ایرانی زبانیں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایرانی
جغرافیائی
تقسیم:
جنوب مغربی ایشیا ، وسطی ایشیا اور مغربی جنوبی ایشیا
لسانی درجہ بندی:ہند۔یورپی
سابقہ اصل-زبان:پیش ایرانی
ذیلی تقسیمات:
آیزو 639-2 / 5:ira

ایرانی زبانیں یا ایرانی لسانی گروہ ہند-یورپی خاندانِ السنہ کے ہند-ایرانی لسانی زمرے کی ذیلی شاخ ہے۔ 15 تا 20 ملین لوگ ایرانی زبانیں بولتے ہیں۔ ایرانی زبانوں کی تعداد 87 ہے۔ ان میں فارسی 6.5 ملین، پشتو کے 5 ملین کردش کے 1.8 ملین، بلوچی کے 70 لاکھ اور لوری زبان کے 23 لاکھ مکلمین ہیں۔

ایرانی زبان کا ارتقا[ترمیم]

ایرانی زبان قدیم زمانے میں ہی دوحصوں میں منقسم تھیں۔ اس کی وجہ ایران کے جغرافیائی حالات تھی۔ جغرافیائی اعتبار سے ایران دوحصوں میں تقسیم ہواہے، ایک مشرقی اور دوسرا مغربی۔ جن کے درمیان ایک وسیع صحرا تھا۔ ان دونوں کے درمیان کبھی قریبی تعلقات پیدا نہ ہو سکے، لہذا ان کی بولیاں مختلف تھیں۔ ایک اوستا اور دوسری قدیم فارسی تھی۔ اوستا شمالی ایران کی ایک شاخ تھی اور قدیم فارسی جنوبی ایران کی۔ اوستا کے سب سے قدیم حصے ساتویں صدی قبل مسیح کے نہیں ہو سکتے ہیں۔ ساسانیوں کے عہد میں (پانچویں صدی عیسوی) اوستا کی اصل عبارت کی ازسر نو ترتیب دی گئی تھی۔ ممکن ہے اس میں زمانے کے لب و لہجہ اس میں عبارت ہوں۔ قدیم فارسی ایران کی سرکاری زبان تھی۔ اس میں آریائی زبان کے متعدد الفاظ پائے جاتے ہیں۔ کیوں کے ہخامنشیوں کی زبان آریائی تھی۔

خصوصیات[ترمیم]

Genetic division of Iranic languages

ایرانی زبان کی خاص نوعیتیں یہ ہیں کہ مَییے کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی زبان کا بنیادی دباؤ والا ہے۔ یہ دباؤ لفظ کے ماقبل آخری رکن پر پڑتا ہے۔ اگر وہ رکن لمبا ہو اور ماقبل آخر رکن سے پہلے رکن پڑتا ہے۔ اگر وہ رکن رکن چھوٹا ہو مثلاً ’یزدان‘ (پرستش کرتے ہوئے) حالت اضافی جمع۔ یہ پہلوی میں قدیم ایرانی قدیم ایرانی ’یزتاہم‘ سے بنا ہے۔ جس میں ماقبل آخر رکن ’تا‘ لمبا ہونے کی وجہ سے پر دباؤ پڑا ہے۔ اس کے برعکس ’بیست‘ (بیس) ’وستی‘ سے بنا ہے، جس میں دباؤ ماقبل آخر رکن سے پہلے ’وی‘ پر پڑتا ہے۔ اس دباؤ کی علامات اوستا میں بھی پائی جاتی ہیں، جس میں تاکیدی رکن آنے والی ’ر‘ کی ’ہ + ر‘ ہوجاتی ہے۔ اگر اس کے بعد ’ک یا پ‘ آجائے۔ مثلاً ’دہر کو‘ اوستا میں اور سنسکرت میں ’درک‘ (بھیڑیا)۔ چونکہ اس قسم کا لہجہ شَتَ پتھ برہمن میں پایا گیا ہے۔ اس لیے غالباً یہ لہجہ آریائی تھا جس کے اثرات آریائی تبدیلی حروف علت پر پائے گئے ہیں۔ مثلاً سنسکرت ’استِ‘ (وہ ہے)۔ اس میں پہلے رکن ’اَس‘ پر دباؤ بڑنے کی وجہ سے ’ا‘ برقرار ہے۔ لیکن تثنیہ ’ستہ‘ (وہ ہیں)۔ اس میں دوسرے رکن پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے پہلے رکن کے ’اَ‘ حذف ہو گیا ہے۔ بالکل اس طرح اوستامیں ’اس ت‘ (وہ ہے) لیکن ’نئی‘ (وہ دو ہیں)۔

