نجم اور عطاء الرحمن نے ایچ ای سی کی حمایت کی اور ساتھ ہی پرویز ہودبھائی کی تنقید کے چند نکات کو تسلیم بھی کیا۔

ایچ ای سی کی انتظامی قابلیت پر ہود بھائی نے سوال اٹھایا جو ایچ ای سی کی کامرانیوں کو مایوس کن قرار دیتے ہیں۔ ہود بھائی ایچ ای سی کی افادیت کے خلاف دلائل دیتے ہیں، UESTP-France  کے کراچی میں منعقدہ کنونشن کے سلسلے میں شعبے کے 450 تا 600 کے ملازمین میں سے فرانس کا نہ تو کوئی شعبہ رکن نہ ہی کوئی انتظامی عملے میں سے آیا۔ٹیلی ویژن پر مباحثے میں ہود بھائی نے ان شماریات پر سوال اٹھایا جن کی بنیاد پر ایچ ای سی کی سرگرمیوں کو مثبت گردانا جاتا ہے، یہ مباحثہ ہود بھائی اور ایچ ای سی کے چیئرمین عطا الرحمن کے درمیان میں بحث کے سلسلے کے دوران میں ہوا۔ بعد میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ریاضی میں، پاکستان مصنفین دنیا کے مقابلے میں اوسطاً ٢٠ فیصد زیادہ اقتباسات حاصل کرتے ہیں۔ ہود بھائی نے اس دعویٰ پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جس میں انھوں نے ان مقالاجات میں خود سے دیے گئے اقتباسات کے بارے میں بھی سوال کیا اور کہا کہ یہ وہ ایک اہم نقطہ ہے جس کو ایچ ای سی نے اپنے توضیح میں نہیں گردانا۔ ہود بھائی نے مقامی جامعات پر ان غیر ملکی اساتذہ کو بھرتی کرنے کے عمل پر بھی تنقید کی جن کو اپنی بات کو سمجھانے اور پڑھانے میں مشکل پیش آتی ہے، اگرچہ وہ پاکستانی جامعات سے شایع ہونے والے تحقیقاتی مقالاجات کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ایوارڈز،اعزازات  اور انعامات[ترمیم]

  • ریاض الدین نیشنل سینٹر آف فزکس کے بورڈ کے ایک  ایگیکٹو ممبر
  • بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس کے سپانسر بورڈ کے ارکان
  • پاکستان میں سائنسی علوم کی اشاعت اور سائنسی سوچ اجاگر کرنے کی کوششوں کے صلے میں  UNESCO's Kalinga Prizeسے نوازا گیا۔
  • پرویز ہودبھائی کی ٹیلی وژن فلم "The Bell Tolls for Planet Earth" نے پیرس فلم فیسٹیول میں اعزاز حاصل کیا۔
  • پاکستانیت: پاکستانی علوم کا ایک جرنل، کے ا  یڈیٹوریل بورڈ کے ارکان

اس کے علاوہ انھوں نے یہ اعزازات بھی وصول کیے:

  • 1972ء میں امریکا کی پاکستان Students Association سے Student of the Year کا اعزاز
  • 1973ء میں گریجوئیٹ تعلیم حاصل کرنے کے لیے Rockefeller Mauze کی فیلو شپ
  • 1984 میں ریاضی کے میدان میں ری سرچ ورک کے لیے عبد السلام ایوارڈ
  • 1986 سے 1994 تک کے عرصے میں Associate of the International Centre for Theoretical Physics
  • 1990ء میں پاکستان میں تعلیم عام کرنے کی کوششوں  اور تعلیمی مسائل اجاگر کرنے سبب انھیں فیض احمد فیض ایوارڈ سے نوازا گیا۔
  • 1993ء میں پاکستان کی نیشنل بک کونسل کی جانب سے "بُک آف دی ییئر " کا ایوارڈ دیا گیا۔
  • 1997 سے 1998 تک کے عرصے میں یونیورسٹی آف میری لینڈ، کالج پارک میں ریسرچ کی خدمات انجام دیتے کے باعث انھیں Fulbright Award دیا گیا۔
  • 2003ء میں Selma V. Forkosch Prize
  • International Advisory Council of the Brookings Doha Center
  • 2007ء میں Civic Courage Award
  • 2010ء میں Joseph A. Burton Award ملا۔

