سید کفایت علی کافی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید کفایت علی کافی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مراد آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 مئی 1858ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مراد آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  مزاحمتی لڑاکا   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی مجاہدِ جنگِ آزادی 1857ء نگینہ ضلع بجنور کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔[1]

تعلیم[ترمیم]

علماے بدایوں و بریلی سے حصولِ علم کیا۔ حدیث کا درس شاہ ابو سعید مجددی رام پوری تلمیذِ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے لیا۔ مولانا حکیم شیر علی قادری سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپ مجاہدِآزادی مفتی عنایت احمدکاکوری تلمیذِ شاہ محمداسحاق دہلوی تلمیذ ونواسۂ شاہ عبد العزیز محدِّث دہلوی کے دست راست تھے۔ مفتی عنایت احمد کاکوری نے بریلی اورمولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی نے مرادآبادکے علاقے میں انگریزوں کے خلاف1857ء میں جہادکے فتاویٰ جاری کیے۔ آپ نے ذکیؔ مرادآبادی (متوفی: 1864ء) جو امام بخش ناسخؔ کے شاگرد تھے،سے سخن آرائی سیکھی۔

خدمات[ترمیم]

مولانا سید کفایت علی کافیؔ؛ جنرل بخت خاں روہیلہ کی فوج میں کمانڈر ہو کر دہلی آئے۔ بریلی، الہ آباد اور مرادآباد میں انگریز سے معرکہ آرائی رہی۔ بعض علاقوں کو انگریز سے بازیاب کرانے کے بعد جب اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آیا تو آپ ’’صدرِ شریعت‘‘ بنائے گئے۔ امداد صابری لکھتے ہیں: ’’انگریز؛ مرادآباد سے بھاگ کر میرٹھ اور نینی تال چلے گئے، نواب مجو خاں حاکم مرادآباد مقرر ہو گئے۔ عباس علی خاں بن اسعد علی خاں ہندی توپ خانہ کے افسر معیّن ہوئے اورمولوی کفایت علی صاحب صدرِ شریعت بنائے گئے، انھوں نے عوام میں جہادی روح پھونکی۔ شہر میں ہر جمعہ کو بعد نماز انگریزوں کے خلاف وعظ فرماتے جس کا بے حد اثر ہوتا تھا۔‘‘[2]

مرادآباد میں شورش کے ایام میں مولانا کافیؔ حالات کی رپورٹ بذریعہ خط جنرل بخت خاں کو بھیجتے رہے۔ آپ نے فتاویٰ جہاد کی نقلیں مختلف مقامات پر بھیجیں۔ مولانا وہاج الدین مرادآبادی (وفات 1858ء) بھی حریت پسند اور قائدینِ جہادِ آزادی1857ء میں تھے، آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پزیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔ یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔ واضح ہو کہ روہیلہ پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کا بڑھیچ قبیلہ اوپر جا کر روہیلوں سے جا ملتا ہے۔ مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔

مقدمہ و سزا موت[ترمیم]

26 اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔ مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔ نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر بندوق چلاتے نظر آئے۔ آخر کار جامِ شہادت نوش کیا۔ سقوطِ مرادآباد کے ساتھ ہی تمام انقلابی رہ نما منتشر ہو گئے۔ جو انگریز حکومت کے ہاتھ آئے وہ تختۂ دار پر چڑھا دیے گئے یا حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور[کالاپانی] کی سزا سے ہم کنار ہوئے۔ مولانا کفایت علی کافیؔ کو فخر الدین کلال کی مخبری سے انگریز نے گرفتار کر لیا۔ سزاؤں کا اذیت ناک مرحلہ شروع ہوا۔ جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی۔ زخموں پرنمک مرچ چھڑکی گئی۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے انگریزوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو چکا تو برسرِ عام چوک مرادآباد میں اس عاشقِ رسول کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔[3] 4 مئی 1858ء کو مقدمہ کی پیشی ہوئی اور جلد ہی پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ مسٹرجان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن مرادآباد نے فیصلہ سنایا کہ: ’’چوں کہ اس مدعا علیہ ملزم نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور عوام کو قانونی حکومت کے خلاف ورغلایا اور شہر میں لوٹ مار کی، ملزم کا یہ فعل صریح بغاوتِ انگریزی سرکار ہوا۔ جس کی پاداش میں ملزم کو سزاے کامل دی جائے۔…حکم ہوا-مدعا علیہ کو پھانسی دے کر جان سے ماراجائے۔ جان انگلسن، 6 مئی 1858ء مقدمہ کی پوری کارروائی صرف دو دن میں پوری کردی گئی۔4 مئی کو پیش ہوا اور 6 مئی کو حکم دے دیا گیا۔ اور اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔[4] جب پھانسی کا حکم سنایا گیا مولانا کافیؔ مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے ؎

کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا
بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

مولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ مذکورہ اشعار آپ کی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مردِ حق آگاہ مولانا کافیؔنے گویا بزبانِ حال یہ پیغام دیا کہ زندگی وہی ہے جو رسول مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں گذرے۔ مولانا سیدکفایت علی کافیؔ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی نے اپنے اشعار میں ’’سلطانِ نعت گویاں‘‘ فرمایا ہے ؎

مہکا ہے مِری بوئے دہن سے عالم
یاں نغمۂ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافیؔ سلطان نعت گویاں ہیں رضاؔ
اِن شاء اللہ میں وزیر اعظم

اعلیٰ حضرت آپ سے بہت متاثر تھے۔ ملفوظات میں کئی مقامات پر عمدہ الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس محبت و تعلقِ روحانی کی اصل وجہ عشق رسالت میں مماثلت و انگریز مخالفت ہی ہو سکتی ہے۔

تصنیفات[ترمیم]

مولانا کافیؔ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کی منثور و منظوم کتابوں کے نام اس طرح ہیں:

  1. ترجمہ شمائل ترمذی؛منظوم
  2. مجموعہ چہل حدیث؛ منظوم
  3. خیابانِ فردوس
  4. بہارِ خلد
  5. نسیمِ جنت
  6. مولودِ بہار
  7. جذبۂ عشق
  8. دیوانِ کافی
  9. تجملِ دربارِ رحمت [1841ء میں حج وزیارت کی سعادت پائی، اس موقع پر تحریر کی۔] [5][6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "مختصر حالات"۔ 05 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2017 
  2. ماہ نامہ ترجمانِ اہلِ سنت کراچی جنگ آزادی 1857ء نمبرجولائی 1975ئ،ص97
  3. ملخصاً،نفس مصدر،ص97۔98
  4. مرادآباد:تاریخ جدوجہد آزادی، سید محبوب حسین سبزواری، ص144؛ علما وقائدین جنگِ آزادی1857ء، یٰسٓ اختر مصباحی،دارالقلم دہلی2010ء، ص25۔26
  5. علما و قائدین جنگ آزادی1857ء، یٰسٓ اختر مصباحی،دارالقلم دہلی2010ء، ص24
  6. تصانیف[مردہ ربط]

بیرونی حوالہ جات[ترمیم]