قدیم ایرانی کی دوسری خصوصیت ایک دلچسپ مظہر دیکھا گیا ہے، جو عہد حاضر کی ہند آریائی زبانوں میں وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ یعنی کسی کام کی تکمیل کو جتلانے کے لیے مصدر ’بو‘ یا ’اہ‘ (ان دونوں کے معنی ’ہونا‘ ہے) کسی فعل دوسرے فعل کے مشتق لفظ کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ جس کی تشکیل حالت طرفی یا مقامی ہوتی ہے۔ مثلاً ’یپندی شے ] بوائتی [ سنھم چت اُن استرائی‘ (اگر وہ حکم بجا لاتا ہے)۔ یہاں فعل ’بوائتی‘ دوسرے فعل کی مشتق ظرفی ’سترائی‘ کے ساتھ بجا لاتا ہے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں اس قسم کے بے شمار مرکب استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ’آجاؤ، پی لو ِ‘ اس طریقہ کی بنا قدیم ہند آریائی میں موجود نہیں ہے۔ شاید یہ عہد حاضر کی ہند آریائی میں یہ مظہر ایرانی کے اثر کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس موضع کی واضع تحقیقات ہونی لازمی ہیں۔

تیسری خصوصیت نحوی ترکیب میں قدیم ایرانی کی حالت اضافی، مطلق، حالت مقامی مطلق اور حالت فاعلی مطلق قابل ذکر ہیں۔ ہند یورپی میں صرف ایرانی ایک ایسی زبان ہے، جس میں ہند یورپی ’گ، ج اور گھ‘ کے مشتق الگ الگ ہیں۔ مثلاً ہند یورپی ’گ‘، ہند آریائی ’ج‘، آرمینائی ’چ‘، ایرانی ’ز‘ اور بالٹک سلافی ’ز‘ ہے۔ اوستا اور قدیم فارسی میں ’ل‘ کی بالکل عدم موجودگی تھی۔ وسطی فارسی میں بھی ’ل‘ کی کوئی واضح علامت نہیں ملتی ہے۔

اوستا[ترمیم]

ایرانی کی قدیم زبان اوستا تھی۔ کیوں کہ زرتشت کی مذہبی کتاب اسی زبان میں لکھی گئی تھی، اس لیے اس کی نسبت سے اوستا کہلاتی ہے۔ بعض محْیقین کا خیال ہے کہ اوستا مادی عہد کی زبان تھی اور قدیم فرنس اسی زبان سے نکلی ہے۔ اوستا کا رسم الخظ سامی سے ماخوذ ہے، لیکن قدیم فارسی کے برعکس دائیں سے بائیں لکھی جاتی تھی۔ ساسانیوں کے دور میں پانچویں صدی عیسویں اردشیر اربکان نے اوستائی زبان کو زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے یقین کیا جا سکتا ہے کے امتداد زمانہ سے اس میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہوں گئیں۔ اوستا کے اندر گھاٹا کا حصہ ہے، وہ دوسروں سے مختلف ہے اور اس کی زبان بھی قدیم معلوم ہوتی ہے۔ اس سے بھی زبان میں تبدیلی کا ثبوت ملتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو گاتھائی زبان کی زبان کو سب سے قدیم اور مادی زبان کو اس سے ماخوذ سمجھاجائے گا۔

اوستا زبان کی مشابہت ویدک زبان سے ہے۔ اوستا میں قدیم فارسی سے زائد حروف ہیں۔ اس میں بے رنگ حروف علت کے علاوہ دوہرے حروف علت ’ااے ‘ وغیرہ اور بہت سے حروف صیح مثلاً تین قسم کی ’ش‘ اور تین قسم کی ’ز‘ وغیرہ پائی گئی ہیں۔ حروف علت ’اِ، اُ‘ کا اندراج اوستا میں نہایت نمایاں ہے۔ مثلاً ’بَوَاِتِ‘ (ہوتاہے)۔ قدیم ہندآریائی ’بَھَوتِ‘ (ہوتا ہے)۔ دااُرُ‘ (لکڑی) قدیم ہند آریائی ’دارُ‘ لکڑی۔ لیکن قدیم فارسی میں اس کی عدم موجودگی تھی۔

