احمد سعید کاظمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد سعید کاظمی
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1913ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 4 جون 1986ء (72–73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش ملتان   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جمیعت علمائے پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مظہر سعید کاظمی

سجاد سعید کاظمی حامد سعید کاظمی ارشد سعید کاظمی راشد سعید کاظمی

طاہر سعید کاظمی
عملی زندگی
تلمیذ خاص کوکب نورانی اوکاڑوی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ نعمانیہ لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک بریلوی مکتب فکر   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

علامہ سید احمد سعید کاظمی

(13 مارچ (1913ء تا 4 جون 1986ء) ایک متبحر عالم دین تھے۔ انھوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور جمیعت علمائے پاکستان، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان اور جماعت اہل سنت جیسی جماعتیں اور ادارے قائم کرنے میں انکا کلیدی کردار ہے۔ انھیں غزالئ زماں اور امام اہل سنت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

پیدائش اور خاندان[ترمیم]

علامہ سیداحمد سعید کاظمی مراد آباد انڈیا کے مضافاتی شہر امروہہ بھارت میں جمعرات، 13 مارچ 1913 (04 ربیع الثانی 1331 ہجری کو پیدا ہوئے۔ احمد سعید ابھی بچے تھے جب ان کے والد سید محمد مختار احمد شاہ کاظمی انتقال کر گئے۔ انکا نسب 35 پشتوں سے سیدنا امام موسی کاظم سے اور 42 پشتوں سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ سیدنا امام موسی کاظم سے نسبت کی بنا پر انھیں کاظمی کہا جاتا ہے۔

تعلیم[ترمیم]

ان کے والد کا 39 سال کی عمر میں اس وقت انتقال ہو گیا جب احمد سعید کاظمی صرف چھ سال کے تھے اس طرح ان کے سب سے بڑے بھائی محمد خلیل کاظمی نے اسے پالا۔ چونکہ ان کے خاندان کے تمام افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے لہذا انھوں نے اپنی والدہ سے بنیادی تعلیم حاصل ک۔ بعد میں ان کے چچا نے انھیں حدیث کی سند اور تصوف کی تعلیم دی۔ وہ بہت ہی ابتدائی عمر میں اپنے علم کی وجہ سے معروف ہو گئے۔

علمی و دینی خدمات[ترمیم]

اوائل 1935 میں وہ ملتان کی طرف ہجرت کر گئے۔ ملتان میں ،انھوں نے اپنے ہی گھر میں تدریس کا آغاز کیا۔ نومبر 1935 سے انھوں نے 18 سال تک لوہاری دروازے کے باہر مسجد حافظ فتح شیر، میں خطبہ دیا۔ انھوں نے حضرت چپ شاہ کی مسجد میں حدیث کا درس بخاری شریف کے بعد تکمیل مشکوۃ شریف شروع کیا۔ یہاں وہ جلد ہی اپنے علم کی وجہ سے عوام و خواص میں مشہور ہو گئے۔ جماعت اہلسنت، جمعیت علمائے پاکستان اور دعوت اسلامی کو قائم کرنے ان کا خاص کردار ہے۔ انھوں نے بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک طویل مدت تک بحیثیت شیخ الحدیث تدریسی فرائض سر انجام دیے۔

سیاسی خدمات[ترمیم]

اس دور میں برصغیر کے مسلمان اپنی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کی بڑی پارٹی مسلم لیگ تھی۔ آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ مسلم لیگ کے منشور سے متاثر ہونے کی وجہ اس میں شامل ہوئے تھے جنوبی پنجاب کے علاقے میں انھوں نے مسلمانوں کے درمیان میں سیاسی شعور پھیلانے اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ان کو متحرک کرنے کے لیے کام کیا۔ ان کی قائد اعظم محمد علی سے کوئی ملاقات نہ ہوئی البتہ ان سے خط کتابت تھی۔

تصانیف[ترمیم]

  • میلاد النبی
  • توحید اور شرک
  • گستاخ رسول کی سزا۔

شادی اور اولاد[ترمیم]

انھوں نے دو نکاح کیے۔ پہلی زوجہ شادی کے بعد نو سال تک حیات رہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بہن سے علامہ کاظمی نے نکاح کیا۔

