ایل سیلواڈور میں اسلام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایل سیلواڈور میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی برادری 12% موجود ہے جس میں زیادہ تر سیلواڈورین شہری ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے عرب سے آئے مہاجرین میں رومن کیتھولک کی تعداد زیادہ ہے ان کا تعلق شام اور لبنان سے ہے۔ مسلم وسطی امریکہ کا واحد اسلامی رسالہ شائع کرتے ہیں انھوں نے ملک میں اسلام کی اشاعت کے لیے ایک اسلامی کتب خانہ بھی بنایا ہوا ہے۔[1]

پس منظر[ترمیم]

ایل سیلواڈور میں مسلمانوں کی آمد کے متعلق معلومات بہت کم ہیں تاہم مسلمانوں کی آمد کے متعلق کچھ نظریے بہت مقبول ہیں پیڈرو اسکلانتے اور ابراہیم دورہ کے مطابق ایل سیلواڈور میں مسلمانوں کی آمد اس وقت ہوئی جب ملک ہسپانوی کالونی بنا تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 1619 میں سان پیڈرو نامی ایک شخص سانتا ینکویژن کی ایک عدالت میں پیش ہوا کی اس کی بیوی مسیحیت پر عمل پیرا نہ ہوتے ہوئے ایک مور سے شادی کر لی ہے[2] لیکن اس واقعے کے متعلق مصنف نے کہا کہ یہ واقعہ متعدد الازدواجی(معنی وہ عورت یا مرد جس نے ایک سے زائد شادیاں کی ہوں) کے متعلق ہے اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[3]

تاہم ایل سیلواڈور پر مسلمانوں کا کچھ اثر موجود ہے ملک کی ثقافت اور انداز تعمیر پر اسلامی سپین کے اثرات ہیں سونسناتے میں موجود چرچ آف کلکو اسلامی سپین کی ثقافت کا بہترین نمونہ ہے سان وکنٹے میں الگسا ڈی پلر کی عمارت پر بھی اس ثقافت کے اثرات نمایاں ہے

بیسویں صدی کی ہجرت[ترمیم]

عرب ممالک (شام، لبنان اور فلسطین) سے مسلمان بیسویں صدی کے اوائل میں ہجرت کرکے آئے۔ اگر چہ یہ تعداد میں کم تھے لیکن انھوں نے ملک میں سیاسی اور اقتصادی قوت حاصل کر لی تھی۔ 2004 کے انتخابات میں ملک کے صدر انٹینو ساکا کے مقابلے میں فلسطینی نژاد مسلمان شفیق ہندل مضبوط امیدوار تھے جو اس بات کی مثال ہے کہ مسلمانوں کو وہاں کتنی قوت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی، تجارتی اورتعمیراتی امور میں بھی مسلمان پیش پیش ہیں ۔[4]تاہم دستاویزات کے مطابق مہاجرین کی تعداد میں رومن کیتھولک زیادہ تھے اور مسلمان کم تھے۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمان برادری نے ملک میں اسلام پھیلانے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ اب بھی مسلمانوں کے ایل سیلواڈور پر اثر اور آمد کے متعلق بہت کم معلومات ہیں۔

پہلے اسلامی مرکز کا قیام[ترمیم]

1994 میں سنی مسلمانوں نے ملک کے دار الحکومت سان سلواڈور میں سینٹرو اسلامکو عرب سلوادورین کے نام سے تنظیم فلسطینی نژاد مسلمانوں نے بنائی ہے۔ اس کی ایک دہائی کے بعد 2004 میں شیعہ مسلمانوں نے دار الحکومت میں ایک مسجد قائم کی۔ انھوں نے اپنے اسلامی مرکز کا نام حضرت محمدؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے نام پر فاطمۃ الزہرہ رکھا ہے۔[5] انھوں نے انٹرنیٹ پر اسلامی ادب کا آغاز کیا ہے انھوں ملک کی پہلی اسلامی ویب سائٹ بنائی ہے وہ ایک اسلامی رسالہ بھی شائع کرتے ہیں۔ ویب گاہ پر تقریبا 100 اسلامی کتابیں موجود ہیں ۔[6]2007 میں دار الحکومت میں مسجد دارالابراہیم بنائی گئی یہ دار الحکومت میں واقع تیسری مسجد ہے۔

اسلامی مرکز کی سرگرمیاں[ترمیم]

اسلامی مراکز میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اس کے علاوہ مختلف مذہبی اور ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن میں مختلف طریقوں سے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں مثال کے طور پر فاطمۃ الزہرہ میں اسلامی تاریخ، واقعات اور تعلیمات کے کلاسز ہوتی ہیں یہ کلاسز تمام مسلمانوں کے لیے کھلی ہیں ان کلاسزمیں مسلمانوں کو نہ صرف مذہبی بلکہ دیگر علوم کی تعلیمات بھی دی جاتی ہیں۔[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. El Sitio de Los Musulmanes Shiítas de El Salvador
  2. Pedro Escalante y Abraham Daura Molina (2001), Sobre Moros y Cristianos, y otros Arabismos en El Salvador. Embajada de España en El Salvador y Agencia Española de Cooperación Internacional, San Salvador, pp. 17
  3. Ibid pp.54-55
  4. Roberto Marín-Guzmán (2000)۔ A Century of Palestinian Immigration into Central America: A study of their economic and cultural contributions۔ San Jose, CR: Universidad de Costa Rica 
  5. کیرن آرم سٹرانگ (1993). Muhammad: A Biography of the Prophet. San Francisco: Harper. ISBN 0-06-250886-5.
  6. islamelsalvador.com
  7. "Revista Comunica de la UCA"۔ 01 نومبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مارچ 2013 

بیرونی روابط[ترمیم]