اوستا میں سور بھکتی کا استعمال کثیر ہوتا ہے۔ مثلاً اوستا میں ’ارَدِم‘ (نصف) اور سنکرت میں ’اردھم‘ (آدھا حصہ)۔ اوستا میں ’ورسو‘ اور سنسکرت میں ’ول ش‘ (بال) لیکن قدیم فارسی میں سور بھکتی کا استعمال شاذ نادر ہی ہوتا تھا۔

قدیم فارسی میں ہندیورپی کی ’ر + ت‘ برقرار رہی لیکن اوستامیں اس کی ’ش‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً

ہند آریائی قدیم فارسی اوستا معنی
مرتیہ مرت یہ مشیہ آدمی

اوستا میں حالت میں ظرفی کافی نمایاں ہے۔ قدیم فارسی میں اس کی عدم موجودگی ہے اور اس کی بجائے حالت اضافی مستعمل ہوتی ہے۔ قدیم فارسی میں تمام فعلوں سے پہلے حروف زائد ’اَ‘ لگایا جاتا ہے۔ جیسے ’اَبرم‘ (میں نے اٹھایا)۔ لیکن اوستا میں صرف بیس ماضی کے الفاظ سے پہلے زائد حروف لگایا جاتا تھا۔

قدیم فارسی[ترمیم]

قدیم فارسی اس عہد کی فوجی اور شاہی زبان کی حیثیت رکھتی تھی اور عرف عام میں قدیم فرنس کہلاتی تھی۔ یعنی ہخامنشی بادشاہوں کی سرکاری زبان قدیم فارسی تھی اور اس زبان میں ہخامنشی بادشاہوں کے کتبے دستیاب ہوئے ہیں، ان کا رسم الخط میخی تھا جو آرامی رسم الخط سے ماخوذ ہے۔ مگر ایرانیوں نے اس رسم الخظ میں ہجا کی بجائے حروف تہجی استعمال کیے ہیں۔ اس طرح اس کی پیچیدیگیاں دور ہوگئیں۔ سنسکرت کی طرح قدیم فارسی بھی قدیم آریائی سے نکلی ہے اور اس سے ملتی جلتی ہے۔

قدیم فارسی کی مشابہت ٹکسالی سنسکرت سے ہے۔ ٹکسالی سنسکرت کی طرح قدیم فارسی میں ماضی ناتمام اور مضارع کے ساتھ زائد حروف ضرور لگتا تھا اور ٹکسالی سنسکرت کی طرح قدیم فارسی اتنی پرانی نہیں ہے جتنی اوستا ہے۔ قدیم فارسی میں حالت ظرفی اور ماضی تمام مفقود ہو چکے تھے۔ مصارع اور ماضی ناتمام کی تشکیل ایک ہو چکی ہی ہو گئی تھی۔

قدیم فارسی اور پراکرت کی باہمی مشابہت[ترمیم]

قدیم فارسی اور پراکرت میں باہمی مشابہت تھی۔ مثلاً

(1) پراکرت کی طرح قدیم فارسی میں لفظ کے آخر میں حروف صیح کا یا تو بالکل حذف ہو گیا تھا یا وہ بالکل کمزور ہو گیا تھا۔ 
(2) دونوں میں صیغہ تثنیہ مفقود ہو گیا تھا۔ (3) دونوں میں حالت ظرفی کی بجائے حالت اضافی کا استعمال ہوتاتھا۔ 
(4) دونوں حالت ذریعہ جمع کے لاحقہ ’بھس‘ کی تشکیل ہوتی تھیں۔ سنسکرت کی طرح ’آ اِ س‘ کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔ 
(5) دونوں میں ماضی تمام مفقود ہو گئی تھی۔ 
(6) دونوں میں ماضی تمام اور مضارع کی ایک ہی تشکیل بن گئی تھی۔ 
	
