حلقہ ارباب ذوق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔
بقول یونس جاوید:

حلقہ اربابِ ذوق پاکستان کا سب سے پرانا ادبی ادارہ ہے یہ مسلسل کئی برسوں سے اپنی ہفتہ وار مٹینگیں باقاعدگی سے کرتا رہا ہے۔ جنگ کا زمانہ ہویا امن کا دور اس کی کارکردگی میں کبھی فرق نہیں آیا


ایک اور جگہ یونس جاوید لکھتے ہیں:

حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔


بقول سجاد باقر رضوی:

حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔ ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔


ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظر آتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بنا پر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کیا، ایک کا عمل بلا واسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلا واسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔

آغاز[ترمیم]

29 اپریل 1939ء کو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی، تابش صدیقی، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی۔ نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ”مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ رکھ دیا گیا۔

اغراض و مقاصد[ترمیم]

قیوم نظر نے اپنے انٹرویو میں اس تحریک کے جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

  • اردو زبان کی ترویج و اشاعت
  • نوجوان لکھاریوں کی تعلیم و تفریح
  • اردو لکھاریوں کے حقوق کی حفاظت
  • اردو ادب و صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا

ادوار[ترمیم]

* ابتدا سے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ء سے اگست 1940ء تک)
* میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجرا تک (اگست 1940ء سے دسمبر 1940ء تک)
* دسمبر 1940ء سے 1947ءمیں قیام پاکستان تک
* 1947 سے مارچ 1967ء میں حلقے کی تقسیم تک
*5 مارچ 1967ء سے 1976ء تک

پہلا دور[ترمیم]

پہلے دور کی حیثیت محض ایک تعارفی دور کی ہے۔

دوسرا دور[ترمیم]

دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا ہے اس میں مضامین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقے کی مجالس میں تخلیقات کے لیے نئے تجربے پیش کرنے کا آغاز ہوا۔

تیسرا دور[ترمیم]

تیسرا دور خاصا طویل ہے اس دور میں حلقے نے ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کی۔ حلقے کا نظریہ یہ تھا کہ ادب زندگی سے گہرا تاثر لیتا ہے۔ اس دور میں حلقے نے زندگی کی ان قدروں کو اہمیت دی جن کی صداقت دوامی تھی۔ اس کے علاوہ ادیب کو تخلیقی آزادی دی گئی۔ حلقے نے زندگی کے ساتھ بالواسطہ تعلق قائم کیا۔ اس دور میں جس بحث نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کی وہ ”ادب برائے ادب“ اور ”ادب برائے زندگی“ کی بحث تھی۔ اس دور میں نہ صرف شاعری نے ترقی کی بلکہ افسانے کی صنف میں بھی واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ تحریک کی تاثریت، علامت نگاری، وجودیت، وغیرہ کو جن سے ترقی پسند تحریک گریزاں تھی حلقہ اربابِ ذوق کے ادبا نے ہی اردو سے روشناس کرایا، تنقید کو اہمیت دی اور نئی نظم کی تحریک کو پروان چڑھایا۔

چوتھا دور[ترمیم]

چوتھا دور 1947ء سے 1967ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں میراجی کی وفات ایک ایسا واقعہ ہے جس نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے متاثر کیا حلقہ اس مرکزی فعال شخصیت سے محروم ہو گیا اب حلقے پر روایت کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ہفتہ وار مجالس میں تنقید کا رخ ذاتیات کی طرف مڑنے لگا اس لیے جب ادبا کے احتساب، جواب طلبی اور خراج کا سلسلہ شروع ہوا تو حلقے کی تحریک بلا واسطہ طور پر متاثر ہونے لگی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیاسی پابندی نے بھی حلقے کو براہ راست متاثر کیا اس کے علاوہ نظریاتی تنقید کے برعکس عملی تنقید کا دور دورہ شروع ہونے لگا۔ ترقی پسند تحریک پر پابندی کے بعد ایک مرتبہ پھر ترقی پسند ادبا کی توجہ حلقے کی طرف مبذول ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے پر ترقی پسند ادبا کا سیاسی تسلط آہستہ آہستہ مستحکم ہونے لگا اور پھر ادب کا فریم آہستہ آہستہ شکستہ ہو گیا اور اس کی بجائے سیاست کا فریم روز بروز مضبوط ہونے لگا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آگئی تو حلقہ دو الگ الگ حصوں میں بٹ گیا چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو ”حلقہ اربابِ ذوق سیاسی“ کا نام دیا گیا اور دوسرا ”حلقہ اربابِ ذوق ادبی“ کہلانے لگا۔

حلقہ اربابِ ذوق سیاسی[ترمیم]