تصانیف[ترمیم]

کتب[ترمیم]

  • تعلیم اور ریاست: پاکستان کے پچاس سال، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔   1998. ISBN
  • اسلام اور سائنس: مذہبی قدامت پسندی اور عقلیت پسندی کے لیے جنگ، زیڈ بُکس۔ لندن۔ (ISBN 978-1-85649-025-2)1992
    تراجم: عربی، انڈونیشین (بہاسہ)، ملاشین، ترکش، جاپانی اور اردو
  • Proceedings of the School on Fundamental Physics and Cosmology، ورلڈ سائنٹیفک، سنگاپور۔ 1991۔ (پرویز ہودبھائی اور اے علی)
  • پاکستان کی تاریخ پھر سے لکھنا، محمد اصغر خان زیڈ بُکس، لندن۔ 1986۔ (پرویز ہودبھائی اور اے ایچ نیئر)۔ ISBN 978-0-86232-471-1

سائنسی ریسرچ پیپرز اور آرٹیکلز[ترمیم]

  • اصل فوٹونز کے استعمال سے نیوکلیان ٹارگٹ پرلیپٹان -اینٹی لیپٹان پیئر  فوٹو پراڈکشن   کا اثر۔ پرویز ہودبھائی۔ 2006
  • بھاری مومینٹم  کی منتقلی میں عام پارٹون تقسیم کاری کے ذریعے کوارک ڈسٹری بیوشن ایمپلی ٹیوڈ پر تحقیقات، پرویز ہودبھائی، زیانگ ڈانگ جی، فنگ یان۔ 2004
  • واضح ثبوت کے ساتھ: ٹرانسورسلی پولرائزڈ ویکٹر میسنز خالی QCD میں غائب ہو جاتے ہیں۔ پرویز ہودبھائی (میری لینڈ یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد)۔2004
  • کیا گلوئن سپِن ایک غیر تغیر پزیر  گیج کے راستے سے نیولیان سپن تک کوئی شراکت کرتی ہیں؟ پرویز ہودبھائی، ییانگ ڈنگ۔ 1999
  • نیوکلیان سپِن ایلاسٹک کا منتشر ہونا اور نیوکلیان سپِن میں گلوئن کی شراکت۔ پرویز ہودبھائی۔ 1999
  • نیوکلیان سپِن سٹرکچر کے لیے کلر گیج سائمیٹری کے مخفی معانی۔ پرویز ہودبھائی، وی لو، ییانگ ڈنگ جی۔ 1999
  • نیوکلیان میں کوارک کا بیضوی زاویوں پر مومینٹم۔ پرویز ہودبھائی، ییانگ ڈنگ جائی، وی لو۔ 1999
  • متقاربی حد ود میں نیوکلیان کا سپِن سٹرکچر۔ جے تنگ (ایم آئی ٹی)، جی،  پروفیسر ہودبھائی(قائداعظم یونیورسٹی، پاکستان)۔ 1996
  • نیوکلیان کے ھیلیسٹی فلِپ آف فارورڈ پارٹون کی تقسیم کاری، پرویز ہودبھائی، ییانگ ڈنگ جائی۔ 1998
  • لہری فنکشنز میں تصحیح اور انکسار امواج گر الیکٹروپروڈکشن میں گلووئن آف-فارورڈ کی تقسیم کاری، پرویز ہودبھائی-1997
  • اپسیلون ڈیکے میں ڈائریکٹ فوٹان پروڈکشن سے اضافیتی اور انرجی کے بائنڈنگ میں تصحیح، محمد علی یوسف، پرویز ہودبھائی- 1996
  • رنگوں کے اُس پار: اِن ایلاسٹک فوٹو پروڈکشن کے لیے سنگلیٹ ماڈل، ایچ خان، پرویز ہودبھائی۔ 1996
  • متقاربی حدود میں نیوکلیان کا سپِن سٹرکچر، جے تنگ،زیانگ ڈنگ جائی(ایم آئی ٹی)، پرویز ہودبھائی( قاعداعظم یونیورسٹی، پاکستان)
  • دی کیز کی جانب نئی پیش قدمی، گلوئون کی تقسیم کاری اوربھاری کوارکونیا کے   افعال کو پارہ پارہ کرنے کے عوامل، رافعہ علی، پرویز ہودبھائی (1995)
  • پروٹون کے ڈائی کوارک ماڈل میں افعال کو پارہ پارہ کرنے کے عوامل اور $\Lambda$ ھائیپرون پروڈکشن، محمد نظار، پرویز ہودبھائی۔ (1995)
  • بھاری کوارکونیم ڈیکیز سے منظم غیر تغیر پزیر گیج  تک رسائی، حفصہ خان، پرویز ہودبھائی (1996)
  • قطع کرتے ہوئے  نقطیب نیوکلیان کے اندر ٹوئیسٹ -فور کی تقسیم کاری اور ڈرل یان پراسس، پرویز ہودبھائی، ییانگ ڈنگ ذی۔ (1994)
  • ریاضیاتی طبیعیات میں نیوکلیان ٹارگٹس سے بکھرے ہوئے ذروں میں  دو فوٹون کے تبادلے  کی کھوج: 12 علاقائی اجلاس کی جانب پیش قدمی،اسلام آباد، پاکستان (27 مارچ سے یکم اپریل 2006)، ورلڈ سائنٹیفک، سنگاپور (2007)
  • عبد السلام: ماضی اور حال۔ دی نیوز۔ 29 جنوری 1996
  • عام پارٹون کی تقسیم کاری، پر ویز ہودبھائی،قاعداعظم یونیورسٹی،اسلام آباد