== پہلوی ==

وسط فارسی یا پہلوی اس زبان کو کہتے ہیں جو عہد پارتھائی و ساسانی (226ء؁ تا 642ء؁) تک ایران میں بولی جاتی تھی اس کو کتابی پہلوی بھی کہتے ہیں۔

ہخامنشی عہد کے زوال کے بعد جیسا کے آپ جانتے ہیں کہ یونانیوں کا ایران پر قبضہ ہو گیا تھا اور سیاسی غلبے کے ساتھ یونانی تمذن کا ایران پر اثر پڑا۔ یونانیوں کے عہد میں ہی اشکانیوں نے سیاسی برتری حاصل کی۔ ان کے عہد میں ایک دوسری زبان وجود آئی۔ یہ ہخامنشی عہد کی قدیم فرنس سے نکلی تھی، مگر اس پر دوسری زبانوں کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ موجودہ فارسی بھی اسی پہلوی سے مشتق ہے۔ اس وجہ سے اسے میانہ فارسی یعنی قدیم فارسی اور فارسی کے درمیان کی زبان بھی کہتے ہیں۔ یہ زبان ساسانی عہد تک قائم رہی، بلکہ اسے اسی عہدمیں عروج پر پہنچی۔ اس زمانے کے تمام سکے اور کتب اسی زبان میں تحریر ہیں۔ پہلوی رسم الخط آرامی سے ماخوذ ہے اور دائیں سے بائیں لکھاجاتا ہے۔ اس کی ایک خاص شکل جو زوادش کہتے تھے۔ اس طرح اس کی تحریروں میں آرامی الفاظ لکھتے تھے اور اس کا صیح تلفظ اداکرنے کی بجائے اس کے ہم معنی پہلوی الفاظ پڑھے جاتے تھے۔ مثلاً ’ملک‘ لکھتے تھے اور اس کو شاہ پڑھتے تھے۔ لیکن یہ سخت دشوار تھی اور اس کو پڑھنے کے لیے ایک ہزار علامتوں سے واقفیت ضروری تھی۔

پہلوی کی نمایاں خصوصیتیں[ترمیم]

(1) قدیم ایرانی الفاظ کے آخری رکنوں (حروف علت یا حروف علت + حروف صیح) کا حذف۔ مثلاً وسطی فارسی ’سبد‘ قدیم ایرانی ’ستم‘ (سو)، وسطی فارسی ’ویست‘ اوستا ’وی سیَ ت‘ (بیس)۔

(2) سوائے فعل کے حال کے تمام فعلی تشکیلوں کا ترک اور ان کی جگہ پھیرپھار کی طرز کلام کا استعمال۔ (3) فعل مجہول کی تشکیل کی توسیع۔

(4) اوستا اور قدیم فارسی میں ’ل‘ کی بالکل عدم موجودگی تھی۔ وسطی فارسی میں بھی ’ل‘ کی کوئی واضح علامت نہیں ملتی ہے۔

== وسطی فارسی کی بولیاں ==

وسطی فارسی کی قابل ذکر بولیاں پارتھی، سوغدی،سکائی اور سغدی تھیں۔

=== پارتھی ===

یہ شمالی مغربی ایرانی بولیوں میں تھی۔ لہذا معیاری وسطی فارسی سے جو درحقیقت ایک جنوبی بولی تھی سے بہت کچھ مختلف تھی۔ اس کی خصوصیتوں کا اندازہ مندرجہ ذیل حروف لاحقوں کی فہرست سے لگایاجاسکتا ہے۔

پارتھی معیاری فارسی
ز و
س ہ
منترع لاحقہ ’ایفت‘ ایھ
مصدر ’کر‘ (کرنا) مصدر ’کن‘ (کرنا)
واچ (بولنا) گود (بولنا)

سوغدی[ترمیم]

(چغدی) یہ ایران کے شمال مغرب میں بولی جاتی تھی۔ اس میں بدھ، مسیحی اور مانی مذہب (خاص کر بدھ مذہب کی) متعدد تصانیف برآمد ہوئی تھیں۔ اس کی خصوصیت کا اندازہ مندرجہ ذیل تقابلی حروف سے لگایا جا سکتا ہے۔