1967ء سے 1975ء تک

حلقہ اربابِ ذوق سیاسی نے تین سالوں میں حلقے کی قدیم روایت کو توڑنے اور نئی اقدار کو بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ ان کا نقطہ نظر مارکسی نظریات سے ماخوذ تھا اس لیے بدلے ہوئے حالات میں اس خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق میں ایک ایسی تحریک پیدا ہوئی جسے نو ترقی پسندی سے موسوم کرنا درست ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوان ادبا جو ابھی تک اپنے نظریات کی جہت متعین نہیں کر سکے تھے اس نئی تحریک میں شامل ہو گئے ان میں افتخار جالب کو اہمیت حاصل ہے۔ نو ترقی پسند ی کی تحریک شروع ہوئی تو انھوں نے نہ صرف اس تحریک میں شرکت اختیار کی بلکہ اپنے پرانے نظریات اور تخلیقات سے دست برداری کا اعلان بھی کر دیا۔ حلقے نے ترقی پسندی کو بالخصوص فروغ دیا چنانچہ اس دور میں حلقے نے قومی اور بین الاقوامی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی۔ مباحثوں میں چونکہ سیاست کو بالخصوص توجہ حاصل ہوئی اس لیے اکثر اوقات تنقید نے ہنگامی حالات اختیار کر لیے۔ سیاسی حلقہ اربابِ ذوق کا کارنامہ ہے کہ اس نے بن لکھے دستور پر عمل کی روایت کو ختم کر دیا اور حلقے کے لیے ایک تحریری آئین منظور کروایا۔ اس دور میں سیاسی حلقے کا ایک اور کارنامہ وسیع المقاصد کا انعقاد بھی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا کردار بنیادی طور پر انقلابی ہے اور اس کے نظریات میں مادی خارجیت کو اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اب اس تخلیقی عمل سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے سیاست کے عمل کا تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں (72۔ 75) میں حلقہ ارباب ِ ذوق سیاسی نے نئے انقلابی اقدامات سے قدیم حلقے کی بیشتر روایات توڑ دیں لیکن تاحال کسی نئی روایت کو جنم نہیں دیا۔

حلقہ اربابِ ذوق ادبی[ترمیم]

1967ء سے 1975ء تک

متذکرہ بالا تین سالوں میں ادبی حلقے نے پرانی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی تاہم ایک بڑے ”کل“ سے کٹ جانے کے بعد ذاتی رنجشوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا ادبی حلقہ ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکا۔ اس کوئی شک نہیں کہ ادبی حلقے کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوئی چنانچہ ایک حلقے کے ادبا دوسرے حلقے میں بالعموم شریک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ادیب ایک حلقے میں غزل پڑھتا ہے اور اسی روز دوسرے حلقے میں نظم سنا آتا ہے شرکاء محفل کے وقت کا نصف اول ایک حلقے میں اور نصف ثانی دوسرے حلقے میں صرف ہوتا ہے اور سربرآوردہ ادبا بلا تخصیص دونوں حلقوں کی صدارتیں قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود دونوں حلقے ایک دوسرے کے ادبی حریف نہیں بن پائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادب میں آگے بڑھنے اور نیا نکتہ پیدا کرنے کا رجحان فروغ نہیں پاسکا۔ اس لیے ادبی حلقے کو سیاسی حلقے سے ممیز کرنا ممکن نہیں رہا اور اب یہ کہنا درست ہے کہ حلقے کی تقسیم نے ادب کو فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچایا۔ اور ادبا نہ صرف اپنی ذاتی پہچان سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ اس گرد آلود فضا میں ان کا ادب بھی گدلا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ حلقہ اربابِ ذوق میں ضابطے کی کارروائی تو اب بھی مکمل ہو رہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اس فعال تحریک پر جمود اور یکسانی کی کیفیت طاری ہے اور اب یہ کسی نئے مرد راہ کی تلاش میں ہے۔

حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری[ترمیم]

شاعری کے حوالے سے حلقہ اربابِ ذوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ حلقے نے نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سر انجام دی۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ابتداءافسانہ خوانی سے ہوئی تھی میراجی نے اس کا رخ تنقید کی طرف موڑا۔ حلقے کے رفقاءمیں یوسف ظفر، قیوم نظر، تابش صدیقی اور حلقے کی مرکزی شخصیت میراجی کا شمار نئے شعراءمیں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت جلد حلقے کا رخ شاعری کی طرف ہو گیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں بنیادی اہمیت اس حقیقت کو حاصل ہے کہ شاعر خارج اور باطن دو دنیائوں میں آہنگ اور توازن کس طرح پیدا کرتا ہے۔ حلقے نے داخل کے اس نغمے کو جگانے کی کوشش کی اس لیے اس شاعری میں مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف سفر کرتی ہے۔ چنانچہ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری درحقیقت دھندلے اجالے سے حسن، نغمہ اور سحر پیدا کرنے کی شاعری ہے۔

میرا جی[ترمیم]

حلقہ اربابِ ذوق کی شعراءمیں میراجی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میراجی شخصی حوالوں سے اردو نظم کا بدنام ترین شاعر ہے۔ اس کی نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے۔ میراجی کا بنیادی سوال انسان کے بارے میں ہے کہ انسان کیا ہے انسان کا اس پور ے نظام سے کیا تعلق ہے۔ اس نے انسان کی شناخت اور اس کی پہچان کے لیے مختلف سفر اختیار کیے اس نے اپنی نظم کا موضوع جنس کو بنایا اور اس عمل سے وہ انسان کی حقیقت تک پہنچناچاہتا تھا۔ میراجی کی شاعری کا دوسر ا زاویہ گیت ہے۔ اور تیسرا آزادغزل ہے۔ میراجی نے غزل کو ایک کنواری عورت کے مماثل قرار دیا ہے۔

وہ درد جو لمحہ بھر کا تھا مژدہ کہ بحال ہو گیا ہے چاہت میں ہمارا جینا مرنا آپ اپنی مثال ہو گیا ہے

میراجی کی لمبی بحر کی غزلوں میں دل گرفتہ کیفیت زیادہ نمایاں ہے اور مزاج بھی گیت کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔

نگری نگری پھر مسافر گھر کا رستہ بھو ل گیا کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

ن۔ م راشد[ترمیم]

