ادریس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ادریس علیہ السلام سے رجوع مکرر)

 مکمل

پیغمبر
ادریس
(عربی میں: إدريس ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش بابل,عراق [ا]
والد یارد   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ نبی ،  ریاضی دان ،  ماہر فلکیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قرآن مجید کی دو سورتوں میں آپ کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ مریم کی آیت 55 میں خدا نے آپ کو سچا نبی کہا ہے۔ سورہ الانبیا آیت 86،85 میں اسماعیل علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ سلام کے ساتھ آپ کو بھی صبر والا اور نیک بخت کہا گیا ہے۔ بائبل کے مطابق آپ کا نام ضوک تھا اور آپ یارد کے بیٹے تھے۔ آپ نے 365 برس کی عمر پائی اور پھر مع جسم خاکی آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ حضرت ادریس کی شخصیت، زمانے اور وطن کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔

خاندان و نسب[ترمیم]

آپؑ حضرت شیث کے بیٹے انوش کی نسل میں سے ہیں۔ آپ کے والد کا نام یارد اور والدہ کا نام برکانہ تھا۔ آپ کی بیوی کا نام عادنہ تھا۔ آپ کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا نام متوشالخ تھا۔ ادریسؑ حضرت نوحؑ کے پردادا بھی ہیں۔

سلسلۂ نسب[ترمیم]

آپ کا نسب یہ ہے :-

" ادریس [ حنوک ] بن یارد بن مہلل ایل بن قینان بن انوس بن شیث(ع) بن آدم(علیہ السلام)۔[1]

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت عراق کے شہر بابل میں ہوئی۔

دورِ نبوت[ترمیم]

آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لائے آپ سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام نبوت کے منسب پر سرفراز تھے نبوت ملنے سے پہلے آپ شیث(ع) کے دین کو مانتے تھے آپؑ پر30 صحیفے نازل ہوئے۔ آپ کے دور میں انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گر گئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے لگے تھے۔ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا اور ادب و علم بھی سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ لوگ اپ پر ایمان لائے اس پر آپ نہایت تنگ اکر خود اور جو ایمان لائے انھیں لے کر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر اپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا:- اے اللہ کے نبی ادریس اگر ہم نے بابل کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس(ع) نے فرمایا:- 'اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔ 'آخرکار آپ مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا۔ پھر آپ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے تھے بابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ جنگ کی اور فتح یاب ہوئے اور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا۔

ادریس نام کا مطلب[ترمیم]

آپ کا اصل نام اخنوح یا حنوک تھا آپ کا لقب ادریس ہے آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کیونکہ دنیا میں آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو لکھنے پڑھنے کا درس دیا اسی بنا پر لوگ آپ کو ادریس یعنی درس دینے والا کہہ کر پکارنے لگے۔

قرآن میں ذکر[ترمیم]

قرآن مجید میں آپ کا ذکر دو مرتبہ آیا ہے۔ پہلا ذکر سورہ الانبیاء آیت 85 اور دوسرا سورہ مریم آیت 56-57 میں آیا ہے۔

  • وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ
  • ترجمہ:
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو، یہ سب صبر کرنے والے تھے۔[2]
  • وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا(56)وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا(57)
  • ترجمہ:
اور کتاب میں ادریس کا ذکر کر، بے شک وہ سچا نبی تھا۔اور ہم نے اسے بلند مرتبہ پر پہنچایا۔[3]

حلیہ[ترمیم]

چند بزرگان دین نے آپ کا حلیہ بیان کیا ہے وہ درج ہے

  1. عمدہ اوصاف۔
  2. پورا قد و قامت۔
  3. خوبصورت۔
  4. خوبرو۔
  5. گھنی داڑھی۔
  6. چوڑے کندھے۔
  7. مضبوط ہڈیاں۔
  8. دبلے پتلے۔
  9. سنجیدہ۔
  10. سرمگی چمکدار آنکھیں۔
  11. گفتگو باوقار۔
  12. خاموشی پسند۔
  13. رستہ چلتے ہوئے نظر نیچے۔
  14. غصے میں غضب ناک
  15. بات کرتے ہوئے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے عادی۔

