خان محمد خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بابائے پونچھ خان صاحب کرنل خان محمد خان غازیٔ کشمیر
پیدائش1882ء
پونچھ (جموں و کشمیر)
وفات11 نومبر 1961(1961-11-11)ء
وفاداری پاکستان
سروس/شاخ پاکستان فوج
درجہکرنل
مقابلے/جنگیںپہلی جنگِ عظیم، جنگِ آزادیٔ کشمیر 1947ء
اعزازاتبابائے پونچھ، غازیٔ کشمیر، خان صاحب
تعلقاتسردار علی محمد خان بیٹا

کرنل محمدنقی خان بیٹا

سردار عبدالقیوم خان بیٹا

بابائے پونچھ، غازیٔ کشمیر، خان صاحب الحاج کرنل خان محمد خان جنگِ آزادئ کشمیر کے کمانڈر اور کشمیر کے سیاست دان تھے۔

KHANSAB (AWARD) COL KHAN MUHAMMAD KHAN
فائل:Baba-e-Poonch with family.jpg
Family

حالات زندگی[ترمیم]

الحاج کرنل خان محمد خان ریاست پونچھ (جموں و کشمیر) تحصیل سدھنوتی کے موضع چھ چھن کے ایک معزز سدوزئی پھٹان گھرانے میں پیدا ہوئے۔[1] چھ چھن کا گاؤں جسے اب اُن کے نام سے منسوب کرکے خان آباد رکھا گیاہے، دریائے جہلم کے کنارے چند میل پر واقع ہے اور آزاد پتن سے اِس کا فاصلہ تقریباً دس میل ہے۔ دریا کنارے رہنے کی وجہ سے خان صاحب کا خاندان لکڑی کی تجارت کرتا تھا۔ اُن کے دادا سردار محمد علی خان کا شمار علاقہ کے خوش حال و معروف لوگوں میں ہوتا تھا۔

تعلیم[ترمیم]

مالی اعتبار سے خان صاحب کا خاندان خوش حال تو تھا لیکن گرد و نواح میں کوئی تعلیمی درسگاہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں حصولِ تعلیم کے لیے خاصی دُشواری کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ ان کے والد گرامی نے مولوی علی بہادر موضع بارل (بلاں ناڑ) کو اپنے گھر پر ٹھہرا کر اُن سے خان صاحب کو قرآن مجید کی تعلیم دلانے کا بندوبست کیا۔ قرآن مجید پڑھنے کے بعد دس سال کی عمر میں خان صاحب کو کہوٹہ کے پرائمری اسکول میں داخل کروایا گیا۔ چونکہ چھ چھن سے کہوٹہ تک یک طرفہ فاصلہ تقریباً 25میل تھا جسے روزانہ طے کرناممکن نہیں تھا اس لیے انھیں کہوٹہ ہی میں رہ کر تعلیم حاصل کرنی پڑی۔

حصولِ تعلیم کے سلسلہ میں خان صاحب کو بچپن میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اس سے انھیں شروع سے ہی شدت سے احساس ہوا کہ اُن کا علاقہ تعلیمی اور معاشی لحاظ سے کس قدر پسماندہ ہے دوسری بات جس کو انھوں نے اوائل عمر ہی میں محسوس کیا وہ ذرائع آمدورفت کی سہولتوں کا فقدان تھا۔

فوج میں شمولیت[ترمیم]

جنگِ عظیم (اوّل) 1914ء۔ 1918ء کے باعث برطانوی ہند کی فوج میں ملازمت نے سلسلۂ روزگار کی ایک راہ کھول دی اس سے قبل فوج میں جانا بھی آسان نہ تھا۔ چنانچہ خان صاحب کو پرائمری تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ملازمت اختیار کرنی پڑی اور وہ 23 ستمبر، 1902ء کو 102 گرنیڈئیر میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور اپنی سپاہیانہ زندگی کا آغاز کیا۔ ملازمت کے دوران میں امتیازی کارکردگی کی وجہ سے 1911ء میں جمعدار اور 1916ء میں صوبیدار بنائے گئے۔

خدمات[ترمیم]

مشرقِ وسطیٰ[ترمیم]

دورانِ ملازمت انھیں مشرقِ وسطیٰ جانا پڑا جہاں وہ مسقط کی حفاظت کے مشن پر تعینات ہوئے بعد میں جب کوت العمارہ میں پچاس ہزار فوج گھِر گئی تو اُس کی مدد کے لیے اُن کی پلٹن کو 35 بریگیڈ میں شامل کر دیا گیا۔ 1915ء میں شیخ سعد کی بستی کے قریب جو دشمن کے ساتھ معرکہ ہوا اس میں ان کے کمپنی کمانڈر میجر واٹن زخمی ہو گئے۔ شدید لڑائی اور فائر کے دوران میں اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے خان صاحب میجر واٹن کی مدد کے لیے جا پہنچے اور ان کی ضروری مرہم پٹی کی۔ اس جرات اور شجاعت کے صلے میں انھیں آئی ڈی ایس ایم میڈل عطا کیا گیا۔ دوسرے روز وہ خود زخمی ہو گئے۔

کشمیر[ترمیم]

خان صاحب کرنل خان محمد خان جیسی شخصیات قوموں کی زندگی میں چراغ راہ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں اور نشان منزل بھی ہوتی ہیں۔ خان صاحب سستی شہرت کے کبھی طالب نہ رہے۔ انھوں نے قومی خدمت اور ملی تگ و دو کے لیے سیاست کی بجائے علم اور اصلاحِ معاشرہ جیسے دشوار لیکن پائیدار شعبوں کا انتخاب کیا۔ پونچھ اور اہلِ پونچھ کی ترقی کے ہر میدان میں خان صاحب کی شخصیت کا اثر اولین محرک نظر آتا۔

انھوں نے تعلیم کی بنیادی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی اور ایک ایسے متوازن اور موثر نظام تعلیم کی تشکیل کی جس کے مثبت اثرات پونچھ میں ہی نہیں بلکہ پورے آزاد کشمیر میں مینار نور بن کر روشن ہوئے۔

الحاج خان صاحب کرنل خان محمد خان کی طویل سیاسی اور سماجی سرگرمیوں اور اصلاحی جدوجہد کا محورریاست جموں کشمیر میں پونچھ کا علاقہ رہا ہے۔ چنانچہ پونچھ کی ماضی قریب کی پُر آشوب تاریخ سے واقفیت کے بغیر نہ تو خان صاحب کی پُر عزم کاوشوں، بے لوث خدمات اور قابلِ صد ستائش کارناموں کا اندازہ لگایاجاسکتاہے اور نہ ہی ’’آپ راجی اورڈوگرہ شاہی،، کے طویل دور میں عوام پر ظلم و استبداد کے ہولناک واقعات اور حالات سے آگاہی ہو سکتی ہے،جن کے روح فرساپس منظر میں خان صاحب زندگی بھر معرکہ آرا رہے۔

خان صاحب 1924ء تک پونچھ شہر میں بطور پولیس انسپکٹر رہے۔ اور خوش قسمتی یہ ہوئی کہ سردار فتح محمد خان کویلوی بھی اس دوران میں پونچھ شہر میں خان صاحب کے ساتھ پولیس ملازمت میں رہے اور آگے چل کر ان دونوں حضرات نے باہمی رفاقت اور تعاون سے ریاست پونچھ کے مسلمانوں کی بے لوث اور قابل صد ستائش خدمات انجام دیں۔ بقول سردار فتح محمد خان کریلوی بطور پولیس انسپکٹر خان صاحب کی حتی الوسع یہی کوشش ہوتی تھی کہ فریقین کا آپس میں سمجھوتہ کرادیں اور وہ مقدمہ بازی کی لعنت سے بچ جائیں۔ وہ اکثر متصادم فریقین میں تصفیہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے تھے اور یوں وہ لوگ مزید دنگافساد اور دشمنی کے لامتناہی سلسلے سے بچ جاتے تھے۔

پونچھ میں روزگار کا اہم ذریعہ فوج میں ملازمت کا تھا پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر بڑی تعداد میں فوجی ملازمت سے ریٹائرمنٹ پر واپس آ رہے تھے۔ جس سے روزگار کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ بدقسمتی سے اسی دوران یعنی 1920ء میں پونچھ میں زبردست قحط پڑ گیا۔ بے روزگارہونے کی وجہ سے لوگوں میں مہنگے داموں اناج خریدنے کی سکت نہ تھی۔ درختوں کے پتے کھانے تک نوبت پہنچ چکی تھی اور لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو چکے تھے۔ ان مشکل حالات پر قابو حاصل پانے کی غرض سے خان صاحب نے پونچھ کے ایک انگریز کرنل کو جو ریذیڈنٹ کے عہدہ پر بھی تعینات تھا، پونچھ سے آزاد پتن تک سڑک بنانے پر آمادہ کیا جس پر لاگت کا تخمینہ 8 لاکھ روپے تھا۔ ہندو وزیر جو بڑا متعصب تھا اُس نے اس پراجیکٹ کی انتہائی مخالفت کی۔ اُس کا مؤقف تھا کہ جب دریائے جہلم پر کوئی پل ہی نہیں اور آزاد پتن سے راولپنڈی تک کسی سڑک کا نام و نشان بھی نہیں تو اس سڑک کا کیا فائدہ لیکن خان صاحب کی کوشش سے یہ سکیم منظور ہوئی اور 1920ء ہی میں لچھمن پتن (موجودہ آزاد پتن) سے اس سڑک کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس دوران میں وہ تحصیل سدھنوتی میں افسر بکارِ خاص مقرر ہوئے اور وہ قحط سے پیدا ہونے والے حالات سے نبردآزما رہے۔ خان صاحب کی اس حکمت عملی سے سڑک بھی بنی۔ لوگوں کے روزگار کا مسئلہ حل ہوا اور قوم قحط کے اثرات سے بچ گئی۔

پونچھ میں رہتے ہوئے خان صاحب کو عوام کی مشکلات کا مزید اندازہ ہوا۔ انھوں نے غریب عوام کو عدالتوں اور دفاتر میں دھکے کھاتے دیکھا۔ انھیں پونچھ میں سر چھپانے کو جگہ نہ ملتی تھی اور وہ کھلے آسمان تلے راتیں گزارتے تھے۔ اس تکلیف کے سدِباب کے لیے انھوں نے پونچھ شہر کے قریب زمین خریدی اور اس پر سُدھن سرائے تعمیر کرائی تاکہ باہر سے آنے والے غریب لوگ اس میں ٹھہر سکیں۔

فوج کی ملازمت کے دوران میں خان صاحب کوابنائے وطن کی خدمت کا پورا موقع نہ مل سکا۔ لیکن ان کے دل و دماغ میں خدمتِ خلق کا جو جذبہ کار فرماتھا اس کی جھلک چند واقعات سے آشکار ہوتی ہے۔ ایک دفعہ میدان جنگ میں حملے سے چند روز قبل کمانڈنگ افسر نے افسروں کی کانفرنس بلائی اور ان سے ان کی آخری خواہش پوچھی۔ سب نے اپنی اپنی ذاتی خواہش کا اظہار کیا لیکن ان میں صرف خان صاحب کی خواہش اپنی ذات سے ہٹ کر اپنے علاقے کی بہتری کے سلسلہ میں تھی۔ انھوں نے فرمائش کی کہ ریاست پونچھ کے اسکول حکومت برطانوی ہند کی تحویل میں لے لیے جائیں اور وہاں تعلیم کے فروغ کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے۔ اس فرمائش پر کمانڈنگ افسر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے فوراً بذریعہ ٹیلیگرام جنرل ہیڈ کوارٹر دہلی کو مطلع کیا کہ راجا پونچھ کو پلندری میں پرائمری اسکول اور ڈاک خانہ کے اجرا کے لیے کہا جائے۔

خان صاحب نے راجا پونچھ کو راولپنڈی میں دعوت دی۔ دعوت کا اہتمام اعلیٰ درجے کا تھا اور اس میں بہت سے افسر اور معززین مدعو تھے۔ دورانِ گفتگو راجا پونچھ نے خان صاحب سے کہا مجھ سے کچھ طلب کرنا چاہتے ہو تو بتاؤ۔ اس پر انھوں نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ پونچھ میں بیگار ختم کردی جائے اور ترقی ٹیکس معاف کیاجائے راجا نے خان صاحب سے کہا کہ آپ اپنے لیے کوئی درخواست کریں۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ میرے لیے میرا قبیلہ میری اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے لہذا میری درخواست وہی ہے جو میں نے پہلے کی ہے جس پر راجا نے ترقی ٹیکس معاف کر دیا اور بلا اجرت بیگار سے مستشنیٰ قرار دیا۔ ان واقعات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کو شروع ہی سے اس امر کا شدت سے احساس تھا کہ ان کا علاقہ تعلیمی معاشی اور سیاسی اعتبار سے بے حد پسماندہ ہے۔ اس کے باسیوں کی زندگی ناگفتہ بہ حد تک پریشان کُن اور تکلیف دہ ہے۔ جس دور میں خان صاحب نے اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ واقعی پُر آشوب دور تھا۔ جس میں پونچھ کی عوام دوہری بلکہ تہری غلامی اور سنگین استحصال کا شکار تھے۔

سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد[ترمیم]

خان صاحب نے علاقے کے دورے کرکے لوگوں پر تعلیم کی اہمیت اور مذکورہ ادارے کے اغراض و مقاصد واضح کیے۔ ان اغراض و مقاصد میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اسکول قائم کرنا اور ڈوگرہ حکومت سے مزید اسکول منظور کروانا سرِ فہرست تھا۔ اُس وقت پوری ریاست میں صرف پونچھ شہر کے مقام پر ہی ایک ہائی اسکول تھا۔ مزید برآں انھوں نے ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وسائل مہیا کرنا بھی اس ادارے کا ایک اہم ترین مقصد قرار دیا۔ یوں رفتہ رفتہ پورے علاقے کو اپنا ہم خیال بنالیا اور 1935ء میں سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے پہلے شاندار اجلاس کو پوٹھی میر خان کے مقام پر اہتمام کیا، جس میں عوام کے علاوہ جید علما بزرگانِ دین، ارکانِ حکومت بلکہ راجا پونچھ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔

سردار محمد ابراہیم خان سابق صدر آزاد کشمیر اپنی یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں کہ ’’خان صاحب نے میری اور حبیب خان کی بہبودی میں ہماری نو عمری ہی سے دلچسپی لینی شروع کر دی تھی۔ وہ جب بھی پونچھ شہر میں آتے تو ہائی اسکول میں تشریف لاتے اور ہماری تعلیم کے بارے میں ہم سے پوچھتے اور ہر طرح سے ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بڑے آدمی بنیں۔ میری زندگی میں جتنے بھی مراحل آئے خان صاحب نے میرا پتہ رکھا کہ میں کس منزل پر ہوں اور مستقبل کی بابت میرا کیا پروگرام ہے۔ جب میں انگلینڈ سے تعلیم مکمل کرکے واپس آیا تو خان صاحب بہت ہی خوش ہوئے اور انھوں نے میری ملازمت کے لیے بھی کوشش کی۔ یوں میری اور سینکڑوں دوسرے طلبہ کی زندگی سنوارنے میں خان صاحب نے عظیم کردار ادا کیا۔ میرے خیال میں خان صاحب کا تعلیم کے شعبے میں سب سے نمایاں کارنامہ سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کا انتظام تھا۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہماری قوم میں بے اندازہ صلاحتیں موجود ہیں۔ جن کا تئلیم کے بغیر بروئے کار لانا ممکن نہیں ہو سکتا۔ لہذا اُن کی اولین کوشش تو یہ تھی کہ پورے علاقہ پونچھ کے لیے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، کی داغ بیل ذالی جائے لیکن دوسرے قبائل جب اس پر متفق نہ ہوئے تو انھوں نے اپنے قبیلے کے لیے سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی جس کے فروغ اور استحکام کے لیے وہ علاقے کے ہر گاؤں میں قریہ پہنچے اور لوگوں کو اس کے اغراض و مقاصد سمجھائے اور ان کا تعاون حاصل کیا۔ پھر انھوں نے سالانہ اجلاس منعقد کرنے کا اہتمام کیا جن کے ذریعے سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے علاوہ اس کی افادیت لوگوں تک پہنچائی۔ اس طرح اپنے اس مشن کی تکمیل کے ساتھ ساتھ انھوں نے پونچھ کے عوام خاص کر اپنے قبیلہ کے اندر اپنی مدد آپ اور نظم و ضبط کی ایک تحریک شروع کر دی جو آگے چل کر بہت مفید ثابت ہوئی۔ سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس نہ صرف ہمارے قبیلہ کے لیے بلکہ دوسرے قبائل کے لیے بھی زوداثر ثابت ہوئی کیونکہ اس کی کامیابی کے باعث دیگر قبائل بھی رفتہ رفتہ ایسی ہی تنظیمیں معرض وجود میں لائے۔ آزاد کشمیر کے خطے میں جو خواندگی اور تعلیمی معیار آج موجود ہے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خان صاحب کی اُس دوربینی ہی کامر ہون منت ہے جس کا ثبوت انھوں نے سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھ کر دیا تھا۔ اُن کی یہ تحریک بے اندازہ افراد کے لیے سود مند ثابت ہوئی، جن میں ایک میں بھی ہوں۔‘‘ سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے مالی استحکام کے سلسلے میں خان صاحب بابا دوست محمد (منگوی) کی وساطت سے وائسرائے ہند سے ملے اور ان سے سُدھن فوجیوں کی ایک دن کی تنخواہ سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے لیے منظور کروائی۔ آنریری کیپٹن دوست محمد اُن دنوں وائسرائے کے اے ڈی سی تھے۔ یہ تنخواہ 1937ء سے 1939ء تک ایجوکیشنل کانفرنس کے فنڈ میں جاتی رہی جس سے ادارے کی مالی حالت کافی بہتر ہو گئی۔ جنگ کے دوران یہ سلسلہ منقطع ہو گیا لیکن ادارے کی افادیت لوگوں پر اُجاگر ہو چکی تھی اور وہ اس کی مالی ضروریات خود پوری کرنا شروع ہو گئے۔ ادارے ے ایسے طلبہ کی مالی اعانت کی گئی جو دسویں جماعت سے آگے تعلیم جاری رکھنا چاہتے تھے۔ اس طرح بہت سے ہونہار طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے زندگی میں نہ صرف اپنے لیے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ ملک اور قوم کے بھی کام آئے۔ ان میں سردار محمد شریف خان (سابق چیف جسٹس)، سردار محمد ابراہیم خاں، سردار حبیب خان، کرنل منشا خان، سردار جہانداد خان (سابق ایس ڈی ایم) ڈاکٹر فقیر محمد اور کرنل محمد رشید خان جیسے نامور حضرات سرِ فہرست ہیں یہ وظائف بلا امتیاز قبیلہ دیے جاتے۔ اس تحریک کو کامیاب کرنے میں خان صاحب کو بہت دشواریاں کاسامنا بھی کرنا پڑا۔ جس کی نشان دہی سردار مختار خان نے اپنی یادداشتوں میں یوں بیان کی ہے۔ ’’ہر قوم میں حاسد ہوتے ہیں۔ جو نہ خود کوئی اچھاکام کرتے ہیں اور نہ انھیں لوگوں کا بھلائی سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ ہی وہ لوگوں کے دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ایسے لوگ اُس شخص سے بھی ہمیشہ بغض اور کینہ رکھتے ہیں جو لوگوں کی بے لوث خدمت کر رہا ہو۔ خان صاحب کے بھی کچھ ایسے رقیب تھے۔ جنہیں خداواسطے کاخان صاحب سے بیر تھا۔ وہ ان کے اچھے کاموں میں ہمیشہ نقص ڈھونڈتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں نے جب سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کاساتواں سالانہ اجلاس پوٹھی میر خان کے مقام پر ہو رہا تھا اور اس اجلاس سے ڈوگرہ حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری تھا۔ حکومت کے ایماء پر یہ خبر پھیلائی کہ فنڈ سے کچھ رقم خوردبرد کی گئی ہے۔

افواہ پھیلانے کا مقصد یہ تھا کہ سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی تنظیم درہم برہم ہو جائے چونکہ یہ خبر سالانہ اجلاس کے موقع پر پھیلائی گئی تھی۔ اس کا فوری ازالہ نہایت ہی ناممکن تھا اور یہ خبر تنظیم کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ سمجھدار اور مخلص لوگ انتہائی پریشان تھے کہ اب یہ تنظیم ختم ہو جائے گی مگر صبر و تحمل کے پیکر خان صاحب نے تمام حسابات کے رجسٹر جلسہ عام میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک آڈٹ پارٹی مقرر کی جائے۔ جو حسایات کی پڑتال کرے چنانچہ اجلاس میں ہی چنداصحاب پر مشتمل ایک کمیشن حسابات کی پڑتال کے لیے مقرر ہوا۔ جس کے سربراہ آنریری مجسٹریٹ میجر سید محمد خان آف رہاڑہ تھے، جن کی دیانت پر سک و شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے حسابات کے ماہرین اور معززین کو ساتھ لے کر پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ ایک ایک پائی کا حساب درست ہے۔ تمام اخراجات کا حساب صحیح اور مکمل ہے بلکہ ایسی رقوم بھی حساب میں درج تھیں۔ جو خان صاحب کے سوا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ خان صاحب نے کھوٹے سکوں تک کا حساب رکھا ہوا تھا۔ جب کمیٹی نے اعلان کیا کہ حساب بالکل درست ہیں تو حاضرین جلسہ کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اب خان صاحب اس تنظیم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیں گے یاخود الگ ہوجائیں گے، کیونکہ ایک مخلص اور دیانتدار شخص کے لیے یہ ناحق الزام قابل برداشت نہیں ہو سکتا۔ سب کی نظریں خان صاحب پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ سٹیج پر آئے تو لوگوں کے دل دھڑک رہے تھے کہ وہ کیا اعلان کرتے ہیں انھوں نے اعلان کیا۔’’بھائیو آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ تنظیم کامیاب رہے گی مجھے پہلے خیال تھا کہ لوگ اسی تنظیم کی اہمیت کو پوری طرح محسوس نہیں کرتے مگر آج جو اعتراضات ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس تنظیم کے ساتھ آپ نے پوری دلچسپی لینی شروع کر دی ہے۔ ورنہ ہمدردی اور احساس کے بغیر حساب کتاب کے جھمیلے میں پڑنے کا کس کوخیال ہوتا ہے۔ آئیے سب لوگ مل کر ایک نئے عزم کے ساتھ اس تنظیم کے لیے کام کریں۔‘‘ خان صاحب کی کوششوں اور دُعاؤں کی بدولت و اقعتا سُدھن ایجوکیشنل کانفرنس وہ واحد تعلیمی انجمن ہے جو گذشتہ نصف صدی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ خان صاحب کی یہ یادگار صدقۂ جاریہ کے طور پر جاری ہے اور انشاء اﷲ جاری رہے گی۔‘‘

اسی طرح پونچھ میں قیام کے دوران میں خان صاحب نے اعلیٰ پیر میں دینی درسگاہ تعمیر کروائی۔ انھوں نے پونچھ کے اُن علما کو جو بیرون پونچھ برصغیر ہند میں مختلف مقامات پر دینی خدمات انجام دے رہے تھے، پونچھ واپس آنے اور دینی دریس پر آمادہ کیا۔ مولانا عبد الرحمن (ٹاٹوی) کو وہ وزیر آباد مدرسہ برکات الاسلام سے پونچھ لائے۔ مولانا ٹاٹوی نے بھی پونچھ میں دینی علوم کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا۔ آزاد کشمیر میں وہ سب سے پہلے مفتی اعظم رہے۔