آپ کے صاحبزادگان ہیں

مظہر سعید کاظمی

سجاد سعید کاظمی

طاہر سعید کاظمی

حامد سعید کاظمی

ارشد سعید کاظمی

راشد سعید کاظمی

وفات[ترمیم]

4 جون 1986ءبمطابق 25 رمضان المبارک بروز بدھ 1406ء انکا انتقال ہوا۔ عوام کی بہت بڑی تعداد نے ان کی نماز جنازہ سپورٹس گراؤنڈ ملتان میں ادا کی اور انھیں شاہی مسجد عیدگاہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔   معروف عالم دین، مفسر قرآن اور عظیم محدث علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی دینی علمی و تحقیقی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔آپ ترویج و تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور شریعت و طریقت کے جامع ،علمی و عملی کمالات و محاسن سے مالا مال تھے۔ صبر و قناعت کا پیکر اور فرمان رسالت ”الفقر فخری“ کا مظہر اتم اور مسلک اہلسنت کے پاسبان تھے ، جن سے ملت اسلامیہ کے دین و ایمان کی کھیتی سرسبز و شاداب تھی۔ اپنے تو خراج عقیدت و محبت پیش کرتے ہی ہیں، اغیار کو بھی آپ کے علوم و فنون میں دسترس تامہ کا اعتراف کرنا پڑتا تھا، ہر ایک علم میں بالخصوص علم حدیث میں آپ کو انتہا درجے کا کمال حاصل تھا۔ اس کا اندازہ آپ کے درس حدیث میں شامل افراد کے خیالات و مشاہدات سے کیاجاسکتا ہے کہ جب عشق و محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سرشار ہوکر درس حدیث کے لیے اپنی مسند پر رونق افروز ہوتے تو وقت کے جلیل القدر علماءو مشائخ کسب فیض کے لیے اس بحر بے کراں کے سامنے زانوے تلمذتہ کرنے کو سعادت اور آپ کی صحبت میں گذرے ہوئے چند لمحات کو سرمایہ افتخار سمجھتے۔ لوگ دوردراز سے اپنی علمی پیاس بجھانے اور روحانی تشنگی دور کرنے کے لیے حاضر ہوتے اور اس مرد حق آگاہ کی طرف سے رشد و ہدایت کے لعل و گوہر اور علم و عرفان کے لٹائے جانے والے انمول موتی جمع کرنے میں ہر وقت مصروف رہتے۔ عام و خاص افراد آپ کے حلقہ درس میں شرکت کے لیے ایسے بیتاب و قرار نظر آتے جیسے پیاسا کنویں کی طرف جانے کے لیے۔ درس و تدریس کی اہم ذمہ داری اور گوں نا گوں قومی و ملی خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے کتب و رسائل کی صورت میں بھی کثیر تعداد میں گوہر ہائے گراں مایہ صفحہ ہائے قرطاس پر بکھیرے جو آپ کے قرآن و حدیث فقیہ وتفسیر سیرو مناقب اور سلوک وتصوف میں گہرے مطالعہ کا نتیجہ اور آپ کی جلالت علمی کی روشن دلیل ہیں۔

آپ مراد آباد کے مضافاتی شہر امروہہ کے محلہ کٹکوئی کے ایک عالی نسب سید گھرانے کے سربراہ حضرت علامہ سیدمحمد مختار احمد شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں 4ربیع الثانی 1331ھ پیدا ہوئے۔ ایام طفولیت میں ہی والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔یہ سید گھرانہ اپنے علاقے میں اپنی شرافت و نجابت‘ فضل و کمال‘ علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کی بنا پر غیر معمولی شہرت، عزت و توقیر کاحامل تھا۔ اس خاندان کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سمیت 42 واسطوں سے ہوتا ہوا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے۔ والد گرامی کی وفات کے بعدآپ کے پیرو مرشد اور برادر اکبر محدث زماں حضرت سید محمد خلیل کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا۔ چونکہ آپ کا گھرانہ علم و عمل کا گہوارہ تھا اور بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے آثار سعادت و کمال نمایاں تھے اس لیے آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز تو اپنی والدہ محترمہ سے کیا جبکہ حضرت خلیل ملت نے آپ کی غیر معمولی ذہنی استعداداور روحانی صلاحیت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی ایسی علمی و عملی اور ظاہری و باطنی تربیت فرمائی کہ آپ علم و عمل کے آفتاب بن کر افق عام پر نمودار ہوئے۔ جامعہ نعمانیہ میں تدریس کے دوران آپ کے ذمہ درسِ نظامی کی مشہور کتابوں (نور الانوار، قطبی، شرح جامی وغیرہ) کی تدریس مقرر کی گئی، جس سے طلبہ کا میلان آپ کی طرف بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ ایک وقت میں اٹھائیس اسباق کی تدریس آپ کیساتھ متعلق ہو گئی۔