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات سے کچھ دیر پہلے اللہ نے اپ سے فرمایا کہ اب سے اپ جتنی دیر زندہ رہیں گے دنیا میں جتنے انسان بھی کوئی نیکی کریں گے ان کا آدھا ثواب اپ کو جائے گا اس پر آپ بے حد خوش ہوئے۔ اتنے میں ایک فرشتے نے آپ کو آکر خبر دی کہ عزرائیل آپ کی روح قبض کرنے آ رہے ہیں جس پر اپ حیران ہو گئے اور اس فرشتے کے پروں پر بیٹھ کر اللہ سے ملنے چل پڑے آپ نے پہلا، دوسرا اور تیسرا آسمان پار کر لیا اور جب چوتھے آسمان پر پہنچے تو وہاں آپ کو عزرائیل ملے۔ آپ نے اپنے اللہ سے اور زندگی مانگی جس پر اللہ نے نہ کہا پھر آپ اتنی زندگی پر ہی راضی ہو گئے اور پھر عزرائیل نے آپ سے آپ کی روح قبض کرنے کی اجازت لی ادریس(علیہ السلام) نے عزرائیل کو اجازت نہ دیتے ہوئے اللہ سے دعا کی کہ اپ کی روح عزرائیل کی بجائے اللہ خود قبض کرے پھر اللہ نے خود ادریسؑ کی روح قبض کی اور اپ کی خواہش پوری کی۔ [حوالہ درکار] آپ نے 365 سال کی عمر پائی۔

حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں[ترمیم]

قرآن عزیز میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ‘سورة مریم میں اور سورة انبیا میں :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۔ وَّ رَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ۔ } [4] ” اور یاد کر قرآن میں ادریس کو ‘ بلاشبہ وہ تھے سچے نبی اور بلند کیا ہم نے ان کا مقام۔ “
{ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ } [5] ” اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل ان میں سے ہر ایک تھا صبر کرنے والا۔ “

نام و نسب اور زمانہ[ترمیم]

