مفتی غلام جان قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ابوالمظفر مفتی غلام جان قادری رضوی اہلسنت وجماعت کے اکابرین میں شمار ہوتا ہے۔ فقیہ زماں کے لقب سے مشہور ہیں۔

پیدائش[ترمیم]

مفتی غلام جان 1316ھ بمطابق 1896ء میں ضلع ہزارہ کے مشہور شہر مانسہرہ, قصبہ اوگرہ میں قاضی محمد احمد جی کے گھر پیدا ہوئے، ان کا شجرہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ کے توسط سے حضرت علی سے جاملتا ہے۔

تعلیم[ترمیم]

قرآن مجید اور فارسی نظم و نثر اور صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں اپنے والدسے پڑھیں ،اس کے بعد شوق علم میں دہلی اور سہار نپور کی درس گاہوں میں بھی گئے۔ مدرسہ عالیہ جامع مسجد آگرہ کے اساتذہ سے بھی کسب علم کیا۔ مولانا غلام رسول (انہی ضلع گجرات) سے حمد اللہ اور زواہد ثلاثہ کا درس لیا۔ مینڈ ھو ضلع اعظم گڑھ اور گلاوٹی ضلع بلند شہر مین معقول کی کتابیں پڑھیں۔ ٹونک میں حضرت علامہ حکیم سید برکات احمد سے ریاضی اور معقولات میں استفادہ کیا۔ 1335ھ میں مدرسہ عالیہ رامپورسے درجۂ تکمیل پاس کیا مولانا شاہ سلامت اللہ رام پوری آپ پر بے حد شفق فرماتے تے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کا شہر ہ سن کر مرکز علم و عرفان بریلی شریف پہنچے اور شمس العلماء مولانا ظہور الحسن فارقی رام پوری اور صدر الشریعہ مولانا حکیم محمد امجد علی (مصنف بہار شریعت) سے درس نظامی کی آخری کتابیں پڑھ کر صحاح شہ کا دور ہ کیا۔ 1337ھ کے جلسۂ دستار بندی میں امام اہل سنت امام احمد رضا بر یلوی نے دستار بندی فرمائی اور سند فضیلت عطا فرمائی۔ اعلیٰ حضرت بریلوی نے مفتی صاحب کو تمام کتب تفسیر و حدیث، جوامع، سنن، مسانید، معاجیم بشمول مؤطا امام مالک و مؤطا امام محمد، کتاب الآثار و شرح معانی الآثار اور تقریباً 30 علوم کی اجازت عطا فرمائی

بیعت و خلافت[ترمیم]

امام المحدثین امام احمد رضا خان قادری کے ہاتھ پر بیعت کی اور خلافت ملی۔

درس و تدریس[ترمیم]

تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ منظر الا سلام بریلی میں مدرس اور مسجد بی بی جی (بریلی) میں امام و خطیب مقرر ہوئے۔ حضرت مولانا خواجہ محمود تونسوی کی دعوت پر وہان سے مدرسہ سلیمانیہ تونسہ شریف جاکر کچھ عرصہ کا م کیا۔ ایک سال مکھڈ شریف رہے، اس کے بعد خان محمد امیر کاں رئیس شہیلہ ضلع ہزارہ نے آپ کو بلا کر عہدئہ قضا پر مامور کیا لیکن کچھ دن بعد ہی آپ لاہور چلے گئے اور جامعہ نعمانیہ لاہور مین صدر مدرس اور مفتی مقرر ہوئے۔ 1345ھ میں بریلی شریف اور اجمیر شریف حاضری دیتے ہوئے حج و زیارت کی سعاد ت سے مشرف ہوئے۔ شب بیداری یتیموں بیوائوں کی دستگیری اور اپنا کام خود کرنا آپ کے اوصاف تھے۔ دن متین کی تبلیغ و ترویح کا جذبہ بدجۂ اتم موجود تھا۔

فتاویٰ نویسی[ترمیم]

ہزاراہ کی ریاست شھیلیہ میں افتاء اور قضاء کی مسند پر رونق افروز رہے۔ دار العلوم انجمن نعمانیہ لاہور میں درس و تدریس کی۔ ان کے فتوے، فتاوئے غلامیہ کے نام سے موجود ہیں

تصنیفات[ترمیم]

آپ کی تصانیف یہ ہیں:۔

  • 1۔ فتاویٰ غلامیہ
  • 2۔ نور العین فی سفر الحرمین
  • 3۔ سیف رٓحمان علیٰ رأس القادیانی
  • 4۔ دیوان غلامیہ
  • 5۔ نغمۂ شہادت (یہ ہنوز غیر مطبوعہ ہیں)
  • 6۔ القول المحتاط فی جوز الحیلۃ والا سقاط
  • 7۔ رسالہ اذان علی البقرو تعداد الجمعہ فی مساجد المصر۔

وفات[ترمیم]

25 محرم الحرام 1379ھ یکم اگست 1959ء کو کلمہ شریف اور صلوٰۃ و سلام کا ذکر کرتے ہوئے عین اس وقت جب مؤذن نے اذن ظہر کی آواز بلند کی فوت ہوئے۔ نماز جنازہ حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا ابو البرکات سید احمد قادری نے پڑھائی۔[1]

عرس[ترمیم]

اُن کا عرس اتوار 9 دسمبر کو اُن کے مزار مبارک پر منایا جاتا ہے۔

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. حیات فقیہ اعظم حافظ محمد عطاء الرحمن مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور

حوالہء عرس نوائے وقت

بریلوی تحریک

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