ن م راشد کو حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ن م راشد ایک ایسا شاعر ہے جو ہمارے سامنے ایک جدید انسان کا تصور پیش کرتا ہے وہ انسان جس کا تعلق مغربی تہذیب سے ہے جو مغربی تعلیم کا پروردہ ہے جس کا رابطہ نہ مذہب سے، نہ تہذیب سے اور نہ اخلاقیات سے ہے اس نے اپنے سارے مراکز گم کر دیے ہیں۔ اور بقول ڈاکٹر وزیرآغا ”راشد کے انسان کے قدم زمین میں دھنسے ہوئے ہیں بلکہ زمین سے اُٹھے ہوئے ہیں۔“ راشد کا انسان انتشاری ہے وہ سب سے پہلے روحانیت کی بات کرتا ہے پھر روحانیت کی نفی کرتا ہے پھر وہ روحانی تصورات کو رد کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور اپنے انتشار کو کم کرنے کے لیے مختلف سہارے لیتا ہے کبھی خوابوں کی سرزمین میں پناہ لیتا ہے، کبھی عورت کے جسم میں اور کبھی فرار حاصل کر لیتا ہے اور سب سے تنگ آکر خوکشی کا سوچتا ہے۔ ان کے ہاں نہ صرف انفرادی اور اجتماعی دکھ ہے بلکہ پورے ہندوستان اور پوری ایشیا کا دکھ ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ”اجنبی عورت“ میں یہی کیفیت ہے۔

ارض مشرق ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمنائوں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
ان کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں

پھر اس کا انسان آفاقی بن جاتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مشرق و مغرب کے لوگ ایک امن کے مرکز پر جمع ہو جائیں یہ تصور ان کے آفاقی انسان کا ہے۔

شہر کی فصیلوں پر دیو کا جو سایہ تھا
پاک ہو گیا آخر رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
ازدحام انساں سے فرد کی نواآئی

یوسف ظفر[ترمیم]

یوسف ظفر کی شاعری میں داخل کی رو بے حد تیز اور متحرک ہے۔ حب وطن کا جذبہ یوسف ظفر کی شاعری کی قیمتی اساس ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں یوسف ظفر کی عطا یہ ہے کہ انھوں نے خام مواد تو زندگی سے حاصل کیا اور اسے داخل کی ہلکی آنچ پر پکا کر تخلیق شعر کا فریضہ ادا کیا۔ چنانچہ وہ صرف خارج کو ہی متحرک نہیں کرتے بلکہ داخل کی سلگتی ہوئی آنچ بھی قاری کے دل میں اتار دیتے ہیں۔ فنی طور پر یوسف ظفر الفاظ کے علامتی استعمال سے معنویت اور ان کے ظاہر سے درد انگیز غنائیت پیدا کرتے ہیں۔ اور اس انداز کو انھوں نے نظم اور غزل دونوں میں بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے۔

قیوم نظر[ترمیم]

قیوم نظر کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے ہر لمحہ رنگ بدلتی دنیا کو اپنا موضوع بنایا اور ان کیفیتوں کو شعر کا پیکر عطاکیا جو نغمہ بن کر فضاءکو مترنم کر دیتی ہے۔ قیوم نظر نے اردو شاعری کی تین اصناف نظم، غزل اور گیت میں یکساں طور پر طبع آزمائی کی ہے۔ قیوم نظر کے استعارے اور علامتیں کسی مخصوص نظام کے تابع نہیں چنانچہ ان کے ہاں یکسانی کی گراں باری پیدا نہیں ہوتی۔

روش روش پہ ترانے گلوں کے افسانے
ہزار شعبدے پیدا چمکتے رنگوں سے
بہار کھیل رہی ہے نئی امنگوں سے

ضیا جالندھری[ترمیم]

ضیا جالندھری نے داخل کے غیر مرئی جذبے کو جب مرئی صور ت میں پیش کیا تو انھوں نے فطرت کی موجود صور ت کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی اور بیشتر ایسی تصویریں مرتب کیں جنہیں قاری باآسانی دیکھ سکتا ہے۔ ضیا ءجالندھری کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے حسن کی دوامی حیثیت کو اجاگر کیا اور یوں ان کی شاعری میں وقت کی تینوں العاد ایک ایسی لکیر میں منتقل ہو جاتی ہیں جس کی ابتداءاور انتہا دونوں ابھی تک نامعلوم ہیں۔

ایک شوخی بھری دوشیزہ یہ بلور ِ جمال
جس کے ہونٹوں پہ ہے کلیوں کے تبسم کا نکھار
سیمگوں رخ سے اُٹھائے ہوئے شب رنگ نقاب
تیز رفتا ر اڑائے ہوئے کہرے کا غبار
افق شرق سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے

ناصر کاظمی[ترمیم]

ناصر کاظمی حلقے کے شعراءسے متاثر تھے۔ ناصر کاظمی کی عطا یہ ہے کہ انھوں نے میر کے دل گرفتہ انداز کی باآفرینی کی اور اپنے داخل کے پراسرار جزیرے کو غزل کے پیکر میں سمو دیا۔ ناصر کی غزل میں دکھ، تنہائی کی سلگتی ہوئی آنچ نظرآتی ہے۔ ہجرت کا حوالہ بھی ناصر کی شاعری میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ناصر نے استعارے لفظیات وغیرہ کے پیمانے عشقیہ رکھے ہیں لیکن اس کے باطن میں کتنے باطن میں کتنے دکھ ہیں اسے ہم اس کی شاعری میں دیکھ سکتے ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت جدید دور کے مسائل اور بہت سی دوسری چیزیں ان کی غزلوں میں ملتی ہیں۔ مثلاً

کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

شہرت بخاری[ترمیم]

شہرت بخاری کی غزل کا خارجی خول بظاہر ایرانی ہے۔ تاہم برصغیر کے عرضی مظاہر اور داخل میں گہری غواصی نے ان کی آواز کو انفرادیت عطا کی ہے۔

کسی کی روح کا بجھتا ہے شعلہ
کسی کی آنکھ میں جلتا ہے کاجل

آرائش ِ جمال سے فرصت نہیں انھیں
پھرتے ہیں پاگلوں کی طرح ہم گلی گلی

مختار صدیقی[ترمیم]

حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ ایک نام مختار صدیقی کا بھی ہے اس کی شاعری میں زبان و بیان کے علاوہ دکھ درد کے حوالے زیادہ ہیں۔ سادگی اور بناوٹ بھی ہے۔ اور میر سے متاثر نظر آتے ہیں۔

سب خرابے ہیں تمنائوں کے
کون بستی ہے جو بستی ہے یاں

منیر نیازی[ترمیم]

حلقے سے متاثر شعراءمیں ایک نام منیر نیازی کا بھی ہے۔ منیر کی غزل کئی دکھوں سے تعمیر ہوئی ہے اس میں محبت کے دکھ بھی ہیں او رکئی سماجی درد بھی ہیں۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ سماج کے بہت سے اندرونی دکھ محبت میں شامل ہو گئے ہیں اور بعض جگہ یہ احساس ہوتا ہے کہ سماجی دکھ اور محبت کے دکھ سے مل کر درد کی کوئی نئی اکائی تشکیل دے رہی ہے۔ مثلاً

اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا

جانتا ہوں ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

حلقہ اربابِ ذوق نے غزل کو جدید یت کی جس راہ پر گامزن کیا تھا اسے بہت سے شعراءنے خندہ پیشانی سے قبول کیا چنانچہ حلقے کے زیر اثر اختر ہوشیار پوری، وزیر آغا، شکیب جلالی، سجاد باقر رضوی، سلیم شاہد اور اقبال ساجد جیسے شاعر ابھر جنھوں نے اردو غزل کو زندگی کی نئی متنوع تجربات سے ہمکنار کر دیا۔

حلقہ اربابِ ذوق کا افسانہ[ترمیم]

حلقے کی تخلیقی جہتنے ارد و افسانے کو بھی متاثر کیا اور بیشتر ان جذبوں کی نشان دہی کو جو اظہار کی راہ نہیں پاتے اس ضمن میں حلقے کے افسانہ نگاروں نے نفسیات کے علم سے کماحقہ فائدہ اُٹھایا اور کہانی بیان کرنے کے بنیادی فریضے سے بالعموم کوتاہی برتے بغیر پلاٹ کردار اور فضاسے جدید افسانے کا تارو پود مرتب کیا۔ حلقے کے افسانہ نگاروں نے معاشرے کے داغ نمایاں کرنے کی بجائے ان غیر مرئی جذبات کو افسانے میں شا مل کیا۔ جن سے احتراز ِ خیال پیدا ہوتی تھی۔ اور بوقلمو فطرت کا کوئی نہ کوئی ذریعہ سامنے آجاتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ حلقے میں داستان اور افسانے کو ہی اہمیت حاصل تھی۔ تنقید کا اولین نشتر بھی افسانے پر ہی آزمایا گیا۔ میراجی کی شمولیت سے اگرچہ شاعری کو زیادہ تقویت ملی تاہم افسانے کی صنف بھی محرومی توجہ نہیں ہوئی۔ حلقے کے افسانہ نگاروں میں مندرجہ ذیل افسانہ نگار شامل ہیں۔

شیر محمد اختر[ترمیم]

شیر محمد اختر کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ وہ حلقے کے ساتھ تادم زندگی وابستہ رہے اور انھوں نے افسانے کو ہی اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کے افسانوں میں بنیادی اہمیت نفسیات کو حاصل ہے۔ اور وہ افسانے میں واقعات کا تاروپود اس نفسیاتی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہی تعمیر کرتے ہیں۔ افسانہ شیر محمد اختر کی پہلی اور آخری محبت تھی۔ ان کی تاریخی حیثیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

ممتاز مفتی[ترمیم]

انسانی فطرت کا نفسیاتی مطالعہ ممتاز مفتی کے افسانوں میں مقصود بالذات بن کر ابھرا ہے۔ انھوں نے ان جذبوں کو بے نقاب کیا جنہیں کسی دوسرے افسانہ نگار نے اظہار کی راہ نہیں دکھائی۔ ممتاز مفتی کے کردار بظاہر گوشت پوست کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی آنکھیں ٹٹولتی اور انگلیاں گفتگو کر تی ہیں۔ چنانچہ ان کا فن اظہار اور گریز کی ان کیفیتوں سے عبارت ہے جو پیدا تو زیر سطح ہوتی ہیں لیکن بیرونی سطح تلاطم پیدا کرتی ہیں۔”چپ“ ،” احسان علی “، ”کھونٹ والا بابا“اور ”جوار بھاٹا“ وغیرہ افسانوں میں ممتاز مفتی نے زندگی کو نفسیات کی آنکھ سے کامیابی سے دیکھا ہے۔

محمد حسن عسکری[ترمیم]