حضرت ادریس (علیہ السلام) کے نام ‘نسب اور زمانہ کے متعلق مورخین میں سخت اختلاف ہے اور تمام اختلافی وجوہ کو سامنے رکھنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ کن یا کم از کم راجح رائے نہیں قائم کی جا سکتی ‘وجہ یہ ہے کہ قرآن عزیز نے تو اپنے مقصد رشد و ہدایت کے پیش نظر تاریخی بحث سے جدا ہو کر صرف ان کی نبوت ‘رفعت مرتبت اور ان کی صفات عالیہ کا ذکر کیا ہے اور اسی طرح حدیثی روایات بھی اس سے آگے نہیں جاتیں ‘اس لیے اس سلسلہ میں جو کچھ بھی ہے وہ اسرائیلی روایات ہیں اور وہ بھی تضاد و اختلاف سے معمور ‘ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نوح (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں ‘اور ان کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب ہے یا عربی زبان میں ادریس اور عبرانی یا سریانی میں ان کا نام اخنوخ ہے اور ان کا نسب نامہ یہ ہے :
خنوخ یا اخنوخ (ادریسؑ) بن یرد بن مہلائیل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم ((علیہ السلام))
ابن اسحاق ؒ کا رجحان اسی جانب ہے اور دوسری جماعت کا خیال ہے کہ وہ انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں اور الیاس وا دریس ایک ہی ہستی کے نام اور لقب ہیں۔ ان دونوں روایات کے پیش نظر بعض علما نے یہ تطبیق دینے کی سعی کی ہے کہ جد نوح (علیہ السلام) کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب اور بنی اسرائیل کے پیغمبر کا نام ادریس ہے۔ اور الیاس لقب ‘ مگر یہ رائے بے سند اور بے دلیل ہے ‘بلکہ قرآن عزیز کا الیاس اور ادریس کو جداجدا بیان کرنا شاید اس کو متحمل نہ ہو سکے۔
صحیح ابن حبان میں روایت ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں۔جنھوں نے قلم استعمال کیا ‘ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے رمل کے خطوط کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ علم ایک نبی کو دیا گیا تھا ‘پس اگر کسی شخص کے نقوش اس کے مطابق آجاتے ہیں تو نشانہ صحیح بیٹھ جاتا ہے ورنہ نہیں۔ حافظ عمادالدین ابن کثیرؒ ان روایات کے ساتھ یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ بہت سے علمائے تفسیر و احکام کا یہ خیال ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے رمل کے کلمات ادا کیے ؎ اور وہ ان کو ” ہر مس الہرامسہ “ ؎ کالقب دیتے ہیں اور ان کی جانب بہت سی غلط باتیں اسی طرح منسوب کرتے ہیں۔جس طرح ان کے علاوہ بہت سے انبیا ‘ علما ‘حکماء اور اولیاء اللہ کے متعلق منسوب کی گئی ہیں۔معراج کی صحیحین ٤ ؎ والی حدیث میں صرف اسی قدر ذکر ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ادریس (علیہ السلام) سے چوتھے آسمان پر ملاقات کی۔
مگر مشہور مفسر ابن جریر طبریؒ نے اپنی تفسیر میں ہلال بن یساف کی سند سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کعب احبار سے دریافت کیا کہ حضرت ادریسؒ سے متعلق اس آیت { وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا } کا کیا مطلب ہے ؟ تو کعب ؓ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس (علیہ السلام) پر ایک مرتبہ یہ وحی نازل فرمائی اے ادریس۔تمام اہل دنیا جس قدر روزانہ نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر میں تجھ کو ہر دن اجر عطا کروں گا۔حضرت ادریس (علیہ السلام) نے یہ سنا تو ان کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے اعمال میں روزافزوں اضافہ ہو ‘اور اس لیے عمر کا حصہ طویل ہوجائے تو اچھا ہے ‘انھوں نے وحی الٰہی اور اپنے اس خیال کو ایک رفیق فرشتہ پر ظاہر کرکے کہا کہ اس معاملہ میں فرشتہ موت سے گفتگو کرو تاکہ مجھ کو نیک اعمال کے اضافہ کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے ‘اس فرشتہ نے جب یہ سنا تو حضرت ادریس (علیہ السلام) کو اپنے بازؤوں پر بٹھا کرلے اڑا ‘جب یہ چوتھے آسمان سے گذر رہے تھے تو فرشتہ موت زمین کے لیے اتر رہا تھا ‘ وہیں دونوں کی ملاقات ہو گئی ‘دوست فرشتہ نے فرشتہ موت سے حضرت ادریس کے معاملہ کے متعلق گفتگو کی ‘فرشتہ موت نے دریافت کیا : ادریس ہیں کہاں ؟ اس نے کہا میری پشت پر سوار ہیں ‘ فرشتہ موت کہنے لگا درگاہ الٰہی سے یہ حکم ہوا ہے کہ ادریس (علیہ السلام) کی روح چوتھے آسمان پر قبض کروں ‘اس لیے میں سخت حیرت و تعجب میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ ادریس (علیہ السلام) زمین میں ہیں ‘ اسی وقت فرشتہ موت نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کی روح قبض کرلی۔
یہ واقعہ نقل کرکے کعب احبار نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد
{ وَ رَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا } [6] کی یہی تفسیر ہے ‘ ابن جریر کی طرح ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اسی قسم کی روایت نقل کی ہے۔ ان ہر دو نقول کو روایت کرنے کے بعد حافظ عماد الدین ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ سب اسرائیلی خرافات ہیں اور ان میں روایتی اعتبار سے بھی ”نکارت “ یعنی ناقابل اعتبار اچنبھا ہے ‘اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے جو آیت کے ترجمہ میں بیان کی گئی ۔
امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے یہ منقول ہے کہ الیاس نبی کا نام ہی ادریسؑ ہے ١ ؎ اور ان کے اس قول کی وجہ حضرت انس ؓ کی وہ روایت ہے۔جو زہری نے معراج کے سلسلہ میں بیان کی ہے۔ اس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیا (علیہم السلام) کی آسمان پر ملاقات کا جو ذکر ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جب آپ کی ملاقات حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایا ” مرحبا بالاخ الصّالح “ ٢(برادرِ نیک تمھارا آنا مبارک) پس اگر حضرت ادریسؑ ‘اخنوخ ہوتے تو حضرت آدمؑ و حضرت ابراہیمؑ کی طرح ” بالابن الصالح “کہتے یعنی نیک بھائی کی جگہ ” نیک بیٹے “ کے ساتھ خطاب کرتے۔ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ یہ دلیل کمزور ہے اس لیے کہ اوّل تو یہ امکان ہے کہ اس طویل حدیث میں راوی الفاظ کی پوری حفاظت نہ کر سکاہو ‘دوم یہ ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلالت ِ قدر اور رفعت مرتبت کے پیش نظر انھوں نے پدری انتساب کو نمایاں نہ کیا ہو اور ازراہ تواضع برادرانہ حیثیت کو ہی ظاہر کرنا مناسب سمجھا ہو۔
رہا حضرت آدم و حضرت ابراہیم (علیہا السلام) کا معاملہ ‘ سو ایک ابو البشر ہیں اور دوسرے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سب سے زیادہ جلیل القدر اور رفیع الشان پیغمبر جن کے متعلق قرآن عزیز نے کہا ہے۔ { فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا } [7] لہٰذا ان کا ” ابن “ کے ساتھ خطاب کرنا ہر طرح موزوں اور برمحل ہے۔ ابن کثیرؒ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے قبل کے نبی نہیں ہیں بلکہ انبیائے بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ہیں ‘اور الیاس ہی ادریسؑ ہیں۔ تورات میں ان مقدس نبی کے متعلق صرف اسی قدر لکھا ہے :
” اور حنوک (اخنوخ) پینسٹھ برس کا ہوا کہ اس سے متوشلح پیدا ہوا اور متوشلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ‘اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور حنوک کی ساری عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی۔اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ‘اور غائب ہو گیا ‘اس لیے کہ خدا نے اسے لے لیا۔ “ [8]

