حسن نصراللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ حسن نصراللہ (پیدائش: 1960ء) شیعہ لبنانی مسلح تنظیم حزب اللہ کے سربراہ ہیں۔[1] انھوں نے خود کو حزب اللہ کے اہم ترین رہنما کے طور انھوں نے نہ صرف اس مزاحمتی تنظیم کو لبنان کی سیاست میں ایک اہم کردار دلوایا ہے بلکہ خود کو بھی لبنان کی ایک بااثر شخصیت کے طور پر منوا لیا ہے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

حالات زندگی[ترمیم]

سيد حسن نصراللہ سنہ 1960ء میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں پیدا ہوئے۔ 1975 میں جب لبنان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا تو ان کا خاندان جنوبی لبنان میں ان کے آبائی گاؤں بسوریہ چلا گیا۔ بسوریہ میں ہی حسن نے امل تحریک میں شمولیت اختیار کی جو اس وقت لبنان میں شیعوں کی نمائندہ تحریک تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب حسن کی عمر پندرہ برس تھی۔ لڑکپن میں حسن نصر اللہ کو عراق کے مقدس شہر نجف بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے ایک شیعہ مدرسے میں قرآن اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور یہیں ان کی ملاقات سید عباس موسوی سے ہوئی جو لبنانی امل ملیشیا کے رہنما تھے۔

لبنانی عوام کی بڑی تعداد حسن نصر اللہ کی حامی ہے 1978 میں شیخ نصراللہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ لبنان واپس آ گئے جہاں انھوں نے بعلبک میں عباس موسوی کے مدرسے میں مذہبی تعلیم و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ آنے والے برسوں میں حسن نصر اللہ لبنانی سیاست میں پوری طرح سرگرم ہو گئے اور انھیں بقا کے علاقے میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ 1982 میں لبنان میں اسرائیلی در اندازی کے بعد حالات بدل گئے۔ حسن اور ان کے متعدد ساتھیوں نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دیا۔ حسن نصر اللہ نے امل سے علیحدگی کے بعد حزب اللہ نامی اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد جنوبی لبنان کی وادی بقا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ حزب اللہ کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ حسن مذہب کا عالم بننے کا خواب بھی پورا کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ 1989 میں ایران کے شہر قم چلے گئے تاکہ اپنی مذہبی تعلیم کا سلسلہ مکمل کر سکیں۔ 1992 میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کی ہلاکت کے بعد حسن نصر اللہ کو تنظیم کا نیا لیڈر منتخب کر لیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر بتیس برس تھی۔

حسن کے لیے حزب اللہ صرف ایک مزاحمتی گروہ نہیں حسن کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف کے طور پر ابھری۔ انھوں نے اسرائیلی افواج کے خلاف چھوٹے پیمانے پر جنگ کی پالیسی اپنائی اور ان کی یہ مزاحمتی تحریک سنہ 2000 میں بائیس سال بعد جنوبی لبنان سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا اہم سبب بنی۔ حسن نصراللہ نے 2004 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس معاہدے کو عرب دنیا میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔ 2005 میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار بھی بخوبی نبھایا۔ حسن کے لیے حزب اللہ صرف ایک مزاحمتی گروہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ایک ایسا پیغام پھیلا رہی ہے جس کی بنیاد دینِ اسلام پر ہے۔ حسن نصر اللہ اپنی لبنانی اہلیہ اور تین بچوں کے ہمراہ جنوبی بیروت کے ایک متوسط علاقے میں رہتے ہیں اور ان کا بڑا بیٹا ہادی 1997 میں اٹھارہ برس کی عمر میں اسرائیلی حملے میں شهيد ہو چکا ہے۔