سرنامے کا متن سرنامے کا متن
چغدی معیاری فارسی
خ ہ
ش تھ + ر
د + ب ر + و
ت + ف تھ +و
ی ہ + ی = یہ آخری نوعیت عہد حاضر کی یغنوبی زبان میں بھی پائی جاتی ہے۔

سکائی[ترمیم]

اس میں براہمی رسم الخط میں متعدد بدھ مذہب کی کتابیں برآمد ہوئیں ہیں۔ اس بولی کی دریافت سے مغربی بولیوں کی خصوصیتوں پر بہت روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ جنوب مغربی فارسی بولیاں شمالی بولیوں سے بہت جدا ہیں اور بلوچی اور کردی درحقیقت شمالی ایرانی بولیاں ہیں۔ سکائی کے الفاظ کے خزانہ الفاظ سے اور بھی ثابت ہو گیا ہے کہ مشرقی اور مغربی ایرانی بولیوں میں کتنا اختلاف ہے۔ اگرچہ معیاری فارسی میں رسمی حالت کے تمام لاحقہ مفقود ہو گئے تھے، لیکن سوغدی اور سکائی میں چھ حالتیں محفوظ رہیں۔ مثلاً حالت مفعولی میں لاحقہ ’ا‘ بجائے ’ام‘ حالت ذریعہ سوغدی لاحقہ ’اَ‘ (جو قدیم فارسی میں بھی تھا) حالت مقامی میں سکائی لاحقہ ’آ‘ جو ’ایا‘ سے مشتق تھا۔

سغدی[ترمیم]

ترخان میں بعض اوراق ایک اور زبان کے ملے ہیں جسے سغدی زبان قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہند سکاتی یا سکاتی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ جو مشرقی ایرانی زبانیں کہلاتی ہیں جن کی نمائندگی افغانی زبان اور سطح پامیر کی بعض زبانیں (میری، قولی اور دخی وغیرہ) کرتی ہیں۔

== عہد حاضر کی زبانیں ==

عہد حاضر کی ایرانی زبانوں کی مندرجہ خصوصیتیں ہیں۔

(1) ان زبانوں کی تذکیر وتانیث (اپنے لاحقوں کے ساتھ) بالکل مفقود ہو چکے ہیں۔ اکثر تذکیر و تانیث کو ظاہر کرنے کا منشا ہو تو مذکر کے لیے ’مرد‘ یا ’نر‘ اور مونث کے لیے ’مادہ‘ یا ’زن‘ اسم کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ 
(2) صرف و نحوی بتدریح تبدیلی حروف علت جو قدیم ایرانی میں بہت نمایاں تھی۔ اب چند اقسام کی زیادہ تر فعل لازم و معتدی کے اختلاف کے جتلانے میں مستعل ہوتی ہے۔ مثلاً بلوچی ’سچگ‘ (جلنا)، لیکن ’سوجگ‘ (جلانا)۔ اس طرح کی تبدیلی حروف علت میں عہد حاضر کی ہند آریائی میں فعل لازم و معتدی کے اختلاف جتلانے کے لیے برقرار رہے ہیں۔ مثلاً ’مڑنا، موڑنا‘ ’پھرنا، پیھرنا‘
(3) اسم کی گردان کی صرف دوحالتیں رہ گئیں ہیں۔ ایک فاعلی اور دوسری فعلی۔ 
(4) مغربی ایرانی میں ماضی ناتمام اور فعل تمنائی مفقود ہو چکے ہیں۔ مگر مشرقی زبان یغنوبی میں ماضی ناتمام اور فعل تمنائی اب تک برقرار ہیں۔ 
== گروہ بندی ==

عہد حاضر کی ایرانی زبانوں میں حسب ذیل زبانیں شامل ہیں۔

(1) ادبی فارسی۔ 
(2) بحیرہ خزر کے گرد و نواح کی زبانیں۔ 
(3) کردی۔ 
  1. متوسط ایران کی زبانیں۔
(5) بختیاری۔ 
(6) بدخشانی و مدگلشتی۔ 
(7) یغنوبی۔ 
(8) غلچا زبانیں۔ 
(9) برصغیر کی ایرانی زبانیں۔ 
== ادبی فارسی ==

