ایفرودیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایفرودیت
Goddess of love, beauty and sexuality
Aphrodite Pudica (Roman copy of 2nd century AD), National Archaeological Museum, Athens
ذاتی معلومات
والدینIn the ایلیڈ: زیوس و Dione
In Theogony: یورینس (علم الاساطیر)'s severed genitals
بہن بھائیAeacus، Angelos، اپالو، Ares، آرتمیس، ایتھنے، دیانوسس، Eileithyia، اینیو، Eris، Ersa، Hebe، ہیلن آف ٹرائے، Hephaestus، Heracles، Hermes، Minos، Pandia، Persephone، Perseus، Rhadamanthus, the Graces, the Horae, the Litae, the Muses, the Moirai, or the تیتان, the سکلوپ, the Meliae, the Erinyes (Furies), the Giants, the ہکاتونکائر
مساوی
رومی مساویوینس (خرافات)
Mesopotamian مساویInanna/Ishtar
Canaanite مساویعشتروت

افرودیتی (Aphrodite) یونانی دیومالا میں حسن اور محبت کی دیوی جس کو وینس یا زہرہ بھی کہا جاتا ہے، ایک سیپ سے پیدا ہوئی۔ جو دیوتاؤں اور آدمیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ افرودیتی عشق و محبت، حسن، زرخیزی، عشق شہوانی، جنسی فعل، نسلی تسلسل، تولید و تناسل، عیش و عشرت اور جسنی سرمستی و سرخوشی کی دیوی تھی۔ مقدر کی دیویوں می ری نے افرودیتی کو صرف ایک ہی آسمانی فریضے کی ادائیگی کرانے کا پابند کیا تھا اوروہ فرض تھا کہ وہ لوگوں میں جنسی ملاپ کریا کرے۔ وہ دیوی دیوتاؤں، پریوں اور انسانوں میں جنسی جذبات بھڑکا دیتی حتی کی عظیم زوس تک کو فانی عورتوں کے ساتھ بھی جسمانی طور پر ملوث کر ڈالتی۔

علم اشتقاق[ترمیم]

محقق ہیسیوڈ نے ایفرودیت کا نام افروس سے اخذ کیا جس کے معنی "سمندر کی جھاگ" [1] ہیں، جس سے نام کا مفہوم "جھاگ سے ابھری ہوئی" پیش کیا [1] 5وو مگر زیادہ تر جدید محققین اسے ایک مضحکہ خیز لوک روایت علم صرف سے تعبیر کرتے ہیں۔ [1] [2]۔ کلاسیکی دیومالائی داستانوں کے جدید محققین کا ایک گروہ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ افرودیت کا نام یونانی یا انڈو یورپی مادے سے نکلا ہے مگر اب ان تمام کوششوں کو ترک کر دیا گیا ہے۔ [2] ایفرودیت کے نام کو عمومی طور پر غیریونانی مانا جاتا ہے، اغلباََ عبرانی مادے سے مگر اس کا حقیقی ماخذ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ [3]

پیدائش[ترمیم]

افرودیتی کی چٹان

عام روایات کے مطابق افرودیتی قبرص کے جزیرے پر عبادت کے اعلی مرکز پافوس کے قریب پیدا ہوئی۔ افرودیتی کی چٹان کو افرودیتی کا جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔

شرق نزدیک میں محبت کی دیوی[ترمیم]

یونان میں ایفرودیت کے پرستاروں کا ٹولہ فینیسیہ میں عشتروت کے پجاریوں کے زیر اثر قائم ہوا تھا یا ان سے کم از کم متاثر ہوا تھا [4] [5] [6] [7]۔ اسی طرح عشتروت کے پجاری ، میسوپوٹیمیا دیوی کے فرقے سے متاثر تھے جو مشرقی سامی عوام کے لیے "عشتر" اور سمیری کے ہاں "اینانا" کے طور پر مشہور ہے۔ [6] [7] [8] پاسانیاس کے مطابق ایفرودیت کے پجاریوں کا گروہ قائم کرنے والے سب سے پہلے آشوری تھے ، اس کے بعد قبرص کے پاپیوں اور پھر اسکالون میں فینیشی تھے۔ فینیشیوں نے سائتھیرا کے لوگوں کو اس کی عبادت کا درس دیا۔ [9]

زرخیزی کی دیوی[ترمیم]

