مدثر نذر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مدثر نذر ٹیسٹ کیپ نمبر76
ذاتی معلومات
پیدائش (1956-04-06) 6 اپریل 1956 (عمر 68 برس)
لاہور, پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا میڈیم گیند باز
تعلقاتنذر محمد (باپ)
مبشر نذر (بھائی)
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 76)24 دسمبر 1976  بمقابلہ  آسٹریلیا
آخری ٹیسٹ24 اپریل 1989  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
پہلا ایک روزہ (کیپ 21)23 دسمبر 1977  بمقابلہ  انگلینڈ
آخری ایک روزہ14 مارچ 1989  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 76 122
رنز بنائے 4114 2653
بیٹنگ اوسط 38.09 25.26
100s/50s 10/17 -/16
ٹاپ اسکور 231* 95
گیندیں کرائیں 5967 4855
وکٹ 66 111
بولنگ اوسط 38.36 30.91
اننگز میں 5 وکٹ 1 1
میچ میں 10 وکٹ n/a
بہترین بولنگ 6/38 5/29
کیچ/سٹمپ 48/– 21/–
ماخذ: [1]، 7 جنوری 2006

مدثر نذر انگریزی: Mudassar Nazar (پیدائش:6 اپریل 1956ء لاہور، پنجاب) پاکستان کے معروف سابق کرکٹ کھلاڑی ہیں ان کے والد نذر محمد پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے اوپنر تھے۔1952ء میں انڈیا کے خلاف ٹیسٹ میں پاکستان کی طرف سے پہلی گیند انھوں نے  ہی کھیلی۔اسی سیریز میں لکھنئو ٹیسٹ میں پاکستان کی طرف سے پہلی سنچری بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا، بیٹ کیری کیا اور پورے میچ کے دوران میدان میں موجود رہنے والے پہلے کھلاڑی بنے۔ایک حادثے کی وجہ سے ان کا کرکٹ کیرئیر پانچ ٹیسٹ میچوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ 1952ء میں آخری ٹیسٹ کھیلے، اس کے چوبیس برس بعد ان کے بیٹے مدثر نذر نے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اوپنر کی حیثیت سے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کیا۔ والد کی طرح انڈیا کے خلاف بیٹ کیری کیا اور جس سیریز 1983-1982ء میں یہ اعزاز حاصل کیا، اسی سیریز میں 761 رنز بنا کر سب سے زیادہ رنز کا قومی ریکارڈ بنایا۔ مدثر نذر نے 76 ٹیسٹ اور  122 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔عمدہ بیٹسمین تو وہ تھے ہی، ساتھ ہی کارآمد میڈیم پیسر بھی تھے، کئی دفعہ اپنی بولنگ سے ٹیم کے کام آئے، اس کی سب سے قابل ذکر مثال 1982ء کا لارڈز ٹیسٹ ہے جس کی دوسری اننگز میں چھ وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کی جیت میں بنیادی کردار ادا کیا اور گولڈن آرم کہلائے۔مدثر نذر نے پاکستان کے علاوہ حبیب بینک لمیٹڈ' لاہور' پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز' پاکستان یونیورسٹیز' پنجاب اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی طرف سے بھی کرکٹ میں حصہ لیا۔ وہ ایک بااعتماد اور مستند اوپننگ بلے باز تھے۔ ان کے دو بھائیوں مبشر نذر اور مشفر نذر نے بھی کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا۔

مدثر نذر کیا واقعتا کلر بلائنڈ تھے[ترمیم]

حقیت تو یہ ہے کہ پاکستان میں مدثر نذر کے کلر بلائنڈ ہونے کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ یہ حقیقت ان پر ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی بننے کے چند سال بعد اس وقت عیاں ہوئی جب 1980ء میں انگلینڈ میں ان کی آنکھوں کا ٹیسٹ ہوا۔ ڈاکٹر نے ایک فگر بنا کر ان سے پوچھا :یہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ کچھ ہو تو بتاؤں، بس نقطے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے انھیں کلر بلائنڈ ہونے کا بتایا اور کہا کہ وہ خاص طور پر لال اور بھورا رنگ دیکھنے سے قاصر ہیں۔مدثر نذر کو پندرہ سولہ برس کی عمر میں ایک دفعہ کھیلتا دیکھ کر پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار نے کہا کہ نذر محمد کے بیٹے کو گیند دیر سے دکھائی دیتی ہے اس رائے کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ کاردار پہلے شخص تھے جنھیں یہ لگا کہ مدثر نذر کی بینائی میں میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ کرکٹ ویب گاہ کرک انفو کو ایک انٹرویو میں مدثر نذر نے بتایا کہ وہ اگر کلر بلائنڈ نہ ہوتے تو کرکٹ میں اور بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکتے تھے۔ مدثر نذر کے ذہن میں یہ بات تو آئی کہ ایسا کیوں ہے کہ دوسرے بیٹسمینوں کے برعکس وہ سٹروک پلیئر نہیں اور سلو بیٹنگ کرتے ہیں لیکن اپنے کلر بلائنڈ ہونے کی بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ٹی وی پر فٹ بال میچ دیکھتے ہوئے ان کے لیے دونوں ٹیموں کے درمیان میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا۔انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ بولر کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد گیند ان کے لیے گم ہو جاتی اور پچ پر پڑنے کے بعد نظر آتی۔ ان کے بقول، وہ سوچتے کہ سلیم ملک کریز پر آتے ہی چوکا مار لیتے ہیں یا بڑی سہولت سے سنگل رن لے لیتے ہیں، ادھر میرا یہ حال ہے کہ گیند ڈھونڈنا پڑتی ہے[1]