انگریزی فہرست[ترمیم]

1.”Coordinate Space Solution of Hartree--Fock Equations for Axially Symmetric Nuclei (with J. W. Negele), Nucl. Phys. A288 , 23 (1977). 2. “Time-Dependent Coupled Cluster Approximation to Nuclear Dynamics I: Application to a Solvable Model (with J. W. Negele), Phys. Rev. C18 2380 (1978). 3. “Time-Dependent Coupled Cluster Approximation to Nuclear Dynamics II: General Formulation (with J. W. Negele), Phys. Rev. C19 1971 (1979). 4. “Many-Body Theory and the Lipkin Model, in Second Latin American Workshop on Self-Consistent Theories of Condensed Matter (ICTP, Trieste, October, 1978). 5. “Quantum Hydrodynamics Applied to Atomic Photoabsorption, Phys.Rev. A24 3136 (1981). 6. “Pion Scattering from Aligned Deformed Nuclei, Phys. Lett. 88B 27 (1979). 7. “A Variational Approach to Dense Relativistic Matter Using Functional Techniques, Ann. Phys. 139 68 (1982). 8. “Renormalization Effects in a Field Theory of Finite Nuclei, Zeit. Physik 308 68 (1982). 9. “Mean Field Approximation for Chiral Bag Models, Phys. Rev. D26 3235 (1982). 10. “Pion-Nucleus Charge Exchange Reactions with Isobar Dynamics (with R. A. Freeman, G. A. Miller and E. M. Henley), Phys. Rev. C27 (1983). 11. “A Relation Between Coherent Photoproduction and Nucleus Elastic Scattering (with G. Miller), Phys. Rev. C28 848 (1983). 12. “QCD for Static Sources in the A^0=0 Gauge and Schrodinger Representation- Relation to the Classical Theory, Phys. Rev. D28 956 (1983). 13. “Spherical Nucleon Bag Deformations in the Two-Nucleon System, Phys. Rev. C28 1455 (1983). 14. “Parity Mixing of Elastic Scattering Resonances: General Theory and Application to 14N (with E. G. Adelberger and B. A. Brown), Phys. Rev. C30 456 (1984).

