گپتا سلطنت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
گپتا سلطنت
Gupta Empire
321 عیسوی–550 عیسوی
The Gupta Empire at its greatest extent
The Gupta Empire at its greatest extent
دارالحکومتپاٹلی پتر
عمومی زبانیںسنسکرت زبان (ادبی اور تعلیمی); پراکرت (مقامی)
مذہب
حکومتبادشاہت
Maharajadhiraja 
• 240s–280s
شری گپتا
• 319–335
Chandragupta I
• 335-380
سمدر گپت
• 380–415
Chandragupta II
• 540–550
Vishnu Gupta
تاریخی دورقدیم ہندوستان
• 
321 عیسوی
• 
550 عیسوی
رقبہ
3,500,000 کلومیٹر2 (1,400,000 مربع میل)
ماقبل
مابعد
Mahameghavahana dynasty
Kanva dynasty
Kushan Empire
Bharshiva dynasty
Western Satraps
Later Guptas
Maukhari
Maitraka
Pushyabhuti
Mathara dynasty
Varman dynasty
Kalachuris
موجودہ حصہ

گوتم بدھ کے زمانے کے اختتام پر مگدھ میاس خاندان کی حکومت ہوئی جو چندر گپت موریا کے نام سے مشہور ہے 300 سے 600قبل مسیح تک تین سو برس کے قریب اس کا دور رہا۔ اس خاندان کے تین بادشاہ بہت مشہور ہوئے ہیں: ایک سمدر گپت اور دوسرا چندرگپت۔ اس مہاراجہ اشوک کے ساتھ [[]] کا لقب اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ اس میں اور چندر گپت موریا میں فرق ہو سکے۔ جو اس سے سات سو برس پیشتر مگدھ میں راج کرتا تھا۔

تاریخ[ترمیم]

سمدر گپت 326ء سے 375ء تک بڑا طاقتور راجا ہوا ہے۔ یہ ایک بڑی بھاری فوج لے کر تمام وسط ہند سے ہوتا دکن میں پہنچا۔ اور جن راجائوں کے ملک سے گذرا ان سب کو مطیع کیا۔ اس نے ان ملکوں کو اپنی قلمرو میں تو نہ ملایا مگر وہاں سے لوٹ کا مال بہت لایا۔ بڑا طاقتور راجا ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھا اور بین باجا بڑا عمدہ بجاتا تھا۔ الہ آباد کی لاٹھ پر جو اشوک کا کتبہ موجود ہے اس کے نیچے ایک کتبہ اس کا بھی ہے۔ یہ اشوک کے کتبے کے بہت بعد کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمدر گپت کل شمالی ہند کا راجا تھا اور دکن کے راجا اس کو اپنا مہاراجا ادھراج مانتے تھے۔ گپت خاندان کے راجائوں کا سمت ہی جدا ہے۔ یہ 319ء سے شروع ہوتا ہے۔ گپت راجا بدھ مت کے پیرو نہ تھے۔ وہ وشنو جی کی پرستش کرتے تھے۔ انھوں نے قدیم ہندو دھرم کو فروغ دینے کی بڑی کوشش کی۔ مدت تک گپت خاندان کے راجائوں نے ستھین کا مقابلہ کیا جو جوق جوق ہند میں چلے آ رہے تھے اور ان کو گنگا کی وادی میں نہ آنے دیا۔

چندر گپت ثانی 375ء سے 413ء عیسوی تک سمدر گپت سے بھی زیادہ طاقتور ہوا۔ اس نے بکرماجیت کا لقب اختیار کیا جس کے معنی ہیں سورج کی طاقت والا۔ ہندو مصنفوں کی کتابوں میں یہ اس نام کا سب سے مشہور راجا پایا جاتا ہے۔ یہ بڑی بھاری فوج لے کر شمال مغرب کی طرف دریائے سندھ کی وادی پنجاب، سندھ، گجرات اور مالوے میں جہاں صدیوں سے سکا مغربی حاکموں کی عملداری چلی آتی تھی پہنچا اور ان کے ملک فتح کر کے اپنی قلمرو میں ملا لیے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہی بکرماجیت ہے جو ہند دھرم کا بڑا حامی اور علوم و فنون کا قدر دان مشہور ہے۔ اس کو بکرم اور بکرم اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ہندو راجائوں سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ جیسا بہادر تھا ویسا ہی عالم بھی تھا۔ اس کے دربار میں 9 صاحب کمال تھے جو اپنے زمانے کے نورتن کہلاتے تھے۔ ان میں اول نمبر پر کالی داس شاعر تھا جس کی نہایت مشہور نظمیں یہ ہیں۔ سکنتلا، رگھوونش، میگھ دوت، کمار سنبھو، ایک رتن امر سنگھ تھا جس کی سنسکرت کی منظوم لغات ہند کے ہر مدرسے میں مشہور و معروف ہے۔ چوتھا اھنونتری بید تھا۔ پانچواں در رچی تھا جس نے پراکرت یعنی اپنے وقت کی عام مروجہ سنسکرت کی جو قدیم کتابی سنسکرت سے بہت مختلف ہےكى صرف و نحو لکھی ہے۔ چھٹا رتن مشہور منجم دارا مہر تھا۔ پنج تنتر کی حکایتیں بکرم ہی کے عہد میں تصنیف ہوئی تھیں۔ بعد میں ان کا ترجمہ عربی اور فارسی میں ہوا اور پھر بہت سی مغربی زبانوں میں۔ بکرم اور اس کے عہد کی اور بھی بہت سی حکایتیں ہیں جو آج تک ہند کے گاؤں گاؤں میں بیان کی جاتی ہیں۔ بکرم کے عہد میں بدھ مت آہستہ آہستہ صفحہ ہند سے مٹتا جاتا تھا۔ کالی داس کی تصنیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شوالوں اور ٹھاکر دواروں کو بہت مانا جاتا تھا۔ اور ان میں ہندوئوں کے دیوتائوں کی پوجا ہوتی تھی۔ راجا شوجی کو پوجتا تھا مگر بدھ مت والوں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ اس کے دربار کے نورتنوں میں سے ایک بدھ تھا۔