حضرت ادریس (علیہ السلام) حکماء اور فلاسفہ کی نظر میں[ترمیم]

علامہ جمال الدین قطفیؒ نے تاریخ الحکماء ٣ ؎ میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے ‘حضرت ادریس (علیہ السلام) کے متعلق علمائے تفسیر اور ارباب تاریخ و قصص نے جو کچھ بیان کیا ہے ۔ وہ بہت مشہور ہے ‘ اس لیے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ‘البتہ حکماء اور فلاسفہ نے خصوصیت کے ساتھ ان کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ پیش کیا جاتا ہے :
حضرت ادریس (علیہ السلام) کا مولدومنشاء (جائے ولادت و پرورش) کہاں ہے ‘ اور انھوں نے نبوت سے پہلے کس سے علم حاصل کیا ؟ حکماء اور فلاسفہ کے اقوال ان مسائل میں مختلف ہیں۔ ایک فرقہ کی رائے ہے کہ ان کا نام ہر مس الہرامسہ ہے اور مصر کے قریہ منف میں پیدا ہوئے ‘یونانی ہر مس کو ارمیس کہتے ہیں ‘ارمیس کے معنی عطارد ١ ؎ کے ہیں۔( ؎ ارمیس یا ہر میس یونان کا ایک مشہورمنجم اور ماہر فلکیات حکیم تھا اسی لیے اس کو ارمیس (عطارد) کہتے تھے یونانی غلطی سے ادریس اور ارمیس کو ایک ہی شخص تسلیم کرتے ہیں حالانکہ یہ ایسی فاش غلطی ہے جس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ )
اور دوسری جماعت کا خیال ہے کہ ان کا نام یونانی میں طرمیس ‘عبرانی میں خنوخ اور عربی میں اخنوخ ہے ‘اور قرآن عزیز میں ان کو اللہ تعالیٰ نے ادریس کہا ہے۔ یہی جماعت کہتی ہے کہ ان کے استاذ کا نام غوثاذیمون یا الغوثاذیمون (مصری) ہے ‘وہ غوثاذیمون کے متعلق اس سے زیادہ اور کچھ نہیں بتاتے کہ وہ یونان یا مصر کے انبیا میں سے ایک نبی ہیں ‘اور یہ جماعت ان کو اور ین دوم اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کو اور ین سوم کا لقب دیتی ہے ‘ اور غوثاذیمون کے معنی ” سعد اور بہت نیک بخت “ ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہرمس نے مصر سے نکل کر اقطاع عالم کی سیر کی ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہرمس نے مصر سے نکل کر اقطاع عالم کی سیر کی اور تمام دنیاکو چھان ڈالا اور جب مصر واپس ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بیاسی سال کی عمر میں اپنی جانب اٹھا لیا۔
ایک تیسری جماعت یہ کہتی ہے کہ ادریس بابل میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو و نما پائی ‘اور اوائل عمر میں انھوں نے حضرت شیث بن آدم (علیہا السلام) سے علم حاصل کیا ‘علم کلام کے مشہور عالم علامہ شہرستانی کہتے ہیں کہ اغثاذیمون حضرت شیث (علیہ السلام) ہی کا نام ہے۔ بہرحال جب حضرت ادریس (علیہ السلام) سن شعور کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا ‘تب انھوں نے شریر اور مفسدوں کو راہ ہدایت کی تبلیغ شروع کی۔مگر مفسدوں نے ان کی ایک نہ سنی اور حضرت آدم (علیہ السلام) و شیث کی شریعت کے مخالف ہی رہے ‘البتہ ایک چھوٹی سی جماعت ضرور مشرف باسلام ہو گئی۔
حضرت ادریس (علیہ السلام) نے جب یہ رنگ دیکھا تو وہاں سے ہجرت کا ارادہ کیا اور اپنے پیرؤوں کو بھی ہجرت کی تلقین فرمائی ‘پیروانِ ادریس (علیہ السلام) نے جب یہ سنا تو ان کو ترک وطن بہت شاق گذرا اور کہنے لگے کہ بابل ٢ ؎( ؎ بابل کے معنی نہر کے ہیں اور چونکہ بابل دجلہ و فرات کی نہروں سے سرسبز و شاداب تھا اس لیے اس نام سے موسوم ہوا ‘یہ عراق کا مشہور شہر تھا جو فنا ہو گیا۔) جیسا وطن ہم کو کہاں نصیب ہو سکتا ہے۔حضرت ادریس (علیہ السلام) نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم یہ تکلیف اللہ کی راہ میں اٹھاتے ہو تو اس کی رحمت وسیع ہے اور وہ اس کا نعم البدل ضرور عطا کرے گی ‘پس ہمت نہ ہارو اور خدا کے حکم کے سامنے سر نیاز جھکا دو۔