عہد حاضر کی ادبی فارسی کی مندرجہ ذیل خصوصیتیں ہیں۔

(1) اس میں کثیر الاجزا الفاظ کے ابتدائی ’ا‘ حذف ہو گیا ہے۔ مثلاً 
اوستا پہلوی ادبی فارسی معنی
اپرنایُو اَپُرنائی برنا نوجوان
(2) ہندوستان کی طرح حرف صیح کے حذف ہونے پر سابق علت کے عوض لمبائی ہوجاتی ہے۔ مثلاً 
قدیم فارسی ادبی فارسی معنی
پنج سَت پانصد پانچ سو
تن تَھر تار اندھیرا
چشِ چیہ چیز چیز
	(3) لفظ کے ابتدا میں اگر مرکب حروف صیح ہوں تو عہد حاضر کی فارسی میں ایک انضامی حروف علت کے شروع میں لگایاجاتا ہے۔ مثلاً 
پہلوی ادبی فارسی معنی
سپید اسپید سفید
ستون اُستون تھم
(3) اوستا و پہلوی کے ’و‘ کی ’ب‘ ہو گیا۔ مثلاً
اوستا پہلوی ادبی فارسی معنی
وار واران باران بارش
(4) ہند یورپی ’پ‘ کا لفظ کے درمیان یا آخر میں ’ب‘ ہو گیا۔ مثلاً 

|- ! اوستا!! قدیم فارسی!! ادبی فارسی |- | پَدَ (پاؤں) || نی پدی (پاؤں کے پیچھے چلنے والا) || پے (پاؤں)

(5) اس میں قدیم فارسی کے ’د‘ کے ابتدا میں اب تک موجود ہے۔ جب کہ اس کے بالمقا بل ’ز‘ تھی۔ مثلاً 
اوستا پہلوی ادبی فارسی
زاماتر دامات داماد
زانستا(تم جانتے ہو) دانش (جانتا) داندا (وہ جانتا ہے)
(6) حروف علت کے درمیان قدیمایرانی کے ’ک‘ کا ’گ‘ ہو گیا ہے۔ مثلاً 1وستا ’اگست‘ (اس نے دیکھا)، پہلوی ’اکاش‘ (واقف)، ادبی فارسی ’اگا‘
	(7) قدیم ایرانی کی ابتدائی ’ی‘ کی ’ج‘ ہو گئی ہے۔ مشلا
اوستا ادبی فارسی معنی
یام جام پیالہ
یَسن جشن تہوار

یہ تبدیلی ہند آریائی میں بھی واقع ہوئی ہے مثلاً رگ وید میں جمنا (دریا) یمنا آیا ہے۔

(8) قدیم ایرانی کے ’ر + د‘ کی ’ل‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً
اوستا ادبی فارسی معنی
سَرَدَ سال سال
زرَد دل دل
  • بحیرہ خزر کے گرد و نواح کی زبانیں

بحیرہ خزر کے گردنواح میں مندرجہ بولیاں بولی جاتی ہیں۔ (1) مازندرانی (2) گینگی (3) تالی (4) سمنانی۔ ان میں تالی اور تات روس کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ تات باکو اور اس کے گرد نواح میں اور تالی جنوب کے علاقے میں۔ ان بولیوں میں صوتی حذف (اختصار) بہت پایا جاتا ہے۔ مثلاً ادبی فارسی میں ’شب‘ (رات) کے بالمقابل ماذندرانی اور تات ’شعوُ‘ اور سمنانی ’شو‘ بولتے ہیں۔

==== کردی ====

کردی زبان کردستان کے علاقہ میں بولی جاتی ہے۔ جو ترکی، ایران اور عراق میں مستقیم ہے۔ اس میں دو قسم کی ’و‘ مروج ہیں۔ ایک نیم صوتی اور دوسری لب و دندانی۔ مثلاً ’دُو‘ جس میں ’و‘ نیم صوتی ہے۔ لیکن ’آؤ‘ (پانی) جس میں لب د دندانی ہے۔ اس زبان میں ’س‘ کے علاوہ عربی ’ص‘ کی طرح ’ص‘ بولی جاتی ہے۔ مثلاً ’صَاحِب‘

متوسط ایران کی زبانیں[ترمیم]