وہ صرف جنسی محبت ہی نہیں بلکہ ان تمام کیفیات اور جذبوں کی معبودہ تھی جن کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے ساتھ سماجی رشتوں، رابطوں اور تعلقات میں بندھے ہوتے ہیں۔ غرض وہ انتہائی پاکیزہ، مہذب و شائستہ، مثالی محبت اور کردار کی پاکیزگی کی معبودہ تھی اور دوسری طرف انتہائی یعنی پرشہوت اور جسنی محبت کی دیوی تھی۔ ابتدا میں افرودیتی زرخیزی، شادابی، نباتات، حیوانوں، انسانوں اور پوری فطرت کی دیوی تھی، اس طرح اس کی عملداری میں ساری نباتاتی، حیوانی اور انسانی زندگی آتی تھی۔ بعد کے زمانے میں وہ لطیف محبت جنسی لگاؤ اور حسن و جمال کی دیوی قرار پائی۔ لیکن اس وقت بھی اسے زرخیزی کی دیوی بدستور سمجھا جاتا تھا۔ اسے مشرق یعنی ایشیا مشرق وسطیٰ سے یونان لایا گیا تھا۔ چنانچہ اس میں بیشتر مشرقی اثرات موجود تھے۔

شادی[ترمیم]

ایفرودیت کو بار بار ایک شادی کے قابل، انتہائی مطلوبہ بالغہ کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے ، جس کا کوئی بچپن نہیں تھا۔ [10] اسے اکثر عریاں حالت میں دکھایا جاتا ہے۔ [11] الیاڈ میں ، افرودیت بظاہر جنگ کے دیوتا ، اریس کی غیر شادی شدہ ساتھی ہے [12] اور ہیفاسٹس کی بیوی چاریس ایک مختلف دیوی ہے [13]۔ کچھ دیگر کتابوں میں بھی ایفرودیت کو غیر شادی شدہ بتایا گیا ہے تاہم اوڈیسی کی کتاب آٹھ [14] میں نابینا گلوکار ڈیموڈوکس نے ایفریودیت کو ہیفیسٹس کی بیوی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اس نے ٹروجن جنگ کے دوران ایرس کے ساتھ زنا کیا۔ [15]

ہم رکاب اور ساتھ[ترمیم]

ایفرودیت تقریبا ہمیشہ ہی ہوس اور جنسی خواہش کے دیوتا ایروز کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ [16] شروع میں ایروز اکیلا تھا مگر ایفرودیت کی پیدائش کے بعد ، وہ ہیمروز کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے، یوں وہ دونوں افرودیت کے مستقل ساتھی بن جاتے ہیں۔ [17]

خصوصیات[ترمیم]

وہ اولین کنواری دیوی کا ایک روپ تھی۔ افرودیتی کائنات کا اولین بنیادی اصول تھی، اس کی فطرت کے کئی پہلو تھے۔ اسے سمندری جانوروں، باغوں اور موت کی معبودہ بھی سمجھا گیا۔ وہ مسکراہٹوں اور قہقہوں کی دیوی تھی، ملکہ خنداں تھی، مجسم عشق و محبت تھی۔ رعنائیوں اور عیش کوشیوں کی خاتون تھی۔ افرودیتی شادی کی مھاظف اور ناصر و حامی تھی۔ ان بیاہی لڑکیاں اور بیوائیں اس سے دعا مانگا کرتییں کہ انھیں شوہر نصیب ہوں۔ یتیم بچوں خصوصاً یتیم لڑکیوں کا بہت خیال رکھتی تھی۔ انھیں پالنے پوسنے اور ان کی شادی کا بندوبست کرتی تھی۔

وہ طوائفوں کی مربی اور سرپرست تھی۔ مقدس شہر کورنتھ Corinth میں غیر اخلاقی رسوم کی ادائیگی افرودیتی کی پرستش کا حصہ تھی۔ عراق وغیرہ میں عشتار دیوی کے مندروں کی طرح یونانی شہر کورنتھ میں بھی افرودیتی کے مندر میں مقدس طوائفیں رہتی تھیں تاہم یونانی مندروں میں افرودیتی کے مسلک سے وابستہ غیر اخلاقی رسموں میں جلد ہی تبدیلیاں لائی گئیں۔ ایتھنز شہر میں وہ افرودیتی پنڈی موس کے نام سے پوجی جاتی تھی۔ وہاں اس کی حیثیت ایک باوقار شادی شدہ دیوی کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایتھنز میں اس کی پوجا کے دوران کوئی قابل اعتراض حرکت یا رسم روا نہیں رکھی جاتی تھی۔ افرودیتی جنگجو دیوی بھی تھی اس حیثیت سے وہ سپارٹا میں پوجی جاتی تھی ،ظاہر ہے یونانیوں اور یونانی دیوی افرودیتی پر عراق کی قدیم بابلی عشتار دیوی کا اثر تھا۔ عشتار عشق و محبت، زرخیزی وغیرہ کے علاوہ جنگ کی دیوی بھی تھی۔ زوس دیوتا کے حکم سے جب ہفس ٹس دیوتا نے دنیا کی پہلی عورت پنڈورا Pandora کا گیلی مٹی سے پتلا تیار کیا تو افرودیتی نے پنڈورا کو جمال اور دلآویزی کے ساتھ ساتھ خوش و شاد کام کرنے کا فن بھی عطا کیا۔