مسلمانوں کی رضامندی کے بعد حضرت ادریس (علیہ السلام) اور ان کی جماعت مصر کی جانب ہجرت کرگئی۔جماعت نے جب نیل کی روانی اور اس کی سر زمین کی شادابی دیکھی تو بہت خوش ہوئی ‘اور حضرت ادریس (علیہ السلام) نے یہ دیکھ کر اپنی جماعت سے فرمایا ” بابلیون “ ٣(بابلیون کے معنی میں مختلف اقوال ہیں ‘مثلاً تمھاری طرح کی نہر ‘ مبارک نہر ‘مگر سب سے بہتر قول یہ ہے کہ ” یون “ سریانی میں تفضیل کی علامت ہے اور معنی ہیں ” بڑی نہر “ ) (تمھارے بابل کی طرح شاداب مقام) اور ایک بہترین جگہ منتخب کرکے نیل کے کنارے بس گئے حضرت ادریس کے اس جملہ ” بابلیون “نے ایسی شہر ت پائی کہ عرب کے علاوہ قدیم اقوام اس سر زمین کو بابلیون ہی کہنے لگیں ‘البتہ عرب نے اس کا نام مصر بتایا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ سنائی کہ طوفانِ نوح کے بعد یہ مصر بن حام کی نسل کا مسکن و موطن بنا ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) اور ان کی پیرو جماعت نے جب مصر میں سکونت اختیار کرلی تو یہاں بھی انھوں نے پیغام الٰہی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا شروع کر دیا کہا جاتا ہے کہ ان کے زمانہ میں بہتر (٧٢) زبانیں بولی جاتی تھیں ‘اور خدائے تعالیٰ کی عطاء و بخشش سے یہ وقت کی تمام زبانوں کے زباں داں تھے ‘اور ہر ایک جماعت کو اسی کی زبان میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔
حضرت ادریس (علیہ السلام) نے دین الٰہی کے پیغام کے علاوہ سیاست مدن ‘شہری زندگی اور بودوماند کے متمدن طریقوں کی بھی تعلیم و تلقین کی اور اس کے لیے انھوں نے ہر ایک فرقہ و جماعت سے طلبہ جمع کیے اور ان کو مدنی سیاست اور اس کے اصول و قواعد سکھائے۔جب یہ طلبہ کامل وماہر بن کر اپنے قبائل کی طرف لوٹے تو انھوں نے شہر اور بستیاں آباد کیں جن کو مدنی اصول پر بسایا ‘ان شہروں کی تعداد کم و بیش دو صد کے قریب تھی ‘جن میں سب سے چھوٹا شہر ” رُہا “ تھا ‘ ١ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے ان طلبہ کو دوسرے علوم کی بھی تعلیم دی جس میں علم حکمت اور علم نجوم جیسے علوم بھی شامل ہیں۔
حضرت ادریس (علیہ السلام) پہلی ہستی ہیں جنھوں نے علم حکمت و نجوم کی ابتدا کی ‘اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو افلاک اور ان کی ترکیب ‘کواکب اور ان کے اجتماع و افتراق کے نکات اور ان کے باہم کشش کے رموز و اسرار کی تعلیم دی اور ان کو علم عدد و حساب کا عالم بنایا ‘ اور اگر اس پیغمبر خدا کے ذریعہ ان علوم کا اکتشاف نہ ہوتا تو انسانی طبائع کی وہاں تک رسائی مشکل تھی ‘انھوں نے مختلف گروہوں اور امتوں کے لیے ان کے مناسب حال قوانین و قواعد مقرر فرمائے۔اور اقطاع عالم کو چار حصوں میں منقسم کرکے ہر ربع کے لیے ایک حاکم مقرر کیا جو اس حصہ زمین کی سیاست و ملوکیت کا ذمہ دار قرار پایا ‘اور ان چاروں کے لیے ضروری قرار دیا کہ تمام قوانین سے مقدم شریعت کا وہ قانون رہے گا۔جس کی تعلیم وحی الٰہی کے ذریعے میں نے تم کو دی ہے ‘اس سلسلہ کے سب سے پہلے چار بادشاہوں کے نام حسب ذیل ہیں :
ایلاوس (بمعنی رحیم)
۔ زوسِ
" اسقلبیوس
زوس امون یا ایلاوس امون یا بسیلوخس