متووسط ایران کی زبانیں گبری، کاشانی، نائن اور سیوند ہیں۔ گبری ایران کے پارسیوں کے زبان ہے اس کو زری بھی کہتے ہیں۔ ان زبانوں میں قدیم ایرانی ’ت‘ کی ’ی‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً

اوستا ادبی فارسی کاشانی معنی
گتَ گد ک یا گھر

گبری میں اس ’ت‘ کی ’ز‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً گبری ’میں کز اے شے ‘ (میں گھر جا رہاہوں) تعجب ہے گبری میں اردو کے ’میں ‘ کی طرح ’میں ‘ استعمال ہوتاہے۔ ان زبانوں میں قدیم ایرانی کی ’و‘ اب تک برقرار رہے۔ جب کہ دیگر ایرانی زبانوں میں اس کی جگہ ’ب‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثلاً

ادبی فارسی کاشانی گبری معنی
بار ووئی راو ہوا
===بختیاری===

ایران کے جنوب میں بختیاری قبیلہ بولتا ہے۔ اس میں ادبی فارسی کے ’خ‘ کے بالمقابل ’ہ‘ بولی جاتی ہے۔ مثلاً

بختیاری ادبی فارسی معنی
ہور خار کانٹا
	اس میں ادبی فارسی کے ’اے ‘ کے بالمقابل ’ای‘ بولی جاتی ہے مثلاً
بختیاری ادبی فارسی معنی
دِیَو دیو بھوت
مِیش نلش بھیڑ
بیدن بُودن ہونا
دیر دو‘ر دور
===بدخشانی و مدگلشتی===

بدخشانی اافغانستان کے شمال میں بدخشاں اور مدگلشتی چترال کے ایک علاقے میں بولی جاتی ہے۔ یہ دونوں بولیاں ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں۔ ان کے حروف علت میں کوئی نمایاں اختلاف نہیں ہے۔ حروف صیح میں بدخشانی میں ’ف‘ اور مدگلشتی میں اس کی بجائے ’پ‘ بولاجاتا ہے۔ مثلاً

بدخشانی مدگلشتی ادبی فارسی
فلُوت پوت فولاد

بدخشانی کے ’خ‘ کے بالمقابل مدگلشتی میں ’غ‘ بولا جاتا ہے۔ مثلاً

بدخشانی مدگلشتی ادبی فارسی
بوخ بوغ باغ

ان دونوں بولیوں میں مصدر کا لاحقہ ’ای ون‘ ہے مثلاً

بدخشانی مدگلشتی ادبی فارسی معنی
شموریدن شمرودن گننا
===یغنوبی===

یہ زبان روس کے علاقے سمرقند میں بولی جاتی ہے اور قدیم مشرقی ایرانی زبانوں کی تحقیقات کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس زبان میں ہند یورپی ابتدائی ’کھ‘ حذف ہو گیا ہے۔ مثلاً

سنسکرت فارسی یغنوبی
کھر خر ارد

اس زبان میں ہند یورپی ’بھ‘ کی و ہو گئی ہے۔ مثلاً

سنسکرت فارسی یغنوبی معنی
بھراتا برادر وروت (مشرقی) وردت (مغربی) بھائی

اگرچہ یغنوبی زبان کا تعلق وسطی ایرانی کی سوغدی سے قریبی تعلق ہے، لیکن یہ سوغدی کی براہ راست جانشین نہیں ہے۔ کیوں کہ سوغدی میں ایرانی ’و + و‘ کی ’و + ب‘ ہو گئی تھی۔ مگر یغنوبی میں یہ برقرار ہے اور ماضی صیغہ جمع غائب کی یغنوبی میں علامت ’ر‘۔ لیکن سوغدی،میں ’انت‘ ہے۔

===غلچا زبانیں ===

یہ زبانیں پامیر، چینی ترکستان کی سرحد اور روسی ترکستان کے علاقہ میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں مندرجہ قابل ذکر ہیں۔ (1) دخی (2) شفنی (3) سریخولی (4) زیباکی، اشکاشمی ہیں ۔

دخی[ترمیم]

یہ زبان چترال کے شمال میں بولی جاتی ہیں۔ اس میں جمع بنانے کے لیے ’اشت‘ کا لاحقہ مستعمل ہے۔ مثلاً ’خُون‘ (گھر) ’خون اشت‘ (جمع) ’روز‘ (میں) ’سک اشت‘ (ہم)