انجمن تعلیم القرآن کی بنیاد[ترمیم]

خان صاحب اور دیگر عمائدین کے مشورے سے 1932ء میں سردار فیروز علی خان (جھنڈا بگلہ) نے پلندری کے مقام پر انجمن تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی۔ اُن دنوں تحصیل باغنارمہ قبیلہ کے مولانا میر عالم (کفل گڑھی) دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکر وطن واپس آئے ہوئے تھے اور ملکی سیاست میں بے حد سرگرم تھے۔ انھیں پلندری میں مدرسہ تعلیم القرآن کا صدر مدرس مقرر کیا گیا۔ مولوی محمد صادق خان بھی بطور استاد حدیث اس مدرسے سے منسلک ہو گئے۔ مولانا محمد یوسف خان نے بھی دارالعلوم دیوبند سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ انجمن تعلیم القرآن پلندری جس مسجد میں قائم کی گئی تھی وہ بہت ہی چھوٹی تھی۔ یہ مسجد سردار محمد اقبال (حال و فاقی محتسب حکومتِ پاکستان) کے والد گرامی سردار فتح محمد نے بنوائی تھی،جو اُن دنوں وہاں تعینات تھے۔ انجمن کے قیام کے بعد یہاں کے طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی اور جُمعہ کے دن نمازیوں کی کثرت کے باعث مسجد کی توسیع کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی، مگر اس کے لیے کافی سرمایہ کی ضرورت تھی جو اُس غربت کے دور میں مہیا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ لیکن اس کارِ خیر میں بھی خان صاحب نے ہی پیش قدمی کی اور ایک بار پھر لوگوں کو اپنی مدد آپ کے لائحہ عمل کے تحت کمر بستہ کیا۔ انھیں اس بات کا خوب اندازہ تھا کہ جو اصلاحی و فلاحی تحریک وہ شروع کر چکے ہیں اُس کے فروغ و استحکام کے لیے جامع مسجد سے زیادہ موزوں جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔ لہذا پلندری کی وسیع جامع مسجد کی تعمیر کی سعادت بھی خان صاحب کو ہی نصیب ہوئی۔ انھوں نے جامع مسجد کا نقشہ سری نگر سے بنوایا اور اس کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی بجائے مُٹھی آتا سکیم کا اجرا کرکے ایک بالکل نیا طریقہ اختیار کیا۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہر گھر کی عورت جب روٹی پکانے بیٹھتی تو’’بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ’’ پڑھ کر ایک مٹھی آٹا ایک الگ برتن میں رکھ دیتی۔ یہی عمل صبح و شام دہرایا جاتا جس سے ایک ہفتہ میں تقریباً مہینے بھر کی ضرورت کا آٹا پلندری لایا جاتا۔ اس طرح کئی من آٹا جمع ہوجاتا۔ اُس سے مزدوروں کو کھانا کھلایا جاتا۔ جو آٹا بچتا اُس کو فروخت کرکے مسجد کی تعمیر کی اشیاء خریدی جاتیں۔ جو شخص چندہ دیناچاہتا اُس سے خان صاحب چندہ نہ لیتے بلکہ اُسے مسجد میں کام کرنے کو کہتے۔ ہرگاؤں کے لوگ جتھوں کی شکل میں آکر باری باری مسجد کی تعمیر کے کاموں میں حصہ لیتے۔ ہر جتھا معمار، بڑھئی اور مزدور خود مہیا کرتا۔ خان صاحب جب اعلیٰ الصبح مسجدمیں آتے تو نماز سے قبل بورڈنگ ہاؤس کے طلبہ کو قریبی نالہ پر لے جاتے جو وہاں سے پتھر اٹھا کر مسجد میں لاتے،اسی طرح ان کی ہدایت پر گرد و نواح کے دیہات سے جو لوگ پلندری آتے وہ بھی ساتھ پتھر اٹھا کر لاتے۔ جمعہ کے دن جب سینکڑوں لوگ نمازِ جمعہ کے لیے آتے،وہ بھی اس کار خیر میں شمولیت کرتے۔ خان صاحب نے تعمیراتی سامان کی فراہمی مختلف گاؤں والوں کے ذمہ لگادی تھی۔ مثلاً بعض کی ذمہ داری چونابناکر لانا اور بعض کو مسجد کی لکڑی کا بندوبست کرنا ہوتا تھا۔ ایک بار دورانِ تعمیر مسجد کے کنوئیں میں پانی ختم ہو گیا تو خان صاحب نے علی الصبح اعلان کیا کہ تمام مائیں، بہنیں اوربیٹیاں پانی کاایک ایک گھڑا بھر کر لائیں اور مسجد کے کنوئیں میں ڈالیں۔ تھوڑی ہی دیر میں کنواں پانی سے بھرگیا۔ قدرت نے انھیں کام لینے کا ایسا سلیقہ عطا کیا تھا جو نہ تو پہلے دیکھنے میں آیا اور نہ بعد میں۔ سب لوگوں کو کام پر لگانا،اُن کا حوصلہ بڑھانا اور تعمیر کے کام کو مرحلہ وار استوار کرنا انہی کا کام تھا۔ یوں مسجد کا تمام کام بغیر پیسے اور اُجرت کے انجام پایا اور تقریباً اڑھائی سال کی مسلسل محنت سے یہ عالیشان دو منزلہ مسجد تعمیر ہو گئی جس سے نہ صرف انجمن تعلیم القرآن کے دینی تعلیم کے فروغ میں مدد ملی بلکہ قوم پردین کی آگاہی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط اور اپنی مدد آپ کے لائحہ عمل کی افادیت عملاً ظاہر ہوئی۔ ان میں خود اعتمادی پیداہوئی اور جامع مسجد پلندری ان کے درخشاں مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ مولانا غلام حیدر نے یہاں نماز جمعہ کا آغاز کیا۔

جدوجہد آزادی میں بھی اس جامع مسجد نے اہم کردار اداکیا، ڈوگرہ حکمران اس مسجد کو مسلمانوں کی عبادت گاہ کم اور سُدھنوں کا ایک قلعہ زیادہ تصور کرتے تھے۔ کیونکہ جب بھی کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا تو مسلمان یہاں جمع ہوجاتے اورخان صاحب اور دیگر اکابرین سے ہدایات حاصل کرتے چنانچہ یہ مسجد نہ صرف دینی تعلیم کے فروغ کاذریعہ بنی بلکہ سیاسی،اقتصادی معاشی،معاشرتی اور سماجی معاملات میں بھی رقوم کی رہنمائی کا وسیلہ ثابت ہوئی۔ جنگ آزادی کے دوران میں ہندوستانی ائرفورس نے اس مسجد پر متعددبار حملے کیے اور ایک دفعہ اس کے ایک حصے کو شہید کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ اُس وقت کچھ لوگ مسجد میں نماز اداکر رہے تھے جو شہید یا زخمی ہوئے۔ اس ہوائی حملہ میں پھلیاں کے سردار عبد الکریم (داماد صوبیدار سید محمد خان) بھی شہید ہوئے۔ علاقہ پونچھ میں سیاسی جذبہ اور احساس سکھا شاہی کے دور سے ہی لوگوں کے دلوں میں مؤجزن تھا اور وہ آزادی حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ جان و مال کی قربانی دیتے رہے۔ اس کا منظم عملی مظاہرہ انھوں نے 1832ء۔ 1836ء کے دوران میں شمس خان سبز علی خان اور ملی خان جیسے حُریت پسند سرداروں کو زیر قیادت اپنی کھالیں کھنچوا کر اور گردنیں کٹواکر کیا۔ ان میں یہ ولولہ آزادی سکھوں کی صوبہ سرحد میں 1832ء کے دوران میں شکستوں سے پیداہوا تھا، لیکن بدقسمتی سے پٹھان حُریت پسند وہاں سکھوں کامکمل قلع کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور اُن کی جدوجہد ناکام ہو گئی۔ ابھی وہاں کے معرکے پوری طرح ختم بھی نہ ہونے پائے تھے کہ رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو صوبہ سرحد میں مہمات ملتوی کرکے علاقہ پونچھ میں شورش کو فوری طور پر دبانے کا حکم دیا چنانچہ جیسا کہ تاریخی پسِ منظر میں واضح کیاجاچُکا ہے، گلاب سنگھ ایک جری لشکر کے ساتھ پونچھ پر حملہ آور ہوا اور یہاں کے دواہم مراکز منگ اورپلندری کو اپنی یلغار کا ہدف بنایا۔ اُس نے ان مراکز اور گرد و نواح سے آزادی کے جیالوں کو نیست و نابود کرتے ہوئے پونچھ کے باقی علاقوں پر بھی اپنا تسلط قائم کر لیا اور بے گناہ عوام کا قتلِ عام کیا۔ ان کے گھروں، کھیتوں اور کھلیانوں کو جلایا، تباہ و برباد کیا اور انھیں ایسی عبرت ناک اذیتیں اور سزائیں دیں کہ وہ لرزہ خیز داستانیں پڑھتے ہوئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔گلاب سنگھ نے خاص کر سُدھن قبیلہ کے خلاف انتہا کاظلم کیا تاکہ اُن کی آئندہ نسلیں کبھی بُھولے سے بھی آزادی کا نہ سوچ سکیں۔

یہ عرصہ پونچھ کے عوام بالخصوص سُدھن کے لیے قیامت خیز تھا، تاریخ شاہد ہے کہ پندرہ، سولہ ہزار افراد جن میں مرد،عورتیں،بچے بوڑھے اورجوان سبھی شامل تھے تہ تیغ کیے گئے اور اُن کی قلم کی ہوئی گردنوں کے پلندری کے مقام پر انبار لگائے گئے اور وہ جگہ سولیتراں کے نام سے مشہور ہوئی سرداروں اور معززین کی کھالیں کھینچ کر اُن میں بُھوسہ بھراگیا تاکہ خوف و ہراس اور عبرت پیداکی جائے۔ اس تباہی کے آثار گلاب سنگھ کے چلے جانے کے بعد بھی سالوں تک قحط سالی، بُھوک، غُربت اور سنگین افلاس کی صورت میں نمودار رہے۔ اُس وقت کے ماحول اور کیفیت کو بیان کرنا آسان نہیں لیکن اس کا اندازہ ضرور کیا جاسکتاہے۔گلاب سنگھ اور اُس کے ڈوگروں کو اب پُختہ یقین ہو گیاتھا کہ اس سرزمین سے دوبارہ کوئی ڈوگرہ شاہی کے خلاف عملی طور پر بغاوت تو کیا اس کا سوچ بھی نہ سکے گا۔ لیکن وہ بھول رہے تھے کہ ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘۔ مدتوں پونچھ کے عوام اور خاص کر سُدھن قبیلہ کے دلوں میں انتقام اور غلامی سے آزادی کی آگ سُلگتی رہی۔ اتنے سنگین ظلم و استبداد کے باوجودوہ آگ دھیمی تو پڑ گئی تھی مگر بُجھی نہیں تھی، بیسویں صدی کیاوائل میں سُدھن قبیلہ کے فوجیوں نے دنیا کی محکوم قوموں کے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے خلاف لڑتے دیکھا۔ پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی تو استبدادی اور سامراجی قوتوں کی چولیں ڈھیلی پڑنے لگیں اور مجبور و محکوم اقوام کو اپنے وجود کا احساس ہونے لگا۔ محکوم اقوام کے افراد نے سمندر پار اپنی محکوہیت اور دیگر اقوام کی آزادی کا بخوبی اندازہ لگایا اور عظیم مملکتوں کو شکست کھاتے دیکھا۔ جنگ عظیم نے سُدھن قبیلہ کے افراد کو بھی متاثر کیا اور وہ جنگ کے دوران میں اور اس کے بعد بھی دست بدعا رہتے کہ اﷲ تبارک و تعالٰیٰ انھیں وہ قیادت نصیب کرے جو اُن کی دلی آرزوؤں کی تکمیل کرسکے۔ آخرِکاراس جذبہ حُریت کا آغاز ایک مردِ مجاہد سردار بہادر علی خان نے حقوقِ ملکیت کے حق میں آواز بلند کرکے کیا۔

والئی پونچھ راجا بلدیو سنگھ نے ریاست میں بندوبست کا اہتمام کیا جس کا خفیہ مقصد بہ تھا کہ وہ پونچھ کی تمام مرزوعہ اور غیر مزروعہ زمین کا مالک بن بیٹھے۔ لیکن خوش قسمتی سے راولاکوٹ کے علاقے میں بندوبست کے دوران میں نادانستہ طور پر یہ راز فاش ہو گیا، جس سے عوام کے دلوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ لہذا سردار بہادر علی خان نے دیگر اکابرین اور زعما سے صلاح مشورہ کے بعد راجا بلدیوسنگھ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور ڈوگروں کو اس ناپاک منصوبہ میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ بدقسمتی سے لاہور سے واپسی پر راولپنڈی کے قریب سردار بہادرعلی خان کی اچانک وفات ہو گئی۔ اُن کی وفات سے اس تحریک کو ایک زبردست دھچکا لگااور یہ تحریک وقتی طور پر دب گئی اور ڈوگرہ شاہی کی چیرہ دستیوں سے یہ علاقہ تختہ ستم بنا رہا۔ ڈوگرہ حکمران عوام کو کوئی رعایت دینا گناہ سمجھتا تھا اور مہاراجگان جموں وکشمیر اور راجگان پونچھ درمیان میں ہوسِ اقتدار کی جو کشمکش اور رقابت چلتی رہی اُس کا نزلہ بھی پونچھ کے غریب عوام پر گرتا رہا۔ راجا پونچھ ہر وہ حربہ استعمال کرتا رہا جس سے یہاں کے عوام نکہت و افلاس سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکیں۔ مثلاًبہادری اور شجاعت کے عوض حکومت برطانیہ نے پونچھ کے فوجیوں کو جو مربع جات پنجاب میں عطا کرنا چاہے ڈوگرہ شاہی ان کے حصول میں یہ کہہ کر رکاوٹ بنتی رہی کہ پونچھ کے اعزاز یافتہ فوجیوں کو ریاست میں ہی زمین دی جائے گی مگر عملاً ایسا نہ کیا گیا۔

اس نازک دور میں خان صاحب خان محمد خان اپنی فوجی ملازمت پوری کرکے اپنے علاقے میں سیاسی اور سماجی کاموں میں مصروفِ عمل تھے اور اُن کی مساعی، جمیلہ سے قوم اور علاقے میں کافی سیاسی بیداری ہو چکی تھی اور وہ نہ صرف اپنی قوم اور علاقے میں ہر دلعزیز ہو چکے تھے بلکہ حکومتِ برطانوی ہند کی نظروں میں بھی قابلِ احترام شخصیت بن چکے تھے۔ صرف راجا پونچھ اور شرپسند ہندوان سے خائف تھے۔ خان صاحب نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایک گہری سوچ اور تجزیے کے بعد اپنے رفقا کی مشاورت سے عوام کی تکالیف کا احاطہ کیا اور عوام کے مصائب و مسائل کی ایک طویل فہرست مرتب کی جو،39 مطالبات، پر مُشتمل تھی۔ خان صاحب نے ان مطالبات کی فہرست تیار کرنے کے بعد ایک وفد راجا پونچھ کے پاس جانے کے لیے تشکیل دیا۔ اسی سلسلے میں سردار جہانداد خان ایس۔ ڈی۔ ایم (ریٹائرڈ) اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں)۔‘‘ان بیشتر مطالبات کے منظور ہونے سے عوام کو جو ہر وقت ڈوگروں کے دبدبے اور ہیبت میں رہتے تھے۔ پہلی بار گہرا نفسیاتی اثر پڑا اور انھیں اپنی عزتِ نفس کا احساس ہوا۔ چاہڑ و بیگار کا سختیوں میں نرمی آئی تیرنی ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں میں رعایت دی جانے لگی۔ اسی طرح حقوق ملکیت کا حق مستحکم ہوا اور جنگلات کے قوانین کے بے جا استعمال اور سختی میں کمی واقع ہوئی۔ خان صاحب چونکہ ہر تحریک کا محرک ہوتے تھے لہذا عوام نے اس عظیم کامیابی کے بعد انھیں اپنا حقیقی بہی خواہ مان لیا۔‘‘ اٰن 39مطالبات کے علاوہ اس وفد نے راجا کو ایک اور عرضداشت پیش کی جس میں مہنڈر میں سردار فتح محمد کریلوی اور چوہدری غلام حسین لسانوی کی بِلا وجہ گرفتاری اور سردار غلام محی الدین اڑالی کے اکلوتے بیٹے کو ایک حکومت اہلکار کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنانے پر احتجاج کیا گیا اور گلینسی کمیشن کی سفارشات کو پونچھ میں بھی نافذ کرنے پر زور دیا گیا۔

1932ء میں پیش کیے گئے طویل مطالبات، ان پر گفت شنید اور منظوری کے بعد خان صاحب اور ان کے رفقا کارمطمئن بیٹھ نہ گئے بلکہ اپنی سماجی فلاحی اصلاحی جدوجہد اور تیز کر دی ان کا مقصد قوم میں اپنے گردوپیش کے حالات و واقعات اور ان میں نظم و ضبط اور اپنی مدد آپ کاشعور پیداکرناتھا۔ انھوں نے گاؤں گاؤں و قریہ قریہ کا سفر جاری رکھا۔ عوام سے رابطے کو بڑھایا اور ان کو صیحح ڈگر پر لانے کی کوشش جاری و ساری رکھی۔ وہ ڈوگرہ شاہی حصار پر بھی بار بار دستک دیتے رہے اور ان پر عوام کے مسائل واضح کرتے رہے۔ 1933ء میں ایک عظیم اجتماع میں جس کی تعداد ایک ہزار سے زاہد تھی اور جو جامع مسجد پلندری میں خان صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا، مندرجہ ذیل قرار دادیں متفقہ طور پر پاس ہوئیں۔

1۔ پونچھ کے باشندوں، خاص کر سُدھن قبیلہ کے افراد نے مختلف ممالک میں ملازمتیں کرتے ہوئے نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ مگر انھیں اپنی مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں کبھی سروس کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس لیے حکومت جموں و کشمیر سے درخواست کی جاتی ہے کہ اپنی افواج میں اہلیان پونچھ کو بھی سروس کا موقع دیاجائے۔

2۔ پونچھ کے علاقے میں قابلِ کاشت اراضی محدود ہونے کی وجہ سے زمیندار ہمیشہ قحظ و افلاس کا شکاررہتے ہیں۔ ان کی تکالیف کے ازالے کے لیے حکومتِ پونچھ کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا کیوں کہ پونچھ کے حکمران اس طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ اس لیے ایک وفد مہاراجا جموں وکشمیرکے پاس بھیجا جائے۔ جو حصولِ بنجر نو توڑ نے لیے کوشش کرے۔

3۔ پونچھ میں جن زمینداروں نے مجبوری کے تحت خالصہ (مقبوضہ خود)میں اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے دو دو، تین تین مرلہ رقبہ جات پر مکانات تعمیر کیے اور جن کو بوقتِ تعمیر مکانات کسی حکومتی اہل کار نے رکاوٹ نہیں کی،اب تیرہ چودہ سال سے مسلسل ایسے مکانات میں آباد رہنے کے بعد ان زمینداروں کومع اہل و عیال نکالاجا رہاہے اور ان کے مکان اکھاڑے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے بادو باراں میں پڑے ہوئے کئی انسانوں اورحیوانوں کی جانیں تلف ہو رہی ہیں۔ ایسے نامنصفانہ حکم کی تعمیل سے زمیندار اگر باامرِ مجبوری انکار کر دیں گے تو پھر کہا جائے گا کہ یہ بغاوت کرتے ہیں۔ لہذاحکومت کو اس مسلئے پر توجہ دینی چاہیے اور اس بے دخلی کے احکامات واپس لینے چائیں۔

4۔ شیر سنگھ دلد نرائن سنگھ سکنہ نڑالی کے مُشرف بہ اسلام ہونے پر چند معزز مسلمان لیڈروں کو مُرتکبِ جرم قرار دیا گیا اور نمبردار سردار غلام محمد خان، نمبردار عالم خان اور چند دیگر مسلمانوں کو اس ناکردہ گناہ کی پاداش میں نمبرداری سے موقوف کر دیا گیا، مزید برآں سردار غلام محمد خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ جس سے اہل اسلام میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ حکومت کو ایسے ناجائز اور نارواسلوک سے باز رہنا چائیے۔

کشمیر اسمبلی میں پونچھ کی نمائندگی[ترمیم]

سری نگر میں 13 جولائی 1931ء کے اولین المناک حادثے کے بعد (جس میں سنٹرل جیل سری نگر میں ایک مسلمان حریت پسند عبد القدیر خان کی قید اور مقدمے کے خلاف مظاہرہ رنے والوں پر ڈوگرہ پولیس کی گولیوں سے متعدد مظاہرین شہید و زخمی ہوئے تھے) ایک تحقیقاتی کمیشن مسٹر بی جے گلینسی کی سربراہی میں مقرر کیاگیاتھا۔ گلینسی کمیشن نے 1932ء میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی جس میں کئی قسم کی اصلاحات نافذالعمل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان سفارشات میں سے ایک ریاست میں اسمبلی کے قیام سے متعلق تھی جس کو منظور کر تے ہوئے مہاراجا ہری سنگھ نے ریاستی اسمبلی کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لیے سربرجوردلال کی صدارت میں ایک فرنچائز کمیٹی قائم کی۔ فرنچائز کمیٹی نے رائے دہی کا معیار ایسا رکھا جس میں مسلمانوں کو حقِ رائے دہی میں بہت کم تناسب ملتاتھا۔ کمیٹی کی سفارش کے مطابق ہر رائے دہندہ کے لیے ضروری تھا کہ اُس کی ملکیت چھ سو روپے ہو یابیس روپے مالیہ ادا کرتا ہو یاساٹھ روپے سالانہ کرایہ اداکرتا ہو یاآٹھویں جماعت تک تعلیم یافتہ ہو۔ علاوہ ازیں تمام خطاب یافتہ پنشزوں، نمبرداروں اور سرکاری ملازمین کو بھی رائے دہی کا حق دیا گیا۔ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اسمبلی ارکان کی کل تعداد 75 تھی، جن میں 42 نشستیں سرکاری نامزدممبران کے لیے اور 33 منتخب نمائندوں کے لیے رکھی گئیں۔ منتخب نمائندوں کی 33 نشستوں میں سے 21 نشستیں مسلمانوں کے لیے 10 ہندوؤں کے لیے اور 2 سکھوں کے لیے مختص کی گئیں۔ پوری اسمبلی میں مسلمان ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 32 اور ہندوؤں کی 25 تک قرار دی گئی۔

