نضر بن شمیل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نضر بن شمیل
(عربی میں: النضر بن شميل ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 740ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرو  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 818ء (77–78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب الاسلام، اهل سنة والجماعة
عملی زندگی
استاد خلیل بن احمد الفراہیدی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر فلکیات،  ادیب،  ماہرِ لسانیات،  فلسفی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت نضر بن شمیلؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔ نضر بن شمیل محدث و فقیہ اور نحو و لغت کا ماہر۔ مرو اور ملک خراسان میں سنت کا اولین علمبردار۔

نام و نسب[ترمیم]

نضر نام اور ابو الحسن کنیت تھی،پورا شجرۂ نسب یہ ہے،نضر بن شمیل بن خرشہ بن یزید بن کلثوم بن عترہ بن زہیر بن جلہمہ بن حجر بن خزاعی بن مازن بن مالک بن عمرو بن تمیم[1] یہ شجرہ صرف ابن ندیم نے ذکر کیا ہے،ورنہ دوسرے تذکرہ نگاروں نے مختلف طور پر درمیان سے متعدد ناموں کو حذف کر دیا ہے،جس کی وجہ سے اکثراشتباہ واقع ہوجاتا ہے،اغلباً اختصار کے لیے ایسا کیا گیا ہے، وطناً بصری اورمروزی کہلاتے ہیں،بنو مازن سے خاندانی تعلق کی بناپر مازنی کی نسبت کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔

ولادت[ترمیم]

122ھ مطابق 740ء میں وہ خراسان کے شہر مروز میں پیدا ہوئے جب امام نضر صرف 5،6 سال کے تھے، ا ن کے والد انھیں اپنے ہمراہ لے کر بصرہ چلے آئے، پھر وہیں کے ہو رہے ،بصرہ بھی اس عہد میں ممتاز علمی مرکز شمار ہوتا تھا،اس لیے ابن شمیل تمام تر علمی ماحول میں پروان چڑھے اور عمر کا پیشتر زمانہ درس وافادہ اورتالیف وتصنیف میں وہیں گذرا، جب وہ معاشی تنگی سے عاجز آکر بصرہ سے مرو منتقل ہوئے تو خلیفہ مامون نے ان کے ساتھ بہت اعزاز واکرام کا معاملہ کیا، اورانہیں اس شہر کے منصبِ قضاء پر فائز کرکے ان کو مال و زر سے نہال کر دیا۔[2]خود بیان کرتے ہیں: خرج بی ابی من مرو الروذ الی البصرۃ 128ھ وانا ابن خمس اوست سنین [3] 128ھ میں مجھے میرے والد مرو سے بصرہ لے کر آئے،اس وقت میری عمر پانچ چھ سال کی تھی۔ پھر وہیں کے ہو رہے ،بصرہ بھی اس عہد میں ممتاز علمی مرکز شمار ہوتا تھا،اس لیے ابن شمیل تمام تر علمی ماحول میں پروان چڑھے اور عمر کا پیشتر زمانہ درس وافادہ اورتالیف وتصنیف میں وہیں گذرا،لیکن پھر بعض اقتصادی مشکلات سے تنگ آکر بصرہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے اورمرو آکر بقیہ عمر وہیں بسر کی یہاں تک کہ اسی کی خاک کا پیوند بنے۔

بصرہ چھوڑنے کا سبب[ترمیم]