حسن و جمال[ترمیم]

افرودیتی حسن کامل کا اکمل ترین نمونہ تھی۔ خوبصورتی میں دیویوں، پریوں اور فانی عورتوں میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ سر کے نورافشاں بانوں سے لے کر سیمیں پاؤں تک اس کا پورا بدن بے داغ تناسب و موزنیت اور دلآویزی کا بے مثال شاہکار تھا۔ جسم سنہری تھا۔ ویسے تو یونانیوں کی ہیرا دیوی اور اتھینی بھی بے حد حسین تھیں مگر ہیرا کی دلکشی میں تمکنت اور رکھ رکھاؤ بہت تھا جس کی وجہ سے دیکھنے والے اس کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ اتھینی کی رعنائی میں متانت، پرجلال وقار اور مردانہ قسم کا روکھا پن تھا نچانہ اس کی آرزو کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ مگر افرودیتی کے بدن میں بلا کی کشش، دلربائی، خدوخال میں پاکیزگی اور لطافت تھی۔ اس کی ادائیں اور دلنشین آن اس پر مستزاد تھی۔ اسے دیکھنے والے مسحور ہوجاتے تھے۔ اس کے سہانے مکھڑے پر ہمیشہ موہنی اور نظرنواز مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ جو لوگ اس کے دلنوار تبسم میں آجاتے اور دل و جان وارنے لگتے وہ کبھی تو انھیں دیکھ کر شریں انداز میں متبسم ہوجاتی اور کبھی ان کا ٹھٹھا اڑانے لگتی۔ اس کے جلوے دیکھ کر تو داناؤں کی عقل بھی جواب دے جاتی۔

وہ جھلملاتے، جگمگاتے ہیروں جڑی ارغوانی پوشاک پہنتی۔ ہومر نے اسے خوبصورت تاج والی افرودیتی کہا ہے۔ گلاب کا تاج پہنتی تھی۔ صرف گلاب کے ہار پہننے اور جذبات انگیز خوشبوؤں میں بسے رہنے کی شوقین تھی۔ گلاب اپنی لالی کے لیے افرودیتی کا ہی شرمندہ احسان ہے۔ ایک بار وہ سخت گھبرائی ہوئی اپنے زخمی محبوب اڈونیس کے پاس لپکی جا رہی تھی وہ اس وقت نزاع کے عالم میں تھا اسی عجلت اور اضطراب میں افرودیتی کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا۔ نازک پاؤں سے خون ٹپکا اور گلاب کے پھول پر جاگرا بس اسی وقت سے گلاب کارنگ ہمیشہ کے لیے سرخ ہو گیا۔ پہلے وہ صرف سفید تھا۔

افرودیتی کا چلنا بھی کس شان کا چلنا تھا، چلتی تو تجلیوں میں لپٹی دکھائی دیتی جیسے نور میں نہا کر آئی ہے جہاں قدم دھرتی سبز گھاس پھوٹ آتی، خوبصورت پھول کھل اٹھتے، سمندر میں موجیں شاد کام ہو جاتیں سب خرام اور مست ہوائیں آگے آگے ہو لیتیں۔ بادل ساتھ ساتھ رواں رہتے ۔

کمر بند[ترمیم]