ریاست پونچھ کے لیے کشمیر اسمبلی میں دو نشستیں رکھی گئیں، لیکن راجا پونچھ کشمیر اسمبلی میں اہلِ پونچھ کے لیے نشستیں رکھے جانے کے خلاف تھا، باوجود کہ علاقہ پونچھ اب کشمیر دربار کی سرپرستی میں تھا۔ راجا کاخیال تھا کہ پونچھ کی الگ اسمبلی ہومگر خان صاحب خان محمد خان جنہیں سردار فتح محمد خان کریلوی کی حمایت حاصل تھی پونچھ کی کشمیر اسمبلی میں نمائندگی کے حق میں تھے۔ راجا پونچھ کی حمایت کرنے والوں میں علاقہ کے متعدد سرکردہ حضرات پیش پیش تھے۔ یہ مختلف مؤقف کچھ اخبارات کے موضوع بھی بنتے رہے اور جب اختلافات بڑھے تو خان صاحب اور سردار فتح محمد خان کریلوی نے مولانا غلام حیدر (پھلیاں)، چراغ حسن حسرت اور محمد دین فوق کی وساطت سے علامہ اقبال سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اُن سے ملاقات کی۔ شنید ہے کہ علامہ اقبال نے فرمایا کہ ریل کاوہی ڈبہ منزل پر پہنچتا ہے جو دوسرے ڈبوں سے منسلک رہے اور یہ کہ بڑی جیل چھوٹی جیل سے بہتر ہوتی ہے۔ ان مختلف آراء اور مؤقف پر بحث کرنا کہ کون سا مؤقف صیحح یاغلط تھا، بے محل ہوگا۔ اول تو اس لیے کہ علاقہ پونچھ تاریخی و آئینی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ تھا اور دوسرا یہ کہ کسی مؤقف کی افادیت یاغیر افادیت کی پہچان عوام سے بہتر کسی اور کو نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے انھوں نے پونچھ کے طول و عرض میں جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخاب میں حکومت پونچھ کی مخالفت کے باوجود بھر پور حصہ لیا، جو ایک ریفرنڈم کے مترادف تھا۔ اس سلسلے میں سردار عارف سدوزئی ’تاریخ سُدھن قبائل، میں لکھتے ہیں:۔

خان صاحب میں حلم و بُردباری اور عجز و انکسار کے اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے مگر جرات اور بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے۔راجہ پونچھ کی خواہش کے خلاف پونچھ کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بنانے میں اُن کا تعاون مہاراجہ کو حاصل تھا، جس سے راجہ کے دیوانی اور فوجداری اختیارات ریاست جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ کے دائرہ اختیار میں چلے گئے اور پونچھ کو ریاستی اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوئی۔خان صاحب اس سے قبل راجہ پونچھ کو اصلاح احوال کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

1932ء میں جموں و کشمیر اسمبلی کے پہلے الیکشن ہوئے۔ پونچھ کی دو نشتوں میں سے ایک نشست تحصیل سُدھنوتی اورتحصیل باغ کے لیے تھی اور دوسری حویلی اور مہنڈر کے لیے۔ سُدھنوتی اور باغ سے خان صاحب کے مدِ مقابل امیدوار چوہدری خان بہادر خان (بھنگو)تھے حویلی اور مہنڈر میں سردار فتح محمد خان کریلوی کے مخالف امیدوار شیخ نبی بخش نظامی اور چودھری نلام حسین لسانوی تھے۔ چوہدری خان بہادر خان کو راجا پونچھ کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن خان صاحب عوام میں اپنے فلاحی اوراصلاحی پروگرام کی بناپر بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھے۔ الیکشن کے دوران میں وہ اپنے حلقہ انتخاب میں سرگرم عمل رہنے کے علاوہ مہنڈر اور حویلی تحصیلوں میں بھی گئے اور وہاں کے عوام کو سردار فتح محمد خان کریلوی کو ووٹ دینے کی تلقین کی۔ وہ چاہتے تھے کہ پونچھ سے دوسرا نمائندہ بھی اُن کا ہم خیال ہو،تاکہ دونوں مل کر بہتر طریقہ سے پونچھ کی نمائندگی کرسکیں۔ راجا پونچھ اور اس کی حکومت نے ان دونوں کو ناکام کرنے کی ازحد کوشش کی لیکن جب نتیجہ نکلاتو خان صاحب کے مخالف اُمیدوار کو ایک ہزار ووٹ بھی نہ مل سکے اور اس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ مہنڈر اور حویلی کی نشست پر بھی اُن کے رفیق کار سردار فتح محمد خان کریلوی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ الیکشن کے فوراً بعد خان صاحب بھنگو گئے اور وہاں لوگوں کو بتایا کہ ہم نے باہمی مشورہ کے ساتھ چوہدری خان بہادر خان کو الیکشن میں کھڑا کیا تھا۔ خان صاحب کا مقصد یہ تھا کہ الیکشن کے دوران میں اگر کوئی تلخی پیداہوگئی ہو تو اس کو دور کیاجائے اور قوم میں اتحاد واتفاق کی فضا کو مزید مستحکم کیاجائے۔

اسمبلی کے دوسرے الیکشن 1938ء میں ہوئے۔ اس الیکشن سے قبل راولاکوٹ میں خان صاحب نے ایک جلسۂ عام منعقد کرکے عوام سے دریافت کرنا چاہا کہ آیاوہ دوبارہ انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لیں یاعوام کسی اور کو منتخب کرنا چاہیں گے۔ جلسہ عام میں بعض حضرات نے مطالبہ کیا کہ خان صاحب اپنی اسمبلی کی سابقہ کارکردگی کی تفصیل سے عوام کو آگاہ کریں۔ خان صاحب نے پہلے تو ایسا کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ وہ کاغذ پنسل لیں اور جو کچھ بیان کریں گے اُس کو نوٹ کریں۔ چنانچہ خان صاحب نے اپنی کارکردگی بیان کی اور 39مطالبات کی فہرست سے لے کر دیگر اُن تمام امور کی تفصیل پیش کی جس پر وہ عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں اُس وقت تک سرگرم عمل رہے تھے۔ اس تفصیل کو سننے کے بعد مجمع نے ان کو بلا مقابلہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ راولاکوٹ کے اس جلسۂ عام کے فیصلے کے بعد تحصیل سُدھنوتی او ر تحصیل باغ کے دیگر مراکز پر بھی جلسے منعقد ہوئے اور ہر جگہ خان صاحب کے بلامقابلہ منتخب کیے جانے کے فیصلے کی تائید کی گئی۔ چنانچہ اُن کے مقابلے میں کسی دوسرے امیدوار نے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہ کیے اور وہ بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ لیکن اسی سال مسلم کانفرنس کے ارکان جموں و کشمیر اسمبلی نے اجتماعی طور پر اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا، جس میں سردار فتح محمد خان کریلوی اور خان صاحب بھی شامل تھے چنانچہ دوبارہ انتخاب کرائے گئے اور مسلم کانفرنس نے اکیس کی اکیس مسلم نشستیں جیت لیں جبکہ مستعفی ہونے سے پہلے ان کے پاس اُنیس نشستیں تھیں نیز خان صاحب بھی اپنے حلقہ سے دوبارہ بلامقابلہ ممبر منتخب ہوئے۔ اس طرح خان صاحب نے 1934ء سے 1946ء تک مسلسل 12 سال تک جموں و کشمیر اسمبلی میں تحصیل سُدھنوتی اور تحصیل باغ کی نمائندگی کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کے حلقۂ انتخاب کے عوام ان کی کارکردگی سے پورے مطمئن تھے۔ جموں و کشمیر اسمبلی (پرجاسبھا) کے اس وقت کے ریکارڈ سے بخوبی عیاں ہے کہ خان صاحب نے نہایت احسن طریقہ سے اپنے فرائض منصبی کا حق اداکیا اور عوام کے مسائل اور علاقے کی ضروریات کو بڑی تفصیل اور بے باکی سے اسمبلی میں پیش کیا۔

1939ء سے 1945ء کی جنگ عظیم دوم کے دوران میں خان صاحب نے پونچھ سے اور خاص کر سُدھن قبیلہ سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کروایا تھا جو ہندوستان اور بیرونی ممالک میں جنگی محاذوں پر بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ جنگی حالات کی وجہ سے ان تک ڈاک کے ذریعے خط کتابت کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں تھا،لہذا فطری بات ہے کہ انھیں اپنے گھروں اور خویش و اقارب کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اس کا خان صاحب سے زیادہ کس کو احساس ہو سکتا تھا۔

انھوں نے حکومت برطانوی ہند سے اجازت حاصل کی کہ وہ گاہ بگاہ آل انڈیا ریڈیو دہلی سے پونچھ کے فوجیوں کے لیے پیغام نشر کیا کریں گے جو ہ جنگ کے دوران میں باقاعدگی سے نشر کرتے رہے۔ ان کے 1941ء کے نشریے کامتن ان کی دستاویزات سے حاصل ہوا جس کو ضمیمہ میں شامل کیاگیاہے۔ اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خان صاحب کتنے منظم طریقے سے اپنے علاقے کے فوجیوں کو ہر چھوٹی بڑی خبر سے مطلع کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ کشمیر اسمبلی میں پونچھ کے خطہ کی نمائندگی خان صاحب نے بڑی جرات اوربے باکی سے کی۔ پونچھ میں ڈھائے جانے والے مظالم سے جب بیرونِ پونچھ کے لوگ واقف ہوئے تو راجا پونچھ نے اپنی برہمی کا اظہار اس طرح کیا کہ خان صاحب کو سولجر بورڈ کی سیکرٹری شپ اور اسسٹنٹ ریکروٹنگ آفیسر کے عہدوں سے سبکدوش کر دیا۔ خان صاحب نے اس بارے میں ریذیڈنٹ کشمیر کو بوساطت وزیر اعظم جموں و کشمیر ایک یادداشت پیش کی۔ جس میں انھوں نے راجا پونچھ کے اس بے جااقدام پراحتجاج کیا اور اصل وجوہات بتائیں انھوں نے لکھا کہ بطور ممبر اسمبلی وہ عوام پر کی گئی زیادتیوں اور ان کے مسائل سے عدم توجہی کے سلسلے میں حکومتِ پونچھ پر تنقید کرتے رہتے ہیں جو اُن کا فرض منصبی ہے لہذا بغیر انکوائری کرائے، غلط الزامات کی پاداش میں انھیں سیکرٹری سولجر بورڈ اور اسسٹنٹ ریکروٹنگ افسر کے عہدوں سے سبکدوش کیاگیاہے۔ خان صاحب نے اس یادداشت کے آخر میں لکھا کہ وہ بحیثیت ممبر اسمبلی عوام کے اعتماد کو مجروح نہیں کرسکتے کیونکہ بطور نمائندہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مصائب ومسائل کو اسمبلی کی سطح پرپیش کریں۔ البتہ انھوں نے راجا صاحب کی طرف سے لگائے الزامات کے سلسلے میں باقاعدہ انکوائری کی دراخواست کی۔ اس طرح بارہ سال تک متواتر اپنے فرائض سر انجام دینے کے بعد 1946ء میں خان صاحب نے خود الیکشن لڑنے کی بجائے سردار محمد ابراہیم خان کو اپنی جگہ ممبر اسمبلی بنانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ بدلتے ہوئے سیاسی و اقتصادی حالات کی وجہ سے معاملات پیچیدہ صورت اختیار کرتے جا رہے تھے جس کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اشخاص کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کے پیش نظر انھوں نے جموں و کشمیر اسمبلی میں نمائندگی کے لیے سردار محمد ابراہیم کو منتخب کیا جن کی تعلیمی آبیاری میں خان صاحب کی حوصلہ افزائی اور دعائیں بھی شامل تھیں۔ خان صاحب نے انھیں 1946ء میں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ کے عہدے سے استعفی دلواکر اپنی جگہ الیکشن کے لیے کھڑا کیا۔ یہی نہیں بلکہ نہایت خراب موسمی حالات، باد و باراں اور برف باری کے دوران میں سردار محمد ابراہیم کو ساتھ لے کر خان صاحب تحصیل باغ اورتحصیل سُدھنوتی کے قریہ قریہ گئے، لوگوں سے متعارف کرایا اور انھیں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ اس دورے میں ہر جگہ جب لوگ یہ سنتے تھے کہ خان صاحب اپنی جگہ کسی اور الیکشن میں کھڑا کر رہے ہیں تو وہ روتے اور خان صاحب سے التجا کرتے کہ وہ انھیں چھوڑ کر نہ جائیں۔ لیکن بقول سردار محمد ابراہیم خان، خان صاحب میں یہ خوبی تھی کہ وہ اول تو بہت سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھاتے تھے اور ایک دفعہ جب فیصلہ کر لیتے تھے تو پھر اس پر اٹل طریقے سے عمل کرتے تھے۔ ان کے کردار میں لغزش کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ سردار محمد ابراہیم اُن کا بچہ ہے اور اُس کو ووٹ دینا خود اُن کو ووٹ دینے کے مترادف ہوگا۔

تاریخ میں ایسی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے کہ کسی شخص نے عوام میں اپنی مقبولیت کے عین عروج پر اس قدر دور اندیشی اور ایثار کا ثبوت دیا ہو۔ جہاں تک برِّصغیر ہند میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کا تعلق تھا۔ خان صاحب کی اس پر گہری نظر تھی۔ وہ پونچھ میں ڈوگرہ فوجیوں کی امداد اور عوام پر ظلم و ستم کے سخت خلاف تھے اور اس سلسلے میں 1946ء میں انھوں نے دہلی میں حضرت قائداعظم سے ملاقات کی اور اُن کی اپنی ایک یادداشت میں ان کے اپنے ہاتھوں تحریر ہے کہ انھوں نے قائداعظم سے گزارش کی کہ پونچھ میں 80 ہزار تربیت یافتہ فوجی موجود ہیں، جو علاقے کو ڈوگرہ شاہی سے آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کے خواہاں ہیں، بشرطیکہ ہتھیار مہیا کیے جاسکیں جس پر حضرت قائد اعظم نے محترمہ فاطمہ جناح کی موجودگی میں یہ فرمایا کہ ’’جدوجہد شروع کرو، اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔‘‘ خان صاحب کی اس تحریر کے علاوہ ان کی حضرت قائد اعظم سے رابطے کی ایک اور تصدیق علی احمد شاہ صاحب سابق ڈیفنس منسٹر و صدرِ آزاد کشمیر کی تصنیف’’جنگ آزادئ کشمیر‘‘ سے ظاہر ہوتی ہے جس میں شاہ صاحب نے قائداعظم کو لکھی جانے والی ایک یادداشت کا ذکر کیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ وہ خان صاحب کرنل خان محمد خان کی ایک چِٹھی قائداعظم کی خدمت میں من و عن بھیج رہے ہیں۔ جو پونچھ کے حالات کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔

جہادِ آزادئ کشمیر کے دوران میں[ترمیم]

جب بھی کوئی ملک یاقوم اپنی آزادی کے حصول کے لیے جنگ پر کمر بستہ ہوتی ہے تو وہ ایسا کسی فوری وجہ یاردعمل کے تحت نہیں کرتی بلکہ اس کے صدیوں پر محیط تاریخی محرکات ہوتے ہیں جو بالآخر انھیں جنگ یاجہاد کے آخری راستے کو اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ جہاد آزادئ کشمیر، خاص طور پر علاقہ پونچھ(موجودہ آزاد کشمیر) کے تاریخی واقعات و محرکات کاک احاطہ تاریخی پس منظر میں کیاجاچکا ہے۔ واقعات کی یہ کڑی 1819ء میں سکھوں کے دورِ حکومت سے شروع ہوئی 1832۔1836ء کے قیامت خیز چندسالوں میں انتہا کو پہنچی اور ظلم و استبداد کا یہ سلسلہ ڈوگروں نے جنگِ آزادئ کشمیر تک مسلمانوں پر روارکھا۔ جہاں تک ماضی قریب کے محرکات کاتعلق ہے ان کا سلسلہ جنگ عظیم دوم سے شروع ہوا۔ جب علاقہ پونچھ، خاص کر سُدھن قبائل کے ہزاروں نوجوانوں کو برطانوی ہند فوج میں شمولیت اور یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں جنگی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے وہاں حاکم و محکوم کو اپنی آزادی برقرار رکھنے یاحاصل کرنے کے لیے عظیم جانی و مالی قربانیاں دیتے دیکھا۔ چنانچہ اُن کے دلوں میں بھی آزادئ کانفسیاتی ولولہ اُبھرنا ایک قدرتی امر تھا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر برصغیر میں سیاسی انقلاب فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو چکا تھا، جس سے ظاہر تھا کہ انگریز اب زیادہ دیر تک ہندوستان میں اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ اس سلسلے کا ایک نمایاں پہلو دو قومی نظریے کی صورت میں رُونما ہو رہا تھا اور مسلم لیگ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں 23 مارچ 1940ء کی تاریخ ساز قرارداد لاہور کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ کر چکی تھی اور اس کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل تھی، جبکہ انگریز تقیسم ہند کے خلا ف تھے اور کانگریس نے اکھنڈ بھارت کا راگ الاپ رکھا تھا۔ یہ سیاسی کشمکش بالآخر 3 جون 1947ء کے برطانوی پلان پر اختتام پزیر ہوئی، جس کی رو سے برصغیر کی تقسیم اور دو علاحدہ آزاد مملکتوں ہندوستان اورپاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومت برطانیہ کے اس تاریخی فیصلے کی رو سے ہندوستانی ریاستوں کو 15اگیست 1947ء تک اپنے جغرافیائی محل وقوع کے تقاضوں، معاشی و اقتصادی حالات اور ریاستی عوام کی رائے کو محلوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہندوستان یاپاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کافیصلہ کرنا تھا۔ کشمیر میں چونکہ 90 فی صد آبادی مسلمانوں کی تھی لہذا مسلمانوں کا خیال تھا کہ ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گی۔ اقتصادی جغرافیائی اور انتظامی لحاظ سے بھی ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان پر انحصار تھا لکن اس کے برعکس ڈوگرہ مہاراجا نے کچھ ایسے اقدام کرنے شروع کیے جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں نہیں ہے۔ 3جون 1947ء تقسیم ہند کے پلان کے بعد واسرائے ہند لارڈماؤنٹ بیٹن، مہاتماگاندھی، اچار یہ کے پلانی، سردار پٹیل اور بہت سے دیگر کانگریسی لیڈر کشمیر گئے۔ انھوں نے مہاراجا سے ملاقاتیں کیں اور ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے سلسلے میں گٹھ جوڑ کیا۔ ساتھ ہی ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن نے اپنے فیصلے میں ضلع گرداسپور کے مسلم اکثریت والے سے ملاقاتیں کیں اور ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے سلسلے میں گٹھ جوڑ کیا۔ ساتھ ہی ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن نے اپنے فیصلے میں ضلع گرداسپور کے مسلم اکثریت والے کچھ علاقوں کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا اور اس طرح ہندوستان کو کشمیر کا راستہ مل گیا۔ باؤنڈری کمیشن کے اس ناقابلِ فہم فیصلے سے مہاراجا کو اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں مزید تقویت ملی لہذا اس نے متعدد ایسے اقدامات کرنے شروع کیے جن سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ریاست کوہندوستان کا حصہ بنانا چاہتاہے۔ ان اقدامات کی مختصراً تفصیل درج ذیل ہے:-

1۔ تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے مہاراجا کشمیر نے حکومت پاکستان کے ساتھ حالات کو جوں کا تون رکھنے کا معاہدہ کیا، تاکہ حتمی فیصلے سے پہلے کچھ اور سوچ و بچار کر سکے۔ دراصل اس معاہدے کے ذریعے وہ پاکستان کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر وقت حاصل کرنا چاہتا تھا، تاکہ ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کے سلسلے میں ضروری اقدامات کرسکے اس کا ثبوت ان اقدامات سے بھی واضح تھا جو ریڈ کلف ایوارڈ کے برسرعام آتے ہی ہندوستان نے اپنے سرحدی مواصلات کو کشمیر کے ساتھ ملانے کے سلسلے میں بڑی تیزی سے اٹھانے شروع کر دیے تھے۔

2۔ مہاراجا کشمیر نے بھی ریاست کے اندر مواصلات کا ایک پراجیکٹ شروع کیا۔ جس کامقصد جموں وسے مظفر آباد تک ایک متبادل سڑک براستہ نوشہرہ،جھنگڑ، دھرمسال، مہنڈر، پونچھ و باغ بنانا تھا۔

3۔ ریاست میں چند ہندو تنظیمیں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ جو مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتی تھیں۔ ان میں سب سے انتہائی متعصب اور فرقہ پرست راشٹر یہ سیوک سنگھ نامی ایک تنظیم تھی جس کی شاخیں 1934ء سے ریاست کے ہر بڑے شہر میں قائم تھیں۔ یہ تنظیم بڑی حد تک مسلح تھی۔1946ء میں اس کا صدر دفتر بھی امرتسر سے جموں منتقل کر دیا گیاتھا اور اسے مزید مسلح کیاجانے لگا۔ ظاہر ہے یہ بغیر مہاراجا کی ایماء اور اجازت کے ممکن نہ تھا۔ ہدوستان میں مسلمانوں کے خلاف اس تنظیم کی کارروائیوں سے صاف ظاہر تھا کہ اس کو ریاست میں کیوں منظم اور مسلح کیاجا رہاہے۔

4۔ جنگِ عظیم (دوم) کے خاتمے پر ہزاروں فوجی ریٹائر ہوئے۔ علاقے پسماندہ ہونے کی بنا پر پونچھ میں سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا پیداہوگا۔ خان صاحب خان محمد خان نے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دی۔ وائسرائے ہند نے ان سابقہ فوجیوں کی بعدازریٹائرمنٹ بحالی اور روزگار کے ذرائع مہیا کرنے کے لیے ایک بھاری رقم مختص کی تھی۔ اس فنڈ کا ایک کثیر حصہ سُدھنوتی اور باغ میں خرچ کرنے کا منصوبہ بنایاگیاتھا۔ جس کے لیے رقم بھی منظور کردی گئی تھی۔ لیکن حکومتِ کشمیر نے اس رقم کو علاقہ کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے سے وابستہ طور پر ٹال مٹول سے کام لیا۔ خان صاحب نے حکومت پرزور دیا کہ یہ رقم اس علاقے کے فوجیوں کے مشورے سے اسی علاقہ میں خرچ کی جائے اور پونچھ میں کے جی آراسکول جہلم کی طرز کاایک ملٹریاسکول کھول جائے۔ نیزاسکول کھلنے تک جہلم مِلٹریاسکول میں پونچھ کے لیے زیادہ نشستیں مختص کی جائیں۔42 جنوری 1947ء کو پلندری میں ایک عظیم الشان جلسہ میں یہ مطالبات متفقہ طور پر منظور کیے گئے اورخان صاحب نے اس کی نقلیں سی ان سی انڈیا اور چیف آف دی جنرل سٹاف اور جنرل ویلفیئر آفیسر آرمی ہیڈ کوارٹر نئی دہلی کو بھیجیں۔ اس قرارداد میں یہ درخواست بھی کی گئی کہ حنگِ عظیم میں خدمات کے صلہ میں برصغیر ہند میں جو جاگیریں دی جا رہی ہیں، وہاں کشمیر کے فوجیوں کے لیے بھی رقبہ مختص کیاجائے اور پنشنرفوجیوں کے لیے روزگار مہیاکیاجائے۔ لیکن حکومتِ کشمیر نے ان معاملات پر کوئی توجہ نہ دی۔

5۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد حکومتِ برطانیہ نے سولجرز بورڈوں کی تنظیم نو شروع کی۔ اس بہانے ڈوگرہ حکومت نے ڈسٹرکٹ سولجرز بورڈ پلندری کو پونچھ منتقل کرنا چاہا۔ اس تجویز پر غور کرنے کے لیے وزیر پونچھ بھیم سین کی صدارت میں 23 نومبر 1945ء کو پلندری میں ایک اجلاس ہوا۔ لیفٹیننٹ کرنل حسین خان (گوراہ) نے سولجرزبورڈ پلندری سے پونچھ نہ منتقل کرنے کی تجویز پیش کی۔ جس کی علاقہ کے دیگر نمائندوں نے تائید کی، لیکن کچھ حکومت نواز ارکان نے جن میں شیخ نبی بخش نظامی پیش پیش تھے، اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ جب گورنمنٹ کے دیگر تمام دفاتر پونچھ میں ہیں تو سولجرز بورڈ کا یہ صدر دفتر بھی پونچھ میں ہونا چائیے۔ جو نمائندے منتقلی کے حق میں نہیں تھے اُن کا مؤقف تھا کہ پلندری فوجیوں کامرکز ہے اور اسی بنا پر ڈسٹرکٹ سولجرز بورڈ کا دفتر شروع ہی سے یہاں قائم ہوا تھا لہذا صدر دفتر بدستور پلندری میں ہی رہنا چائیے، لیکن شیخ نظامی اور دیگر حکومت نواز اپنے مؤقف پر بضد تھے۔ جب یہ خبر باہر لوگوں تک پہنچی تو زبردست ہنگامہ ہو گیا اور وزیربھیم سین اورڈوگرہ حکومت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ یہ ہنگامہ اچانک اور اس شدت سے ہوا کہ وزیر پونچھ پر ایک سکتہ طاری ہو گیا اور کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ وزیر پونچھ نے اپنے خلاف نعروں کے رد عمل میں ایک سازش کے ذریعے یہاں کے عوام کو ایک سبق سکھانا چاہا اور اس سارے ہنگامے کی ذمہ داری سردار فیروز علی خان اور سردار جہانداد خان کے سرڈالی۔ اس ناکردہ گناہ کی پاداش میں اول الذکر کو نظر بند کر کے پہلے پونچھ اور پھرنوشہرہ بھیج دیا گیا۔ سردار جہانداد خان کو بھی معطل کرکے پونچھ شہر میں پابند کر دیا گیا۔ پھر 27 نومبر 1947ء کو وزیر پونچھ نے ایک سازش کے ذریعے پلندری کاخزانہ لوٹے جانے کا ڈھونگ رچا کر غازی کمال خان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان میں کیپٹن عبد العزیز(پلندری)سردار شیر خان (پلندری)، غلام نبی اعوان (بِلاّں گلہ)شفاعت علی خان (سُنیاری) فیروز علی خان (سُنیاری)، فرمان خان (بارل) محمد زمان (بارل) شامل تھے۔ غازی کمال خان کو بائیس سال قید کی سزادی گئی۔ علاوہ ازیں پلندری اور چھ نواحی گاؤں، پورہ،سنیاری، بارل، سیاہ،چھلاّڑ اور برہم پورہ (موجودہ اسلام پورہ) پر تعزیری ٹیکس عائد کیا گیا جو جبراً وصول کیاجانے لگا۔ اس ٹیکس اور لوگوں کی قید و بند کے سلسلے میں خان صاحب نے ایک وفد وزیرِ پونچھ کے پاس بھیجا لیکن اس نے بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا، جس کے بعد خان صاحب نے سردار محمد ابراہیم سے مشورہ کرکے ایک وفد تشکیل دیا جو جموں میں مہاراجا ہری سنگھ سے ملا۔ اس وفد میں خان صاحب اور سردار محمد ابراہیم خان کے علاوہ سردار محمد عالم خان (پلندری)لیفٹیننٹ عبد القادر خان (پلندری) حوالدار خوش حال خان (ٹالیہن)، صوبیدار جلال خان (چھ چھن اور سردار حسن محمد خان (ہجیرہ)شامل تھے۔ اس وفد نے حقیقی صورتِ حال سے مہاراجا ہری سنگھ کوآگاہ کیا۔ جس پر اُس نے ٹیکس تو معاف کر دیا لیکن جس بات پر ہنگامہ ہوا تھا کہ ڈسٹرکٹ سولجرز بورڈ کا دفتر پلندری سے تبدیل نہ کیاجائے۔ اُسے پونچھ تبدیل کر دیا اور ایک متعصب ہندو کیپٹن دیوی داس کو اس کا سیکرٹری مقررکیا۔ حکومت کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے عوام کے دلوں میں نفرت کے مزید جذبات بھڑکے۔

6۔ 1946ء خان صاحب نے چند فوجی افسروں کے ساتھ صوبیدار بابادوست محمد خان (منگ)کی وساطت سے برطانوی افواج ہند کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل آکنلک، سے ملاقات کی اور انہین اس امر سے آگاہ کیا کہ پونچھ سے ساٹھ، ستر ہزار افراد نے جنگِ عظیم (دوم)میں حصہ لیا ہے۔ بھرتی کرتے وقت سرکار نے وعدہ کیاتھا کہ ہمارے علاقہ میں تعمیر و ترقی کے اقدام کیے جائیں گے لیکن میدانِ جنگ میں ہماری اعلیٰ خدمات کے باوجود ڈوگرہ حکومت نے کوئی ترقی کا کام نہیں کیا۔ ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہیں اور بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ وفد نے کمانڈر انچیف سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ خود علاقہ کا دورہ کریں اور وہاں کی پسماندگی کاُ بچشم خود ملاخطہ کریں۔ اس شکایت پر کمانڈ ر انچیف نے علاقہ کا دورہ کرنا چاہا۔ لیکن مہاراجا ہری سنگھ نے اسے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ خود دورہ کرے گا اور علاقہ کی ضروریات اور مراعات کا بندوبست کرے گا۔ اس طرح کمانڈانچیف کو مہاراجا نے دورہ پر نہ آنے دیا۔ اس کے فوراً بعد ہی مہاراجا نے راولاکوٹ کے دورہ کا اعلان کر دیا۔ مہاراجا کی آمد کے سلسلے میں خان صاحب اور ان کے رفقا نے تیاری شروع کی اور راولاکوٹ کی سج دھج میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ خان صاحب نے علاقہ کے ہندوؤں اور سکھوں کو کہا کہ ایک ساتھ مل کرمہاراجہ کا استقبال کیا جائے لیکن ان کے لیڈر کیپٹن دیوی داس نے صاف انکار کر دیا اور مہاراجا کا علاحدہ سواگت کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ راولاکوٹ پہنچنے سے پہلے ہی کھڑی دھرمسال کے مقام پر مہاراجا سے ملے اور اس کویہ تاثر دیا کہ راولاکوٹ کے مقام پر پورے پونچھ سے مسلمان فوجی باوردی اور ہتھیاروں سے مسلح ہوکر مہاراجا کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے آئے ہوتے ہیں اور مہاراجا کوقتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اس طرح وہ مہاراجا کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چنانچہ جب مہاراجا 23 اپریل 1947ء کو راولاکوٹ پہنچا تو وہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار سابق فوجی باوردی اُس کے استقبال کے لیے موجو د تھے، جنہیں دیکھ کر اس کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ ڈوگرہ فوج کی ایک چھوٹی سی ٹولی الگ ایک طرف کھڑی تھی۔ مہاراجا سیدھاان کے پاس گیا اور ان سے سلامی لے کر ڈاک بنگلہ چلاگیا۔ اُس کے رویے سے پونچھ کے فوجیوں میں جو دُور دراز سے اس کے استقبال کے لیے آئے تھے، سخت نفرت پیدا ہوئی۔گو بعد میں خان صاحب اور ان کے رفقا کے ایک وفد کے کہنے پر اس نے مسلمان فوجیوں سے بھی سلامی لی لیکن اس کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ وہ مسلمان فوجیوں کا اتنا بڑا اجتماع اور ان کو اس قدر منظم دیکھ کر بہت خوف زدہ تھا۔ اس کی حفاطت کے لیے ڈاک بنگلہ کے چاروں طرف مورچے کھودے گئے اور فوجی پہرہ بٹھادیا گیا۔ مہاراجا کی آمدکی خوشی میں راولاکوٹ اور گرد و نواح میں رات کوچراغاں بھی کیا گیا جس کودیکھ کرمہاراجہ اپنے قتل کی خبروں کے پس منظر میں کچھ حیران اور متاثر بھی ہوا۔ دوسرے دن خان صاحب اور ان کا وفد مہاراجا سے دورباہ ملا اور علاقہ کے مسائل و معاملات سے خاص کر سابق فوجیوں کی توقعات سے اُس کو آگاہ کیا۔ مگر وہ بغیر کسی بات کا معقول جواب دیے واپس چلاگیا۔

7۔ ریاستی فوج کی تعداد تیرہ ہزار تھی لیکن راولاکوٹ سے واپسی پر مہاراجا نے اس کو دگنا کرنے کے احکامات جاری کیے اور 9پلٹنوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے تحصیل سدھنوتی اور باغ میں مختلف جگہوں پر تعینات کر دیا۔ فوج نے مظفر آباد تک دریاکے کنارے باقاعدہ فوجی چوکیاں قائم کر لیں۔ اندرونِ علاقہ بھی ہر اہم مرکز پر فوجی کیمپ قائم کر لیے جن میں تراڑ کھل، راولاکوٹ پلندری، تھوراڑ، منگ،آزاد پتن اور تحصیل باغ میں دھیرکوٹ،ہل سرنگ، ساہلیاں، چڑالا فوج نے باقاعدہ مورچے بنالئے تھے، جیسا کہ کسی دشمن کے علاقے میں کیاجاتا ہے۔ ان دنوں مکی کی فصل تقریباً تیار تھی۔ ڈوگرہ فوجیوں نے فصل کو تباہ و برباد کرنا شروع کر دیا اور لوگوں سے جبراً بیگار لینا شروع کردی۔ جوشخصُ پس و پیش کرتا اسے بُری طرح ماراپیٹا جاتا۔ اس طرح علاقے میں خوف ہ ہراس کی فضاء پیدا کی جانے لگی۔

8۔ پونچھ کے ہزاروں لوگ حصولِ معاش کے لیے ہندوستان میں خاص کرپنجاب میں گئے ہوئے تھے۔ جب مختلف ذرائع سے یہ خبریں ان تک پہنچنا شروع ہوئیں تو انھوں نے گھروں کا رُخ کیا، مگر ڈوگرہ فوج نے ریاست میں داخل ہونے کے تمام راستوں کی عمومی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ داخلے کے وقت لوگوں کی مکمل تلاشی لی جاتی اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیاجاتا یااس پر بھاری کسٹم لگایاجاتا۔

9۔ سُدھنوتی اور باغ میں ہندوؤں اور سکھوں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں بہت کم تھی اور وہ بڑی رواداری سے رہتے تھے لیکن ڈوگرہ فوج کے پہنچتے ہی ان کے تیور بھی بدل گئے۔ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے کے علاوہ ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بناتے اور قائد اعظم اور پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے۔ جب مسلمانانہیں اس کا معقول جواب دیتے تو ان کے خلاف اسلحہ رکھنے کی جھوٹی اطلاعات ڈوگرہ فوج کو پہنچا کر تلاشیوں، گرفتاریوں اور جائیدادوں کونذرِ آتش کرنے کے اقدامات کرواتے۔

10۔ پونچھ میں پہنچنے کے کچھ عرصہ تک ڈوگرہ سپاہی اپنا راشن کھاتے رہے لیکن جب ان کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو پٹواریوں اور دوسرے اہلکاروں کے ذریعے مسلمانوں سے اشیاء خوردنی جمع کرنا شروع کر دیں۔ اس کا طریق کاریہ تھا کہ سرکاری اہل کار ہندوؤں اور سکھوں کو ساتھ رکھ کر گاؤں میں جاتے جو مسلمانوں سے سامان جمع کرکے زیادہ ترخود ہضم کرلیتے اور فوج کو اطلاح دیتے کہ مسلمان نہ صرف سامان دینے سے انکاری ہیں بلکہ ڈوگرہ فوج اور سرکار کو بھی بُرا بھلاکہتے ہیں، جس پر ڈوگرہ سپاہی گاؤں والوں سے زبردستی رہا سہارا سباب بھی چھین لے جاتے۔ فوجی کیمپوں کے گرد و نواح میں رہنے والے مسلمان خاص طور پر بے حد پریشان تھے۔ ڈوگرہ فوج کا یہ بھی نادر شاہی حکم تھا کہ ہر مسلمان اپنی نصف مکئی اور گھاس خود لاد کر فوجی کیمپوں میں جمع کرائے گا، بصورت دیگرتمام گھاس اور مکئی ضبط کر لی جائے گی۔

11۔ پونچھ میں فوجی ناکہ بندی کی وجہ سے تجارت میں خلل پڑ گیا۔ جس سے علاقہ میں اشیاء خوردنی کا حصول مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ہندو تاجران نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور ڈوگرہ فوج کے علاقے میں پھیل کر مورچہ بند ہو جانے کے بعد انھوں نے مسلمانوں سے منہ مانگی قیمتیں وصول کرنی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ نمک پانچ روپے سیر فروخت ہونے لگا۔ یوں مسلمانوں کی زندگی مزید اَجیرن ہو گئی۔ جب سردار محمد ابراہیم کو ڈوگرہ فوج کی وحشت و بربریت کے ان اقدامات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے انتخابی حلقہ سدھنوتی اور باغ کی دورہ کیا۔ پاکستان کے حق میں تقریریں کیں اور لوگوں کو حوصلے بلند رکھنے کو کہا۔ وہ وزیر پونچھ دیوان بھیم سین سے بھی ملے لیکن وزیر نے انھیں بتایا کہ وہ فوج کی ان جارحانہ کارروائیوں کو روکنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ موصوف اپنا پونچھ کا دورہ مکمل کرکے 15جون 1947ء کو واپس سری نگر چلے گئے۔ علاقے میں ان کے دورے اور تقریروں کافوری نتیجہ یہ نکلا کہ تحصیل سُدھنوتی اور باغ میں دفعہ 144نافذ کردی گئی، سرحدوں کی نگرانی سخت کردی گئی اور بہیمانہ کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی گئی۔ ریاست میں جب مہاراجا کا کانگریسی لیڈروں سے ملاقاتوں اوران ممکنہ اثرات کو سیاسی سطح پر محسوس کیے جانے لگا تو 19جولائی 1947ء کو جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی مجلسِ عاملہ کا تاریخ ساز اجلاس سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی ریائش گاہ پر منعقد ہوا۔ جس میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد پاس ہوئی۔ مہاراجا نے اس قرارداد کے ردِّ عمل میں انتہا پسند اور فرقہ پرست ہندوجماعتوں خاص کرراشٹر یہ سیوک سنگھ کو ریاست میں مسلمانوں کے خلاف ظُلم و ستم کرنے کی کھلی اجازت دے دی۔ مزید برآن ایک خصوصی آرڈیننس کے ذریعے چار ہزار ہندوؤں کے گھروں میں رائفلیں مہیا کی گئیں، مسلمانوں کے اسلحہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور ڈوگرہ حکومت نے عوام کو دبانے کے لیے مندرجہ ذیل خصوصی احکامات بھی جاری کیے:۔

1۔ عوام کے تمام ناجائز ہتھیار بحق سرکار ضبط کر لیے جائیں۔

2۔ پاکستان کی سرحد سے ملحقہ تمام ریائشی علاقے خالی کرالئے جائیں۔

3۔ ڈوگرہ فوج کو اختیار دیا گیا کہ تخریبی سرگرمیوں کے شبہ میں وہ کسی بھی شخص کو گولی کا نشانہ بناسکتے ہیں۔

4۔ پونچھ اور میر پور میں مارشل لا نافذ کیا گیا اور اس پر عملدرآمد کے سلسلے میں ڈوگرہ فوج کو علاقے میں پھیلا دیا گیا۔

یہ احکامات ملتے ہی ڈوگرہ فوجی اور نیم فوجی دستوں نے ظلم و تشدد کا بازار گرم کر دیا۔ وہ مختلف حربوں سے مسلمانوں کو مشتعل کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کے خلاف فوجی کارروائی کرکے انھیں کُچل دیا جائے اور انھیں ریاست سے ہجرت کرنے پر مجبور کیاجائے۔ اس قسم کا ایک واقعہ پلندری کے مقام پر پیش آیاجہاں ایک ہندو استاد کا لُورام نے قرآنِ پاک کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پراسکول کے مسلمان طلبہ نے احتجاج کیااور یہ خبر لوگوں تک پہنچائی۔ اس پر مسلمانوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج جلوس نکالا اور زبردست مظاہرہ کیا۔ مقامی حکام نے کالورام کو تو وہاں سے تبدیل کر دیا مگر وزیر پونچھ نے بلا وجہ دومسلمان اساتذہ محمد حنیف اور مولوی سرفراز کے خلاف تادیبی کارروائی کی اور انھیں گرفتار کر لیا۔ اس کے برعکس اگر مسلمانوں سے نادانستہ طور پر بھی کوئی حرکت ہو جاتی تو اس پر سخت سزادی جاتی۔ مثلاً جب موضع گوراہ میں چند طلبہ نے ہندوؤں کے مندر میں مورتیوں کو توڑ دیا تھا تو اس پر ہندوؤں نے توہین مذہب کا واویلا شروع کر دیا اور ایک تحریک چلائی۔ حکومت نے گوراہ کے نمبردار فیروز دین ادارے کے طلبہ مولوی محمد اکبر، مولوی جان محمد، مولوی محمد عزیز اور دیگر لوگوں پر مقدمہ چلا کر انھیں دو سال کی سزا دی۔ ان وجوہات سے مسلمان نوجوانوں اور سابقہ فوجیوں میں ڈوگرہ شاہی کیخلاف مزید نفرت بڑھی اور وہ نہتے ہاتھوں بھی اُن پر حملہ کرکے اُن سے ہتھیار چھیننے کے لیے تیارہوگئے۔ مگر خان صاحب ہمیشہ انھیں ایسا کرنے سے منع کرتے رہے۔ جہاں تک نوجوانوں کے جوش وجذبے کا تعلق ہے تو یہاں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر لاناضروری ہے اور وہ یہ کہ آزاد کشمیر میں سب سے پہلے 14اگست 1947ء کوپلندری کے مقام پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔ یہ پرچم سردار شاہپال خان ساکن ٹھلی متعلم جماعت دہم نے اپنے دیگر طالب علم ساتھیوں، سردار محمد عظیم خان (بارل) سردار محمد اعظم خان (پلندری)سردار محمد عنایت خان (تھریڑ)وغیرہ کے ساتھ جامع مسجد پلندری کے بالمقابل ایک عمارت پر لہرایا۔ اُس کو سلامی دی۔ پاکستان کے حق میں نعرے لگائے، پھر ایک مختصر جلوس بھی نکالا، جلوس کے دوران میں طلبہ ’’پاکستانزندہ باد‘‘، ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘کے نعرے لگاتے رہے

تحصیل باغ کے مقام نیلہ بٹ پر 23 اگست 1947ء کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک جلسۂ عام منعقد ہوا۔ علاقے میں ڈوگرہ فوجوں اور حکومت کے اہلکاروں کی زیادتیوں، ظلم و استبداد ے خلاف مقررین نے واشگاف الفاظ میں احتجاج کیااور اپنے حقوق و جان و مال اور عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا اعادہ کیا۔ بعد ازاں جلوس باغ کی جانب روانہ ہوا لیکن ڈوگرہ حکام نے باغ کی شہر کی حدود میں جلسہ کرنے کی ممانعت کردی چنانچہ جلسہ شہرکی حدود سے تھوڑا باہر ہڈاباڑی کے مقام پر منعقد ہوا۔ دریں اثنا بنی پساری سے ڈوگرہ ملٹری خچروں کاایک کانوائی گذر رہا تھا کہ چند مجاہدوں نے اچانک ان پر گولی چلائی اور کچھ خچروں اور سپاہیوں کو ہلاک کر دیا۔ جب یہ اطلاع باغ میں ڈوگرہ فوج کو ملی تو انھوں نے ہڈا باڑی کے جلسہ پر خود کا ر ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ جس سے جلسہ میں بھگڈر مچ گئی اور لوگوں نے بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچائیں۔ اس کے بعد ڈوگرہ ملٹری نے علاقہ میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ، ماردھار، گرفتاریاں اورجائیدادوں کو نذرِ آتش کر ناشروع کیا۔ اور لوگ جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ باغ میں رُونما ہونے والے واقعات پر خان صاحب بہت پریشان ہوئے اور انھوں نے وزیر پونچھ سے سخت احتجاج کیا اورا س پر واضح کیا کہ اگر باغ میں یہ ظلم و ستم کی کارروائی فوری طور پر بند نہ کی گئی توسدھنوتی کے عوام بھی اپنے بہن بھائیوں پر کیے گئے تشّددکے خلاف جوابی کارروائی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور خدا جانے اس کا نتیجہ کیانکلے۔ لہذا وزیر موصوف نے ملٹری کی علاقے سے واپسی اور مزید کارروائی بند کرنے کا حکم دیا۔

خان صاحب کو ڈوگرہ حکمرانوں سے کافی واسطہ پڑتا تھا اور ان کی ذہنیت اور تعصب سے بخوبی واقف تھے اور ریاست کے لیے وہ بہت متفکر رہتے تھے۔ مہاراجا کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ایک ناممکن بات تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا فقدان تھا۔ شیخ عبد اﷲ کانگریس کی کُھل کر حمایت کرتے تھے۔ ان کی سیاسی اور شخصی برتری کی بنا پر چوہدری غلام عباس نے کشمیر چھوڑ دو کی تحریک کی تقلید میں سول نافرمانی کی تحریک جاری کرکے اپنے آپ کو گرفتار کروالیا۔ مسلمانوں کی کوئی علاحدہ سیاسی سٹیج نہ تھی۔ ان حالات میں مہاراجا پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا دباؤ کسی طرف سے پڑتا نظر نہیں آتا تھا، پھر مہاراجا سے یہ توقع رکھنا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گا کیسے ممکن ہو سکتاتھا۔گو ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس اکثریت کا سیاسی دباؤ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اہالیانِ ریاست کی بدقسمتی تھی کہ شیخ عبد اﷲ نے کانگریسی لیڈروں کی چال میں آکر مسلمانوں کی یکجہتی کو پارہ پارہ کیا اور ان کے مستقبل کو تاریک بنایا۔ مسلم کانفرنس کا پھر سے حیاء کیا گیا تھا لیکن چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں کو وہ عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی اور نہ وہ طاقت پیداہوئی جوکسی اڑے وقت میں کام آتی۔ ان لیڈروں کا نعرہ مہاراجا کے اقتدار کے سایہ میں ذمہ دارانہ نظامِ حکومت کے قیام کا تھا اور ظاہری طور پر الحاقِ پاکستان کی بات کرتے تھے۔ بعض ریاست کی آزاد حیثیت کے خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ پنجاب میں قتل و غارت کے ہنگامے شروع ہو چکے تھے۔ ریاست میں بھی مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے بن چکے تھے۔ ہندوؤں کو ہری سنگھ اور ڈوگرہ فوج کی پوری حمایت حاصل تھی۔ چوہدری غلام عباس کو قائد اعظم نے جیل جانے سے روکا مگر وہ اس خیال سے کہ شیخ عبد اﷲ سیاسی میدان مارلے گا جیل چلے گئے۔ پھر قوم کی رہنمائی کے لیے کوئی پائے کا لیڈر نہ رہا۔