کرٹلے ایمبروز کو کھیلنے میں دشواری[ترمیم]

ویسٹ انڈیز کے سابق مایہ ناز فاسٹ بولر کرٹلی ایمبروز کا سامنا کرنے میں انھیں سب سے زیادہ دشواری رہی، جس کی وجہ ان کا دراز قد ہونا تھا۔امبروز نے جان لیا تھا کہ یارکر ان کی کمزوری ہے، اس لیے وہ بڑی منصوبہ بندی کے بعد اچانک یہ گیند کرتے جس پر مدثر نذر ناچار ہو کر وکٹ گنوا بیٹھتے۔مدثر نذر نے مذکورہ انٹرویو میں بتایا کہ ایمبروز کو ان کے کلر بلائنڈ ہونے کی خبر ہوتی تو وہ پہلی گیند پر ہی انھیں یارکر پر آوٹ کر سکتے تھے، لیکن وہ دوسرے تیسرے اوور میں سرپرائز بال کے طور پر اپنا ہتھیار آزما کر انھیں پویلین کی راہ دکھاتے۔

اعداد و شمار[ترمیم]

مدثر نذر نے 76ٹیسٹ میچ کھیلے جن کی 116 اننگز میں 8 رتبہ بغیر آئوٹ ہوئے 4114 رنز 38.09 کی اوسط سے بنائے۔ جس میں 10 سنچریاں اور 17 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ انفرادی سکور 231 رنز تھا۔ مدثر نذر نے 122 ایک روزہ مقابلوں میں 115 اننگز کھیل کر 10 مرتبہ ناٹ آئوٹ کے ساتھ 2653 کا جادو جگایا جس میں 95 کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا۔ انھوں نے 16 نصف سنچریاں اور 21 کیچز بھی پکڑے۔ جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی کیچز کی تعداد 48 ہے۔ مدثر نذر نے 230 فرسٹ کلاس میچوں کی 355 اننگز میں 34 دفعہ اپنی وکٹ بچا کر 14080 رنز سکور بورڈ پر سجائے۔ 241 ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا جس کے لیے انھیں 43.86 کی اوسط ملی۔ انھوں نے 42 سنچریوں اور 59 نصف سنچریوں کے ساتھ ساتھ 143 کیچز بھی پکڑے۔ اپنی آل رائونڈ کارکردگی کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے مدثر نذر نے 2532 رنز دے کر 66 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 38/6 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین بولنگ اور 38.36 ان کی فی وکٹ اوسط رہی۔ ایک روزہ مقابلوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 111 رہی جس کے لیے انھوں نے 30.91 کی اوسط سے 3432 رنز دیے۔ 6/32 ان کی کسی ایک بین الاقوامی میچز میں بہترین کارکردگی تھی۔ انھوں نے فرسٹ کلاس میچز میں 153 وکٹ حاصل کیے جس کے لیے ان کو 5281 رنز جھونکنے پڑے۔ مدثر نذر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے 1982-83ء کے سیزن میں 6 میچوں کی 8 اننگز میں 2 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 761 رنز سکور کیے جن میں 4 سنچریاں بھی شامل تھیں۔ ان کا زیادہ سکور 231 تھا اور انھیں 126.83 کی اوسط حاصل ہوئی۔ ایک سیریز میں 4 سنچریاں سکور کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں انھیں دوسرا دوسری پوزیشن حاصل ہے۔ مدثر نذر کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے والد نذر محمد کی طرف بیٹ کیری کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کے والد نے یہ کارنامہ 1952ء میں لکھنئو کے مقام پر بھارت کی کرکٹ ٹیم کے خلاف انجام دیا تھا جب انھوں نے ٹیم کے بننے والے 331 رنز میں 124 ناقابل شکست رنز شامل کیے۔ مدثر نذر نے 1983ء میں بھارت ہی کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں ٹیم کے سکور 323 میں 152 ناقابل شکست رنز کا اضافہ کیا۔ یوں یہ منفرد اعزاز حاصل کرنے والے باپ بیٹا کی کرکٹ تاریخ میں واحد مثال موجود ہے۔ بعد میں پاکستان کے اوپنر کھلاڑی سعید انور نے بھی 1999ء میں بھارت ہی کے خلاف کولکتہ کے مقام پر ٹیم کے سکور 316 میں 188 ناقابل شکست رنز شامل کرنے بیٹ کیری کا اعزاز حاصل کیا۔ 2009ء میں ایک اور پاکستانی کھلاڑی عمران فرحت نے نیوزی لینڈ کے خلاف نیپیئر ٹیسٹ میں ٹیم کے سکور 223 رنز میں 117 ناقابل شکست رنزوں کا اضافہ کیا۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے اپنے قارئین کو ایک دلچسپ ریکارڈ سے بھی آگاہ کر دیں کہ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے پہلے بیٹ کیری کرنے والے جنوبی افریقہ کے کھلاڑی اے بی ٹینکرڈ تھے جنھوں نے 1889ء میں انگلستان کے خلاف 47 کے سکور میں 26 ناقابل شکست رنز کا اضافہ کیا۔ مدثر نذر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے کسی ایک اننگ میں اوپننگ بلے بازی کے ساتھ ساتھ اسی میچ میں اوپننگ بولنگ بھی کی ہو۔ یہ واقعہ انھوں نے 7 دفعہ انجام دیا[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]