افرودیتی کے پاس ایک طلسمی اور پراسرار ٹپکا (کمربند) تھا۔ اس ٹپکے کو سٹس Sestus کہا گیا۔ یہ کمر بند مختصر کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ ایک دور ایسا آیا کہ جب افرودیتی کے مجسمے بنائے جاتے تو یا تو اسے بالکل عریاں دکھایا جاتا یا پھر ایک انتہائی مختصر لباس پہنے ہوتی۔ یہی مختصر سا کپڑا سٹس تھا۔ اس پر کشیدہ کاری کی ہوتی تھی۔ افرودیتی کے اس کمربند کی خصوصیت اور تاثیر یہ تھی کہ اگر کوئی دیوی یا عورت اسے پہن لیتی تو ہر کوئی محبت کرنے لگتا۔ یہ ٹپکا ہیجان خیز محبت پیدا کرتا تھا۔ اور سر د پڑ جانے والے پرجوش جذبات دوبارہ بھڑکا دیتا تھا۔ پہنے والے کے حسن و دلربائی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا۔ انتہائی بدصورت شکل کو بھی رعنائی، خوبصورتی اور شان عطا کر دیتا۔ پہننے والا اتنا پرکشش اور حسین ہو جاتا کہ اس کی تاب لانا ممکن نہیں تھا۔ وہ اپنا نادر کمر بند مشکل ہی سے کسی دیوی کو عاریتاً دیتی تھی کیوں کہ وہ مارے حسد کے یہ تصور تک نہیں کرنا چاہتی تھی کہ کوئی اور دیوی برائے چند سے بھی اس کی جگہ لے لے۔ اس کمر بند کو پہننے سے افرودیتی کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔ اس ٹپکے نے متعدد اساطیر میں اہم کردار ادا کیا۔ زوس دیوتا کی بیگم ہیرا دیوی نے ٹرائے کی جنگ کے دوران افرودیتی سے یہ کمر بند مستعار لے لیا۔ ہیرا اس کے تاثیر سے اپنے شوہر زوس کو مسحور کرنا چاہتی تھی۔ تاکہ زوس ٹرائے والوں کی حمایت ترک کر دے اور یونانیوں کو فتح حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔

رتھ[ترمیم]

اس کا ہاتھی دانت کارتھ سنہری کام سے جگمگاتا رہتا تھا۔ انتہائی نفیس اور دیدہ زیب طلائی کاری کے سبب فنی شاہکار بن گیا تھا۔ افرودیتی کے شوہر ہفس ٹس دیوتا نے بڑی ہی محنت اور لگن کے ساتھ اس پر بے مثال نقش و نگار بنائے تھے اور ہفس ٹس نے یہ نادر اور انمول رتھ افرودیتی کو شادی کے تحفے میں پیش کیا تھا۔ اس رتھ کو قمریاں یا راج ہنس کھینچتے تھے۔ چار سفید قمریوں کی قوس قزح کے رنگوں سے مزین گردنوں پر مرصع جڑاؤ سازوسامان جوت دیا جاتا۔ ان فاختاؤں کی باگیں انتہائی سبک اور نازک طلائی زنجیروں سے بنی تھی۔ افرودیتی رتھ پر سوار ہوتی اور چاروں قمریاں رتھ کھینچنے لگتیں۔ حسن کی معبودہ کے پیچھے بہت سی چھوٹی چھوٹی چڑیاں اور دوسرے ننھنے منے مسرور پرندے محو پرواز رہتے اور حد درجہ میٹھی آواز میں افرودیتی کی آمد کا اعلان کرتے جاتے۔ اس کابیٹا عشق و محبت کا دیوتااروس بھی اس کے ساتھ ہوتا۔

مقدس علامات[ترمیم]

افرودیتی کی مقدس علامتیں یا نشان متعدد تھے۔ مثلاً درختوں اور پودوں میں سیب، انار، سرو، صنوبر حنا اور گلاب اور پرندوں وغیرہ میں فاختہ، قمری، راج ہنس اور گوریا (چڑیا) ڈولفن مچھلی اور سیپ کی قسم کے کیڑے اس سے وابستہ کیے گئے۔

نگار خانہ[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ Cyrino 2010, p. 14.
  2. ^ ا ب West 2000, pp. 134–138.
  3. Beekes 2009, p. 179.
  4. Breitenberger 2007, pp. 8–12.
  5. Cyrino 2012, pp. 49–52.
  6. ^ ا ب Puhvel 1987, p. 27.
  7. ^ ا ب Marcovich 1996, pp. 43–59.
  8. Burkert 1985, pp. 152–153.
  9. Pausanias, Description of Greece, I. XIV.7
  10. Cyrino 2010, pp. 73–78.
  11. Cyrino 2010, pp. 50, 72.
  12. Cyrino 2010, p. 72.
  13. Kerényi 1951, p. 279.
  14. Kerényi 1951, p. 72.
  15. Kerényi 1951, pp. 72–73.
  16. Cyrino 2010, pp. 44–45.
  17. Cyrino 2010, p. 45.