خان صاحب فوجی تھے وہ سیاست کو بھی فوجی نقطہ نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ریاست کے باقی حصوں سے سیاسی حالات سے وہ مایوس ہوکر خود اپنے علاقہ کی فوجی تنظیم کی طرف رجوع ہوئے۔ ان کے پاس ہزاروں سابقہ تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوجی موجود تھے، جو جذبہ آزادی سے سرشار تھے۔ وہ جنگ عظیم (دوم) میں بڑے معرکوں میں حصہ لے چکے تھے اور ان کے دلوں میں کسی حکومت و حکمران کا ذرابھی خوف نہ تھا۔ دوسری طرف انھیں ریاست کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی سخت تڑپ تھی۔ اس کے لیے وہ مرنے مارنے پر آمادہ تھے۔ ہندوحکمرانوں سے انھیں نفرت تھی۔ ان کے آبا و اجداد پرگلاب سنگھ نے جو ظلم ڈھائے تھے ان کی یاد انھیں انتقام لینے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایسے حالات خان صاحب کو خاموش بیٹھے رہنے کی بجائے مرکزی کردار اداکرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ وہ متواتر اپنے رفقا سے مشورہ کرتے اور اﷲ تعالٰیٰ سے رہنمائی اور امدادِ غیبی کی دعائیں مانگتے۔ فوجی اور دوسرے نوجوانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ خالی ہاتھ ڈوگرہ فوج کے کیمپوں اور پوسٹوں پرحملہ کرے، ہتھیار چھیننے اور ان کو تہ تیغ کرنے پرآمادہ تھے۔ کئی مواقع پر نوجوانوں نے ایسا کرنے کا پروگرام بھی مرتب کرلیاتھا، مگر خان صاحب نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور ہمیشہ یہی تلقین کی کہ خفیہ طور پر فوجی طرز کی تنظیم بناؤ، اسلحہ مہیا ہونے تک اپنے جذبات قابو میں رکھو۔ وقت آنے پر میدان میں کودنے کا حکم دیاجائے گا اس طرح سمجھا بجھا کر ان کے جوس کوٹھنڈاکرتے رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ سردار غلام نبی تحصیلدار کے ذریعے پونچھ کو بار بار تنبہیہ کرتے رہے کہ تشددکا سلسلہ بند کیاجائے اور ملٹری کو قابو میں رکھاجائے۔ انھوں نے سرکردہ ہندوؤں کوبھی کہا کہ مسلمان تو ختم ہوجائیں گے لیکن تم لوگ بھی نہیں بچ سکو گے۔ لہذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی حکومت کو کہو کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کریں۔ دریں اثناء اس خبر کی بھی تصدیق ہوئی کہ راشٹر یہ سیوک سنگھ نے اپنا صدر دفتر امرتسر سے جموں منتقل کر لیا ہے اور ہندوآبادی کو مسلح کیاجا رہا ہے۔ پونچھ میں بھی ہندوؤں کو مسلح کرنے کی مصدقہ اطلاعات مل رہی تھیں۔ ان حالات کے مد نظر پونچھ کے سابقہ فوجی افسروں کی خفیہ ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ سب افسر اور دیگر عمائدین مسلح جدو جہد کو جلد از جلد شروع کرنے کے حق میں تھے اور خان صاحب پر فوری فیصلہ کرنے کا دباؤ بڑھ رہا تھا، لیکن انھیں حقیقت حال سے واقفیت تھی اورتاریخ کے تلخ تجربات بھی ان کے مد نظر تھے لہذا وہ عوام کو بغیر تیاری کے ڈوگرہ عسکری قوت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ علاقے کا منتخب لیڈر سری نگر میں پابند ہے۔ چاروں طرف ڈوگرہ ملٹری پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں سے ہتھیار جمع کر رہی ہے۔ اُدھر پاکستان کو معرضِ وجودمیں آتے ہی بے انتہا مسائل اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ جلد بازی کے ہرگز حق میں نہ تھے۔ البتہ اپنے رفقا سے صلاح مشورے کے بعد مسلح جدوجہد کا فیصلہ کرچکے تھے۔ جس کے لیے فوجی تنظیم اور اسلحہ بندی کے لیے تیاریاں تیز کر دی گئی تھیں۔ پولیس اور ملٹری تمام سرکردہ لوگوں کی نگرانی کر رہی تھی۔ خان صاحب نے سب کو ہدایت دی کہ آئندہ بجائے اجتماعی طور پر ملنے ملانے کے، انفرادی رابطہ قائم رکھیں اور مسلح جدوجہد کے پروگرام کو خفیہ رکھا جائے۔ خان صاحب نے انھیں یہ بھی ہدایت کی کہ کسی کو گرفتاری نہیں دینی چاہیے۔ چانچہ سردار فیروز علی خان، صوبیدار افسر خان (منگ) صوبیدار بوستان خان (نڑ) صوبیدار مستان خان (رہاڑہ) صوبیدار بارُو خان(تھریڑ) اور درجنوں کی تعداد میں دیگر فوجی افسر راولپنڈی چلے گئے۔ انھوں نے پیرس ہوٹل میں سکونت اختیار کی، جس کو مولانا غلام حیدر جنڈا لوی چلاتے تھے۔ اس مرکز سے انھوں نے چندہ کی فراہمی اور اسلحہ خریدنے کی مہم شروع کی۔

ستمبر 1947ء میں وزیر پونچھ نے بھی ایک آرڈر کے ذریعے عوام کو تمام لائسنس یافتہ ہتھیار یعنی رائفلیں، توڑے دار بندوقیں، پستول، کلہاڑیاں، طبریں، چُھرے، برچھیاں اور چار انچ سے لمبے چاقو تک تھانوں میں جمع کرانے پر مجبور کیا۔ راجا پونچھ کے اس حکم کے خلاف پلندری میں بھی شدید رد عمل ہوا۔ خان صاحب نے ایک میٹنگ بلائی جس میں ہتھیار جمع کرانے کے سلسلے میں غور و خوض کیا گیا۔ اکثر زندہ دل مجاہد ہتھیار جمع کرانے کے مخالف تھے۔ خان صاحب نے انھیں مشورہ دیاکہ اسلحہ ضرور جمع کرایا جائے لیکن اس کی رفتار نہایت ہی سُست رکھی جائے۔ پہلے ناقص اور بیکار ہتھیار جمع کرائے جائیں تاکہ ڈوگروں کو عوام سے تعاون کا یقین دلایاجائے۔ اور ہمیں مزید ہتھیار حاصل کرنے کا وقت بھی میسر ہو سکے۔ لہذا قبل ازوقت تصادم سے بچنے کے لیے خان صاحب کے مشورہ اور لائحہ عمل کو اپنانے پر اتفاق ہوا۔ خان صاحب کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک دستاویز کے مطابق انھوں نے 1946ء میں حضرت قائد اعظم سے دہلی میں ملاقات کی تھی اور انھیں پونچھ کے حالات سے آگاہ کیاتھا۔ جس پر حضرت قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ مسلح جدوجہد کی صورت میں وہ امداد دیں گے۔ چنانچہ خان صاحب نے حضرت قائد اعظم اور وزیر اعظم پاکستان کو تاریں بھی دیں اور ڈوگرہ ملٹری ایکشن کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانے کی استدعاکی۔

1947ء میں جب جہاد کا وقت آیا تو پونچھ میں اس کی رہنمائی بھی خان صاحب نے کی۔ انھوں نے بڑی رازداری سے پہلے زیرِ زمین تحریک کو چلایا اور لوگوں کو جلد بازی سے روکے رکھا جہاد کے سلسلے میں کیپٹن حسین خان نے خان صاحب سے کئی ملاقاتیں کی۔ موصوف بلاکے حریت پسند اور نڈر مجاہد تھے اور ڈوگروں سے نبردآزما ہونے کے لیے بے چین تھے، مگرخان صاحب نے انھیں بھی جلد بازی سے روکے رکھا اور خفیہ تیاری کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ کیپٹن حسین خان اور دیگر فوجی افسروں اور عمائدین نے بڑی تندہی سے جہاد کی تیاری شروع کر دی۔ سب سے بڑا مسئلہ ہتھیاروں کی فراہمی کا تھا۔ اسی دوران میں سُدھنوتی کے چند جوشیلے نوجوانوں نے دو تھان (نزدکھائی گلہ۔ راولاکوٹ) کے مقام پر ڈوگرہ ملٹری کانوائی پر حملہ کر دیا۔ ملٹری کی جوابی کارروائی سے کئی جوان شہید اور زخمی ہوئے اس جھڑپ کے بعد ڈوگرہ ملٹری حرکت میں آگئی اور اس علاقہ میں بھی باغ کی طرح کا ہولناک ڈراما دہرانا شروع کر دیا۔ خان صاحب اس بے وقت تصادم سے سخت پریشان ہوئے کیونکہ اس وقت تک مقابلہ کے لیے بالکل تیاری نہیں تھی اور ملٹری کو عوام کو کچلنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ حکومت نے اس واقعہ کا ذمہ دار کیپٹن حسین خان کو ٹھہرایا اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ اس کی خبر ہوتے ہی وہ خان صاحب کے پاس رات کے سمے پلندری پہنچے۔ خان صاحب ان سے دو تھان کے واقعہ پر سخت ناراض ہوئے۔ کیپٹن حسین خان نے انھیں یقین دلایا کہ یہ کارروائی اس کے علم کے بغیر کی گئی تھی۔ بہرحال دونوں رات بھر حالات پر سوچ و بچار کرتے رہے۔ خان صاحب چاہتے تھے کہ کسی طرح کیپٹن حسین خان کے وارنٹ گرفتاری واپس کرائے جائیں ورنہ زیرِزمین جہاد کی تیاری متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے سردار غلام نبی تحصیلدار سُدھنوتی، جووزیر پونچھ کا ایک اعتمادی افسر تھا، کی وساطت سے وزیر پونچھ کو یقین دلایا کہ کیپٹن حسین خان کسی ایسی حرکت میں ملوث نہیں ہے جو حکومت کے لیے باعثِ خطرہ ہواورآئندہ بھی ایسے اقدام سے باز رہے گا۔ وزیرِ پونچھ نے کیپٹن حسین خان کے وارنٹ واپس لینے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقے میں واپس جاکر امن و امان بحال کرائے۔

کچھ عرصہ بعد وزیر پونچھ نے خان صاحب کو اطلاع بھیجی کہ ہ ہجیرہ میں حالات پر غور و خوض کرنے کے لیے علاقہ کے نمائندوں خاص کو فوجی افسروں کی ایک میٹنگ منعقد کرنا چاہتا ہے۔ اور اس میٹنگ میں سب افسروں کو آنا چاہیے۔ خان صاحب نے اپنے رفقا سے مشورہ کیاکہ آیا اس میٹنگ میں شرکت کی جائے یانہ۔ کچھ لوگوں کو خدشہ تھا کہ شاید اس بہانے ڈوگرہ حکومت چیدہ چیدہ فوجی افسروں کو گرفتار کرنا چاہتی ہے لہذا یہ فیصلہ ہوا کہ صرف وزیر پونچھ کے بااعتماد افراد ہی اس میٹنگ میں شریک ہوں اور واپسی پر صورتِ حال سے آگاہکریں چنانچہ وزیر کو جواب بھیجا گیا کہ جو افسر و عمائدین میٹنگ میں شامل ہو رہے ہیں وہ ہمارے ہی نمائندے ہیں۔ وہ جو فیصلہ کریں گے ہم اس کی پابندی کریں گے۔ اس طرح ایسے تمام افسروں اور عمائدین نے اس میٹنگ میں شمولیت نہ کی جن کو حکومت گرفتار کرسکتی تھی۔ جلد ہی حکومت کو کیپٹن حسین خان کی کارروائیوں کی پھر خبریں پہنچنا شروع ہوئیں اور جب انھوں نے اپنے لائسنس شدہ ہتھیار جمع کرانے سے انکار کیاتو ان کے دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ انھیں خان صاحب کی ہدایت تھی کہ دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی صورت میں وہ پاکستان جانے کے لیے تیاری کرکے آئیں۔ چنانچہ موصوف گھر سے کچھ جمع شدہ پونجی لے کر سیدھے پلندری خان صاحب کے پاس پہنچے۔ خان صاحب نے کچھ رقم انھیں اپنے پاس سے بھی دی اور فوراً پاکستان چلے جانے اور مندرجہ ذیل بنیادوں پرجہاد کی تیاری اور ہتھیار حاصل کرنے کی ہدایت کی:۔

1۔ ریاست پونچھ سے تعلق رکھنے والے تمام فوجیوں کو حالات سے آگاہ کریں اور انھیں ترغیب دیں کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے معہ اپنے ہتھیاروں کے مختلف راستوں سے پونچھ میں داخل ہو جائیں اور اگر خود نہیں آسکتے تو ہتھیاروں کی فراہمی میں مدد کریں۔

پشتو زبان جاننے والے افراد کے وفد پٹھانوں کے پاس بھیجیں اور انھیں کشمیر کے حالات سے آگاہ کریں۔ نیز اُن سے ہتھیار حاصل کرنے کے علاوہ انھیں جہادِ کشمیر میں شمولیت کی ترغیب دیں۔

3۔ جو ہتھیار خود خریدے جائیں یاکسی دیگر ذرائع سے حاصل ہوں ان کو فوراً اپنے علاقہ میں بھیجنے سے پہلے متصل علاقہ پاکستان میں آزادئ کشمیر کا ایک مرکز قائم کرکے وہاں رکھاجائے۔ جہاں مجاہدین کو جمع کیاجائے اور انھیں مسلح کرکے مظفر آباد،میرپور،اور پونچھ میں بھیجا جائے۔ اس طرح مختلف محاذوں پر ڈوگرہ فوج منتشر ہو جائے گی اور مسلمانوں کی فتح یقینی ہو جائے گی۔

خان صاحب نے علاقہ کاہنڈی کے کچھ مخصوص لوگوں سے رابطہ قائم کر رکھا تھا جو مجاہدین کو دریائے جہلم کے آرپار لے جاتے تھے خفیہ ڈاک بھی انہی کے ذریعے پہنچتی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں اور ماہر تیراک میر عالم ولد نوردین(ساکن پانہ) تھا۔ وہ چھ چھن میں دکانداری کرتا تھا مگر اس کا گھر دریائے جہلم کے کنارے واقع تھا۔ میر عالم کو خان صاحب نے ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کی طرف سے مقررکردہ اشخاص پنجاڑ میں صوبیدار خوش حال خان (ستی) کے پاس ڈاک لے جایاکریں گے انھیں دریا آر پار لے جانا اس کے ذمے ہوگا۔ ڈاک لانے اور لے جانے پر صوفی محمد شیر خان اور دفعدار ب رہان علی خان (چھ چھن) مامور تھے۔ خان صاحب کا ایک بہت ہی وفادار کارکن قربان بھی اس نازک دور میں ان کی ہدایت پر اہم ذمہ داریاں اداکرتا رہا۔ خان صاحب نے کیپٹن حسین خان کو قربان کے ساتھ ہی پانہ بھیجا تھا۔ کچھ دن پیشتر سردار منشی فیروز علی خان کو بھی اسی طرح دریا پار کرائے گئے تھے، جس کے بعد پانہ والوں کی ڈوگرہ فوجی سخت نگرانی کر رہے تھے۔ اس کے باوجود میر عالم نے دن کے وقت کیپٹن حسین خان کو ایک محفوظ مقام سے دریا پار کروایا۔ وہ پہلے ان کا بیگ جس میں ہتھیار خریدنے کے لیے رقم تھی اور پستول تھا دریا کے پار لے گیا، پھر ان کو پار چڑھایا۔ پار پہنچ کر کیپٹن حسین خان نے میر عالم کو انعام دینے کی کوشس کی لیکن اُس نے انعام لینے سے انکار کیا۔ انھوں نے میرعالم کا پتہ اپنی ڈائری میں نوٹ کیااور وعدہ کیا کہ پونچھ فتح کرنے کے بعد اس کو ایک مربع زمین اور ایک رائفل عطا کی جائے گی۔ یوں کیپٹن حسین خان نے راولپنڈی پہنچ کر خان صاحب کے حسب ہدایت کارروائی شروع کی۔

سردار محمد ابراہیم خان سری نگر کی حدود میں پابند تھے جب پونچھ کے حالات بہت زیادہ دگر گوں ہوئے اور وہاں ان کی گرفتاری یقینی ہو گئی تو وہ ایک کار کے ذریعے 25 اگست 1947ء کو ایبٹ آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور 28 اگست کو قائد اعظم سے ملاقات کی غرض سے لاہور گئے، لیکن ملاقات کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ایک ہفتہ بعد وہ مری چلے آئے اور وہاں اپنا مستقل مرکز قائم کرکے کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے جہاد کی تیاری شروع کی۔ مری میں سردار محمد ابراہیم خان نے ایک خفیہ اجلاس بلایا جس میں کیپٹن حسین خان (کالاکوٹ) کیپٹن بوستان خان، مولانا غلام حیدر (جنڈالوی) مولانا میرعالم خان، سردار عبد القیوم خان اور دیگر کئی فوجی اور سیاسی رہنما شامل ہوئے اور یہ فیصلہ ہوا کہ سوائے جہاد کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ چنانچہ ہتھیار حاصل کرنے اور علاقہ میں پہنچانے پر غور و خوض ہوا اور پورا منصوبہ مرتب کیا گیا۔ اسی اجلاس میں کشمیر کی جنگِ آزادی کو تین حصوں میں تقیسم کیا گیا، جنہیں تین سیکٹر کہاجاسکتا ہے۔ سیکٹر نمبر 1 کو مظفر آباد سے گلگت تک شمار کیا گیا۔ سیکٹر نمبر2 کی حدود کو ہالہ سے میرپور تک رکھی گئی اور سیکٹر نمبر 3 کو میرپور سے سیالکوٹ تک قائم کیا گیا۔ سیکٹر نمبر 4 کو مزید تین سب سیکٹروں میں تقیسم کیا گیا اور ہر ایک کا ایک کمانڈر بھی مقرر کیا گیا۔ پہلے سب سیکٹر کی حدود دریائے جہلم کے ساحل سے لے کر دیگوار (نزدپونچھ) تک مقرر کی گئیں اور اس کی قیادت سردار عبد القیوم خان کو سونپی گئی۔ دوسرا سب سیکٹر راولاکوٹ تھا جس کی حدوددریائے جہلم کے ساحل سے لے کر پونچھ شہر تک رکھی گئیں اور حد فاصل نالہ ماہل و نالہ گوں کا درمیانی علاقہ قرار دیا گیا۔ اس سب سیکٹر کی قیادت کیپٹن حسین خان کو سونپی گئی۔ تیسرا سب سیکٹر پلندری کا تھا جس کی قیادت بابائے قوم کرنل خان محمد خان کو دی گئی اور اس کی حدود آزاد پتن سے لے کر پونچھ تک رکھی گئی۔

مری کے اجلاس کے بعد کیپٹن بوستان خان (نڑ)،کیپٹن بوستان خان (رہاڑہ) صوبیدار افسر خان (منگ) اور ان کے ساتھی ہتھیار لے کر اپنے اپنے علاقے میں داخل ہو گئے۔ کیپٹن حسین خان اور ان کے ساتھی بھی ہتھیار جلد از جلد علاقے میں پہنچانے کی کوشش میں تھے۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کچھ رائفلیں دریائے جہلم کے کنارے مونڈا کستک لائے۔ جہاں سے پانہ والوں نے یہ رائفلیں دریا کے پار کرائیں۔ کشتیاں تو ڈوگرہ ملٹری نے تباہ کر دی تھیں، لہذا یہ ہتھیار شینا پر رکھ کر یالکڑی کے گٹھے بنا کر دریا پار کرائے جاتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے دس رائفلیں دریا میں بہہ گئیں جو اس وقت کے حالات کے مطابق مجاہدین کے لیے ایک بہت بڑا نقصان تھا۔ جو ہتھیار دریا پار کرائے گئے وہ پانہ گاؤں کے جنگل میں رکھے گئے اور ماسٹر شاہ نواز کو ان کی تقسیم پر مامور کیا گیا۔ پانہ والوں پر رائفلیں لانے اورتقسیم کرنے پر ڈوگرہ ملٹری نے جو مظالم ڈھائے وہ ایک الگ تفصیل کے محتاج ہیں۔ بہرحال جو ہتھیار کیپٹن حسین خان نے بھجوائے ان کو دریا پار کرانے اور ان کی تقسیم کا مکمل بندوبست خان صاحب نے کیا۔ جب کچھ ہتھیار حاصل ہو گئے تو انھوں نے اپنے معتمد کارکنوں کوہدایت دی کہ ہر ایک گھر میں ایک من آٹا تیار ہونا چاہیے تاکہ جہاد شروع ہوتے ہی مجاہدین کو راشن مہیاکیاجاسکے۔ اپنی مدد آپ کی جو تحریک انھوں نے سالوں پہلے مٹھی آٹا سکیم سے شروع کی تھی اب اس کا آخری امتحان اس جہاد کے دوران میں ہونا تھا۔ خان صاحب کی اس ہدایت پر خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے اپنی ڈائری میں اس بارے میں تحریر کیاہے کہ ’’نمبردار منگیر خان ولد سردار حیدر خان قوم سُدھن ساکن دھینگڑوں کی بیوی نے یکم اکتوبر 1947ء کو ایک من گندم خود پیس کر کھانا تیار کرکے دربار پر تیراکوں کے لیے پہنچایا اور وہاں سے رائفلیں اٹھا کر اپنے گھر تک جو آدھا میل چڑھائی پر تھا، لاتی رہی۔ اس خاتون کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔‘‘ کمال کی بات یہ تھی کہ خان صاحب جہاد کی تیاری میں مکمل طور پر مصروف تھے اور ڈوگرہ حکومت ان کی نگرانی بھی کر رہی تھی لیکن اُن کی کسی سکیم کا ڈوگرہ حکومت یافوج کو پتہ نہ چل سکا۔ جہاد آزادئ کشمیر کا آغاز پروگرام کے مطابق اکتوبر1947ء کے دوسرے ہفتے غالباً 8 اکتوبر 1947ء کو شروع ہونا تھا اس سے پہلے مختلف جگہوں پر ہتھیار وامنیشن پہنچانے کاکام مکمل کیاجاتاتھا۔ اتنے بڑے علاقے میں مجاہد تنظیموں کے پاس ٹیلی فون اور وائرلیس کا کوئی نظام نہ تہا اور آمدورفت کے عام راستوں کی بھی ڈوگروں نے ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ اس لیے ان کے لیڈر جو جہادِ آزادی کی تیاری میں راولپنڈی اور دیگر جگہوں پر سرگرمِ عمل تھے، طے شدہ پروگرام کی تفصیلات مجاہدوں تک نہ پہنچاسکے، چنانچہ تھوڑے بہت ہتھیاروں کی فراہمی کے ساتھ ہی علاقہ کے مجاہدین میں جہاد کے آغاز کا ولولہ بڑھ گیا اور اکتوبر کے شروع ہی سے بلکہ کئی جگہوں پر تو ستمبر 1947ء کے آواخر میں ہی ڈوگرہ پوسٹوں اور پکٹوں پر مجاہدین نے حملے شروع کردیے تھے، لیکن عموماً آزاد علاقے میں جہاد کا آغاز اکتوبر کے پہلے ہفتے میں شروع ہوا۔

تحصیل سدھنوتی میں جنگ کا آغاز 2 اکتوبر کو لچھمن پتن (موجودہ آزاد پتن)کے مقام سے ہوا، جہاں پر کیپٹن حسین خان شہید کے زیرِ ہدایت راجا سخی دلیر اور ان کے چند ساتھیوں نے اس وقت ڈوگرہ فوجوں پر فائر کھولا، جب وہ تیل چھڑک کر پُل کو نذرِ آتش کر رہے تھے۔ راجا سخی دلیر اور اس کی پارٹی کی فائرنگ سے پُل پر متعین ڈوگرہ فوج کا دستہ خوف زندہ ہو گیا اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ ان پر بہت بڑاحملہ شروع ہو گیاہے، پلندری اپنے کمپنی ہیڈ کوارٹر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ رات کوبدحواسی اور سخت گھبراہٹ کے عالم میں پلندری پہنچے اور وہاں کے ڈوگرہ کمانڈر کومبینہ لشکر کے پل پر حملہ اور پلندری کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی خبر دی۔ ڈوگرہ فوجی علاقے کے سابقہ فوجیوں کی جنگی مہارت اورجذبے سے پہلے ہی واقف تھے وہ یہ خبر سنتے ہی پلندری خالی کرکے تراڑ کھل کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن جانے سے پہلے ہتھیاروں کا وہ ذخیرہ بارود سے تیاہ کر دیا جو انھوں نے لوگوں سے جمع کیاہوا تھا۔