حضرت ادریس (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ[ترمیم]

خدا کی ہستی اور اس کی توحید پر ایمان لانا ‘صرف خالق کائنات کی پرستش کرنا ‘آخرت کے عذاب سے رستگاری کے لیے اعمالِ صالحہ کو ڈھال بنانا ‘دنیا سے بے التفاتی اور تمام امور میں عدل و انصاف کو پیش نظر رکھنا ‘اور مقررہ طریقہ پر عبادت الٰہی ادا کرنا ‘اور ایام بیض کے روزے رکھنا ‘ ٢ ؎ دشمنانِ اسلام سے جہاد کرنا ‘ زکوۃ ادا کرنا ‘ طہارت و نظافت سے رہنا ‘خصوصیت کے ساتھ جنابت ‘ کتے اور سور سے اجتناب کرنا ‘ہر نشہ آور شے سے پرہیز کرنا ان کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ انھوں نے اپنے پیرؤوں کے لیے بحکم الٰہی سال میں چند دن عید کے مقرر فرمائے اور چند مخصوص اوقات میں نذر اور قربانی دینا فرض قرار دیا ‘ان میں سے بعض رویت ہلال پر ادا کی جاتی تھیں۔اور بعض اس وقت جبکہ سورج کسی برج میں داخل ہونے لگا ہو ‘اور بعض جگہ سیارے اپنے بیوت و برج شرف میں داخل ہوں اور بعض سیارے بعض سیاروں کے مقابل آجائیں۔

نذر الٰہی کے طریقے[ترمیم]

اللہ تعالیٰ کے سامنے نذروقربانی پیش کرنے کے لیے ان کے یہاں تین چیزیں اہمیت رکھتی تھیں ‘خوشبوؤں کی دھونی ‘ جانوروں کی قربانی اور شراب ٣ ؎ اور ان کے علاوہ میووں پھلوں اور پھولوں وغیرہ میں سے موسم کی پہلی چیز کی نذر ضروری تھی ‘اور میووں میں سے سیب کو ‘اناج میں سے گیہوں کو ‘ اور پھولوں میں سے گلاب کو ترجیح حاصل تھی۔

بعد میں آنے والے نبیوں کے متعلق بشارت[ترمیم]

حضرت ادریس (علیہ السلام) نے اپنی امت کو یہ بھی بتایا کہ میری طرح اس عالم کی دینی و دُنیوی اصلاح کے لیے بہت سے انبیا (علیہم السلام) تشریف لائیں گے اور ان کی نمایاں خصوصیات یہ ہوں گی :
وہ ہر ایک بُری بات سے بَری اور پاک ہوں گے۔قابل ستائش اور فضائل میں کامل ہوں گے ‘زمین و آسمان کے احوال سے اور ان امور سے کہ جن میں کائنات کے لیے شفا ہے یا مرض ‘وحی الٰہی کے ذریعہ اس طرح واقف ہوں گے کہ کوئی سائل تشنہ کام نہ رہے گا ‘وہ مستجاب الدعوات ہوں گے اور ان کے مذہب کی دعوت کا خلاصہ اصلاح کائنات ہوگا۔

حضرت ادریس (علیہ السلام) کی خلافت ِ ارضی[ترمیم]

جب حضرت ادریس (علیہ السلام) خدا کی زمین کے مالک بنا دیے گئے۔ تو انھوں نے علم و عمل کے اعتبار سے اللہ کی مخلوق کو تین طبقات میں تقسیم کر دیا :
کاہن ‘ بادشاہ اور رعیت اور حسب ترتیب ان کے مراتب مقرر فرمائے ‘کاہن سب سے پہلا اور بلند درجہ قرار پایا ‘اس لیے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے سامنے اپنے نفس کے علاوہ بادشاہ اور رعیت کے معاملات میں بھی جو اب دہ ہے اور بادشاہ کا دوسرا درجہ رکھا گیا ‘اس لیے کہ وہ اپنے نفس اور امور مملکت کے متعلق جو اب دہ ہے اور رعیت صرف اپنے نفس ہی کے لیے جواب دہ ہے ‘ اس لیے وہ تیسرے طبقہ میں شامل ہے ‘لیکن یہ طبقات فرائض کے اعتبار سے تھے نہ کہ نسل و خاندان کے امتیازات کے لحاظ سے ‘بہرحال حضرت ادریس (علیہ السلام) ”رفع الی اللّٰہ “ تک انہی قوانین شریعت و سیاست کی تبلیغ فرماتے رہے۔ مذکورہ بالا چار بادشاہوں میں اسقلبیوس بہت پختہ عزم و ارادہ کا بادشاہ تھا ‘اس نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کے کلمات کی حفاظت اور قوانین شریعت کی نگہداشت خوب کی اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کے اٹھا لیے جانے پر بے حد حزن و ملال کا اظہار کیا اور ہیکلوں میں ان کی اور ان کے رفع کی حالت کی تصاویر بنوائیں۔
اسقلبیوس اس خطہ پر حکومت کرتا تھا۔جو طوفانِ نوح کے بعد خطہ یونان کہلایا۔یونانیوں نے طوفان کی تباہ کاریوں سے بچے ہوئے ٹوٹے پھوٹے ہیکلوں میں جب حضرت ادریس (علیہ السلام) کے مجسمہ اور ان کے رفع کی تصویر کو دیکھا اور ساتھ ہی اسقلبیوس کی عظمت اور ہیکلوں میں حکمت و فلسفہ کی تدوین کا شہرہ سنا تو ان کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ اسقلبیوس ہی وہ ہستی ہے جس کا رفع ہوا ‘حالانکہ یہ صریح غلطی ہے جو محض اٹکل وتخمین سے انھوں نے اختیار کی۔

