نظریہ ضرورت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نظریہ ضرورت حالات کو معمول پر لانے کے لیے ملکی کرداروں کی طرف سے کیے جانے والے بالا قانون اقدامات کو آئینی اساس فراہم کرتا ہے۔ یہ نظریہ براکٹن کی قانونی تحاریر میں ملتا ہے، جس کی وکالت دور حاضر میں ولیم بلیکسٹون نے کی ہے۔

انگریزی اصطلاح doctrine of necessity کا صحیح ترجمہ عقیدہ ضرورت ہو گا، مگر پاکستان میں یہ نظریہ ضرورت کے نام سے معروف ہے۔

1954ء میں پاکستان کے سابق منصف اعظم محمد منیر نے اس نظریہ کا اطلاق کرتے ہوئے گورنر جنرل ملک غلام محمد کی طرف سے پارلیمان کی تحلیل کو جائز قرار دیا۔ اس کے بعد ایوب خان کے فوجی تاخت کو بھی اسی نظریہ کی رُو سے جائز قرار دیا گیا۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Amita Shastri, A. Jeyaratnam Wilson، The post-colonial states of South Asia: democracy, development, and identity، Palgrave Macmillan, 2001، ISBN 978-0-312-23852-0، ... Dismissing Mirza, army chief General Mohammad Ayub Khan took over first as chief martial law administrator ... a compliant judiciary upheld the imposition of martial law under the doctrine of necessity ... 

بیرونی روابط[ترمیم]