ان کا افسانہ شعور کی مسلسل رو کو پیش کر تا ہے او ر ان ناآسودہ آرزوں کا مرقع ہے جوپابند معاشرے میں اظہار کی راہ نہیں پاتی ۔”چائے کی پیالی“ ”پھسلن “ اور ”حرام جادی“ میں ایک پلاٹ کی ترتیب کا عمل دخل کچھ زیادہ نہیں۔ تاہم قاری شعور کی غیر مربوط رو سے ہی کہانی اور کردار کے خدوخال مرتب کرلیتا ہے۔

آغا بابر[ترمیم]

ان کے افسانوں میں جنس فطرت کا منہ زور جذبہ بن کر ابھری ہے۔ انھوں نے اس قوت کا بے جا زیاں نہیں کیا اور اسے تعمیر فطرت میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ آغا بابر کے اس قسم کے افسانوں میں ”تعجب“ ،”رات والے“ اور ”باجی ولایت“ کو اہمیت حاصل ہے۔

اشفاق احمد

اشفاق احمد کے افسانوں میں محبت کا حسی تصور لطیف ہے ان کے افسانے بظاہر محبت کے مرکزی نقطے پر گردش کرتے ہیں تاہم ان کے موضوعات متنوع ہیں۔ اور وہ محبت کی قندیل سے زندگی کے بے شمار گوشوں کو منور کرتے چلے جاتے ہیں۔ ”اجلے پھول “، ” شب خون “، ” امی “ ،”گڈریا “ وغیرہ میں اشفاق احمد نے عارضی لطافتوں کو نیاءآب و رنگ دیا ہے۔

سعادت حسن منٹو[ترمیم]

جب سعادت حسن منٹو آزادی کے بعد لاہور آئے تو انھوں نے حلقہ اربابِ ذوق میں سب سے زیادہ افسانے پڑھے منٹو نے فرد کے ظاہر پر توجہ کرنے کی بجائے اس کی داخلی جنگ کو موضوع بنایا۔ اور یوں اس کے حواس اور الفاظ کے تصادم سے نئے اور انوکھے نتائج اخذ کیے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ اردو شاعری میں داخلیت کی جس رو کو میراجی نے فروغ دیا تھا۔ اردو افسانے میں اس کی نمائندگی منٹو نے کی اس کے فن میں جدیدیت کے اتنے نقوش موجود تھے کہ منٹو کے افسانے میں جدیدیت کا نقطہ عروج قرار دیا۔ منٹو کے اس دور کے افسانوں ”ممی“، ”بابو گوپی ناتھ “، ”بادشاہت کا خاتمہ “ وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔

الطاف فاطمہ[ترمیم]

الطاف فاطمہ کے ہاں حزن یاس اور مایوسی کے حوالے موجود ہیں۔ ان کے افسانوں میں عام تاثر افسردگی پیدا کرتا ہے۔ تاہم اس افسردگی پر افسانے کی مجموعی رجائیت غلبہ پا لیتی ہے۔ الطاف فاطمہ کے شاہکار افسانوں میں ”دکھوں کے بیوپاری “ ”بھنور “ وغیرہ مشہور ہیں۔

انتظار حسین[ترمیم]

حلقہ اربابِ ذوق کا سب سے ذہین اور ماہر ِ فن افسانہ نگار انتظار حسین ہے۔ گذشتہ ربعہ صدی میں اس نے اردو افسانے میں تجسیم، تجرید اور علامت نگاری کے متعدد تجربے کیے اور یوں وہ اردو افسانے کی نئی جہت کا پیش رو شمار کیے گئے۔ ”کنکری“ سے ”شہر افسوس“ تک انتظار حسین کے فن نے متعدد مراحل طے کیے ہیں۔ اور وہ ہر مرحلے پر اپنے فن کا واحد نمائندہ ثابت ہوا ہے۔ انتظار حسین کاافسانہ متجسس فرد کے باطن کا آئینہ دار ہے۔ اور خارجی سطح پر تلاطم پیدا کر نے کی بجائے داخل کو بیدار کرتا ہے۔

انور سجاد[ترمیم]

ڈاکٹرانور سجاد اجتہاد کا زاویہ ہے اس ے تکنیک اور موضوع دونوں زاویوں سے حلقہ اربابِ ذوق کی جدیدیت کو آگے بڑھایا اور زمانہ حال کے نئے روے ے کونہ صرف قبول کیا بلکہ جدیدانسان کی شکست و ریخت پر بھی افسانے لکھے۔ انور سجاد کے بیشتر کردارجوجود کی معنویت کو تلاش کرنے اور اپنے اندر کا خلاءپر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس قسم کے افسانوں میں ”دیوار اور دروازہ “، ”سب سے پرانی کہانی “ کو اہمیت حاصل ہے۔انور سجاد نے اردو افسانے کو ایک نئی جہت دی ہے اور اسے اپنے زمانے کی جدیدیت کے تحریکوں کا ہمقدم کر دیا ہے۔
اب تک جن افسانہ نگاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ سب حلقے کی مرکزی شاخ سے نمایاں ہوئے افسانے کی ترقی میں حلقے کی بیرونی شاخوں نے بھی قابلِ قدر حصہ لیا ہے۔ چنانچہ مسعود شاہد، جمیل الزمان، سجاد حیدر، رشید امجد ،محمد منشا یاد، احمد جاوید، مشتاق قمر، احمد داؤد، مظہر الاسلام، اعجاز راہی اور ڈاکٹر مرزا حامد بیگ وغیرہ متعدد ایسے افسانہ نگار سامنے آئے جنھوں نے اپنے داخلی محسوسات کو افسانے کے دلاویز پیرائے میں پیش کیا۔ ان افسانہ نگاروں میں سے رشید امجد نے علامتی تجرید نگاری میں خصوصی اہمیت حاصل کی۔ جبکہ مشتا ق قمر اور محمد منشا یاد تجرید کو تجسیم سے ملانے کے تجربات کر چکے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق نے زیر سطح پرورش پانے والے جذبوں کی نقاب کشائی کے لیے نئی علوم کی وساطت سے جن تجربوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اور حلقے کے افسانہ نگارابھی تک فن کی نئی جہتیں تلاش کرنے اور متنوع موضوعات کو نئے اسالیب میں پیش کرنے کے تخلیقی تجربات میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ کئی نام ایسے ہیں جو ارکان تو نہیں لیکن حلقے کی ادبی نقطہ نظر سے متفق معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں غلام الثقلین نقوی، فرخندہ لودھی، جمیلہ ہاشمی، سائرہ ہاشمی اور عذرا اصغر وغیرہ شامل ہیں۔