شفنی[ترمیم]

یہ زبان دخی کے شمال میں بولی جاتی ہے۔ اس میں جمع کے لیے ’وین‘ کا لاحقہ مستعمل ہے۔ مثلاً ’چید‘ (گھر) ’چیداین‘ 0جمع)
===سریخولی===
یہ زبان چینی ترکستان کی سرحد اور روسی ترکستان میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان میں جمع کے لیے خیل کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ مثلاً ’چید‘ (گھر) ’چید خیل‘ (جمع)
===زیباکی اشکاشمی===

یہ زبان دخی کے جنوب میں بولی جاتی ہے۔ اس میں جمع کے لیے ’ائی‘ کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔ مثلاً ’ترتات‘ (باپ) ’دتاتی‘ (جمع)

(9) برصغیر کی ایرانی زبانیں[ترمیم]

برصغیر میں مندرجہ ذیل ایرانی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ (1) پشتو (2) ارورمڑی (3) بلوچی

====پشتو===

پشتو سرحد اور شمالی بلوچستان میں کثیر تعداد لوگ پشتو بولتے ہیں۔ لیکن افغانشتان میں نصف سے کم لوگ بولتے ہیں۔ ہندوستانی زبانوں کے ساتھ نزدیکی تعلق ہونے کی وجہ سے اس زبان میں کوزی حروف بھی مروج ہیں۔ اس میں ایرانی الفاظ کی اندرونی ’د‘ کی ’ل‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً

اوستا سنسکرت پشتو معنی
پَدَ پَد پَل پاؤں

اس زبان میں حالت اضافی میں سابقہ ’دا‘ مستعمل ہے مثلاً ’ٹری‘ (آدمی) لیکن ’داسٹری‘۔ بلوچستانی پشتو میں ’ف اور ہ‘ شاز و نادر بولی جاتی ہے۔ پشتو میں حنکی حروف کا مظہر نہایت پیچیدہ ہے اور اس میں فعل کا استعمال بھی پیچیدہ ہے۔

ارمڑی[ترمیم]

(1) ارمڑی میں حروف تعریف بھی مروج ہیں، جو آریائی زبانوں میں ایک غیر معمولی مظہر ہے، یہ حروف تعریف ’ا‘ جو بطور سابقہ لفظ کے پہلے لگایاجاتا ہے، مثلاً ’آسڑئی‘ 
(2) جمع بنانے کے لیے ’ای‘ یا ’انی‘ کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔ مثلاً
’شور‘ (شہر) جمع ’شیری‘
’آدمی‘ (آدمی) جمع ’آدم پنی‘
’ہائی‘ (ہاتھی) جمع ’ہات پنی‘
(3) مختلف اسمی حالتوں کو جتلانے کے لیے سابقے لگائے جاتے ہیں۔ مثلاً
			حالت اضافی ’ات سڑئی‘ (آدمی)

حالت ذریعہ ’پ سڑئی‘ (آدمی سے )

			حالت مقامی ’اسڑئی‘ (آدمی پر)

بلوچی[ترمیم]

بلوچی بلوچستان میں بولی جاتی ہے۔ اس میں دو بولیاں ہیں ایک مغری اور دوسری مشرقی اور ان بولیوں میں بڑا اختلاف ہے۔ تاہم ان بولیوں کے بولنے والے ایک دوسرے کی بولی کو سمجھ لیتے ہیں۔ مشرقی بلوچی میں ابتدائی بندیشی حروف ’ک، پ، ت، ٹ‘ ایک خاص دھماکے سے بولے جاتے ہیں۔ یہ ہندوستانی بندشی حروف سے بہت الگ ہیں۔ مندرجہ الفاظ سے مشرقی اور مشرقی بلوچی میں فرق ظاہر ہوگا۔

مشرقی بلوچی مغڑبی بلوچی معنی
ہش اَچ سے
اَف اپ پانی
برادر برابر برابر
پھاو پاو پاؤں

ماخذ

(سدھیشورورما، آریائی زبانیں۔ 17 تا 78)

ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم

فارسی۔ معارف اسلامیہ