منگ میں جہاد 4اکتوبر کوشروع ہوا۔ یہاں ڈوگرہ فوج کی بہترین تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح فوج موجود تھی۔ مجاہدین کے پاس ہتھیار نہ ہونے کے برابر تھے لیکن وہ یکجہتی، حوصلہ اور قربانی کے جذبے سے سرشار تھے۔ انھوں نے دشمن پر متواتر دباؤ رکھا۔ یہ حربہ بالآخر ڈوگرہ فوج کی کمر توڑنے میں کارگر ثابت ہوا اور وہ بھاگ نکلی۔ اس مورچہ کی فتح کا سہر صوبیدار محمد افسر (ملٹری کراس) شہید اور اُن کے جانثاروں کے سر ہے، جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ڈوگروں سے اپنے اسلاف پر کیے گئے، ظالم کا بدلہ چکایا اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک لافانی مثال قائم کی منگ کی فتح کے بعد شیر خان شہید کی شخصیت نمایاں ہوئی۔ اُن کی فقیدالمثال اور دلیرانہ قیادت کے سامنے ڈوگرہ فوج ٹھہر نہ سکی اور دُم دبا کرپونچھ کے حصار میں جاگُھسی۔ ان کی پشت پناہی کے لیے ہندوستانی فوج ریاست میں داخل ہو گئی اور راولاکوٹ اور دیگر کھوئے ہوئے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کردی۔ کیپٹن شیر خان نے تیتری نوٹ چھجہ کے علاقے میں نہ صرف ان کی پیش قدمی کو روکا بلکہ ان کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور اس کا رروائی میں اپنی پاک سرزمین کواپنے خون سے سینچتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھائے جس کا دشمن بھی اعتراف کرتے رہے۔

دریں اثنا خان صاحب کو کیپٹن حسین خان کا پیغام محمد اسلم خان اور سید محمد خان ولد نواب خان کے ذریعے موصول ہوا کہ 5۔6 اکتوبر 1947ء کو پُل لچھمن پتن (موجودہ آزاد پتن) پر حملہ ہوگا۔ آپ پلندری چھوڑ دیں ورنہ ڈوگرے آپ کو ماردیں گے یاگرفتار کر لیں گے۔ یہ پیغام ملتے ہی وہ علاقے میں امن و آمان کی صورت حال پا پتہ لگانے کے بہانے پلندری سے نمب چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انھیں پتہ چلا کہ کچھ ہتھیار چھ چھن پہنچ چکے ہیں۔ دوسرے دن انھیں آزاد پتن پر حملے اور پلندری سے ڈوگرہ فوج کے بھاگنے کی خبر ملی تو وہواپس پلندری آ گئے اور 6اکتوبر کو ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا، جس میں انھوں نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور لوگوں کو بتایا کہ راجا پونچھ اور مہاراجا کشمیر کو لاکھ سمجھایا مگر انھوں نے دانمشندی کا ثبوت نہ دیا۔ قوم زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی جواب جہاد میں کُود پڑی ہے، لہذا ہر مرد و زن، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو قربانی دینا ہوگی۔ سب کمر بستہ ہوکر میدانِ جنگ میں کُود پڑیں اور استقلال سے جدوجہد کریں۔ انشاء اﷲ ہم کامیاب ہوں گے۔ کیونکہ ہم حق پر ہیں اور اﷲ تعالٰیٰ حق کا ساتھ دیتا ہے۔ 7 اکتوبر کو انھوں نے پلندری میں وارکونسل تشکیل دی۔ وار کونسل کے نگران خان صاحب تھے، اورصدر کرنل شیر احمد خان (نمب پپڑیاں) اور لیفٹیننٹ جلال خان ( دھاردرچھ) اور لیفٹننٹ کرم داد خان (پوراہ ) شامل تھے۔ اس وار کونسل نے مجاہدوں کو منظم کرکے یونٹیں تشکیل دیں، ان کو اسلحہ فراہم کیا اور مختلف محاذوں پر بھیجا۔ اس وقت سول حکومت کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ سردار محمد ابراہیم کی انقلابی حکومت کا اعلان 24اکتوبر کوہوا اور اس نوزائیدہ انقلابی حکومت کو بے سروسامانی کی حالت میں اپنے آپ کو منظم کرنے میں کافی وقت لگا۔ اس عرصے میں یہی وار کونسل سول نظم و نسق بڑے احسن طریقے سے چلاتی رہی اور آزاد فوجی ہیڈ کوارٹر قائم ہونے تک اسی وار کونسل کے احکام کے تحت پلندری اوردیگر جگہوں پر سول نظم و نسق بحال کیا گیا۔ پلندری تھانہ پر قبضہ کیپٹن محمد اکبر نے کیاتھا، لہذا انھیں تھانے کا انچارج بنایاگیا۔ سردار جہانداد خان نے رفیق پٹھان اور دیگر چند آدمیوں کے ساتھ تحصیل پرقبضہ کیا۔ انھیں ایڈمنسٹریٹر پلندری تعینات کیا گیا۔ پلندری تحصیل پر قبضہ کرتے وقت وہاں سے ایک سکھ سپاہی بھاگ نکلا۔ رفیق پٹھان نے اس کا پیچھا کیااور اسے نمب کے مقام پرگولی کا نشانہ بنایا۔

جہاد کے یہ ابتدائی دن خان صاحب اور ان کے رفقا کے لیے نہایت کٹھن تھے۔ جہاد شروع تو ہو گیاتھا اور اﷲ تعالٰیٰ نے کامیابیوں سے بھی نوازا، لیکن ایک منظم تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس دشمن سے پورے علاقے کو نہتے ہاتھوں آزاد کرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ایک ناممکن مہم تھی۔ اس کے لیے بہت پختہ عزم، ایک طویل جدوجہد، ایثار اور قربانی کی ضرورت تھی۔ ایسی مسلسل جدوجہد اور قربانی کے لیے کسی قوم کو فوری طور پر تیار نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے برسوں پہلے سے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ اس تیاری کے سلسلے میں محض جوش و جذبے کوابھارنے ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ منجملہ عوام کو ایک مربوط اور ہمہ گیر سوچ اور لائحہ عمل کے تحت منظم کیاجاتاہے۔ اس قدر منظم کہ وقت آنے پر ان کا جوش اور ولولہ سوڈا واٹر بوتل کی طرح جلد ختم نہ ہو جائے بلکہ چھوٹی بڑی ناکامی اور شکست کی صورت میں بھی ان کا جوش وجذبہ نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید پختہ ہو اور جہاد کرنے والے ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ کی ایک زندہ مثال بن جائیں۔ جہاں تک قوم کو اس مرحلے کے لیے منظم کرنے کا تعلق تھا، اس کا آغاز تو خان صاحب نے 1918ء میں اپنی فوجی ملازمت سے ریٹائرمنٹ پر ہی شروع کر دیاتھا۔ اور اب ان کے پاس 50 ہزار سے زائد تربیت یافتہ جنگی مہارت رکھنے والے سابقہ فوجی موجود تھے جو اس جہاد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے سلسلے میں مخلص ہی نہ تھے بلکہ نہایت تجربہ کار بھی تھے۔ جنگِ عظیم (دوم) کا تجربہ ان کے کام آیااور انھوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ اس ابتدائی دور میں وارکونسل پلندری نے خان صاحب کی زیر نگرانی ایک بے مثال اور کلیدی رول اداکیا۔ محاذوں کے لیے فوجی یونٹیں منظم کرکے اُن کے کمانڈر مقررکئے۔ ان کی لازمی ضروریات کا بندوبست کیااور انھیں مختلف محاذوں پر روانہ کیا۔ ایسے ماحول میں خلاکاپیدا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے اور خلا میں صحیح اورغلط خبریں بڑی تیزی سے پھیلتے ہیں۔ ان ابتدائی دنوں میں سب سے پہلی خبر جو وارکونسل تک پہنچی وہ یہ تھی کہ دشمن کاایک کالم نندی چھنی سے پلندری کی طرف بڑھ رہا ہے خان صاحب نے اس کے مقابلے کے لیے کرنل محمد شیر خان کو پنتھل سے آئے ہوئے جتھے کے ساتھ روانہ کیا، لیکن وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اطلاع غلط تھی۔ چنانچہ یہ جتھ قلعہ بارل کو فتح کرنے کی مہم میں شامل ہو گیا جو جلد فتح کر لیاگیا۔

مہاراجا کے آزمودہ کارجرنیل اور پونچھ کے ملٹری ناظم الامُور بلدیوسنگھ پٹھانیہ نے جب پلندری میں ڈوگروں کی شکست کی خبر سُنی تو اس نے سُدھنوتی کو ڈوگرہ شاہی کے بانی مہاراجا گلاب سنگھ کی طرح ایک بار پھر سبق سکھانے کا علی الاعلان اعادہ کیا جس کے لیے تین دن کا عرصہ متعین کیا۔ جب یہ اطلاع پلندری پہنچی تو خان صاحب نے وارکونسل کی میٹنگ بلائی اورحالات سے نپٹنے کا فوری فیصلہ کیا۔ کیپٹن حسین خان شہید جو اسلحہ اور دوسرا سامان بھیج رہے تھے ان کو پیغام بھیجا گیا جس قدر رائفلیں موجود ہوں فو راً پلندری بھیجی جائیں۔ چنانچہ راتوں رات ایک سو رائفلیں اور امنیشن پہنچ گیا۔ خان صاحب نے مجاہدوں کو اکٹھا کیا اور ان میں سے ایک سونوجوانوں کا انتخاب کیا، جو زیادہ ترسابقَ فوجی تھے اور رضاکارانہ طور پر سامنے آئے تھے۔ اس کالم کا کمانڈر صوبیدار عبد اﷲ خان (پلندری) کو مقررکیا گیا۔ کالم کے روانہ ہونے سے پہلے راجا سخی دلیر تراڑ کھل محاذسے واپس پلندری پہنچا وہ سہنسہ کارہنے والا تھا اور علاقے کو اچھی طرح جانتا تھا لہذا کالم کی کمان اس کے سپرد کی گئی۔ اتنے میں اطلاع ملی کہ بلدیو سنگھ پٹھانیہ براستہ کوٹلی پلندری پہنچنے کا پروگرام بناچکا ہے اور 15 اکتوبر کو وہ پنجیڑہ میں ناشتا کرے گا اور پھر تحصیل سدھنوتی کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے قتل و غارت کا بازار گرم کرے گا۔ چنانچہ 100مجاہدوں کا یہ دستہ کوٹلی کی طرف فوراً روانہ کیا گیا اور انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ بلدیو سنگھ کا کوٹلی ہی میں محاصرہ کریں تاکہ وہ پلندری کی طرف نہ آسکے۔ ساتھ ہی صوبیدار ہدایت خان کوجس کا جتھ کوٹلی اور پونچھ کے علاقے میں بر سر پیکار تھا، یہ ہدایت کی گئی کہ وہ کوٹلی کے راستہ پر رکاوٹیں کھڑی کریں اور بلدیو سنگھ کی فوج پرچھاپے مارکر کوٹلی پہنچنے سے روکیں۔ ہدایت خان نے ایسا ہی کیا، مگر بلدیو سنگھ ان رکاوٹوں کے باوجود کوٹلی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور جب راجا سخی دلیر اور عبد اﷲ خان کا یہ کالم تحصیل کوٹلی کی حدود میں داخل ہوا تو انھیں بلدیو سنگھ کے تازہ پروگرام کا بھی پتہ چل گیا۔ راجا سخی دلیر نے عبد اﷲ خان اور دوسرے فوجی افسروں سے مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ رات کے اندھیرے میں انھیں سرسادہ نالہ میں پہنچ جاناچائیے اور صبح ہونے سے پہلے اپنیپوزیشن مضبوط کرکے ڈوگرہ فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاناچاہئیے۔ لہذاکالم نے بروقت سرسادہ نالہ میں پہنچ کر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ ادھر ڈوگرہ فوجی دستہ صبح کے ناشتا کی تیاری میں تھا اور انھیں مجاہدوں کے اس کالم کی پیش قدمی اور پوزیشن کاکوئی علم نہ تھا، یہاں تک کہ راجا کریم اﷲ جو ڈوگروں کے لیے سراغ رسانی کاکام کر رہا تھا اور جس نے ڈوگروں کے فوجی دستے کے لیے کھانے کا بندوبست کیاتھا، وہ بھی بے خبر رہا۔15اکتوبر 1947ء کی صبح 8 بجے ڈوگرہ ملٹری کی ایڈوانس پارٹی پنجیڑہ کی طرف سے آتی دکھائی دی اور وہ بے خبری کے عالم میں سرسادہ رنگڑ (نالہ) میں سے گذر گئی۔ تقریباً آدھ گھنٹہ بعد ڈوگرہ ملٹری کے بڑے دستے کی آمد شروع ہوئی جس کے ساتھ راشٹریہ سیوک سنگھ کے سینکڑوں مسلح افراد بھی شامل تھے اور ذیلدار سیف علی اور ڈوگروں کے وفادار چند دیگر ہندو و مسلمان بھی ہمراہ تھے۔ ذیلدار سیف علی اور ڈوگرہ فوجی زیادہ تر گھوڑوں پر سوار تھے۔ جب ملٹری کی کافی نفری نالہ کی حدود میں داخل ہو گئی تو مجاہدین نے اُن پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اس اچانک حملے سے ڈوگرہ فوج میں بھگڈر مچ گئی اور ان کی جوابی کارروائی غیر مؤثر ثابت ہوئی۔گھنٹے بھر کی سخت لڑائی میں ڈوگرہ فوج کا بہت بڑا نقصان ہوا اور ان میں سے بہت تھوڑی نفری بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہوئی، جن میں ان کا جرنیل بلدیو سنگھ پٹھانیہ بھی شامل تھا۔ اس لڑائی میں ذیلدار سیف علی جو راجا سخی دلیر کا رشتہ دار تھا۔ بھی ماراگیا اور مجاہدین کے ہاتھ کافی مقدارمیں ہتھیار وایمنیشن اوردیگر سامان لگا۔ صحیح اعدادوشمار کے مطابق وہاں120 لاشیں گنی گئیں۔ مجاہدین میں سے حوالدار سلیمان خان، مکھن خان، نیک محمد خان اوردیگر چار مجاہدین شہید ہوئے اور چند زخمی ہوئے۔ سرسادہ کایہ معرکہ فیصلہ کن تھا، کیونکہ اس کے بعد ڈوگرہ فوج نے پھر کبھی سُدھنوں کے خلاف پیش قدمی کرنے کی جرات نہ کی۔ آزاد پتن اور پلندری سے دشمن کے بھگائے جانے کے ساتھ ہی 5۔4اکتوبر کو قلعہ آئن صوبیدار باروخان (شہید) کی قیادت میں فتح ہوا۔9 اکتوبر کو قلعہ بارل بھی مجاہدین نے فتح کر لیا۔ راولاکوٹ سے تھوراڑ تک ڈوگرہ فوج اپنا رابطہ اور قبضہ قائم رکھنے کے لیے کالم بھیجتی رہی۔ مجاہدین یہ مورچہ جلد فتح کرنا چاہتے تھے کیونکہ تھوراڑ دریائے جہلم کے بہت قریب تھا اور اس کی فتح سے ہتھیاروں کی ترسیل آسانی سے ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ایک صبح مجاہدین نے ڈوگروں پر بھر پور اور اچانک حملہ کیا۔ پہلے حملہ میں مجاہدین کا کچھ نقصان ہوا تاہم سخت لڑائی کے بعد ڈوگرہ فوج راولاکوٹ کی طرف پسپا ہوئی۔ اس لڑائی میں صوبیدار بوستان (نڑ) مولانا عبد العزیز خان (تھوراڑدی)صوبیدار سلیمان خان (نڑ) اور صوبیدار بوستان خان (رہاڑہ)کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہاں ایک نوجوان اختیار خان نے بھی انتہائی دلیری اورجذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ وہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹاتھا۔ معرکہ تھوراڑ میں ماں باپ اور بہن بھائیوں سے اجازت لے کر شامل ہوا۔ دشمن پر حملہ کے وقت ایک آنکھ میں گولی لگی تو وہ بے اختیار ہوکر دشمن پر یہ کہتے ہوئے ٹوٹ پڑا کہ اب اختیار خان ایک آنکھ لے کرگھر نہیں جائے گا۔ اُس کی قربانی کا یہ مظاہر اُس دور کے نوجوانوں کے جذبے کی ترجمانی کرتا ہے۔ سرسادہ کے معرکے میں بھی مُٹھی بھر مجاہدین نے ڈوگروں کو کمر توڑ شکست دی اور ان کے مغرور کمانڈر بلدیو سنگھ پٹھانیہ کے گھمنڈ کو خاک میں ملادیا۔ دیوی گلی کی مضبوط پوزیشن پر بھی مجاہدین نے 14 اکتوبر تک قبضہ کرلیاتھا۔

راولاکوٹ کے لیے جہالہ سے 5رائفلوں اور 200 روند کی پہلی کھیپ نوجوان مجاہد محمد شفیع خان (اب بریگیڈئیر ریٹائرڈ) نے دریاپار کرائی تھی۔ منگ اور تھوراڑ سے ڈوگرہ فوج پسپا ہوکر راولاکوٹ اکٹھی ہو گئی تھی، جہاں کرنل رام لعل کی کمان میں 9 جموں کشمیر بٹالین کے ساتھ مجاہدین کا کافی دنوں تک سخت مقابلہ ہوتا رہا۔ جیسے جیسے ہتھیاروں اور ایمونیشن کی فراہمی بہتر ہوتی گئی مجاہدین کا دباؤ میں بڑھتا گیا محاذ کے کمانڈر کرنل رحمت اﷲ خان (رہاڑہ) کیپٹن حسین خان شہید، میجر حسین خان (ہرنہ میرہ) اورجان نثاروں میں غازی اﷲ دتہ اور منور حسین خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ راولاکوٹ میں محصور ڈوگرہ فوج کئی ہفتوں تک روزانہ ہائیاسکول کے مشرق کی طرف اپنے مُردے جلاتی رہی۔ جامع مسجد کے روشندان میں لگائی گئی مشین گنیں سارے علاقے میں مجاہدین کی ہرحرکت پرگولیاں برسانا شروع کردیتی تھی۔ ان کے خلاف صرف ایک مارٹر سے چند گولے مسجد میں گرائے گئے اور مسجد ہندوؤں ک خون سے ناپاک ہوئی ڈوگرہ فوج کے حوصلے پست ہوئے اور وہ تولی پیر کے راستے پونچھ کی طرف پسپا ہوئی۔ راولاکوٹ کی فتح آزادی کی منزل کی طرف اہم پڑاؤ ثابت ہوئی اور دُشمن کے باغ سے انخلا کاباعث بنی۔ راولاکوٹ کی فتح کے فوراً بعد دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے کیپٹن حسین خان تولی پیر کے مقام پر 11 نومبر 1947ء کو شہید ہوئے جومجاہدین کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا۔ جہاد آزادئ کشمیر کی تیاری میں ان کا کلیدی رول تھا اور ابتدائی فتوحات میں موصوف کانمایاں حصہ تھا۔

جیسے راولاکوٹ کے لیے جہالہ سے پہلی کھیپ بذریعہ ٹلہ دریا پار کرائی گئی تھی اسی طرح کوہالہ سے نیچے باسیاں کے قریب سے 5 رائفلوں اور 200 روند کی ایک کھیپ سردار عبد القیوم خان نے دریا پار کرائی تھی جو دھیرکوٹ تھانہ پر حملہ میں استعمال ہوئی۔ وہاں سے کچھ ہتھیار مجاہدین کے ہاتھ لگے جس کے بعد کوہالہ اور برسالہ سے بھی دشمن کا خروج ہوا۔ اور ڈنہ کنچیلی کے راستے ڈوگرہ فوج باغ کی طرف پسپا ہوئی۔ راستہ میں نانگا پیر کی شدید لڑائی میں پیر سید اصغر علی شاہ نے ریائے نمایاں انجام دیے۔ اس سیکٹر میں کیپٹن محمد سعید، صدیق خان، سردار سلیم خان اور سردار عبد القیوم خان کے نام زبان زدِ عام ہوئے۔ باغ کا معرکہ بھی کچھ عرصہ کے بعد سر ہوا مگر اُس کا آغاز خونچکاں سفاکی سے شروع ہوا تھا۔ چڑالہ میں ڈوگرہ فوج نے گشتوں کے دوران میں بوڑھے، بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا۔ سیسر سالیاں وغیرہ میں گھر جلائے گئے جس کا دھواں مری کے علاقے سے بخوبی دیکھاجاتا رہا۔ اس وقت کا ذکر ہے ایک نڈر مجاہد نے ایک نامور لیڈر سے تُرش لہجے میں کہا کہ ’’دنیا کی روایت ہے کہ قوم سوتی ہے اور لیڈر جاگتے ہیں، آپ کی قوم جاگ رہی ہے اور آپ سوئے ہوئے ہیں۔‘‘ جب باغ کا علاقہ دشمن نے خالی کیاتو ہر شخص کی زبان پرمجاہد سید خاد م حسین شہید کے لیے بے پناہ دعائیں تھیں جنھوں نے ڈوگرہ فوج کے قبضے میں ہوتے ہوئے جھکنے سے انکار کیااور پاکستان زندہ باد کے والہانہ جذبے کا اظہار کرتے ہوئے موت کے منہ میں کود پڑے۔ اس بے لوث مجاہد اور شہید کا نام کشمیر کے جہاد میں سرفہرست ہونا چاہئیے تھا۔ باغ سے ڈوگروں کو پسپا کرنے کے بعد جتھہ بندی کو مزید منظم کیاگیااور جب محاذ باغ سے پونچھ منتقل ہوا تو بان بریگیڈ نے وہاں بھی نمایاں کارنامے سر انجام دیے جن کاتذکرہ آگے چل کر کیاجائے گا۔ مختلف محاذوں پر پیش قدمی کی اس رفتار کو قائم رکھنے کی اشد ضرورت تھی۔ خان صاحب اور کرنل شیر احمد خان ایک جتھے کے ساتھ براستہ پنجیڑہ کوٹلی روانہ ہوئے تاکہ وہاں مختلف جتھوں کی باقاعدہ تنظیم اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے جتھوں کو ایک بریگیڈ کی شکل دی جو3 سُدھن بریگیڈ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس بریگیڈ نے کوٹلی شہر کو محاصرے میں رکھ کر بڑی تیزی سے سرپاہ اور راچوری تک کاعلاقہ فتح کیا اور نوشہرہ کو محاصرے میں لے لیا۔ خان صاحب نے اس دورے میں ہرجگہ مجاہدوں کے حوصلے بڑھائے اور انھیں ثابت قدمی اور ہمت سے لڑنے کی تلقین کی۔ وہاں سے واپسی پر ان کی زیادہ تر توجہ مختلف محازوں پرمجاہدوں کی ضرورت کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے بلند کرنے پر مبذول رہی۔ وہ ہر محاذ پر فرنٹ لائن کے مورچوں تک جاتے اور مجاہدوں سے ذاتی طور پر ملتے اور ان کے حوصلے بڑھانے کے علاوہ اپنی دوربین نگاہوں سے حالات کا جائزہ بھی لیتے۔ وہ ہر جگہ مجاہدوں کی سلامتی اور فتح و نصرت کے لیے دعائیں فرماتے۔ اکثر جگہوں پرختم شریف کا اہتمام بھی کرتے اورراتوں کو ذکر الہٰی کی محفلیں جماتے۔ انھوں نے اپنی ڈائریوں میں اپنے دوروں کی تفصیلات بھی درج کیں۔6 فروری 1948ء کو پونچھ محاذ کا دورہ کرتے ہوئے اپنی ڈائری میں لکھا۔’’بہ ہمراہ کرنل تاج، کرنل صدیق سے ملاقات ہوئی۔ نمبر 5 بٹالین کی رپورٹ ہے کہ محاذ یعنی فرنٹ لمبا ہے۔ سپورٹ نہیں ہے۔ بریگیڈ وغیرہ کے افسران نے آج تک محاذ نہیں دیکھا۔ ایک کمپنی پرحملہ ہوا۔ اس کی امداد کے لیے کوئی آرڈر نہیں ملا۔‘‘ خان صاحب کوجہاد آزادی شروع ہونے پر پونچھ سب سیکٹر کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں سُدھن مجاہد یونٹیں اور بریگیڈ پونچھ کوٹلی، راجوری اور سریاہ محاذوں تک پھیل چکے تھے، لہذا خان صاحب ہرمحاذ پر مجاہدین کے حوصلے بڑھانے کے لیے جاتے رہے۔