حلقہ اربا ب ِذو ق کی تنقید[ترمیم]

حلقہ اربابِ ذوق نے تنقید میں یکسر مختلف رویہ قبول کیا۔ اور ابہام کے برعکس فن پارے کے بے رحم تجزیے کا رجحان پیدا کیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے فن پارے کے حسن قبح کے فیصلے کو محض ذاتی تاثر کی میزان پر نہیں تولا فیصلے کے لیے جواز مہیا کرنا ضرور ی قرار دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب حلقے کی تاسیس عمل میں آئی تو ترقی پسند تحریک نے مقصدیت اور افادیت کو اتنی اہمیت دے دی تھی کہ فن پارے کی تنقید میں سب سے پہلے یہی معیار آزمایا جاتا۔ یوں تنقید کے فنی اور جمالیاتی زاویوں سے یا تو اغماض برتا جاتا یاانھیں بالکل نظر انداز کر دیا جاتا۔ حلقے نے فن میں حسن کی دائمی قدروں کو اجاگر کرنے کی سعی کی تھی چنانچہ تنقید فن میں بھی یہی زاویہ حلقہ اربابِ ذوق کا امتیازی نشان بن گیا۔ اور اس دور میں جب ”ادب برائے زندگی “ کا نعرہ بلند ہوا تو حلقے نے ”ادب برائے ادب “کے نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے کی تنقید میں فن کا جمالیاتی پہلو زیادہ نمایاں ہوا۔ اور تخلیقات سے ان زاویوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن سے عالمگیر انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اور روح احتراض اور بالیدگی کی کیفیت محسوس کرتی تھی۔ حلقہ اربابِ ذوق کی تنقید میں جو لوگ شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

میرا جی[ترمیم]

حلقہ اربابِ ذوق کی تنقیدی جہت کو متعین کرنے کا فریضہ میراجی نے سر انجام دیا۔ میراجی نے تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی تاہم ان کے نظریات عملی تنقید کے ان مضامین میں موجود ہیں جو ”مشرق و مغرب کے نغمے“ کے نام سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے میراجی کا اساسی نظریہ یہ ہے ”کہ شعر و ادب زندگی کے ترجمان ہیں۔“تاہم وہ زندگی کو جامد یا یک رخ تصور نہیں کرتے۔ اور ادب کو زندگی کا غلام قرار نہیں دیتے۔ بلکہ انھوں نے ادب کو تغیر کے مماثل قرار دیا اور نئے زمانے کی برتری کو علم اور شعور کی نئی آگہی کا نتیجہ شمار کیا۔ میراجی کا یہ نظریہ بھی اہم ہے کہ داخلی اور خارجی فنی اصولوں سے قطع نظر ادب ہر مصنف کی اپنی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اردو تنقید میں میراجی کی انفرادیت یہ ہے۔ کہ انھوں نے نہ صرف نظریہ سازی کی بلکہ ان کے عملی اطلاق سے شعراءکو تخلیقات کے حوالے سے جانچنے کا شعور بھی پیدا کیا۔ میراجی کی کتاب”اس نظم میں“ جدید شاعری کی تفہیم کا بنیادی صحیفہ شماری ہوتی ہے۔ اور اس کے تجزیاتی عمل سے حلقہ اربابِ ذوق کی تنقیدی جہت متعین ہوتی ہے۔

مولانا صلاح الدین احمد[ترمیم]

مولانا صلاح الدین احمد کے سب انداز مشرقی تھے۔ چنانچہ انھوں نے لفظ اور خیال کے حسن کو تقویت دی۔ اہم بات یہ ہے کہ روایت کی پیروی کے باوجود انھوں نے ادب کے صحت مند نئے دھارے کو قبول کیا۔ اور جدیدیت کے مخصوص رجحانات کو تحریک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ مولانا کو تنقید میں تحسین کا عنصر زیادہ ہے۔ اور وہ ادب کے آبگینوں کو توڑنے کی بجائے انھیں جوڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ اور اسے وضع دار تنقید کہنا زیادہ مناسب ہے۔

وحید قریشی[ترمیم]