حضرت قبلہ سید نفیر عالم ہر سال ملتان میں خواجہ غریب نواز سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا عرس منعقد کیا کرتے تھے، انھوں نے اس سلسلہ میں آپ کو وہاں تقریر کی دعوت دی اور جب حضرت نفیر عالم نے آپ کی تقریر سنی تو دل وجان سے فدا ہو گئے اور تب سے ان کا پیہم اصرار رہا کہ آپ ملتان آ جائیں اور اہلیانِ ملتان کو مستفیض کریں۔ بالآخر 1935 ءکے اوائل میں آپ ملتان تشریف لے آئے۔ ملتان آنے کے بعد آپ نے اپنے رہائشی مکان میں ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ متلاشیانِ حق اور تشنگانِ علم دور دور سے آ کر آپ کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے رہے۔ نومبر 1935 ءمیں آپ نے مسجد حافظ فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں قرآن مجید کا درس شروع کیا۔ بعض بد بختوں نے اس درس کو ناکام کرنا چاہا چنانچہ علاقہ کے تمام مخالف علماءدرس میں شرکت کرتے اور دورانِ درس مختلف قسم کے اعتراض کیا کرتے تھے۔ مگراللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ حضرت نے اٹھارہ سال کے طویل عرصہ کے بعد یہاں درسِ قرآن مکمل کیا۔ اسی اثناءمیں آپ نے عشاءکے بعد حضرت چپ شاہ صاحب کی مسجد میں درسِ حدیث شروع کیا اور پہلے مشکوٰة اور اس کے بعد بخاری شریف کا درس مکمل کیا۔ زندگی بھر تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ اور مسلم لیگ کے صوبائی کونسل کے رکن کی حیثیت سے قاضی مرید احمد صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی‘ خواجہ عبد الحکیم صدیقی‘ محمد اسلام الدین کو ساتھ لے کر 17 جولائی بروز جمعرات 1952 ءکو قرارداد لکھی، جس میں دوسرے مطالبات کے علاوہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ شامل تھا چنانچہ مسلم لیگ صوبائی کونسل کے اجلاس مورخہ 27 جولائی بروز سوموار 1952 ءکو یہ قرارداد آٹھ کے مقابلے میں دو سو چوراسی (284 ) ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہو گئی۔اس طرح قادیانیوں کے خلاف تحریک کے بانی آپ رحمۃ اللہ علیہ قرار پائے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ صوم و صلوٰة کے اس قدر پابند تھے کہ ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجودآپ رحمۃ اللہ علیہ نے روزے رکھے جو ان کی عمر اور صحت کے اعتبار سے قابل قضا تھا۔ لیکن تقویٰ اور طہارت اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے وابستگی ہمیشہ ان کے سامنے رہی اور اس مرد حق نے روزے کے افطار کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔ علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے علم کا جو خزانہ اپنی تصانیف اور شاگروں کی صورت میں چھوڑا ہے وہ ہمارے لیے گراں بہا اثاثہ ہے۔ علامہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ وجوہ اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے امت مسلمہ کی وحدت و اتحاد اور صحیح العقیدہ افراد کو منظم کرنے کے لیے علامہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرنا ہوگی۔ جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اہلسنت کے بانی حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی کے سالانہ عرس کی تقریبات چند روز بعد آستانہ عالیہ سعیدیہ کاظمیہ شاہی عید گاہ خانیوال روڈ ملتان میںشروع ہورہی ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]