حضرت ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ[ترمیم]

حضرت ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ یہ ہے ‘گندم گوں رنگ ‘ پورا قدوقامت ‘سر پر بال کم ‘ خوبصورت و خوبرو ‘ گھنی داڑھی ‘رنگ و روپ اور چہرہ کے خطوط میں ملاحت ‘مضبوط بازو ‘ چوڑے کاندھے ‘مضبوط ہڈی ‘ دُبلے پتلے ‘ سرمگیں چمک دار آنکھیں ‘گفتگو باوقار ‘ خاموشی پسند ‘ سنجیدہ اور متین ‘چلتے ہوئے نیچی نظر ‘ انتہائی فکر و خوض کے عادی ‘غصہ کے وقت سخت غضب ناک ‘باتیں کرنے میں شہادت کی انگلی سے باربار اشارہ کے عادی۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے بیاسی سال کی عمر پائی۔
ان کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی :
( (اَلصَّبْرُ مَعَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ یُوْرِثُ الظَّفْرَ )) ” اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ صبر فتح مندی کا باعث ہے۔ “
اور کمر سے باندھنے والے پٹکے پر یہ تحریر تھا :
( (اَلْاَعْیَادُ فِی حِفْظِ الْفُرُوْضِ وَالشَّرِیْعَۃِ مِنْ تَمَامِ الدِّیْنِ وَ تَمَامُ الدِّیْنِ کَمَالُ الْمُرُوَّۃِ ) ) ” حقیقی عیدیں اللہ کے فرائض کی حفاظت میں پوشیدہ ہیں اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے اور مروّت میں کمال دین کی تکمیل ہے۔ “
اور نماز جنازہ کے وقت جو پٹکا باندھتے اس پر حسب ذیل جملے ثبت ہوتے :
( (اَلسَّعِیْدُ مَنْ نَظَرَ لِنَفْسِہٖ وَ شَفَاعَتُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ اَعْمَالُہُ الصَّالِحَۃُ ) ) ” سعادت مند وہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرے اور پروردگار کے سامنے انسان کے شفیع اس کے اپنے نیک اعمال ہیں۔ “
حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بہت سے پند و نصائح اور آداب و اخلاق کے جملے مشہور ہیں جو مختلف زبانوں میں ضرب المثل اور رموزو اسرار کی طرح مستعمل ہیں ‘ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
خدا کی بیکراں نعمتوں کا شکریہ انسانی طاقت سے باہر ہے۔ جو علم میں کمال اور عمل صالح کا خواہش مند ہو اس کو جہالت کے اسباب اور بدکرداری کے قریب بھی نہ جانا چاہیے ‘کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہر فن مولاکاریگر اگر سینے کا ارادہ کرتا ہے تو سوئی ہاتھ میں لیتا ہے نہ کہ برما ‘ پس ہر وقت یہ پیش نظر رہے :
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
" دنیا کی بھلائی ” حسرت “ ہے اور برائی ” ندامت “
خدا کی یاد اور عمل صالح کے لیے خلوص نیت شرط ہے۔ نہ جھوٹی قسمیں کھاؤ ‘نہ اللہ تعالیٰ کے نام کو قسم کے لیے تختہ مشق بناؤ اور نہ جھوٹوں کو قسمیں کھانے پر آمادہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تم بھی شریک گناہ ہو جاؤ گے۔
ذلیل پیشوں کو اختیار نہ کرو (جیسی سینگی لگانا ‘ جانوروں کے جفتی کرانے پر اجرت لینا وغیرہ)۔ اپنے بادشاہوں کی ( جو پیغمبر کی جانب سے احکام شریعت کے نفاذ کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں) اطاعت کرو اور اپنے بڑوں کے سامنے پست رہو ‘اور ہر وقت حمد الٰہی میں اپنی زبان کو تر رکھو۔ حکمت روح کی زندگی ہے۔ ( دوسروں کی خوش عیشی پر حسد نہ کرو اس لیے کہ ان کی یہ مسرور زندگی چند روزہ ہے۔) جو ضروریاتِ زندگی سے زیادہ کا طالب ہوا ‘ وہ کبھی قانع نہ رہا۔ [9] تاریخ الحکماء کے ج ١ ص ٣٤٨ پر ہر مس ثالث کے تذکرہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ علما کی ایک جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ طوفانِ نوح سے قبل دنیا میں جس قدر علوم شائع ہوئے۔ان سب کے معلم اوّل یہی ہر مس اوّل ہیں جو مصر کے حصہ اعلیٰ کے باشندہ تھے اور عبرانی حضرات ان کو خنوخ نبی مانتے ہیں اور جو اپنے نسب میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے پڑپوتے ہیں۔ یعنی خنوخ (ادریس) یردبن مہلائیل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام) ۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فلسفہ کی کتابوں میں جن علمی جواہر اور حرکات نجوم کا تذکرہ آیا ہے۔سب سے پہلے ان کا ذکر ان ہی کی زبان سے ہوا ہے ‘اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیکلوں کی تعمیر ‘علم طب کی ایجاد ‘ ارضی و سماوی اشیاء کے متعلق موزوں قصائد کے ذریعہ اظہار خیال بھی ان ہی کی اوّلیات میں سے ہیں ‘اور انھوں نے ہی سب سے پہلے طوفان کی اطلاع دے کر بندگان خدا کو ڈرایا اور بتایا کہ ان کو دکھایا گیا ہے کہ ایک آسمانی آفت ہے۔ جو زمین کو پانی اور آگ میں لپیٹ رہی ہے ‘انھیں یہ دیکھ کر علوم کی بربادی اور صنعت و حرفت کی تباہی کا خوف ہوا اور اس لیے انھوں نے مصر میں اہرام اور برابی ١ ؎ بنائے اور ان میں تمام صنائع اور نو ایجاد آلات کی تصاویر بنوائیں اور تمام علوم کے حقائق و اوصاف کو منقش کیا تاکہ یہ علوم و صناعات تا ابد باقی رہیں اور فنا کا ہاتھ ان کو گزند نہ پہنچا سکے۔[10]