حلقہ اربابِ ذوق کی تنقید میں قطعیت کازاویہ وحید قریشی نے پیدا کیا۔ ان کی اساسی خوبی یہ ہے۔ کہ انھوں نے ادبی تنقید کی اخلاقیات مرتب کیں۔ اور صداقتِ اظہار اور استخراج مطالب میں اس ضابطہ پر سختی سے عمل کیا۔ وحید قریشی فن کومعاشرتی اور تاریخی ماحول سے علاحدہ نہیں کرتے۔ اور تخلیق کو کسی اور زاوے ے سے پرکھنے کی بجائے اسے مختلف پیمانوں سے جانچتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ تنقید کو ادبی عمل تصور کرتے ہیں۔ انھوں نے ادب کو پرستار کی حیثیت سے زیادہ دیکھا ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق میں ان کی تنقید آزادی اظہار اور جرات اور بے باکی کی ایک نہایت مضبوط آواز ہے۔

ریاض احمد[ترمیم]

ریاض احمد کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ انھوں نے ادبی تنقید کو سائنسی عمل بنا دیا۔ چنانچہ انھوں نے ہے ئت، اسلوب، جمال اور ذوق جمال جیسے مسائل کو عالمانہ انداز میں سلجھانے کی کوشش کی اور ترقی پسند نقطہ نظر کو ادب بنائے بغیر حلقے کے نقطہ نظر کو مثبت انداز میں ابھارا۔ نفسیات ریاض احمد کی تنقید کی امتیازی جہت ہے۔ انھوں نے زندگی کو ادب کا موضوع قرار دیا ہے۔ ریاض احمد جدید اردو تنقید میں توازن اور استدلال کی مثال ہیں۔ چنانچہ ان کے بیشتر تجزے ے خالصتاً علمی نوعیت کے ہیں۔ اور ان کے ہاں جانب داری کا شائبہ موجود نہیں۔

محمد حسن عسکری[ترمیم]

محمد حسن عسکری میں سوچ کی گمبھیر تا مطالعے کی وسعت اور نتائج کی ہمہ گیریت سب سے پہلے متاثر کرتی ہے۔ عسکری نے ادب میں غیر جانبداری کا اعلان کبھی نہیں کیا چنانچہ انھوں نے فن برائے فن کی برملا حمایت اور ترقی پسند تنقید اور ادب کی کھلی مخالفت کی اس نے یہ باور کرایا کہ فن نہ صرف حقیقت کو ہی پیش کرتا ہے۔ بلکہ آزادانہ عمل سے حقیقت کی تلاش بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اس نے حقیقت کی تلاش کو ایک انفرادی عمل قرار دیا اور فنکار کی پوری انسانیت کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے لکھا۔ کہ ”فنکار محض ایک آدمی نہیں ہوتا فنکارتو براہ راست زندگی کا آلہ کا ر ہوتا ہے۔“ میراجی اور عسکری کے نظریات تنقید ادب کے ایک ہی سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔ عسکری اردو تنقید کی فعال اور موثر آواز تھی۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ میراجی کے بعد حلقے میں فکر کی نئی رو محمد حسن عسکری نے داخل کی۔

ڈاکٹر وزیر آغا[ترمیم]

ڈاکٹر وزیر آغا نے ادبی موضوعات پر جزوی نظربھی ڈالی ہے اور انھیں ایک وسیع تناظر میں رکھ کر ایک بڑے ”کل “ کے ساتھ وابستہ بھی کیا ہے۔ موخرالذکر رجحان کے تحت ان کی کتاب اردو شاعری کا مزاج لکھی گئی اور اس میں اردو شاعری کی تین اصناف غزل، نظم اور گیت کامزاج دریافت کیا گیا۔ اور اوّل الذکر کے تحت وہ مضامین لکھے۔ جو ”تنقید اور احتساب“ ”نئے مقالات“ ”نظم جدید کی کروٹیں“”تنقید اور مجلسی تنقید “ اور ”نئے تناظر “ وغیرہ شامل ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے ڈاکٹر وزیر آغا ادب کو انسانی تہذیب و ثقافت کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ اور ان دونوں کو زندگی اور ادب کے ارتقاءکا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر وزیر آغا کے ارضی ثقافتی نظریہ ادب سے ایک نئی ادبی تحریک پیدا ہو گئی جس نے نہ صرف جدیدیت کے نقوش اجاگر کیے بلکہ نئی معنویت کو بھی فروغ دیا۔

جیلانی کامران[ترمیم]

جیلانی کامران نے مسلمانوں کی تہذیب کو نتقید کے نئے پس منظر کے طور پر خوبی سے استعمال کیا۔ انھوں نے معانی کی تلاش میں علامتی تناظر اور روحانی اقدار کو اہمیت دی۔ اور قدیم داستانوں رزم ناموں سی حرفیوں اور تلمیحات وغیرہ سے نئے معانی تلاش کیے۔

سجاد باقر رضوی[ترمیم]

سجاد باقر رضوی نے تنقید فکرکی رو ہند اسلامی تہذیب میں تلاش کی اور ادب کی تعبیر میں ان عناصر کو اہمیت دی جن سے نیا قومی طرز ِ احساس مرتب ہوتا ہے۔ سجاد کے نظرے ے کے مطابق فن ِ تنقید حیات اور زندگی تنقید فن ہے۔ اور یہ دنوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی تنقید میں اظہار کی قطعیت تو ملتی ہے لیکن انھوں نے کوئی ٹھوس تنقید نظریہ پیش نہیں کیا۔ اور وہ بالعموم حسن عسکری کی صدائے بازگشت ہی نظر آتے ہیں۔

انتظار حسین[ترمیم]