یوں تو تمام ہی ارباب طبقات نے اس سبب کی نشان دہی کی ہے جس کی بنا پر امام نضر سرزمین بصرہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے،جو گویا ان کے وطن ثانی کی حیثیت اختیار کرچکی تھی اورجس کے در و دیوار سے انھیں والہانہ الفت پیدا ہو گئی تھی؛لیکن علامہ یاقوت رومی اورحافظ جلال الدین سیوطی نے اس واقعہ کو کسی قدر تفصیل سے سپرد قلم کیا ہے جو حسبِ ذیل ہے: بصرہ میں امام نضر کی معاشی واقتصادی حالت نہایت دگرگوں ہو گئی،یہاں تک کہ نان شبینہ تک کے محتاج ہو گئے تھے،وہاں اُن کے علم و فضل کا اعتراف کرنے اس سے مستفید ہونے اوران کی دقیقہ سنجیوں پر واہ واہ کرنے والوں کا حلقہ تو نہایت وسیع تھا؛لیکن بقدر کفاف بھی ان کے رزق کی فراہمی کا خیال کرنے والا کوئی نہ تھا،بالآخر جب حالات فزوں تر ہو گئے،تو شیخ نے وہاں سے اپنے مولد منتقل ہونے کا ارادہ کیا،کہا جاتا ہے جس وقت وہ بصرہ سے روانہ ہوئے،وہاں کے تین ہزار محدثین،فقہا،نحویین اورائمہ لغت ان کو الوداع کہنے ہمراہ چلے اورمقام مربد پہنچ کر ان کو رخصت کیا۔ [4] حافظ سیوطیؒ نے مزید لکھا ہے کہ اس جم غفیر میں ان کے سات ہزار تلامذہ بھی شامل تھے،جو اپنے شیخ کی جدائی کے غم میں زار وقطار آنسو بہا رہے تھے، شیخ نضر نے چلتے چلتے چند الوداعی کلمات ارشاد فرمائے، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے: لو كان لي كل يوم ربع من الباقلاء أتقوت به لما ظعنت عنكم [5] اگر مجھے تمھارے پاس ہر روز تھوڑا سابا قلا بھی مل جاتا تو میں جدا نہ ہوتا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب ابن شمیل نے مذکورہ بالا الفاظ کہے تو میں یہ دیکھ کر حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرق ہوکر رہ گیاکہ غم واندوہ کا اظہار کرنے والے اس مجمع کثیر میں سے ایک نفر بھی اتنی معمولی سی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہ ہو سکا۔ [6] بہر حال وہ خراسان پہنچے تو ان کا نصیبا جاگ گیا ،وہاں خلیفہ مامون نے ان کی از حد تعظیم وتوقیر کی اور فکر معاش کی طرف سے بالکل بے نیاز کر دیا، ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ: اقام بمرو واجتمع له هناك مال [7] انھوں نے مرو میں قیام کیا اوربکثرت مال حاصل کرکے صاحب ثروت ہو گئے۔

فضل وکمال[ترمیم]

انھیں حدیث، فقہ،لغت،نحو،ادب،تاریخ اورانساب پر یکساں عبور تھا،یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ ان کے فکر و نظر کا خصوصی جولانگاہ کون سافن تھا؟علم و فضل کے اعتبار سے ابن شمیل بہت جلیل القدر اورعالی مرتبہ تھے،ائمہ تابعین حمید اور ہشام بن عروہ وغیرہ سے روایت کیا ہے۔ ان کے شاگردوں میں یحیی بن معین اور علی بن المدینی وغیرہ ہیں۔
علم و فضل کے اعتبار سے ابن شمیل بہت جلیل القدر اورعالی مرتبہ تھے،ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں کہ : "کان اماما حافظا" [8] مختلف علوم وفنون کی جامعیت اورتثبت واتقان میں ان کی مثال کم ہی مل سکے گی،صغار تابعین کی صحبت سے شرف اندوز اوران کے کیسۂ علم سے بقدر ظرف مستفید ہوئے تھے، خراسان اوربالخصوص مرو میں حدیث کا چرچا عام کرنے میں انھیں اولیت کا شرف حاصل تھا؛چنانچہ عباس بن مصعب بیان کرتے ہیں۔ کان اماماً فی العربیۃ والحدیث بمرووجمیع خراسان [9] وہ مرو اورپورے خراسان میں حدیث وعربیت کے امام تھے۔ حافظ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ امام شعبہ سے ان کی روایات کو بیان کرنے والا امام ابن شمیل سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ [10] ایک بار خلیفہ مامون نے ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی :"اذا تزوج المرأۃ لدینھا وجمالھا کان فیہ سداد من عوز" اس میں خلیفہ نے لفظ سداد کو سین کے زبر کے ساتھ پڑھا،امام نضرؒ نے فوراً ہی اس حدیث کو دہرایا اوراس میں سداد کو بکسرالسین پڑھا اورپھر دونوں کے درمیان فرق کو واضح کیا، راوی بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ یہ سن کر پھڑک اُٹھا اوراس نے شعرائے عرب کے منتخب ترین اشعار سُنانے کی خواہش ظاہر کی؛چنانچہ نضر بن شمیلؒ نے عرجی،حمزہ ،بن بیض،ابو عروہ المدنی اورابن عبدلی الاسدی کے بہت سے شعر سنائے،مامون نے ان کی اس غیر معمولی قوتِ حافظہ اورزرف بینی سے متاثر ہوکر اپنے وزیر فضل بن سہل کو،شیخ کو تیس ہزار درہم انعام دیے جانے کا حکم دیا۔ [11] ابن منجویہ کا بیان ہے کہ: کامن من فصحاء الناس و علمائھم بالادب وایام الناس [12] وہ فصیح البیان لوگوں میں تھے،نیز ایامِ عرب اور ادب کے رموز واسرار کے بڑے نکتہ دان تھے۔

جامعیت[ترمیم]

