مدائن صالح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مدائن صالح
مدائن صالح
مدائن صالح
مدائن صالح is located in سعودی عرب
مدائن صالح
اندرون سعودی عرب
متبادل نامالحجر
ہجرہ
مقامالمدینہ، الحجاز، سعودی عرب
متناسقاتصفحہ ماڈیول:Coordinates/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔26°47′30″N 37°57′10″E / 26.79167°N 37.95278°E / 26.79167; 37.95278
قسمعلاقہ
رسمی نام(الحجر آثار قدیمہ۔ مدائن صالح)
قسمثقافتی
معیارii, iii
نامزد2008 (32واں سیشن)
حوالہ نمبر1293
Regionعرب ممالک کے عالمی ثقافتی ورثے


مدائن صالح (عربی: مدائن صالح سے مراد حضرت صالح علیہ السلام کی نگریاں ہیں۔ اسی کا ایک نام الحجر بھی ہے۔مدائن، مدینہ کی جمع قلت ہے۔ مدینہ کا معنی نگری ہے۔

محل وقوع[ترمیم]

یہ جگہ موجودہ سعودی عرب کے انتظامی خطہ المدینۃ کے علاقے العلا میں واقع ہے جو ظہور اسلام سے قبل کا ایک انسانی معاشرہ اور تہذیب ہے۔ اس قدیم شہر کی اکثر باقیات سلطنت نبطی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ سلطنت کی جنوبی طرف اور پترہ { عربی میں البتراء} جو دار الحکومت تھا، کے بعد سب سے بڑی ہے۔[1] قدیم لحیان اور قدیم 'رومی' بادشاہت کے قبضہ جات کے آثار، 'نباتین' سلطنت سے قبل اور بعد کے بھی ملے ہیں۔

قرآن میں ذکر[ترمیم]

قرآن شریف[2][3][4][5][6][7][8] سے یہ ثابت ہے کہ 3 تین ہزار قبل مسیح کی ہزاری میں، یہاں پر 'قوم ثمود' آباد تھی۔ اسلامی عبارات اور معلومات کے مطابق قوم ثمود جس نے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے تھے، ان کی بت پرستی اور اس پر اٹل قائم رہنے اور حضرت صالح علیہ السلام جن کو اس قوم کی طرف اللہ نے نبی بنا کر ہدایت و راہنمائی کے لیے بھیجا کو خفیہ طور پر قتل کرنے اور حق و ہدایت کی راہ نہ اختیار کرنے کے عزائم پر اللہ تعالٰی نے زلزلہ اور سخت بجلی و گرج چمک کے برساو کے ساتھ بطور سزا کے عذاب نازل کیا۔ اور قوم ثمود کے نافرمان لوگ نیست و نابود ہو گئے۔ یوں مدائن صالح والی جگہ اسی وقت عذاب الہی سے اللہ کے غضب و قہر کی عبرتناک نشانی بن گئی۔ سعودی عرب کی حکومت 1972ء سے اس شہر کو اس کی اس تاریخی حیثیت سے ہٹ کر اسے سیاحت و تفریح کی کشش کے لیے مدائن صالح کے طور سے فروغ دے رہی ہے اور اس کو قومی تہذیبی تشخص کی حیثیت سے محفوظ کیا گیا ہے۔ قدیم مٹی ہوئی تہذیب 'سلطنت نباتین' کے انتہائی محفوظ حالت میں موجود خاص کر 131 پتھروں کے تراشیدہ گھر اور ان کے بیرونی داخلی دروازوں کو، سنہ 2008ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اسے سعودی عرب کی پہلی عالمی ورثہ کی جگہ قرار دیا ہے۔ یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد عام تھے۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی۔

دور حاضر میں[ترمیم]

اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگی عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گذرا کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گذرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثار عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب بصیرت انسان کو حاصل کرنا چاہیے۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی درے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے ان کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، لہٰذا یہاں سے جلدی گذر جاؤ، یہ سیرگاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے۔[9]

تصاویر[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Marjory Woodfield (21 April 2017)۔ "Saudi Arabia's silent desert city"۔ BBC News 
  2. قرآن 7 :73–79
  3. قرآن 11 :61–69
  4. قرآن 15 :80–84
  5. قرآن 26 :141–158
  6. قرآن 54 :23–31
  7. قرآن 89 :6–13
  8. قرآن 91 :11–15
  9. تفسیر تفہیم القرآن مولانا سید ابوالاعلی مودودی الاعراف 73