محاکمہ[ترمیم]

فلاسفہ اور حکمت و فلسفہ کی قدیم کتابوں کی (بعض باتوں سے قطع نظر) اُن یا وہ گوئیوں اور بے سروپا باتوں کا یہ خلاصہ ہے جو حضرت ادریس (علیہ السلام) کے متعلق افسانوی حیثیت میں گھڑا گیا ہے جس کو نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ نقل اس کی تائید میں ہے۔بلکہ تحقیق اور صحیح علم تاریخ کے حقائق ان میں سے اکثر باتوں کی خرافات کو آج اس طرح ظاہر کر رہے ہیں جس کا انکار حقیقت کے انکار کے مرادف ہے مثلاً اہرام و برابی کی تاریخ آج جدید اکتشافات کی بدولت ہمارے سامنے بے نقاب ہے اور اہرام اور ان مقابر کی کھدائی نے علوم و نقوش اور صنائع کی تصویر کے بنانے والوں اور ان کے مختلف زمانوں میں مختلف مدارج کے ترقی دینے والوں کے نام ‘ان کے اجسام اور ان کے زرو جواہر کے خزانوں اور مختلف زمانوں کی تحریروں ‘ اور رسم الخط کی ترکیبوں کو سامنے لاکر روز روشن کی طرح آشکارا کر دیا ہے ‘کہاں وہ حقیقتیں اور کہاں یہ دور از کار باتیں ‘ آج مینا ‘ خوفو ‘منقرع اور طوطامن خامن وغیرہ بادشاہوں کے حالات سے کون آشنا نہیں ہے۔
تاہم ان بے سروپا باتوں کو بھی نقل کردینا اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ یہ آگاہی رہے کہ ان پیغمبروں کے متعلق حکماء کی کتابوں میں بھی کس قسم کی دور از کار باتیں درج ہیں۔ اس سلسلہ میں بس اسی قدر سچ اور حق ہے جس کو ہم قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ سے نقل کر آئے ہیں یا توقف کے درجہ میں وہ چند جملے جو تورات سے نقل کیے گئے ہیں ‘ یا وہ اقوال جو پیغمبرانہ تعلیمات کے شایان شان ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انجیلِ لوقا 38-3:37
  2. القرآن، سورہ الانبیاء آیت 85
  3. القرآن، سورہ مریم آیت 56-57
  4. (مریم : ١٩/٥٦‘ ٥٧)
  5. (انبیا : ٢١/٨٥)
  6. (مریم : ١٩/٥٧)
  7. (آل عمران : ٣/٩٥)
  8. (پیدائش ‘ باب ٥‘ آیات ٢١۔ ٢٤)
  9. (تاریخ الحکماء ج ١)
  10. (تاریخ الحکماء جلد ١)