تنوع وتفنن فی العلوم ان کے صحیفۂ کمال کا ایک تابندہ ورق ہے،انھیں حدیث، فقہ،لغت،نحو،ادب،تاریخ اورانساب پر یکساں عبور تھا،یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ ان کے فکر و نظر کا خصوصی جولانگاہ کون سافن تھا؟ علما نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ: کان رأساً فی الحدیث ورأساً فی الفقہ واللغۃ وروایۃ الشعر ومعرفۃ بالنحو وبایام الناس [13] وہ حدیث،فقہ،لغت ،روایت شعر، معرفت نحو اورایام عرب سب علوم وفنون میں عالی رتبہ تھے۔ مذکورہ بالا تمام فنون میں انھوں نے کتابیں تالیف کیں،حافظ ابن کثیر انھیں ائمہ لغت میں شمارکرتے ہیں۔

شیوخ[ترمیم]

انھوں نے عرب کے مشاہیر اہلِ زبان اور کبار محدثین سے اکتساب فیض کیا تھا،نحو،ادب اور ماہرین میں وہ سب سے پہلے خلیل بن احمد ابی خیرۃ الاعرابی اورابو احمد قیس سے مستفید ہوئے،اس کے بعد علوم نقلیہ میں صغار تابعین اوران کے بعد کے طبقہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، اس سلسلہ میں لائق ذکر ائمہ وشیوخ یہ ہیں۔ ہشام بن عروہ،حمید الطویل ،شعبہ،ابن جریج، سعید بن ابی عروبہ،ابن عون،اسرئیل بن یونس ،حماد بن سلمہ، سلیمان بن المغیرہ،ہشام بن حسان، یونس بن ابی اسحاق، عمرو بن ابی زائدہ۔

تلامذہ[ترمیم]

اسی طرح خود ان سے فیضیاب ہونے والوں میں بھی وہ علما حدیث شامل ہیں جو اپنے شیخ کی زندگی ہی میں مسند علم کی زینت بنے،چند نمایاں اسمائے گرامی یہ ہیں: علی بن المدینی،یحییٰ بن معین، اسحاق بن راہویہ،حمید بن زنجویہ،یحییٰ بن یحییٰ النیساپوری، م

تصنیفات[ترمیم]

کتاب الصفات کے نام سے لغت میں 5 جلدوں میں کتاب تصنیف کی۔ پہلی جلد میں انسان کی پیدائش اس کے عادات و اطوار اور عورتوں کی صفات،دوسری جلد میں مکانات پہاڑ وغیرہ،تیسری میں اونٹ ،چوتھی میں گھوڑا،چڑیا چاند،سورج اور شراب وغیرہ،پانچویں جلد میں انگور کی زراعت،درخت ہوا بارش اوربادل وغیرہ کا تفصیلی بیان ہے،اس کے علاوہ الصلاح اور غریب الحدیث "کتاب النوادر" "کتاب المعانی" کتاب المصادر ،المدخل الی کتاب العین،کتاب الجیم، کتاب الشمس والقمر۔ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔محمود بن غیلان، احمد بن سعید الدارمی، محمد بن مقاتل،معاذ بن اسد،حسین بن حریث، عبد الرحمن بن بشر، محمد بن قدامہ،عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی۔ [14]

ثقاہت[ترمیم]

علمائے فن متفقہ طور پر ان کی روایات کی حجیت اورثقاہت تسلیم کرتے ہیں؛چنانچہ ابو حاتم کا بیان ہے "کان ثقۃ صاحب سنۃ" [15]حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: حجۃ یحتج بہ فی الصحاح [16] وہ حجت ہیں صحاح میں ان کی روایات قابل قبول ہیں۔

قضا[ترمیم]

جب وہ معاشی تنگی سے عاجز آکر بصرہ سے مرو منتقل ہوئے تو خلیفہ مامون نے ان کے ساتھ بہت اعزاز واکرام کا معاملہ کیا، اورانہیں اس شہر کے منصبِ قضاء پر فائز کرکے ان کو مال و زر سے نہال کر دیا۔ [17] علامہ یاقوت نے بروایت نقل کیا ہے کہ اپنے زمانہ قضا میں امام ابن شمیل نے عدل و انصاف کے ایسے مظاہرے پیش کیے کہ ہر شخص ان کی توصیف میں رطب اللسان ہو گیا۔ [18]

سادگی وبے نفسی[ترمیم]

وہ تقشف کی حد تک سادہ زندگی گذارنے کے عادی تھے،زبیر بن بکار بیان کرتے ہیں کہ ایک بار شیخ نضر خلیفہ مامون کے پاس اس حال میں گئے کہ نہایت موٹے اور خراب کپڑے پہنے ہوئے تھے،خلیفہ نے دیکھتے ہی کہا کہ آپ امیر المومنین کے پاس اس قسم کے کپڑوں میں آتے ہیں، شیخ نے ٹالنے کی خاطر فرمایا:"بات دراصل یہ ہے کہ مرو میں گرمی بہت سخت پڑتی ہے،لہذا اس کی حرارت سے ایسے ہی کپڑوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ [19] حافظ ذہبیؒ نے داؤد بن محراق کی روایت سے شیخ ابن شمیل کا یہ ،زرین نقل کیا ہے: لایجد الرجل لذۃ العلم حتیٰ یجوع وینسی جوعہ [20]