15. “The He-3 Charge Form Factor in the Quark Hybrid Model (with L.S. Kisslinger), Phys. Lett. 146B 163 (1984). 16. “Threshold 0 π Photoproduction from the Skyrmion, Phys.Lett. 173B 111 (1986). 17. “Reply to `Parity-Violating Asymmetries in the Scattering of Transversely Polarized Protons (with E. G. Adelberger and B. A. Brown), Phys. Rev. C33 1840 (1986). 18. “Deep Inelastic Polarized Scattering from the Cloudy Bag Model --- A Failure, Phys. Lett. 182B 277 (1986). 19. “Charge Form Factor of H-3 and He-3 in the Hybrid Quark Hadron Model (with L. S. Kisslinger and W.-h. Ma), Nucl. Phys. A459 645 (1986). 20. “Quark Exchange Effects on H-3 and He-3 Charge Densities, Nucl. Phys. A465 637 (1987). 21. “Quark Exchange Contributions in Nuclei and the EMC Effect (with R. L. Jaffe), Phys. Rev. D35 113 (1987). 22. “Can the Quenching of Axial Coupling in Nuclei be Attributed to Excess Gluons?, J. Phys. G13 253 (1987). 23. “Quark Exchange Contribution to the EMC Effect in Nuclear Matter (with Arifuzzaman and S. Hidayat Hasan), Phys. Rev. C38 498 (1988). 24. “The Swelling of Nucleons and Quark Antisymmetrization (with Arifuzzaman and Sajjad Mahmood), Nucl. Phys. A480 469 (1988). 25. “Quark Exchange and the Expansion of Length Scales Inside Nuclei,” Prog. Nucl. Part. Phys. V20 289 (1988). 26. “Extended Length Scales in Nuclear Matter from Quark Antisymmetrization, in Physics and Astrophysics of Quark-Gluon Plasma (World Scientific, Singapore, 1988), p.539. 27. “Quark Antisymmetrization as a Mechanism for Increased Length Scales in Nuclei,” in Proceedings of the Conference `Nuclear and Particle Physics on the Light Cone, Los Alamos National Laboratory (World Scientific, Singapore, 1988), p.111. 28. “Berry's Phase for Atomic Levels, Phys. Rev. A38 3766 (1988). 29. “Novel Effects in Deep Inelastic Scattering from Spin-One Hadrons, (with R. L. Jaffe and A. Manohar), Nucl. Phys. B312 571 (1989).

