شمیم آرا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شمیم آرا

معلومات شخصیت
پیدائش 22 مارچ 1938ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
علی گڑھ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 اگست 2016ء (78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لندن  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فلمی ہدایت کارہ،  ادکارہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شمیم آرا پاکستانی اداکارہ، فلمی ہدایت کار، فلم پروڈیوسر تھیں۔ وہ 1950ء کی دہائی سے 1970ء کی دہائی تک پاکستان کی مقبول عام اور صفِ اول کی اداکارہ تھیں۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

شمیم آرا 22 مارچ 1938ء کو علی گڑھ موجودہ بھارت میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا پیدائشی نام پتلی بائی تھا مگر فلمی دنیا میں وہ شمیم آرا کے نام سے مشہور ہوئیں۔

فلمی دور[ترمیم]

1956ء میں شمیم آرا جب اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کو آئیں تو یہاں ایک فلمی ہدایت کار نجم نقوی نے انھیں ایک آئندہ فلم کے لیے کاسٹ کر لیا۔ نجم نقوی اپنی فلم کنواری بیوہ کے لیے کسی نئے چہرے کی تلاش میں تھے اور وہ شمیم آرا کی خوبصورت نرم آواز، معصومانہ انداز سے بہت متاثر ہوئے اور انھیں اپنی فلم کنواری بیوہ کے لیے کاسٹ کر لیا جو 1956ء میں ریلیز ہوئی۔ وہ شمیم آرا کی پہلی فلم تھی۔ فلمی دنیا میں شمیم آرا کو متعارف کروانے والے نجم نقوی ہی تھے۔ نجم نقوی نے انھیں شمیم آرا کے فلمی نام سے متعارف کروایا تھا۔ بدقسمتی سے یہ فلم پردے پر ناکام ثابت ہوئی۔ مگر کنواری بیوہ نے اپنے ناظرین کے دلوں میں کچھ زیادہ اثر تو نہ چھوڑا مگر شمیم آرا کی معصومانہ اندازِ بیاں اور خوبصورتی نے ناظرین و شائقین کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی۔ اِس طرح پاکستانی فلمی دنیا میں ایک نئی اداکارہ کی جھلک ساٹھ کی دہائی ختم ہونے سے قبل ہی دکھائی دینے لگی تھی۔1958ء میں نور جہاں (گلوکارہ) کی ایک فلم انارکلی میں شمیم آرا نے مختصر سی اداکاری کی۔ اِس فلم میں وہ انارکلی کی چھوٹی بہن ثریا کے رول میں منظرعام پر آئیں۔ 1958ء سے 1960ء تک شمیم آرا نے متعدد فلموں میں اداکاری کی مگر وہ نمایاں ستارہ بن کر جگمگانے میں کامیاب نہ ہو رہی تھیں کہ 1960ء میں اُن کی فلم سہیلی (فلم) نے انھیں فلمی دنیا پر چمکنے کا قیمتی موقع فراہم کر دیا۔ سہیلی کی کامیاب نمائش پر وہ صفِ اول کی اداکاراوں میں شمار ہونے لگی تھیں۔ 1962ء میں اُن کی فلم قیدی کی نمائش ہوئی جس میں فیض احمد فیض کی غزل مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ شمیم آرا پر فلمائی گئی اور یہ فلم 1962ء میں کامیاب ترین فلم تھی۔ 1962ء میں شمیم آرا کی کئی کامیاب فلموں کی نمائش ہوئی جو یہ ہیں: آنچل، محبوب، میرا کیا قصور، قیدی، اِنقلاب ۔1963ء میں بھی وہ پاکستانی فلمی دنیا کی کامیاب ترین فلمیں دینے والی صفِ اول کی اداکارہ تھیں، 1963ء کی مشہور فلمیں یہ تھیں: دلہن، اِک تیرا سہارا، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیماء، ٹانگے والا۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں اُن کی پہلی رنگین فلم سنگم کی نمائش 23 اپریل 1964ء کو ہوئی۔ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں 29 اکتوبر 1965ء کو شمیم آرا کی مقبولِ عام رنگین فلم نائیلہ کی نمائش ہوئی جس سے ناظرین شمیم آرا کی خوبصورتی سے واقف ہوئے اور اُن کی اداکاری کے چرچے عام ہو گئے۔1960ء کی دہائی کی وہ صفِ اول کی اداکارہ تھیں۔ 1970ء کی دہائی میں وہ فلمی کیرئیر سے پیچھے ہٹتی گئیں اور بطور فلمی ہدایت کارہ اور فلم پروڈیوسر کئی فلمیں بنائیں۔

بحیثیت فلم پروڈیوسر[ترمیم]

بحیثیت فلم پروڈیوسر شمیم آرا کی پہلی فلم صاعقہ تھی جو 1968ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ یہ فلم رضیہ بٹ کے ناول صاعقہ پر بنائی گئی تھی۔ یہ فلم ادبی حلقوں اور عوامی حلقوں میں متاثر کن حد تک کامیاب ہوئی۔

بحیثیت فلمی ہدایت کار[ترمیم]

