نسمہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


روحانی عقائد کے مطابق، اورا ء   یا  مقناطیسی توانائی کا میدان ، دراصل ایک رنگین چمک  دار   ہالہ ہے جو انسانی جسم یا کسی جانور یا چیز کو گھیرے رہتا ہے ۔ [1] کچھ باطنی علوم کے ماہرین کی تشریحات میں، اورا کو ایک لطیف جسم کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ [2]روحانی معالجین اور مابعد النفسیات کے ماہرین اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اورا کے سائز، رنگ ، ارتعاش   دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ [3]

روحانی  اور متبادل ادویات میں، انسان کے اورا کو ایک پوشیدہ اناٹومی کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو ایک مریض کی حالت اور صحت کی عکاسی کرتا ہے، اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ اہم قوت کے مراکز پر مشتمل ہے جسے چاکرا  اور لطائف کہتے ہیں۔[1]

البتہ سائنس  شواہد اس طرح کے دعوے  کی تصدیق نہیں کرتے اور اسے ایک مفروضہ  قرار دیتے ہیں۔[4] سائنسی تجربات کے تحت اورا اور اس کو دیکھنے کی صلاحیت کا وجود ابھی تک ثابت نہیں ہوا ہے۔[5]

اورا اور نسمہ کی لسانیات[ترمیم]

لاطینی اور قدیم یونانی میں، اورا کا مطلب ہوا یا سانس ہے۔ یہ وسطی انگریزی زبان میں "ہلکی ہوا" کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ 19 ویں صدی کے آخر تک، یہ لفظ کچھ روحانی حلقوں میں جسم کے گرد ایک لطیف ہالہ کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔[6][7]

نسمہ دراصل یونانی اور لاطینی لفظAureolaاور Aura کا فارسی ترجمہ ہے، شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے انسان کے باطنی رخ کے متعلق اپنی کئی کتابوں میں تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور اسے بزبان فارسی’’نسمہ‘‘ کا نام دیاہے۔ اس کے لغوی معنی ’’ہوا‘‘ کے ہیں۔

شاہ ولی اﷲ ’’نسمہ‘‘ کے متعلق اپنی کتاب ’’البدورالبازغہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’یہ بھی جاننا چاہیے کہ نفسِ ناطقہ( روح ) یعنی صورتِ شخصیہ جس کی وجہ سے انسان کا کوئی فرد وہی فرد کہلاتا ہے، سب سے پہلے اس کا سہارا اخلاط کے بخار سے بناہوا لطیف جسم ہوتا ہے کیونکہ صورتوں کا طبعی تقاضا یہ ہے کہ ان کا سہارا وہ ’’ہیولیٰ‘‘ ہو جس کو اس سے جبلّی مناسبت ہے۔۔۔۔۔ چونکہ نفس ناطقہ( ر وح ) جملہ صورتوں میں لطیف ترین، صاف ترین اور مضبوط ترین صورت ہے، اس لیے اس کے وجود کا سہارا بھی اسی  لطیف ترین جسم پر ہوتا ہے جو لطافت واعتدال میں اپنی مثال آپ ہو۔ نفس ناطقہ( روح) کے حامل ہونے کے لیے ایسا ہی جسم ہیولیٰ کا کام دے سکتا ہے۔ یہ جسم لطیف جو کثیف رگ وپے(مادّہ جسم) میں سرایت کیے ہوئے ہے اور کمالات نفس ناطقہ( روح) کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ ہمارے نزدیک ’’نسمہ‘‘ کہلاتاہے‘‘۔[8]

شاہ ولی اﷲ مزید لکھتے ہیں کہ:’’نسمہ! ایک لطیف ترین جسم ہے جو انسان کے نفس ناطقہ ( روح) سے (اس طرح) متصل اور جسم عنصری میں جاری وساری ہے جس طرح پھول میں اس کی خوشبو بسی ہوئی ہوتی ہے۔تمام افعال اور قوتوں کا حامل بھی نسمہ ہے‘‘۔[8]

’’اسے ہم نسمہ، روح ِ طبعی اور بدن ہوائی ( روح ہوائی ) کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں ‘‘۔ [9]

روحانی علوم کے ماہرین کے نظریات[ترمیم]

روحانی عقائد کے مطابق اس دنیا میں ہر وجود اپنی مخصوص توانائی رکھتا ہے۔ توانائی کی ان مقداروں کی وجہ سے ہر شے ایک مخصوص ارتعاش کی حامل ہے۔  یہ ارتعاش برقی اثرات کے حامل ہیں۔ اس ارتعاش کی وجہ سے ہر شے کے گرد ایک برقی مقناطیسی میدان وجود میں آتا ہے۔ سائنس کے مطابق ہر وہ شے جو ارتعاش رکھتی ہے برقی مقناطیسی میدان  (Electro Magnetic Field) بناتی ہے۔   ایک عام مقناطیس سے لے کر کرۂ ارض میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ  ہر جاندار  خلیہ ایک مقناطیسی اکائی ہے۔  یہ برقی مقناطیسی میدان ہر جاندار  کے اردگرد غلاف کی طرح موجود ہے۔  روشنی کی صورت میں یہ خاص قسم کی توانائی ہمارے وجود میں ہروقت گردش کرتی رہتی ہے۔ یہ روشنی یا یہ توانائی جسم کے اردگرد یعنی بیرونِ جسم بھی موجود ہے۔ جسم سے ان رنگین روشنیوں کا اخراج  اوراAura کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ [10]