تصانیف[ترمیم]

امام نضر کے تبحر علمی اورجامعیت کے جلوے صرف درس وافادہ کی مجلسوں ہی میں ظاہر نہ ہوئے؛بلکہ صفحہ قرطاس پر بھی اس کی تجلیاں نمودار ہوتی تھیں، عباس بن مصعبؓ کابیان ہے کہ شیخ نضر نے اس قدر کثرت سے کتابیں تصنیف کیں،جس کی نظیر اس عہد میں نہیں ملتی۔ عام طور پر ان کی درجِ ذیل تصانیف کے نام ملتے ہیں، کتاب الصفات’کتاب الصلاح" غریب الحدیث" "کتاب النوادر" "کتاب المعانی" کتاب المصادر ،المدخل الی کتاب العین،کتاب الجیم، کتاب الشمس والقمر۔

کتاب الصفات[ترمیم]

پانچ جلدوں پر مشتمل فن لغت کی تصنیف ہے،پہلی جلد میں انسان کی پیدائش اس کے عادات و اطوار اور عورتوں کی صفات،دوسری جلد میں مکانات پہاڑ وغیرہ،تیسری میں اونٹ ،چوتھی میں گھوڑا،چڑیا چاند،سورج اور شراب وغیرہ،پانچویں جلد میں انگور کی زراعت،درخت ہوا بارش اوربادل وغیرہ کا تفصیلی بیان ہے،علامہ ابن ندیم کا خیال ہے کہ ابو عبید قاسم بن سلام نے اپنی مشہور واہم کتاب غریب المصنف کو اسی سے اخذ کیا ہے اوراسی نہج پر مرتب کیا ہے،دونوں کتابوں کے مندرجات سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ غریب الحدیث:غریب احادیث کی تشریح وتوضیح کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں ابو عبیدہ، قطرب،ابو عدنان نحوی، اخفش، نضر بن شمیل اورابو عبید قاسم بن سلام کی غریب الحدیث کا ذکر ملتا ہے،ان میں مؤخر الذکر ہی کی کتاب کو شہرت ومقبولیت کا تمغا نصیب ہوا،اس کی وجہ یہ ہے کہ ابو عبید نے نہ صرف متقدمین کی تصنیفات کا عطر اپنی کتاب میں کشید کر لیا ہے ؛بلکہ نہایت زرف بینی کے ساتھ ان تمام خامیوں اورنقائص کو بھی اس میں دور کر دیا ہے، جو پہلے کی کتابوں میں پائی جاتی تھیں، تاہم قدامت کے اعتبار سے نضر بن شمیل کی غریب الحدیث کا پایہ کچھ کم نہیں۔ امام نضرؒ کی مذکورہ بالا تصنیفات اب معدوم ہیں،یا ممکن ہے کہیں ان کے مخطوطات موجود ہوں،راقم الحروف کو اس کی تحقیق نہ ہو سکی۔

وفات[ترمیم]

ذی الحجہ 203ھ کی آخری تاریخ کو مرو ہی میں راہی ملک عدم ہوئے[21] یکم محرم 204ھ کو تدفین عمل میں ائی اسی وجہ سے بعض تذکروں میں ان کا ذکر 203ھ کی وفیات میں ملتا ہے،اوربعض میں 204ھ کے تراجم میں،اس وقت اورنگ خلافت پر مامون الرشید دادِ حکمرانی دے رہا تھا

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الفہرست لابن ندیم:77
  2. الاعلام:3/1104
  3. (تہذیب التہذیب:10/437)
  4. (معجم الادباء:7/219)
  5. (بغیتہ الوعاۃ :404)
  6. (ایضاً)
  7. (شذرات الذہب :2/)
  8. (بغیۃ الوعاۃ :404)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:1/287)
  10. (بغیۃ الوعاۃ:405)
  11. (معجم الادبا:1/220،تہذیب التہذیب:1/438)
  12. (ایضاً)
  13. (طبقات ابن سعد:7/105 والاعلام:3/204)
  14. (تہذیب التہذیب:1/437)
  15. (شذرات الذہب:2/7)
  16. (میزان الاعتدال:2/234)
  17. (الاعلام:3/1104)
  18. (معجم الادباء:7/219)
  19. (ایضاً)
  20. (تذکرۃ الحفاظ:1/287)
  21. طبقات ابن سعد:7/18