بحیثیتِ فلمی ہدایت کار 1976ء میں شمیم آرا کی پہلی فلم جیو اور جینے دو تھی۔ 1978ء میں ایک اور فلم پلے بوائے کے نام سے پیش کی۔ 1979ء میں مس ہانگ کانگ نامی فلم پیش کی۔ 1984ء میں مس کولمبو کی نمائش ہوئی۔ 1985ء میں مس سنگاہور کی نمائش ہوئی۔ 1987ء میں لیڈی اسمگلر کی نمائش ہوئی۔ 1989ء میں لیڈی کمانڈو، 1993ء میں ہاتھی میرا ساتھی، 1994ء میں آخری مجرا، 1995ء میں منڈا بگڑا جائے، 1996ء میں ہم تو چلے سرال، 1996ء میں مس استنبول، 1996ء میں لو 95، 1997ء میں ہم کسی سے کم نہیں، جیسی فلموں کی ہدایت کاری کی۔ 1995ء میں منڈا بگڑا جائے کامیاب ترین فلم تھی۔ بحیثیت فلمی ہدایت کار، پل دو پل اُن کی آخری فلم تھی جس کی نمائش 1999ء میں ہوئی۔

علالت اور وفات[ترمیم]

2004ء میں شمیم آرا اپنے بیٹے کے ہمراہ لندن مقیم ہوگئیں۔ اِس دوران میں وہ پاکستان دو بار آئیں۔ 2011ء کے ابتدائی دنوں میں جب وہ لاہور میں مقیم تھیں۔ اِنہی دنوں جنوری 2011ء میں انھیں دماغی شریان پھٹ جانے کے باعث ہسپتال داخل کروایا گیا جہاں اکتوبر 2011ء میں اُن کے دماغ کا آپریشن کیا گیا مگر وہ ہوش میں آنے کی بجائے کوما میں چلی گئیں۔دسمبر 2011ء میں علاج کے لیے انھیں اُن کا بیٹا سلمان کریم مجید لندن لے گیا جہاں وہ تقریباً 6 سال علالت میں مبتلا رہنے کے بعد بروز جمعہ 5 اگست 2016ء کو 78 سال 4 ماہ 14 دِن کی عمر میں لندن، برطانیہ میں فوت ہوگئیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے شمیم آرا کی وفات کی خبر صبح 11 بج کر 40 منٹ پر ٹیلی ویژن سے نشر کی۔ بروز ہفتہ 6 اگست 2016ء کو نمازِ جنازہ بوقتِ ظہر اداء کی گئی اور تدفین لندن، برطانیہ میں کی گئی۔ شمیم آرا نے وارثوں میں ایک بیٹا، بہو اور دو پوتے پوتیاں چھوڑے ہیں۔

فلمیں[ترمیم]

  • 1956ء: کنواری بیوہ، مس56۔
  • 1958ء: انارکلی، واہ رے زمانے۔
  • 1959ء، عالم آراء، اپنا پرایا، فیصلہ، سویرا، مظلوم، راز، جائداد (پہلی پنجابی فلم)۔
  • 1960ء: بھابھی، دو اُستاد، عزت، رات کے راہی، روپ متی باز بہادر، سہیلی۔
  • 1961ء: انسان بدلتا ہے، زمانہ کیا کہے گا؟، زمین کے چاند۔
  • 1962ء: آنچل، محبوب، میرا کیا قصور؟، قیدی، اِنقلاب۔
  • 1963ء: دلہن، اِک تیرا سایہ، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیماء، ٹانگے والا۔
  • 1964ء: باپ کا باپ، چنگاری، فرنگی، حویلی، مے خانہ، پیار کی سزا، تنہا۔
  • 1965ء: دیوداس، دل کے ٹکڑے، فیشن، نائیلہ (شمیم آرا کی پہلی رنگین فلم)۔
  • 1966ء: آگ کا دریاء، جلوہ، مجبور، میرے محبوب، پردہ، قبیلہ۔
  • 1967ء: دو راہا (نمائش: 25 اگست 1967ء)، ہم راز، لاکھوں میں ایک۔
  • 1968ء: صاعقہ بطور فلم پروڈیوسر۔
  • 1968ء: دل میرا دھڑکن تیری۔
  • 1969ء: آنچ، دلِ بے تاب، سالگرہ۔
  • 1970ء: آنسو بن گئے موتی، بے وفاء، مشر کماری (پہلی بنگالی فلم)۔
  • 1971ء: پرائی آگ، سہاگ، وحشی، خاک اور خون۔
  • 1972ء: انگارے۔
  • 1973ء: خواب اور زندگی۔
  • 1974ء: بھول (بطور فلم پروڈیوسر)۔
  • 1978ء: پلے بوائے (بطور فلم پروڈیوسر اور ہدایت کارہ)۔
  • 1981ء: میرے اپنے (بطور اداکارہ و ہدایت کارہ)۔
  • 1989ء: تیس مار خان (دوسری اور آخری پنجابی فلم)۔
  • 1999ء: پل دو پل۔ (آخری فلم بطور ہدایت کارہ)۔

نگار ایوارڈز[ترمیم]

بحیثیتِ اداکارہ شمیم آرا چار نگار ایوارڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]