حیاتیات کی رو سے انسان کے جسم دو ہیں۔ انسان کا ایک جسم ایسا ہے جس کے اندر جگہ جگہ خراشیں پڑی ہوئی ہیں۔ ہر عضو ٹوٹا ہوا ہے ہر جوڑ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ایسا جسم ناکارہ، بدصورت اور بدہئیت ہوتا ہے۔ انسانی جسم کی طرح انسان کے اوپر ایک اور جسم ہے جو گوشت پوست کے جسم کے اوپر روشن اور لطیف جسم ہے۔ اس جسم کے بہت سے نام ہیں، بے شمار ناموں میں دو نام زیادہ مشہور ہیں ایک جسم مثالی، دوسرا نسمہ (Aura)۔ انسانی گوشت پوست کے جسم کا دارومدار نسمہ (Aura) کے اوپر ہے۔ نسمہ (Aura) اگر صحت مند ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی صحت مند ہے۔ یوں سمجھیے جس طرح گوشت کے جسم میں دو لینس فٹ ہیں جن کے ذریعے مادی دنیا میں موجود تمام چیزوں کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہو کر ڈسپلے ہوتا ہے اسی طرح جسم مثالی کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کا تمام تر اثر گوشت پوست کے جسم پر مرتب ہوتا ہے۔ روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم صرف انسان کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ زمین کے اوپر جتنی مخلوق موجود ہے سب ہی اس روشنیوں کے جسم (Aura) (کی ذیلی) تخلیق ہیں۔ اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ انسانی زندگی میں جتنے تقاضے موجود ہیں یہ تقاضے گوشت کے جسم میں پیدا نہیں ہوتے۔ جسم مثالی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہاں سے منتقل ہو کر گوشت پوست کے جسم پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی روٹی کھاتا ہے تو بظاہر ہم دیکھتے ہیں کہ گوشت پوست کا آدمی روٹی کھا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ جب تک جسم مثالی کے اندر بھوک کا تقاضا پیدا نہیں ہو گا اور جسم مثالی گوشت پوست کے جسم کو بھوک یا پیاس کا عکس منتقل نہیں کرے گا آدمی روٹی نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آئے۔ ذرا سے تفکر سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ جسم مثالی کے بہت سے پرت ہیں۔ جب ہم خواب کے حواس میں دنیا بھر کی سیر کرتے ہیں اور تمام وہ اعمال و اشغال ہم سے سرزد ہوتے ہیں جو ہم گوشت پوست کے جسم کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ جسم مثالی کی وہ حرکت ہے جو گوشت پوست کے جسم کو میڈیم بنائے بغیر کرتا ہے۔ جسم مثالی کی حرکات و سکنات کے تاثرات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ تمام آسمانی صحائف نے خوابوں کو مستقبل بینی کا ایک روشن ذریعہ بتایا ہے۔ مستقبل بینی سے مراد ٹائم اسپیس سے ماورا اس عالم میں دیکھ لینا ہے جو عالم ہماری مادی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔ روشنی کا جسم (Aura) اگر مٹی کے ذرات سے اپنا رشتہ منقطع کر لے تو یہ ذرات فنا ہو جاتے ہیں۔ صاحب مراقبہ جب پہلی سیڑھی سے قدم اٹھا کر دوسری سیڑھی پر رکھتا ہے تو اس کے سامنے جسم مثالی آ جاتا ہے اور اس کے اندر یقین کا وہ پیٹرن کھل جاتا ہے جو جانتا ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کی حیثیت محض عارضی اور فانی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ مرنے والے آدمی کے جسم کے اوپر جو روشنیوں کا جسم ہے اس نے عارضی مادی جسم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی مرنے سے مراد یہ ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کے آدمی کے اوپر روشنیوں کا جسم اس عالم آب و گل سے رشتہ منقطع کر کے اس عالم رنگ و نور میں منتقل ہو گیا ہے۔ [11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Wouter J. Hanegraaff (2006)۔ Dictionary of Gnosis & Western Esotericism۔ Leiden: Brill۔ ISBN 9789004152311 
  2. Olav Hammer (2001)۔ Claiming Knowledge: Strategies of Epistemology from Theosophy to the New Age۔ Leiden: Brill۔ ISBN 900413638X 
  3. Terence Hines (2002)۔ Pseudoscience and the Paranormal (2nd ایڈیشن)۔ Amherst, New York: Prometheus Books۔ ISBN 1573929794 
  4. Gregory John Tillett (1 January 1986)۔ Charles Webster Leadbeater 1854–1934: a biographical study۔ University of Sydney۔ hdl:2123/1623 
  5. Béla Scheiber، Carla Selby (2000)۔ Therapeutic Touch۔ Amherst, New York: Prometheus Books۔ صفحہ: 275۔ ISBN 1573928046 
  6. "Online Etymology Dictionary"۔ Etymonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2017 
  7. A. Marques (1896)۔ The Human Aura: A Study (بزبان انگریزی)۔ Office of Mercury۔ صفحہ: 1–2 and preface۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2017 
  8. ^ ا ب البدورالبازغہ از شاہ ولی اللہ دہلوی ترجمہ :ڈاکٹر مجیب الدین۔ صفحہ: 85 
  9. الطاف القدس از شاہ ولی اﷲ، اردو ترجمہ سید محمد فاروق القادری 
  10. نظر بد اور شر سے حفاظت، از ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔ کراچی: مکتبہ روحانی ڈائجسٹ، کراچی۔ فروری 2014ء۔ صفحہ: 27–28۔ ISBN 9789699707003 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  11. پیراسائیکلوجی : از خواجہ شمس الدین عظیمی۔ لاہور: مکتبہ عظیمیہ، لاہور۔ 1992۔ صفحہ: 89–91