انہی مقاصد کے حصول کے سلسلے میں انھوں نے کئی مرتبہ مہنڈر، کوٹلی، راجوری اور سریاہ تک سفرکیا۔ کئی بار وہ دشمن کے حملے کے دوران میں بھی ان میں موجود رہے۔ ان کی خصوصی توجہ پونچھ سب سیکٹر میں آزاد فوجوں کی انتظامی ضروریات فراہم کرنے پر رہی۔ وہ زیادہ تر ہجیرہ، تیتری نوٹ اور چڑی کوٹ کے علاقے میں رہے جہاں انھوں نے اور مولانا غلام حید جنڈالوی نے مجاہدین کو راشن وایمو نیشن سپلائی کے سلسلے میں بے مدددی۔ وہ فائرنگ کے دوران میں بھی ان محاذوں پر پیدل چل کر اسلحہ مہیاکرتے رہے۔ اورمجاہدوں کے اونچے پہاڑی مورچوں تک بھی گئے۔ ایک دفعہ کھڑا ہنچ (ہجیرہ) محاذ کے دورے کے وقت دشمن کے گولے ان کے ارد گرد گرتے رہے۔ لیکن انھوں نے اپنا دورہ جاری رکھا۔ پونچھ پر حملہ کے وقت بریگیڈئیر حیاالدین اپریشن کمانڈر تھے۔ اس سیکٹر میں پہلے سے موجود کرنل محمد صادق خان ستی اور میجر تصدق حسین (بعد میں لیفٹیننٹ کرنل )بڑی جانفشانی سے اس محاذ پر کام کرتے رہے۔ آزاد فوج کے سیکٹر کمانڈر کرنل رحمت اﷲ خان مرحوم بُردباری اور مُستعدی کے مینار تھے اور دن رات تیتری نوٹ ہیڈ کوارٹر میں فرائض منصبی انتہائی جذبہ حُب الوطنی اور لگن سے نبھاتے رہے۔ انھوں نے دشمن کو ان کے مورچوں تک ہی محصور رکھا۔ خان صاحب کی انتہائی خواہش اور کوشش تھی کہ پونچھ شہر کو جلد از جلد فتح کیاجائے۔ انھوں نے اس کا اپنی ایک ڈائری میں بھی ذکر کیا ہے کہ پونچھ کی فتح کے ساتھ باقی جگہوں کی فتح آسان ہو جائے گی۔ پلان کے مطابق پونچھ پر مشرق سے حملہ باغ بریگیڈ نے کرنا تھا۔ جس کی کمان بریگیڈئیر تجمل حسین کر رہے تھے۔ جنوب سے بھینچ کے حملے کی کمان کرنل نورحسین کر رہے تھے۔ کُنوہیاں کے رُخ سے میجر غلام محمد کے بریگیڈئیر نے دباؤ ڈالنا تھا اور بڑا حملہ رابطانوالی چوٹی سے 3 آزاد بریگیڈکی ذمہ داری تھی۔ پٹھانوں کے لشکر نے حملہ میں حصہ لینے سے لیت و لعل کا مظاہرہ کیا۔ حملہ 17 مارچ1948ء کو شام 5 بجے شروع ہوا۔ اس وقت خان صاحب وہاں موجود تھے اور جیسا کہ اس وقت کے سینئر افسروں کی یادداشتوں سے عیاں ہے انھوں نے خان صاحب کے تجربے اور ہدایات سے بہت استفادہ کیا۔ بقول کرنل محمد گلزار جو وہاں توپ خانہ کی ایک بیٹری کے کمانڈر تھے،پونچھ پر حملے کے احکام کے اختتام پر خان صاحب نے ایک طویل دعامانگی۔ یہ دعا وہی تھی جوسلطان محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر حملہ کرنے سے پہلے مانگی تھی۔ بدقسمتی سے مختلف وجُوہ، خاص کر بارش، آندھی، اولوں اوررات کی تاریکی کی بنا پر یہ حملہ کامیاب نہ ہو سکا۔ آزاد مجاہدین کو دشمن کی بارودی سرنگوں سے کافی نقصان پہنچا اور آپس میں رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ دشمن کی خالی کی ہوئی جگہوں پر قبضہ نہ کرسکے۔ کرنل گلزار آگے چل کر لکھتے ہیں کہ باوجود اس ناکامی کے خان صاحب نے سب کے حوصلے بڑھائے۔ انھوں نے توپ خانہ کے جوانوں کو دشمن کی خالی کی ہوئی پوزیشنوں پر قبضہ کرے کی تجویز پیش کی۔ لیکن رات ہو چکی تھی اور راستہ جاننے والے گائیڈ بھی مہیا نہ ہو سکے۔ لہذا اس پر عمل نہ ہو سکا۔ اس حملے کی ناکامی میں مجاہدین کی دوبارہ صف بندی میں خان صاحب نے اہم کردار اداکیا۔ وہ جہاں بھی جاتے مجاہدین کے حوصلے بڑھ جاتے تھے اور وہ ان کی ہدایات پر پیرومرشد کی طرح عمل کرتے تھے دوسرے دن جب ایک ہندوستان ڈکوٹا ہوائی جہاز پونچھ کے ہوائی اڈا پر اترا تو خان صاحب کی ہدایت پر اس پر توپ خانہ کا فائر گراکر اُسے برباد کیا گیا۔ اسی طرح خان صاحب کی ہدایت پر توپ خانے کا فائر پونچھ شہر میں بھی گرایاگیا اور جیسا کہ انھوں نے پیشن گوئی کی تھی، دشمن نے سفید جھنڈا بلند کیا اور ٹروس کی پیش کش کی۔ خان صاحب اس ٹروس کے حق میں نہ تھے لیکن چونکہ ٹروس کا فیصلہ حکومت کی سطح پر ہوا تھا۔ لہذا اس کی پابندیکرنی پڑی اور نتیجتاً نقصان اٹھایا۔ اس ٹروس کے دوران میں دشمن نے پونچھ میں مزید فوجی کمک پہنچا کر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی اور مجاہدین کوپیچھے دھکیل دیا۔ اسی طرح بریگیڈئیر محمد صادق ستی جو اس وقت بطور لیفٹیننٹ کرنل پونچھ سیکٹر کے کمانڈر تھے، اپنی یادداشتوں میں معترف ہیں کہ پونچھ کے محاذ پرخان صاحب نے مجاہدین کے ساتھ جنگ میں بھرپُور حصہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 1948ء کی جنگِ آزادی کے دوران میں جب وہ فروری کے آخر میں پلندری پہنچا تو خان صاحب نے انھیں مکمل جنگی حالات سے مطلع کیااور اپنے دیگر رفقا سے متعارف کرایا۔ مارچ 1948ء میں جب پونچھ پر حملے کا منصوبہ بناتو اس کی تیاری میں خان صاحب کے مشو روں سے استفادہ کیا گیا۔ کیونکہ وہ وہاں کی چپہ چپہ زمین کوجانتے تھے اور مقامی حالات سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کی اپنے قبیلے کے مجاہدوں پر مکمل گرفت تھی اور دن رات وہ انہی مجاہدین کی ضروریات کے سلسلے میں سرگرم عمل رہتے تھے۔ اس محاذ پر ایک باغ بریگیڈ بھی سرگرم عمل تھا جس کی قیادت سردار محمد عبد القیوم خان کر رہے تھے۔ خان صاحب ہمیشہ ان کی کارکردگی سراہتے تھے اور عباسی یونٹوں کی ضروریات کا اتنا ہی خیال رکھتے تھے جتنا دوسروں کا۔ حملوں کے دوران میں خان صاحب ہر پلٹن میں جاتے اور وہاں اپنے مجاہدوں کے حوصلے بڑھاتے اور ان کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے۔ پونچھ کے لوگوں کو خان صاحب سے اتنی عقیدت تھی کہ خان صاحب کو اپنے درمیان میں دیکھ کر اُن کے حوصلے بلند ہوجاتے۔ بریگیڈئیر صادق نے اپنی یادداشتوں میں یہ بھی لکھا کہ پنجاڑ سے پونچھ محاذ تک ایک 25 پونذرگن لے جانے میں بھی خان صاحب نے اپنے قبیلے کے لوگوں کے ذریعے ایک ناممکن کام کو ممکن بناکے دکھا دیا، جس سے ہماری جنگی پوزیشن اس محاذ پربہت مستحکم ہوئی۔

پونچھ کے محاذ کے علاوہ خان صاحب کوٹلی، سرپاہ ارراجوری کے محاذوں پر بھی مجاہدین کی حوصلہ افزائی کے لیے جاتے رہے۔ سرپاہ محاذ پر خان صاحب کی حسنِ کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) محمد زمان خان (ٹالیہن) نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جہادِ آزادی کے دوران میں خان صاحب کوٹلی، سرپاہ،محاذ پر اپنے مجاہدوں سے ملنے اور ان کے حوصلے بڑھانے اگلے مورچوں تک پہنچے۔ اُسی دوران میں ہندوستانی فوجوں کی طرف سے سرپاہ پرجنگِ آزادی کا سب سے بڑا اور بھر پورحملہ ہوا۔ جس میں دشمن کے ہوائی جہاز بھی حصہ لے رہے تھے۔ دشمن کا توپ خانہ پوری گھن گرج سے مجاہدین پر گولہ باری کر رہا تھا۔ دشمن کے کچھ ٹینک بھی مجاہدوں کے خلاف آگ اُگل رہے تھے۔ مگر مُٹھی بھر مجاہدین آزادی بے سروسامانی کے باوجود سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ اس کی بڑی وجہ اﷲ کی نصرت ار خان صاحب کی وہاں موجودگی تھی۔ وہ دشمن کی گولیوں سے بے پروا سامنے ایک چٹان پر بیٹھے رہے اور سارا دن بلند آواز میں ’’ یاحییُّ یا قیوم‘‘ ’’یا حییُّ یا قیوم‘‘ کا ورد کرتے رہے۔ شام ہوتے ہی دشمن پسپا ہوا اور جب خان صاحب نے یونٹوں سے حالات دریافت کیے تو پتہ چلا کہ سارے محاذ پر صرف ایک مجاہد نے جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ’’آج تو یقیناًفرشتے ہمارے ساتھ جنگ میں مدد کرتے رہے ہیں۔‘‘ دوسرے دن وہ تمام یونٹوں میں گئے اور مجاہدین کو شاباش دی اورہدایت کی کہ ’’جوانو!بہادری سے لڑو۔ آج بے شک تمھارے پاس ہتھیار نہیں ہیں اور تم تعداد میں بھی کم ہو مگر ایک دن تمھاری یہ فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ہوگی۔‘‘

خان صاحب کی ان دوروں پر لکھی گئی ایک ذاتی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ستمبر 1948ء میں مہنڈر، گرساہی، بسیورہ کوٹ بقلیار، نیلی ڈھیری، رتن پیر اورعلاقہ ورال کے محاذ کا بھی دورہ کیا، جہاں انھوں نے تھرڈ حیدری بٹالین کے افسروں سے ملاقات کی۔ ظفر اقبال قریشی سیکرٹری مسلم لیگ بھی بہرام گلہ، نوری چھم، چندی مڑھ کے دورے میں خان صاحب کے ساتھ رہے۔ راجوری اورمہنڈر کے اکثر محاذوں پر انھیں سردار فتح محمد خان کریلوی کی رفاقت بھی حاصل رہی۔ پوشاٹہ سیمرگ جو چودہ ہزار فٹ بلند ہے، وہاں بھی یہ تینوں حضرات گئے اور ہست و نج، روپڑ گلی، سرائے علی آباد میں بھی مجاہدین کی پوزیشن ملاخطہ کیں۔ بقول سردار فتح محمد کریلوی خان صاحب نے ان تمام مقامات پر گڑ گڑا کر دعائیں کیں اور مجاہدین کے حوصلے بڑھائے۔ خان صاحب کی موجودگی سے مجاہدین کو تائیدِ ایزدی بھی حاصل رہی۔ اپنی ٹور رپورٹ میں انھوں نے لکھاکہ 26،27، 28 ستمبر 1948ء کو مجاہدین کو کھانا نہیں ملا۔ رب العزت کی بارگاہ میں دعاکی اور علاقہ ورال سے ایک شخص 73 من آٹا، 3 ٹین گھی، 20 سیر نمک اور 140 روپے نقد لے کر اس ویران علاقہ میں تلاش کرتا ہوا پہنچا۔ مجاہدین نے کھانا کھایا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ خان صاحب نے اپنی رپورٹ میں اُن مساعد حالات کا تفصیلی ذکر بھی کیا جن میں وہ مجاہدین بڑی بہادری اور استقلال سے پیر پنجال کی بلندیوں پر لڑ رہے تھے۔ انھوں نے لکھا:۔

مجاہدین نے جب پیر پنجال پر حملہ کیا تو دشمن کی نفری ایک بریگیڈ تھی اس کے علاوہ مشین گن اورتوپ خانہ بھی تھا۔ مجاہدین کی دو کمپنیاں تھیں جن کی نفری 190 تھی۔جب مجاہدین نے حملہ شروع کیا تو ایک گورکھا پلاٹون پوری کی پوری ماری گئی۔بارش اور دُھند پڑ گئی۔دشمن اس غبار میں نفری کونہ دیکھ سکا۔مجاہدین نے اس دھند میں دونوں طرف سے ہلہ بول دیا۔ دشمن بھاری سامان، تنبو، برتن، بسترے، امنیشن، گینتی بیلچے، برین گنیں اور کلودنگ چھوڑ کر بھاگ گیا۔مجاہدین کو جو سخت سردی میں مبتلا تھے قدرت نے اس طرح بچایا اور دشمن کا چھوڑا ہوا سامان ان کے کام آیا۔ اسی طرح عید کے دن دشمن نے اپنے فوجی دستوں کوہوائی جہاز سے راشن بذریعہ چھتری پھینکا۔ جس میں سے کچھ مجاہدین کے ہاتھ آیا اور انہوں نے تین دن خوب عید منائی۔مجاہدین 14 ہزار فٹ کی بلندی پر یکم مارچ سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کاتبادلہ نہیں ہوا۔پاؤں سردی سے پھٹ گئے ہیں۔مرگ پر لکڑی بالکل نہیں ہے۔ ہر روز شام کو برف شروع ہوجاتی ہے۔15 کاتک سے لگاتار برف شروع ہو جائے گی۔کشمیر کے مسلمان، مجاہدین پونچھ کا انتظار کر رہے ہیں۔مجاہدین کے صبر و استقلال کو سراہتیہوئے سردار فتح محمد خان کریلوی نے مبلغ 50 روپے اور بندہ نے ایک سو روپیہ کی حقیر رَم انہیں پیش کی۔

خان صاحب نے ان دور دراز علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کی سول آبادی اور مجاہدین کی مشکلات سے حکومت آزاد جموں و کشمیر اور فوجی ہیڈ کوارٹر کومطلع کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔ انھوں نے حسبِ ذیل سفارشات پیش کیں:۔

1۔ تحصیل مہنڈر کی پبلک کو کپڑا اور نمک کی سخت تکلیف ہے۔ نمک کا نرخ 12 چھٹانک فی روپیہ ہے۔ کپڑا بالکل نایاب ہے۔ مُردوں کے دفنانے میں بھی دقت درپیش ہے۔

2۔ تحصیل مہنڈر کے کسیاسکول میں پڑھائی نہیں ہو رہی۔ اسسٹنٹ انسپکٹر آف اسکولز اپنی اور دیگر اساتذہ کی تنخواہیں مفت وصول کر رہا ہے۔

3۔ مجاہدین اور پبلک کی طرف سے پولیس کیخلاف رشوت ستانی کی شکایات ہیں۔

4۔ محکمہ جنگلات نے جنگل کی کوئی حفاظت نہیں کی۔ جنگلوں کی تباہی و بربادی ہوتی جا رہی ہے۔

5۔ آزاد حکومت کے وزیر،پولیس،محکمہ مال و جنگلات کی تقرریاں راولپنڈی بیٹھ کر کرتے ہیں۔ یہ ملازمین کچھ کام نہیں کرتے۔ صرف تنخواہیں راولپنڈی سے لاتے ہیں۔

بیت المال کا فصل اور گھاس نقصان ہو رہا ہے۔ بیت المال مہنڈر پرجو نائب تحصیلدار مقرر ہے وہ اس کام کا اہل نہیں ہے۔ ایسے وقت میں بارسُوخ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ معززین علاقہ کی رائے سے ایسے ملازم رکھے جائیں موزوں ہوں گے۔

7۔ سول کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔

8۔ جہاد میں جو مجاہدین شہید ہوتے ہیں، انھیں پنشن نہیں ملتی جو ناکارہ ہو گئے ہیں انھیں گریجویٹی دی جانی منظور ہوئی ہے۔ یہ ناانصافی ہے۔ انھیں معذوری کی پنشن دی جانی چاہیے۔

9۔ پناہ گزین جن کی جائیدادوں پر کفار کا قبضہ ہے، انھیں امداد دی جائے اور کفار کی زمین بھی دی جائے تاکہ وہ فصل کاشت کریں۔ کروڑوں روپیہ کا فصل اور گھاس محکمہ سول کی عدم توجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔

10۔ پناہ گزینوں کے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام کیاجائے۔ موضع جھاوڑہ ککوٹہ (تحصیل حویلی) جہاں فیلڈ ایریاکے پناہ گزین رہتے ہیں، ان کے بچوں کے لیے اسکول جاری کیاجائے۔

11۔ شہیدوں کے بچوں کے لیے اسکول کسی موزوں جگہ پر منظور کیاجائے اور ان کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور جو مجاہدین جہاد میں شامل ہیں، ان کے بچوں کے لیے وظائف کی رقم علاحدہ رکھی جائے۔

12۔ مجاہدین چودہ ہزار فٹ کی بلندیوں پر ہیں، انھیں گرم کپڑوں کی سخت ضرورت ہے۔

13۔ راجوری کے علاقہ ورال میں کفار فصل غلہ اورجائیدادیں لوٹ رہے ہیں اور راجوری میں اسلحہ جمع کر رہے ہیں۔ اگر پونچھ کو جلد از جلد فتح نہ کیا گیا تو زمینداروں کی فصل اور گھاس جس پر وہ سارا گزارہ کرتے ہیں۔ تباہ ہو جائیں گے اور مجاہدین بھی لڑائی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ پونچھ کی فتح باقی جگہوں کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اس پر فوری توجہ دینا اشد ضروری ہے۔

14۔ دشمن کے ہوائی جہازوں اور توپ خانے کے فائر سے مستورات بھی زخمی ہوتی ہیں۔ ان کے علاج معالجے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئی ہیں۔ ایک زنانہ فیلڈ ہسپتال منظور کیاجانا چاہئیے۔

15۔ خان صاحب کی ایک اور ڈائری میں نوٹ ہے۔’’5 اکتوبر 1948ء کو چُرون سے کھینتر نمبر 12 بٹالین کی پوزیشن ملاخطہ کی۔ مجاہدین کو لیکچر دیااور ان کی نمایاں شہرت پر جو انھوں نے مہنڈر ماراجوری اور ریاسی میں حاصل کی، مبلغ 125 روپیہ کی حقیر رقم پیش کی۔ 7 اکتوبر 1948ء کو بدر بٹالین کا دفتر بریڈ اور مورچے دیکھے اس بٹالین میں آفیسرز کا اتفاق ہے اور دفتر کا اعلیٰ انتظام ہے، انعام کے طور پر مبلغ 55 روپے اور ایک جھنڈا اس بٹالین کو پیش کیا۔‘‘

جہادِ کشمیر کے دوران میں لیفٹیننٹ جان محمد خان صاحب کے ساتھ بطور ڈرائیور کام کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف مواقع پر ہزاروں روپے کی اشیاء اور تحائف پاکستانی شہریوں کی جانب سے موصول ہوتے رہے لیکن خان صاحب نے کوئی چیز ذاتی استعمال کے لیے نہ رکھی بجز دو کمبلوں کے جو وہ سردیوں میں سفر میں استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کے شہریوں کی طرف سے تحائف پلندری میں جمع کیے جاتے اور یہاں سے خان صاحب مختلف محاذوں پر اپنی نگرانی میں پہنچاتے تھے۔ سب سے پہلے تحائف لے کرایم زیڈکیانی اور ایک خاتون ناصرہ صدیقی (بعد میں بیگم ایم زیڈ کیانی) پلندری آئے۔ خان صاحب سے ملاقات اور گفت و شنید کے دوران یہ طے کیا گیا کہ ان تحائف کی تقسیم اور ترسیل کا کام خانصاحب ہی سر انجام دیں گے۔ بیگم امی زیڈ کیانی کے پاس خان صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی رسیدیں اورخطوط موجود ہیں۔ اس طرح انھوں نے 1947ء 1948ء میں اپنا تمام وقت مجاہدین کی امداد اور مفتوحہ علاقوں کی سول آبادی کی دیکھ بھال میں صرف کیا۔ ان کی عملی تگ و دو کی وجہ سے مجاہدین کے حوصلے بلند رہے اور قدم قدم پر انھیں فتح نصیب ہوئی۔ وہ برگزیدہ ہستیوں سے بھی مجاہدین کی فتح و نصرت کے لیے دعائیں کرواتے رہے جن میں پیر غلام محی الدین آف نیریاں شریف شامل تھے۔

بدقسمتی سے جہادِ آزادئ کشمیر کے صحیح حالات اور مجاہدین کے کارناموں کو بروقت قلمبند نہیں کیا گیا اور اب وقت گزرنے ے بعد نہ تو وہ لوگ رہے نہ ان کی یادداشتیں صحیح طور پر محفوظ ہیں۔ علاقے میں سیاست کے غلبے نے ان حالات اور واقعات میں اس حد تک آمیزش کردی ہے کہ اب جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیاہے۔ خان صاحب کی اپنی ذاتی ڈائریوں میں جہادِ کشمیر کے کچھ حالات درج ہیں۔ بقول سردار جہانداد خان (سابق ایس ڈی ایم پلندری) خان صاحب نے تمام محاذوں اور ایسی جگہوں کے، جہاں جہاد آزادی کے معرکے لڑے گئے تھے معلومات حاصل کرکے ایک مکمل اور تفصیلی ڈائری آزاد فوج کے ہیڈ کوارٹر بھجوائی تھی مگر وہ گم ہو گئی یاگم کردی گئی اور اس کی آفس کاپی نہیں رکھی گئی تھی۔ اگر رکھی گئی تھی تو خدا جانے وہ کہا ں ہے۔ جہاں تک خان صاحب کی ذاتی ڈائریوں اور ریکارڈ کا تعلق ہے وہ نہ سنبھالے جانے کی وجہ سے بہت سا ضائع ہو گیا، جو باقی بچا وہ بھی اچھی حالت میں نہیں ہے۔ ان ڈائریوں اور دیگر ریکارڈوں کا جو حصہ ٹھیک حالت میں ہے وہ سوانح کے حصہ سوم میں من و عن شامل کر دیاگیاہے۔ باقی ریکارڈ سے اقبتاسات درج ذیل ہیں۔