اردو تنقید میں تہذیبی رویے کی ایک اور اہم مثال انتظار حسین ہے۔ ان کے ہاں سیاسی نظریات کی شدت اور لہجے کی کاٹ دونوں موجود ہیں۔ تاہم وہ بالعموم رد عمل کی تنقید لکھتے ہیں۔ اس لیے ان کا ذاتی نقطہ نظر کچھ زیادہ ابھر نہیں سکا۔

مظفر علی سید[ترمیم]

حلقے کی تنقید میں شدید رد عمل کی مثال مظفر علی سید کی صورت میں نمایاں ہوئی۔ ان کی تنقید محبت اور نفرت کے متضاد راستوں پر سفر کرتی ہے۔ چنانچہ مظفر علی سید نے حلقہ اربابِ ذوق کے دفاع کافریضہ سر انجام دیا اور اپنے دو ٹوک لہجے سے اہل ادب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ یہ عمل چونکہ منفی تھا اور اس کا کوئی مناسب نتیجہ برآمد نہ ہو سکا اس لیے مظفر علی سید بہت جلد تھک کر ادب کے میدان سے روپوش ہو گئے ۔
حلقہ اربابِ ذوق کی تنقید ایک اہم زوایہ ”مجلسی تنقید “ ہے۔ جسے حلقے کی ہفتہ وار مجالس کی بدولت فروغ حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کی تنقید میں ناقد کے سامنے حوالے کی کتب موجود نہیں ہوتی اور زیادہ تر قوت حافظہ کے بل بوتے پر ہی تنقید کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ تنقید خواہ مجلسی ہو یا غیر مجلسی اس کا مقصد فن پارے کے حسن و قبح کا جائزہ اور اس کی جمالیاتی قدرو قیمت کا تعین ہی ہوتا ہے۔ حلقے کی اس عطا سے انکار ممکن نہیں کہ اس نے جہاں میراجی، محمد حسن عسکری، ریاض احمداور وزیر آغا جیسے ناقدین پیدا کیے وہاں شاد امرتسری، عزیز الحق، عارف اعوان، سعادت سعید، آزاد کوثری، خالد احمد، سراج منیر اور یوسف کامران جیسے مجلسی نقادوں کو بھی روشنا س کرایا۔ حلقہ ارباب ذوق میں ان نقادوں نے دو سو سے زاید تنقیدی مضامین پیش کیے۔

سعادت سعید[ترمیم]

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Saadat_Saeed سعادت سعید کے پانچ تنقیدی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں نظریہ ساز نقاد کی حیثیت حاصل ہے۔ سعادت سعید دیگر کئی نقادوں کی طرح اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ وہ ہر نئے مسئلے پر خیالات کی ترتیب بھی کر سکتے ہیں اورفوری رائے کے اظہار اور منہ زبانی تنقید میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انھوں نے معاصر اردو فکشن، نئی شاعری اور ثقافتی مسائل کے سیاق و سباق میں نظریہ سازی کی۔ اردو میں صارف معاشرے کے ادبی اثرات پر ان کے مضامین کئی رسائل و جرائد کی زینت بنے ہیں۔ ان کی تنقیدی زبان نئی ادبی اصطلاحوں سے معمور ہے۔ ان کے اسلوب کے اثرات اردو میں لکھی جانے والی نئی نسل کی تنقیدی زبان پر موجود ہیں۔ وہ افتخار جالب اور عزیز الحق جیسے نئے نقادوں کے تربیت یافتہ نقاد ہیں۔ وہ روشن خیال ترقی پسند نقاد ہیں (saadatsaeed.ca)حلقہ اربابِ ذوق نے تنقید کے صحت مندانہ انداز کو ابھارنے میں قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں اور اردو ادب کے ارتقاءکو تیز کرنے میں اس کی خدمات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

مجموعی جائزہ[ترمیم]

حلقے نے اپنے عہد کی مضبوط ترقی پسند تحریک کے خلاف نظریاتی محاربے کی شدید فضا بھی پیدا کی تاہم حلقے نے سیاست گری کی بجائے سیاست کے اثرات کو ادب کا موضوع بنایا۔ اور کئی ایسی تخلیقات پیش کیں جن کی پیش قدمی مستقبل کی طرف تھی اور ان میں اپنے عہد کا سماجی شعور بھی موجود تھا۔ ان زاویوں سے دیکھیے تو حلقہ اربابِ ذوق کی تخلیقی جہت نیم کلاسیکی اور نیم رومانی ہے اور یہ اتنی لچک دار ہے کہ اس میں مختلف نظریات باآسانی سما جاتے ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق تاحال ایک زندہ تحریک ہے اس کی تقسیم نے اس کے مرکزی کردار مزاج اور تخلیقی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ تاہم ایک مضبوط پلیٹ فارم کی موجوگی نے اس کی عملی زندگی کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی یہ فیصلے کرنا ممکن نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
بقولاحمد ندیم قاسمی
” حلقہ ارباب ذوق آغاز میں تو صرف ایک شہر اوروہاں کے چند اہل فہم تک محدود تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے ایک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔“
بقول ڈاکٹر تاثیر :
”حلقہ اربابِ ذوق نے برسوں مسلسل انتھک کام سے ثابت کر دیا ہے کہ ادبی دائرہ میں ادبی اقدار کا احترام یہیں کیا جاتا ہے۔“
بقول قیوم نظر:
” ابتدا میں اس انجمن کی روش عام ادبی انجمنوں کی سی تھی لیکن جب اس میں باقاعدہ ”نقد و نظر“ کا آغاز ہوا اور تنقید کے جدید اصول حلقے کی ادبی محفلوں کے سامعین کے سامنے آئے تو حلقہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگا۔“