45. “Quark Fragmentation Functions in a Diquark Model for Proton and Lambda Hyperon Production, (with M.Nzar), Phys.Rev. D51 32 (1995). 46. “Novel Approach to Decays, Gluon Distributions, and Fragmentation Functions of Heavy Quarkonia, (with R.Ali), Phys.Rev. D51 32, (1995). 47. “Systematic Gauge Invariant Approach to Heavy Quarkonium Decays, (with H.Khan), Phys.Rev. D53 2534 (1996). 48. “Relativistic and Binding Energy Corrections to Direct Photon Production in Upsilon Decay, (with M.A.Yusuf) Phys.Rev. D54, 1 Sept.(1996). 49. “Spin Structure of the Nucleon in the Asymptotic Limit, (with X.Ji and H.Tang), Phys.Rev.Lett. 76 740 (1996). 50. “Beyond the Colour-Singlet Model for Inelastic J-Psi Photoproduction (with H.Khan), Phys. Lett. B 382, 189, (1996). 51. “Wavefunction corrections and off-forward gluon distributions in diffractive J-Psi production”, Phys.Rev.D56:388-393, (1997). 52. “ Helicity Flip Off Forward Parton Distributions Of The Nucleon.” (with X. Ji), Phys.Rev.D58:054006, (1998). 53. “Quark Orbital Angular Momentum Distribution In The Nucleon.”, (with X.Ji and W.Lu) Phys.Rev.D59:014013, (1999). 54. “Implications Of Color Gauge Symmetry For Nucleon Spin Structure”, (with X.Ji and W.Lu), Phys.Rev.D59:074010, (1999). 55. “Nucleon Quarkonium Elastic Scattering And The Gluon Contribution To Nucleon Spin”, Phys.Rev.Lett.82:4985-4987, (1999). 56. “Does The Gluon Spin Contribute In A Gauge Invariant Way To Nucleon Spin?”, (with X.Ji) Phys.Rev.D60:114042, 1999. 57. Electroproduction of transversely polarized vector mesons via a quantum mechanical anomaly, (with W. Lu) e-Print Archive: hep-ph/9902286. 58. “Explicit Proof That Electroproduction Of Transversely Polarized Vector Mesons Vanishes In Perturbative QCD.”, hep-ph/0108214, Phys.Rev.D65:077501,2002. 59. “Probing Quark Distribution Amplitudes Through Generalized Parton Distributions At Large Momentum Transfer.”, (with X.Ji and F.Yuang), Phys.Rev.Lett.92:012003, 2004.

60. The Casimir effect upon a single plate, J.Phys.A38:10253-10256, 2005 and e-Print Archive: quant-ph/0411031. 61. Two-photon effect in lepton-antilepton pair photoproduction from a nucleon target using real photons, Phys.Rev.D73:054027, 2006 and e-Print Archive: hep-ph/0601182. 62. Holographic correspondence applied to vector meson emission from a heavy accelerated nucleus, Phys.Rev.D78:115015, 2008 and e-print arXiv:0809.1977 [hep-ph].

ٹی وی شوز میں آمد[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/100411 — بنام: Pervez Amirali Hoodbhoy
  2. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 23 مئی 2020
  3. [1] آرکائیو شدہ 2012-07-16 بذریعہ archive.today Dr. Sohail Interview, Retrieved 29 مارچ 2012
  4. Dr. K. Sohail (فروری 2000)۔ "How Difficult it is to Help People Change their Thinking – Interview with Dr. Pervez Hoodbhoy"۔ 16 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2013۔ Pervez: "I started reading the plays of Bernard Shaw and later on, the works of Bertrand Russell. That had such an impact on me that it bowled me over and by the time I was 15, I was lost, lost to "all good things"۔" 
  5. "Kalinga award for Dr Hoodbhoy"۔ Retrieved 27 مئی 2015.
  6. Pervaiz Hoodbhoy, Sohail Varaich. (2010). ADGKS Parvez Hood Bhoy 187605 C3.mp4 =channel. [Television production]. قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد، اسلام آباد وفاقی دار الحکومت علاقہ: جیو ٹی وی. Archived from the original on 2019-01-06. https://web.archive.org/web/20190106215740/https://www.youtube.com/watch?v=DXxVfG8MAuA&feature%20. 
  7. ایف سی سی یونیورسٹی: فیکلٹی آف فزکس۔ 13 فروری 2015
  8. "The FP Top 100 Global Thinkers"۔ Foreign Policy. Retrieved 27 مئی 2015.
  9. ^ ا ب "Secretary-General Appoints Replacements for Outgoing Members of Advisory Board on Disarmament Matters | Meetings Coverage and Press Releases"۔ www.un.org. Retrieved 27 مئی 2015.
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج "آرکائیو کاپی"۔ 16 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2015