1۔ مختار خان ساکن پاچھیوٹ کو جبکہ وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ تھا۔ ڈوگرہ فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس پر راولاکوٹ میں جلوس نکالا گیا مسلمانوں نے ڈوگرہ حکومت کے جھنڈے اتار کر پاؤں تلے روندے۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی گئی جس پر بہت لوگ گرفتار کیے گئے اور ان کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا، ایک ڈوگرہ فوجی افسر نے ایک زمیندار سے پوچھا تم کیاچاہتے ہو تو اس نے جواب دیا پاکستان اور دین دار نظامِ حکومت، اس پر اس کو بہت سخت ماراگیا۔

2۔ ستمبر 1947ء میں ڈوگروں نے دریائے جہلم کے جتنے بھی گھاٹ تھے ان کی کِشتیاں توڑ کر دریا میں بہادیں اور اس طرح انھوں نے علاقے کی مکمل ناکہ بندی شروع کردی۔

3۔ 6 ستمبر 1947ء کو ڈوگروں نے دو پنشنر حوالداروں کو مدار پور کے مقام پرگولی مار کر ہلاک کر دیا۔

4۔ وارث علی خان جاگیردار کو بھی ڈوگروں نے بے تحاشا مارااور بے ہوش کرکے دریا میں پھینک دیا۔

5۔ خادم حسین شاہ ساکن کھلڑ تحصیل باغ کو ڈوگروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

6۔ مسلمانوں کی دکانیں بھی لوٹیں، عبد اﷲ خان و نواب خان ساکن پڑاٹ کے مکان بھی ڈوگروں نے لُوٹے۔

7۔ 22ستمبر 1947ء کو دن گیارہ بجے موضع چھ چھن کے ایک پنشنر حوالدار کو ڈوگروں نے گولی مار کر اُس کی لاش دریا میں پھینک دی اور باوجود اصرار کے انکوائری تک نہ کی گئی۔

8۔ بیوہ عنایت اﷲ خان ولد سردار دلاور خان کے مکان کو ڈوگرہ فوجیوں نے 8اکتوبر 1974ء کو تین دفعہ آگ لگائی یہ بیوہ خاتون ان سے مقابلہ کرتی رہی۔ اور آخرکار نہایت ہمت اور دلیری سے مکان کو نذر آتش ہونے سے بچانے میں کامیاب ہو گئی۔

9۔ 28 جولائی 1948ء کو تراڑ کھل ہسپتال میں مجاہد زخمیوں کودیکھا اور ان کو بکرے کے لیے 15 روپے دیے۔

10۔ علی اکبر خان ولد منگل خان قوم سُدھن اکھوڑبن 27 اکتوبر 1947ء کو دیوی گلی میں شہید ہوا۔ اس جتھہ کی رہنمائی صوبیدار عبد اﷲ خان کر رہے تھے۔

11۔ صوبیدار لعل حسین خان قوم سُدھن جو موہڑہ تحصیل راولپنڈی کے رہنے والے ہیں نے 12 جولائی سے 20 جولائی 1948ء تک پونچھ محاذ دیکھا اور 150 روپے پونچھ دارفنڈ میں بمقام تراڑ کھل جمع کرائے۔

12۔ خوش حال خان ولد حشمت خان قوم سُدھن ساکن دھمن ڈی کمپنی 12 بٹالین 3 مارچ کو کھینتر کے مقام پر سخت زخمی ہوا۔ وارفنڈ سے 10 روپے امداد دی گئی۔

13۔ صوبیدار مختار خان آنریری ریکروٹنگ آفیسر پاچھیوٹ کامکان و جائداد ڈوگروں نے جلادی تھی۔ انھوں نے جہاد کے آغاز سے بغیر تنخواہ لیے بہت کام کیااور اب بھی کر رہے ہیں۔50 روپے بطور امداد نہیں دیے گئے۔

14۔ 7 جولائی 1947ء کو دین محمد ولد مختار خان اور دل محمد ولد حشمت خان (قلعاں) نے 4 من گندم گل حسین ولد طالع محمد ساکن بھنگو کے گھر جمع کی ہے۔ رائے محمد شفیع صاحب کو اطلاع دے دی گئی ہے۔

15۔ سید محمد ولد زمان علی خان قوم سُدھن ببر پوٹ ڈہوک کالاکوٹ نمبر8 بٹالین میں ملازم تھا۔ نوشہرہ کے محاذ پر نمبر 9 بٹالین میں شامل ہوا اور 7 جنوری 1948ء کوشدید زخمیہوکر ہسپتال میں وفات پاگیا۔ شہید کے لواحقین کو کوئی پنشن یاامداد نہیں ملی۔ پونچھ وار فنڈ سے 10 روپے امداد دی گئی۔

16۔ جمعہ ولد فضل قوم کھوکھر موضع نیریاں بی کمپنی نمبر 9 بٹالین 28 نومبر 1948ء کو مورچہ سدلوتری پر شدید زخمی ہوا۔ پونچھ وارفنڈ سے 10 روپے امداد دی گئی۔

17۔ قاسم علی ولد مجاہد غلام محمد نمبر1 بٹالین یکم فروری 1948ء سے لاپتہ ہے وہ سہر واقع چوکیاں کارہنے والا تھا۔ وارفنڈ سے 10 روپے امداد دی گئی۔

18۔ علی گوہر خان ولد بہادر خان سُدھن موضع نڑ 27 جون 1948ء کو مورچہ چھاترا پر شہید ہوا۔ وہ بی کمپنی نمبر 5 مجاہد بٹالین کا ملازم تھا اور جہاد کے آغاز سے گھر نہیں گیاتھا۔ اس کی عمر 70 سال کے لگ بھگ تھی۔ اس کی بیوہ مسماۃ رحمت جان اپنے بچوں دختر کریم جان (12 سال ) پسر کمال خان (7 سال ) کے ساتھ پلندری ہیڈکوارٹر میں مجاہدین کی روٹیاں پکاتی ہے۔ اس کے شہید خاوند کا نام بہادری کے لیے راولاکوٹ بھیجا گیا لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اُس کے خاوند کی بہادری کا کارنامہ یہ تھا کہ راولاکوٹ کے ایک مکان میں مجاہدوں کی ایک ٹولی دشمن کے گھیرے میں آگئی تھی۔ دشمن نے ان پر بے تحاشا فائر شروع کر دیا۔ مجاہد تو بھاگ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن 3 رائفلیں اور 6 جھولے امنیشن (1200 روند)وہیں رہ گئے۔ مجاہد علی گوہر خان دشمن کی فائر کی بارش میں وہاں گیا اور رائفلیں اور امنیشن نکال لانے میں کامیاب ہو گیا۔

19۔ علی بہادر ولد قادر بخش خان ساکن گھمیر منجاڑ کولی محاذ پر 17 جون 1948ء کو سخت زخمی ہوا۔ راولپنڈی ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس کی زوجہ مسماۃ بگی کو وار فنڈ سے 20 روپے امداد نائیک عطاء محمد ساکن گھمیر کے ہاتھ 7 جولائی 1948ء کو بھیجی گئی۔

20۔ 6 جون 1948ء جمعدار سید احمد خان موضع دھڑا جو فاروقی بٹالین میں ہے۔ ہندوکی زمین لینا چاہتاہے۔ میں نے چنوں خان کو حکم لکھا ہے اور جمعدار صاحب کوحکم دیا ہے کہ فوراً محاذ پر چلا جائے۔

21۔ 5 جون 1948ء ایڈ جوٹنٹ محمد حسین کالاکوٹ 15 یوم کی چھٹی پر گیا تھا ایک ماہ دس دن ہوئے غیر حاضر ہے۔

22۔ جمعدار فقیر محمد بن جونسہ جمعدار خوش حال خان (حال کیپٹن) بن جونسہ 28 مئی 1948ء سے بلااجازت غیر حاضر ہیں۔

23۔ پیر بخش موضع منڈی ناڑ واقع گھمیر، 1947ء کو ہجیرہ میں شہید ہوا۔ روپیہ وارفنڈ سے امداد دی گئی۔

24۔ نمبر 5 مجاہد بٹالین کے مطالبے کم از کم 40 مزید نفری چاہیے۔ موجودہ حالت میں گوریلا جنگ نہیں لڑ سکتے۔ کافی نفری انتظامی فرائض پر مامور ہے۔ پلٹن کے پاس 2 ہزار کے قریب بیلچے ہیں۔ 6 ہزار کے قریب وردی اور کمبل ہیں، برتن بھی بے شمار ہیں۔ ضرورت سے زیادہ سامان جمع کرنے کا حکم دیا تاکہ دوسری جگہ بھیجا جائے۔

25۔ راج ولی قوم گوجر جو صوبیدار فیض محمد ساکن گھمیر کے جتھہ میں تھا 7 نومبر 1947ء کوشہید ہوا۔

26۔ بگاخان ولد فتح عالم خان قوم و ولی ساکن گھمیر نمبر9مجاہد بٹالین 29 مئی 1948ء کو کونیاں کے مقام پرزخمی ہوا اس کی والدہ کو وار فنڈ سے 10 روپے امداد دی گئی۔

27۔ احمد دین ولد ولی محمد موچی ساکن تیتری نوٹ ملازم 6 مجاہد بٹالین (پناہ گزین موضع دیگوار)رپورٹ کرتا ہے کہ فیروز دین موچی موضع پاچھیوٹ ملازم10 بٹالین اس کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے ساتھ رہے اور چمڑا رنگائی میں مدد دے۔ وہ اس کا اوزار اور دھوڑی بھی ساتھ لے گیا۔ یہ شکایت کمانڈنگ افسر نمبر 10بٹالین کے نوٹس میں لانی ہے۔

28۔ 4 2مئی 1948ء سخی محمد برادر صوبیدار فیض محمد خان گھمیر نے دس بارہ دن ہوئے پلندری کے دکان دار خوش حال خان سے 24 گز کپڑا 3 روپے فی گز کے حساب سے خریدا ہے۔ اس کی قیمت خرید دریافت کرنی ہے۔

29۔ جمعدار عبد الحسین خان ولد محمد دین سُدھن موضع پوٹھی چھپڑیاں ملازم 8 بٹالین اے کمپنی 18 مئی 1948ء کو دشمن کے ساتھ چھجہ پر ایک جھڑپ میں شدید زخمی ہوا۔ اس کے تین ساتھی جوچشمے سے پانی لانے جا رہے تھے شہید ہوئے۔ عبد الحسین نے شدید زخمی حالت میں اس لیے پانی تک پینے سے انکار کر دیا کہ اس کے ساتھی پیاسے ہی مر گئے ہیں اس لیے وہ بھی پانی نہیں پئے گا اور اسی حالت میں تیسرے دن فوت ہوا۔

30۔ مجھے مبلغ 75 روپے مدار پور میں بطور امانت دیے گئے مندرجہ ذیل ورثا کو دینے ہیں۔

  1. 30روپے سبز علی خان ولد فیروز خان کالاکوٹ
  2. 25 روپے محمد حسین ولد چھبو خان بذریعہ نمبردار فتح محمد خان ولد شفاعت خان۔
  3. 25 روپے فیروز دین ولد رنگی خان کالاکوٹ محمد ریشم کو دیے ہیں۔
  4. 5روپے محمد حسین ولد نور عالم رام پتن سردار بیگم

31 27 اور 29 اپریل 1948ء جھلاس میں دشمن نے بہت بڑا حملہ کیا تقریباً 600کافر مارے گئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے نمبر 6 مجاہد بٹالین کے 5 مجاہدوں نے دریا میں کود کر دشمن کے پیچھے جاکر امینشن سپلائی کو روکا اور ان کو بہت نقصان پہنچایا ان کے نام یہ ہیں۔ نائیک حسین خان (ترپی) سپاہی سمندر خان (ہاڑی) ایوب خان (ہاڑی) سبز علی خان(کالاکوٹ)فیروز خان (ترپی)، لال خان (ترپی)، سپاہی یوسف خان (ہاڑی) سپاہی حسین خان (ترپی)سمندر خان (بن جونسہ، عبد اﷲ خان (بن جونسہ) محمد اسحاق ابن جونسہ) بہادر علی (بن جونسہ) مندرجہ بالا مجاہدوں کے گھر میں کچھ رقم بطور انعام تقسیم کی جائے گی۔ (مدار پور 4 مئی 1948ء)۔

32۔ یکم مئی 1928ء میجر گلزار خان صاحب توپ خانہ کے بیڑی کمانڈر نے 22 ڈرائیور 4 گنرز، 3جمعدار یاصوبیدار فوری طور مہیا کرنے کے لیے کہاہے ان کی تنخواہ حاضر ڈیوٹی ڈرائیوروں اور گنرز جیسی ہوگی۔

33۔ اپریل 1948ء بمقام ہجیرہ پیر پونچھ وارفنڈ کے لیے۔672روپے وار فنڈ اکٹھا کیا گیاجس میں سے 152روپے تقیسم کیے گئے۔ 520 روپے بقایاہیں۔

34۔ 24 اپریل 1948ء بھنگو ہسپتال کے لیے ایک ٹیلی فون 4 خیمے لنگر اور وارڈ کی مرمت کے لیے رقم نیز 3 چارپائیاں 50 جوڑے کپڑے100چادریں ضرو رت ہیں۔

35۔ 22اپریل 1948ء تراڑ کھل ہسپتال میں ایک زخمی محمد اکبر خان ولد سید احمد خان سُدھن سکنہ پاچھیوٹ نمبر10 بٹالین کا مجاہد چڑی کوٹ پر زخمی ہوا اس نے رپورٹ کی ہے کہ اس کے گھر پرغلہ بالکل نہیں لہذا اُس کی امداد کی جائے۔

36۔ 22 اپریل 1948ء تراڑ کھل ہسپتال نائیک شیر محمد سی کمپنی نمبر 8 بٹالین نے 13 اپریل 1948ء کھڑی دھرمسال کے حملے میں صوبیدار میجر فیروز کے حکم سے دشمن پرگرنیڈ پھینک کر ان کا بہت نقصان کیا۔ دریافت کرنا ہے کہ اس کا نام انعام کے لیے بھیجا گیاہے یانہیں۔

37۔ 4 جنوری 1948ء کو نمبر 5 مجاہد بٹالین کی ایک پٹرول نے دشمن کی ایک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک برین گن مع 9 میگزین (600 روند) ایک رائفل اور تین کمبل حاصل کیے اور دشمن کے تین سپاہیوں کو ہلاک کیا۔

38۔ 11 جنوری 1948ء تک 4239 سیر گندم پنجاڑ پہنچی۔

39۔ 9 اپریل 1948ء مبلغ چھ ہزارکے جو پرانے نوٹ کرنل شیر خان کمانڈنگ آفیسر نمبر5 مجاہد بٹالین نے بدلی کرانے کے لیے مجھے دیے تھے۔ پلندری خزانے میں معرفت سٹاف کیپٹن جمع کیے یہ رقم کرنل شیر خان کے حوالے کرنی ہے۔

40۔ 11 اپریل 1948ء پونچھ وار فنڈ کے لیے مندرجہ ذیل حضرات نے چندہ دیا۔

کیپٹن غلام سرور خان 800 روپے

جمعدار دیوان علی خان 100 روپے

رسالدار محمد حسین 62 روپے

بذریعہ سردار فتح محمد خان صاحب 52 روپے

41۔ 13 اپریل 1948ء حوالدار محمد شیر خان ویٹنری کور جموں کشمیر 3 جنوری 1948ء کو خود بخود حاضر ہوا۔ یہ موضع کلڑائی تحصیل کوٹلی ضلع میر پ؟ر ونڈ نمبردار موہتاخاں کا رہنے والابتاتاہے۔ بابا جی صاحب سے اس کی شناخت کرائی جائے۔

42۔ قربان علی خان ساکن نکہ کو 13 اپریل 1948ء کو کالاخان ولد کا کاخان ساکن نکر نے سرپر چوٹ ماری۔ مجاہد قربان علی نے صبر اور بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ بعداز جنگ دائر کیاجائے گا۔

43۔ 14 اپریل سے 17 اپریل 1948ء تک لیفٹیننٹ کرم داد صاحب نے دورہ کرکے 524 روپے چندہ اکٹھا کیاتفصیل، سیاہ 402 روپے بھتیاہ 130 روپے کاکڑول 132 روپے گلکوٹ 135 روپے پورہ 22روپے اس میں 100 روپے منگو خان، 50 روپے محمد اسلم خان اور 20 روپے صوفی پہلوان کے شامل ہیں۔ 44۔ افسر خان ولد علی شیر قوم گکھڑ موضع نیریاں بکر عید کے دن راولاکوٹ محاذ پر 10 نومبر 1947ء کو شہید ہوا۔ اس کی والدہ (عمر 80 سال) اور دیگر لواحقین بڑی خستہ حالت میں ہیں۔ بھیک پرگزارہ کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا اقتباسات سے عیاں ہے کہ دورانِ جہاد خان صاحب ہر محاذ پر گئے۔ مقامی کمانڈروں سے مستقل رابطہ رکھا اور انھیں ضروری مشورے اور ہدایات دیتے رہے۔ مجاہدین سے ملے اور ان کے حوصلے بڑھائے اور اُن کی ضروریات کا بندوبست کیا۔گرد و نواح کے موضع جات سے اشیائے خوردنی اکٹھی کرکے ان تک پہنچائیں۔ دشمن کے ہر حملے اور اس کے ساتھ مجاہدوں کے مقابلوں کی رُو داد نوٹ کی۔ زخمیوں کی دیکھ بھال اور شہیدوں کے لواحقین کی مالی امداد کی۔ اس طرح خان صاحب کی ولولہ انگیز قیادت کے نتیجے میں پونچھ کے مسلمانوں نے جہاد آزادی میں وہ کارنامے کردکھائے جو کسی بہادر اور جفاکش قوم کے شایانِ شان ہو سکتے ہیں۔

جن نامساعدحالت میں جہاد آزادی کشمیر شروع ہوا اس کے مد نظر مجاہدین پونچھ کی کامیابیاں عظیم تھیں۔ ڈوگرہ فوجوں کو تو وہ 1947ء کے ختم ہونے سے پہلے ہی تباہ کر چکی تھے۔ سوائے نوشہرہ اور پونچھ شہر کے، وہ مظفر آباد سے اکھنور تک کے علاقہ پر قبضہ کر چکے تھے۔ یہ دونوں جگہیں مجاہدین کے محاصرے میں تھیں اور اگر تھوڑے سے موزوں ہتھیاروں کی بروقت کمک پہنچ جاتی تو نہ صرف مجاہد، فوج ان جگہوں پر قبضہ کر لیتی بلکہ اس کے اور بھی مثبت نتائج حاصل ہوتے، مگر ایک طرف نسبتاً نہتے مجاہد تھے اور دوسری طرف جدید ہتھیاروں سے لیس معہ بھاری توپ خانہ ٹینک اور ہوائی جہازوں کے بھارتی افواج تھیں جو اکتوبر، نومبر 1947ء سے یکم جنوری 1949ء کو سیز فائر تک مجاہدوں پر حملے کرتی رہیں۔ مجاہدین یقین محکم، جذبۂ ایمانی اورشوق شہادت سے سرشار تائیدایزدی پر بھروسا کیے ہوئے اپنے اسلاف کی درخشندہ روایات کو زندہ رکھنے کی غرض سے بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے رہے اور انھیں شکست پر شکست دی۔ جنرل چوہدری کے اس غرور کو جس کا اظہار اس نے حیدرآباد کی فتح کے بعد کیاتھا کہ وہ کشمیر کی سرزمین سے لٹیروں کو دس یوم کے اندر اندر باہر نکال پھینکے گااپنے پاؤں تلے روند دیااور شہیدوں کی ارواح کو بالخصوص جنھوں نے اپنی زندہ کھالیں کھنچوا کر جامِ شہادت نوش کیا تھا اور جذبۂ انتقام سے تڑپ رہی تھیں کو تسکین پہنچائی۔ ایسا جذبہ جرات، یقین محکم، شوق شہادت وایثار خان صاحب کی اعلیٰ مدبر انہ قیادت کافیضان تھا۔

ہری سنگھ کے اقتدار کو صرف پونچھ کے مسلمانوں نے جس میں سُدھن قبیلے کا نمایاں حصہ ہے، انتقامی اقدامات سے ختم کیا۔ اﷲ تعالٰیٰ نے انھیں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے مختلف جنگوں اور لڑائیوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا۔ الحاقِ پاکستان کے نعرے نے انھیں سنہری موقع دیا کہ وہ گلاب سنگھ کی اولاد سے انتقام لیں۔ چنانچہ جہاد کے آغاز سے چند ہفتوں میں ہری سنگھ کی فوج کی کمر توڑی جاچکی تھی۔ بھارت اُس کی مدد کے لیے میدان میں کُود ا اور اس نے مجاہدوں کو شکست دینے کے لیے اپنی پوری طاقت لگادی۔ سینکڑوں معرکے لڑے گئے آخر میں طاغوتی طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ بھارت نے اعترافِ شکست کے طور پر لڑائی بند کرواکر مجاہدوں سے چھٹکارہ حاصل کیا اور دوسرے عیارانہ حربے استعمال کرنے شروع کیے۔ خان صاحب اُن کے رفقا اور جملہ مجاہدین جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے اور آخری کامیابی تک لڑنا چاہتے تھے۔ وہ شاید قدرت نے کشمیریوں کو ابھی مزید آزمائشوں سے دوچار کرنا تھا۔ بہرکیف1832ء میں جس تحریکِ حریت کا آغاز سدھنوتی سے ہوا تھا وہ ایک صدی بعد خان صاحب اور اُن کے رفقا کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ کئی سالوں تک پلندری آزاد کشمیر کا دار الحکومت رہا۔ یہیں جنگلوں میں بیٹھ کر دو برس تک آزادی کی جنگ لڑی گئی یکم جنوری 1949ء جب سیز فائر ہوا تو پلندری ہی جہاد کا اصل مرکز تھا۔

اعزازات[ترمیم]

حکومت نے ان کے گاؤں چھ چھن کو اُن ہی کے نام سے منسوب کرکے خان آباد کا نام دیا۔

وفات[ترمیم]

کشمیر کے مردِ مجاہد،بابائے پونچھ،غازیٔ کشمیر، جنگِ کشمیر 1947ء کے ہیرو الحاج کرنل خان محمد خان 11 نومبر 1961ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

حوالہ جات[ترمیم]

پونچھ، غازیٔ کشمیر، خان صاحب الحاج کرنل خان محمد خان کی برسی2017

محمد ابراہیم خان بانی صدر ریاست جموں و کشمیر کا بریگیڈئیر صادق خان اور ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو دیا گیا خصوصی انٹرویو سنہ 1984ء۔ خانصاحب کرنل خان محمد خان بابائے پونچھ کی ابتدائی جہدوجہد، قوم و ملت کے لیے خانصاحب کی خدمات اور جہاد آزادئ کشمیر میں خانصاحب کے کردار کا احاطہ